ابن قدامہ
مشہور رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2014
- پیغامات
- 1,772
- ری ایکشن اسکور
- 428
- پوائنٹ
- 198
جن ائمہ کا جرح کرنے میں تشدد، تعنت ہو ان کی تعدیل وتوثیق بہت وزن رکھتی ہے؛ لیکن ان کی جرح زیادہ وزن نہیں رکھتی ہے؛ سوکسی راوی پر محض ان کی جرح سے فیصلہ ضعف نہ کرلیا جائے، متشدد کی جرح اکیلے کافی نہیں ہوتی، جس راوی پر کسی متشدد کی جرح ہو اس کی جرح کا حال دوسرے ائمہ سے معلوم کرنا چاہیے۔
ناقدین کے پہلے طبقے میں شعبہ (۱۶۰ھ) اور سفیان الثوریؒ (۱۶۱ھ) کو لیجئے، شعبہ گو امیرالمؤمنین فی الحدیث ہیں؛ مگرجرح میں ذراسخت ہیں؛ پھریحییٰ بن سعید القطان (۱۹۸ھ) اور عبدالرحمن بن مہدی (۱۹۸ھ) کو لیجئے، یحییٰ میں سختی اور تشدد ملے گا؛ پھریحییٰ بن معین (۲۳۳ھ) اور امام احمد (۲۴۱ھ) کو لیجئے جو سختی یحییٰ بن معین کرتے ہیں امام احمد نہیں کرتے؛ پھرامام نسائی (۳۰۳ھ) اور ابن حبان (۳۵۴ھ) کو دیکھئے، امام نسائی ذراسخت معلوم ہوں گے ابوحاتم رازی اور امام بخاری (۲۵۶ھ) میں ابوحاتم متشدد دکھائی دیں گے، ائمہ فن اسماء الرجال کی بحث میں راویوں کا حال لکھتے ہیں تو کہیں کہیں متشددین کی سختی کا ذکر بھی کرجاتے ہیں، اس لیے صرف کسی راوی پر جرح کا نام سن کر اسے ناقابل اعتماد نہ سمجھنے لگ جائیں جب تک تحقیق نہ کرلیں کہ جارحین کون کون ہیں اور کتنے ہیں، اسبابِ جرح واضح ہیں یا نہیں اور یہ کہ کہیں کوئی متشدد جارح تونہیں، ائمہ رجال کتبِ رجال میں کئی جگہ اس تشدد کا ذکر کرجاتے ہیں۔
امام نسائی (۳۰۳ھ) نے حارث اعور سے استناد کیا، جسے بعض ائمہ ضعیف کہہ چکے تھے توامام نسائی کے اس احتجاج کومحض اس لیئے اہمیت دی گئی کہ آپ جرح میں سخت واقع ہوئے تھے؛ سواس روش کے محدثین جس سے روایت لیں اس کا کسی درجے میں اعتبار ضرور ہونا چاہئے، حافظ ابنِ حجر عسقلانی حارث اعور کے بارے میں لکھتے ہیں:
"والنسائی مع تعنتہ فی الرجال فقد احتج بہ"۔
(تہذیب التہذیب:۲/۱۴۷)
ترجمہ:امام نسائی نے رجال میں اپنی سختی کے باوجود اس راوی سے احتجاج کیا ہے،اس کی روایت قبول کی ہے۔
حافظ عسقلانی اپنے رسالہ بذل الماعون فی فضل الطاعون میں بھی ایک راوی کے بارے میں جسے امام نسائی اور ابوحاتم نے ثقہ کہا تھا اور کئی دوسروں نے ضعیف کہا، لکھتے ہیں:
"توثیق النسائی وابی حاتم مع تشددھما"۔
امام نسائی اور ابوحاتم کی توثیق ان دونوں کے متشدد ہونے کی وجہ سے
ابوحاتم کے متشدد ہونے کا آپ نے مقدمہ فتح الباری میں بھی ذکر کیا ہے۔
(مقدمہ فتح الباری:۲/۱۶۲)
ابوحاتم نے توامام بخاریؒ پر بھی جرح کردی ہے۔
ابنِ حبان کے تشدد فی الرجال کا ذکر بھی سنیئے، حافظ ابنِ حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ وہ ثقہ راویوں پر بھی جرح کرجاتے ہیں اور نہیں دیکھتے کہ کیا کہہ رہے ہیں؛ سواگرجرح کا لفظ دیکھتے ہی راوی سے جان چھڑالی جائے توپھرآخرکون بچے گا؟ حافظ عسقلانی لکھتے ہیں: "ابن حبان ربما جرح الثقۃ حتی کانہ لایدری مایخرج من رأسہ"۔
(القول المسدد فی الذب عن مسنداحمد:۳۳۔ افرط ابن حبان ، مقدمہ فتح الباری:۲/۱۲۹)
ترجمہ:ابنِ حبان کئی دفعہ ثقہ راویوں پر بھی جرح کرجاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ ان کا ذہن کدھر جارہا ہے۔
حافظ ذہبیؒ بھی ابنِ حبان کے بارے میں کہتے ہیں "مااسرف واجترأ"(میزان الاعتدال:۱/۴۳۶) ابن حبان نے بہت زیادتی کی ہے اور بڑی جسارت کی ہے کہ ثقہ راویوں کوبھی ضعیف کہہ دیا، ایک اور جگہ پر کہتے ہیں "تقعقع کعادتہ"
(میزان الاعتدال:۲/۱۸۵)۔
شعبہ امیرالمؤمنین فی الحدیث مانے جاتے ہیں؛ لیکن قبولِ روایت میں اُن کی سختی دیکھئے، آپ سے پوچھا گیا کہ تم فلاں راوی کی روایت کیوں نہیں لیتے؟ آپ نے کہا "رأیتہ یرکض علی برذون" میں نے اسے ترکی گھوڑے دوڑاتے ہوئے دیکھا تھا۔
آپ منہال بن عمرو کے ہاں گئے، وہاں سے کوئی ساز کی آواز سنی، وہیں سے واپس آگئے اور صورتِ واقعہ کی کوئی تفصیل نہ پوچھی۔
حکم بن عتیبہ سے پوچھا گیا کہ تم زاذان سے روایت کیوں نہیں لیتے؟ توانہوں نے کہا "کان کثیرالکلام" وہ باتیں بہت کرتے تھے۔
حافظ جریر بن عبدالحمید الضبی الکوفی نے سماک بن حرب کوکھڑے ہوکر پیشاب کرتے دیکھا تواس سے روایت چھوڑ دی۔
(دیکھئے، الکفایہ فی علوم الروایہ، للخطیب البغدادی:۱۰۔ لغایت:۱۱۴)
اب سوچئے اور غور کیجئے کیا یہ وجوہ جرح ہیں؟ جن کے باعث اتنے بڑے بڑے اماموں نے ان راویوں کوچھوڑ دیا؛ اگراس قسم کی جروح سے راوی چھوڑے جاسکتے ہیں؛ توپھر آخربچے گا کون؟ یہ سختی سب کے ہاں نہ تھی، اس لیے محض جرح دیکھ کر ہی نہ اچھل پڑیں، سمجھنے کی کوشش کریں کہ جرح کی وجہ کوئی شرعی پہلو ہے یاصرف شدت احتیاط ہےاور پھریادر کھیں کہ متشدد کی جرح اکیلے کافی نہیں ہے۔
یہ مختصرقواعدِ حدیث ہروقت ذہن میں رہنے چاہئیں، انسانی بساط اور عام بشری سوچ کے تحت جواحتیاطی تدابیر ہوسکتی تھیں وہ محدثین کرام نے طے کیں اور یہ اصول بھی تقریباً استقرائی ہیں جوائمہ فن نے قواعدِ شریعت کی روشنی میں طے کیئے ہیں، ان میں کئی پہلو اختلافی بھی ہیں، جن میں ائمہ کی رائے مختلف رہی ہے؛ لیکن یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ تنقید کے بنیادی اصولوں میں سب ائمہ فن متفق رہے ہیں؛ بلکہ بجاطور پر کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں نے تحقیق روایات اور تنقیح اسناد میں دنیا کو ایک نئے علم سے آشنا کیا اور وہ اصول بتائے جن کی روشنی میں پچھلے پہلووں کی باتوں کے جائز طور پر وارث ہوسکیں اور اُن کی صحت پر پوری طرح سے اعتماد کیا جاسکے۔
http://anwar-e-islam.org/node/365?view=normal#.Vg-87_KaKXU
ناقدین کے پہلے طبقے میں شعبہ (۱۶۰ھ) اور سفیان الثوریؒ (۱۶۱ھ) کو لیجئے، شعبہ گو امیرالمؤمنین فی الحدیث ہیں؛ مگرجرح میں ذراسخت ہیں؛ پھریحییٰ بن سعید القطان (۱۹۸ھ) اور عبدالرحمن بن مہدی (۱۹۸ھ) کو لیجئے، یحییٰ میں سختی اور تشدد ملے گا؛ پھریحییٰ بن معین (۲۳۳ھ) اور امام احمد (۲۴۱ھ) کو لیجئے جو سختی یحییٰ بن معین کرتے ہیں امام احمد نہیں کرتے؛ پھرامام نسائی (۳۰۳ھ) اور ابن حبان (۳۵۴ھ) کو دیکھئے، امام نسائی ذراسخت معلوم ہوں گے ابوحاتم رازی اور امام بخاری (۲۵۶ھ) میں ابوحاتم متشدد دکھائی دیں گے، ائمہ فن اسماء الرجال کی بحث میں راویوں کا حال لکھتے ہیں تو کہیں کہیں متشددین کی سختی کا ذکر بھی کرجاتے ہیں، اس لیے صرف کسی راوی پر جرح کا نام سن کر اسے ناقابل اعتماد نہ سمجھنے لگ جائیں جب تک تحقیق نہ کرلیں کہ جارحین کون کون ہیں اور کتنے ہیں، اسبابِ جرح واضح ہیں یا نہیں اور یہ کہ کہیں کوئی متشدد جارح تونہیں، ائمہ رجال کتبِ رجال میں کئی جگہ اس تشدد کا ذکر کرجاتے ہیں۔
امام نسائی (۳۰۳ھ) نے حارث اعور سے استناد کیا، جسے بعض ائمہ ضعیف کہہ چکے تھے توامام نسائی کے اس احتجاج کومحض اس لیئے اہمیت دی گئی کہ آپ جرح میں سخت واقع ہوئے تھے؛ سواس روش کے محدثین جس سے روایت لیں اس کا کسی درجے میں اعتبار ضرور ہونا چاہئے، حافظ ابنِ حجر عسقلانی حارث اعور کے بارے میں لکھتے ہیں:
"والنسائی مع تعنتہ فی الرجال فقد احتج بہ"۔
(تہذیب التہذیب:۲/۱۴۷)
ترجمہ:امام نسائی نے رجال میں اپنی سختی کے باوجود اس راوی سے احتجاج کیا ہے،اس کی روایت قبول کی ہے۔
حافظ عسقلانی اپنے رسالہ بذل الماعون فی فضل الطاعون میں بھی ایک راوی کے بارے میں جسے امام نسائی اور ابوحاتم نے ثقہ کہا تھا اور کئی دوسروں نے ضعیف کہا، لکھتے ہیں:
"توثیق النسائی وابی حاتم مع تشددھما"۔
امام نسائی اور ابوحاتم کی توثیق ان دونوں کے متشدد ہونے کی وجہ سے
ابوحاتم کے متشدد ہونے کا آپ نے مقدمہ فتح الباری میں بھی ذکر کیا ہے۔
(مقدمہ فتح الباری:۲/۱۶۲)
ابوحاتم نے توامام بخاریؒ پر بھی جرح کردی ہے۔
ابنِ حبان کے تشدد فی الرجال کا ذکر بھی سنیئے، حافظ ابنِ حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ وہ ثقہ راویوں پر بھی جرح کرجاتے ہیں اور نہیں دیکھتے کہ کیا کہہ رہے ہیں؛ سواگرجرح کا لفظ دیکھتے ہی راوی سے جان چھڑالی جائے توپھرآخرکون بچے گا؟ حافظ عسقلانی لکھتے ہیں: "ابن حبان ربما جرح الثقۃ حتی کانہ لایدری مایخرج من رأسہ"۔
(القول المسدد فی الذب عن مسنداحمد:۳۳۔ افرط ابن حبان ، مقدمہ فتح الباری:۲/۱۲۹)
ترجمہ:ابنِ حبان کئی دفعہ ثقہ راویوں پر بھی جرح کرجاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ ان کا ذہن کدھر جارہا ہے۔
حافظ ذہبیؒ بھی ابنِ حبان کے بارے میں کہتے ہیں "مااسرف واجترأ"(میزان الاعتدال:۱/۴۳۶) ابن حبان نے بہت زیادتی کی ہے اور بڑی جسارت کی ہے کہ ثقہ راویوں کوبھی ضعیف کہہ دیا، ایک اور جگہ پر کہتے ہیں "تقعقع کعادتہ"
(میزان الاعتدال:۲/۱۸۵)۔
شعبہ امیرالمؤمنین فی الحدیث مانے جاتے ہیں؛ لیکن قبولِ روایت میں اُن کی سختی دیکھئے، آپ سے پوچھا گیا کہ تم فلاں راوی کی روایت کیوں نہیں لیتے؟ آپ نے کہا "رأیتہ یرکض علی برذون" میں نے اسے ترکی گھوڑے دوڑاتے ہوئے دیکھا تھا۔
آپ منہال بن عمرو کے ہاں گئے، وہاں سے کوئی ساز کی آواز سنی، وہیں سے واپس آگئے اور صورتِ واقعہ کی کوئی تفصیل نہ پوچھی۔
حکم بن عتیبہ سے پوچھا گیا کہ تم زاذان سے روایت کیوں نہیں لیتے؟ توانہوں نے کہا "کان کثیرالکلام" وہ باتیں بہت کرتے تھے۔
حافظ جریر بن عبدالحمید الضبی الکوفی نے سماک بن حرب کوکھڑے ہوکر پیشاب کرتے دیکھا تواس سے روایت چھوڑ دی۔
(دیکھئے، الکفایہ فی علوم الروایہ، للخطیب البغدادی:۱۰۔ لغایت:۱۱۴)
اب سوچئے اور غور کیجئے کیا یہ وجوہ جرح ہیں؟ جن کے باعث اتنے بڑے بڑے اماموں نے ان راویوں کوچھوڑ دیا؛ اگراس قسم کی جروح سے راوی چھوڑے جاسکتے ہیں؛ توپھر آخربچے گا کون؟ یہ سختی سب کے ہاں نہ تھی، اس لیے محض جرح دیکھ کر ہی نہ اچھل پڑیں، سمجھنے کی کوشش کریں کہ جرح کی وجہ کوئی شرعی پہلو ہے یاصرف شدت احتیاط ہےاور پھریادر کھیں کہ متشدد کی جرح اکیلے کافی نہیں ہے۔
یہ مختصرقواعدِ حدیث ہروقت ذہن میں رہنے چاہئیں، انسانی بساط اور عام بشری سوچ کے تحت جواحتیاطی تدابیر ہوسکتی تھیں وہ محدثین کرام نے طے کیں اور یہ اصول بھی تقریباً استقرائی ہیں جوائمہ فن نے قواعدِ شریعت کی روشنی میں طے کیئے ہیں، ان میں کئی پہلو اختلافی بھی ہیں، جن میں ائمہ کی رائے مختلف رہی ہے؛ لیکن یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ تنقید کے بنیادی اصولوں میں سب ائمہ فن متفق رہے ہیں؛ بلکہ بجاطور پر کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں نے تحقیق روایات اور تنقیح اسناد میں دنیا کو ایک نئے علم سے آشنا کیا اور وہ اصول بتائے جن کی روشنی میں پچھلے پہلووں کی باتوں کے جائز طور پر وارث ہوسکیں اور اُن کی صحت پر پوری طرح سے اعتماد کیا جاسکے۔
http://anwar-e-islam.org/node/365?view=normal#.Vg-87_KaKXU