فیاض ثاقب
مبتدی
- شمولیت
- ستمبر 30، 2016
- پیغامات
- 80
- ری ایکشن اسکور
- 10
- پوائنٹ
- 29
بسم الله الرحمٰن الرحیم
"متضاد احادیث "
جیسا کہ سلسلہ "متضاد احادیث" کے حوالے سے پہلے بیان کیا گیا کہ ایسی احادیث جو بقول منکرین حدیث "آپس میں تعارض رکھتی ہیں یا ایک دوسرے کہ مخالف ہیں اسلئے حدیث کو وحی کہنا درست نہیں ،کیوں کہ وحی میں غلطی کا احتمال نہیں" ، بیان کی جائینگی جو بظاھر ایک دوسرے سے متعارض ہیں لیکن در حقیقت ایسا نہیں ،اس سلسلے میں پہلے ان احادیث پر جوابات کو بیان کیا جائیگا جو نہ صرف متعارض بلکہ بظاھر شان نبوت کے منافی بھی معلوم ہوتی ہیں ،یعنی منکرین حدیث ان احادیث کو اپنی کم علمی کی وجہ سے شان نبوت کی توہین پر بھی مامور کرتے ہیں، اس سلسلے ایسی احادیث ترتیب وار لکھی جائینگی جو پہلے توہین رسالت پر منطبق کی جاتی ہیں اس سلسلے کی پہلی حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب ملاحظہ ہو:
متعارض حدیث #١
"حضرت ابوھریرہ روایت کرتے ہیں کہ جب نماز کہ لئے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے اور اذان کے بعد واپس آجاتا ہے اور اور واپس آکر نمازی پر مسلط ہوجاتا ہے اسے بھولی ہوئی باتیں یاد دلانا شروع کردیتا یہاں تک کہ نمازی بھول جاتا ہے اور اسے یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی نمازیں پڑھیں"
(صحیحین)
#اعتراضات
اس حدیث پر منکرین حدیث کی طرف سے دو اعتراض کئے جاتے ہیں :
اعتراض #١
"شیطان کا اذان کی عربی عبارت سے گھبرانا ،لیکن دوران نماز ،قرآن کی تلاوت ،دعائیں اور دیگر چیزوں کی پرواہ کئے بغیر نمازی پے مسلط ہوجانا ،ایسی منطق ہے جسے عقل سمجھنے سے قاصر ہے" ،
اعتراض #٢
"اگر نماز میں بھول شیطان کی طرف سے ہے تو ایسی بھی حدیث ہیں جس میں الله کے رسول بھول جایا کرتے تھے ،یعنی قصہ مختصر کہ رسول الله صلی الله یہ وسلم پے بھی شیطان قابض ہوجاتا تھا ،یعنی یہ بات سرا صرف نبوت کی شان کے منافی اسلئے ایسی احادیث رد ہیں" ،
جواب اعتراض #١
اذان شعائر اسلام میں سے ہے ،اعلائے کلمہ الحق ہے ،وحدہ لا شریک له کی توحید کا اعلان ہے اور اس اکیلے کی عبادت کی طرف دعوت عام ہے ،یہ ہیں وجوہ جن کی بناہ پر شیطان اذان سے دور بھاگتا ہے ،یہ آواز اس کو بری لگتی ہے اس سے اس کو ڈر محسوس ہوتا ہے اور خوفزدہ ہوکر بھاگتا ہے اور نہیں چاہتا کہ توحید کا عام اعلان اس کے کان تک پوھچے، ،اسی طرح جب اقامت ہوتی ہے تو کیوں کہ اس میں بھی وہ ہی اعلان ہوتا ہے اسلئے شیطان دور ہوجاتا ہے ،
اس کے علاوہ بھی اس میں کوئی راز مخفی ہو تو ہمیں کیا علم ،ہم لوگ غیب پر ایمان لانے والے ہیں ،اور ہر حال میں الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے بیان کی تصدیق کرتے ہیں اور اس کو بے چوں چراں تسلیم کرتے ہیں ،اس کہ کنہ اور رموز سے واقف ہونا ہمارے لئے ضروری نہیں ،اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بات کو اس وقت تسلیم کیا جائے کہ جب وہ ہماری عقل پے پوری اترے تو پھر ہمارا ایمان عقل پے ہوا نہ کہ رسول الله پر ،بلکہ یہ تو تکذیب ہوئی رسول الله اور منصب رسالت کی کہ اگر کوئی بات ہماری سمجھ نہ آتی تو ہم یہ کہہ دیں کہ یہ بات تسلیم نہیں کی جائیگی گویا آپ نے جو ہمیں بات بتائی ہے وہ غلط ہے ،اگر معیار عقل ہی ہے تو قران مجید کی بہت ساری آیات اس اصول پو پوری نہیں اترتیں
جیسے:
" اِنَّ الَّـذِيْنَ تَوَفَّاهُـمُ الْمَلَآئِكَـةُ ظَالِمِىٓ اَنْفُسِهِـمْ قَالُوْا فِيْـمَ كُنْتُـمْ ۖ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِى الْاَرْضِ ۚ قَالُـوٓا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّـٰهِ وَاسِعَةً فَـتُـهَاجِرُوْا فِيْـهَا ۚ فَاُولٰٓئِكَ مَاْوَاهُـمْ جَهَنَّـمُ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيْـرًا (النساء 97)
بے شک جو لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کر رہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے، انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس ملک میں بے بس تھے، فرشتوں نے کہا کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے، سو ایسوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے"۔
کیا یہ آیت اور اس جیسی دیگر آیات ہماری عقل پے اترتی ہیں؟ یعنی روح قبض کرتے وقت فرشتوں کا مرنے والوں سے باتیں کرنا اور مرنے والے کا جواب بھی دینا ؟؟
جب اس کو تسلیم کیا جاسکتا ہے عقل کو ایک طرف رکھ کر تو حدیث کو ایمان بالغیب تسلیم کرنے میں کیا امر کیا امر مانع ہے ؟
جواب اعتراض # ٢
بھول صرف شیطان کی طرف سے ہی نہیں ہوتی ،ایک بھول فطرت میں بھی ہوتی ہے ،اور ان دونوں بھول سے صرف الله کی ذات مبراء ہے :
" ۖ لَّا يَضِلُّ رَبِّىْ وَلَا يَنْسَى (52)
میرا رب نہ بھٹکتا ہے نہ بھولتا ہے"
شیطان کی طرف سے جو بھول ہوتی ہے وہ یہاں ذکر ہے :
"موسیٰ علیہ سلام کے ساتھی نے کہا کہ میں مچھلی بھول گیا ،اور آپ سے اس کا ذکر کرنا مجہے شیطان نے ہی بھلا دیا"
(الکہف – ٦٣ )
دوسری آیت میں ہے:
"موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر میری گرفت نہ کیجئے"
( الکھف – ٧٣ )
اس آیت سے معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بھولتے تھے ، ان کے ساتھی کی بھول شیطان کی طرف سے تھی اور خود ان کی بھول فطرت واقع ہوئی ،لہٰذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھول کی دو قسمیں ہوئیں یعنی ایک بھول فطری اور ایک شیطان کی طرف سے .
اب ان دونوں آیاتوں کو ملا کر یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ بھول جس طرح پہلی بار شیطان کی طرف سے تھی اسی طرح دوسری بار بھی شیطان کی طرف سے ہوسکتی ہے؟؟
،یعنی موسیٰ علیہ السلام کی بھول بھی شیطان کی طرف سے تھی اور ان پے بھی شیطان تسلط پاسکتا ہے ؟؟؟
یعنی جو اعتراض حدیث پے وہ ہی اعتراض قرآن مجید پے بھی آسکتا ہے.
ہم ایسی سوچ اور ایسے نتیجہ اخذ کرنے سے الله کی پناہ طلب کرتے ہیں، اور یہ ہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ موسیٰ علیہ سلام کی بھول بھی فطری تھی، جو انسانی تخلیق میں شامل ہے .
خلاصہ یہ کہ نماز میں بھول شیطان کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے اور فطرت کے مطابق بھی، لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بھول فطرت کے مطابق تھی نہ کہ شیطان کے تسلط کی وجہ سے ، اسی بھول والی حدیث میں رسول الله نے فرمایا تھا
"میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں ، اسی طرح بھولتا ہوں جسے تم بھولتے ہو "
گویا رسول الله نے خود صراحت فرمادی کہ میری بھول انسانی فطرت کے تقاضوں کے مطابق واقع ہوئی ہے ،
رسول الله کی بھول کا ذکر قران مجید میں بھی ہے:
"اور جب آپ بھول جایا کریں تو اپنے رب کا ذکر کیجئے "
(الکھف – ٢٤ )
اور مزید :
"اور ہمارے بندے ایوب کا ذکر کیجئے ،جب انھوں نے اپنے رب سے کہا ،کہ شیطان نے مجہے سخت تکلیف دی اور عذاب میں مبتلاءکردیا "
( س – ٤١)
کیا ایوب علیہ السلام رسول نہیں تھے ؟؟ان پر شیطان کا تسلط کیسے ہوسکتا ہے ؟؟بتائیں کیا کیا جائے ؟؟؟اس آیت کو قرآن مجید سے نکال دیں کہ شان نبوت پے ضرب ہے ؟؟؟؟مستشرقین کو کیا جواب دیا جائے آیت مذکور کا ؟؟؟
غلط فہمی اور کم علمی سے انسان کچھ کا کچھ سوچ لیتا ہے،اور یہ ہی حال منکرین حدیث کا نہ صرف کم علمی بلکہ ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہے ،
یہاں واضح ہے کہ جو اعتراض حدیث پے ہیں وہ ہی قرآن مجید پے آسکتے ہیں ،اسلئے معیار ایمان ہونا ضروری ہے ،عقل نہیں ،
"کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا "
مزید احادیث اگلی تحریر میں ان شا الله
سیف علی
"متضاد احادیث "
جیسا کہ سلسلہ "متضاد احادیث" کے حوالے سے پہلے بیان کیا گیا کہ ایسی احادیث جو بقول منکرین حدیث "آپس میں تعارض رکھتی ہیں یا ایک دوسرے کہ مخالف ہیں اسلئے حدیث کو وحی کہنا درست نہیں ،کیوں کہ وحی میں غلطی کا احتمال نہیں" ، بیان کی جائینگی جو بظاھر ایک دوسرے سے متعارض ہیں لیکن در حقیقت ایسا نہیں ،اس سلسلے میں پہلے ان احادیث پر جوابات کو بیان کیا جائیگا جو نہ صرف متعارض بلکہ بظاھر شان نبوت کے منافی بھی معلوم ہوتی ہیں ،یعنی منکرین حدیث ان احادیث کو اپنی کم علمی کی وجہ سے شان نبوت کی توہین پر بھی مامور کرتے ہیں، اس سلسلے ایسی احادیث ترتیب وار لکھی جائینگی جو پہلے توہین رسالت پر منطبق کی جاتی ہیں اس سلسلے کی پہلی حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب ملاحظہ ہو:
متعارض حدیث #١
"حضرت ابوھریرہ روایت کرتے ہیں کہ جب نماز کہ لئے اذان دی جاتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے اور اذان کے بعد واپس آجاتا ہے اور اور واپس آکر نمازی پر مسلط ہوجاتا ہے اسے بھولی ہوئی باتیں یاد دلانا شروع کردیتا یہاں تک کہ نمازی بھول جاتا ہے اور اسے یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی نمازیں پڑھیں"
(صحیحین)
#اعتراضات
اس حدیث پر منکرین حدیث کی طرف سے دو اعتراض کئے جاتے ہیں :
اعتراض #١
"شیطان کا اذان کی عربی عبارت سے گھبرانا ،لیکن دوران نماز ،قرآن کی تلاوت ،دعائیں اور دیگر چیزوں کی پرواہ کئے بغیر نمازی پے مسلط ہوجانا ،ایسی منطق ہے جسے عقل سمجھنے سے قاصر ہے" ،
اعتراض #٢
"اگر نماز میں بھول شیطان کی طرف سے ہے تو ایسی بھی حدیث ہیں جس میں الله کے رسول بھول جایا کرتے تھے ،یعنی قصہ مختصر کہ رسول الله صلی الله یہ وسلم پے بھی شیطان قابض ہوجاتا تھا ،یعنی یہ بات سرا صرف نبوت کی شان کے منافی اسلئے ایسی احادیث رد ہیں" ،
جواب اعتراض #١
اذان شعائر اسلام میں سے ہے ،اعلائے کلمہ الحق ہے ،وحدہ لا شریک له کی توحید کا اعلان ہے اور اس اکیلے کی عبادت کی طرف دعوت عام ہے ،یہ ہیں وجوہ جن کی بناہ پر شیطان اذان سے دور بھاگتا ہے ،یہ آواز اس کو بری لگتی ہے اس سے اس کو ڈر محسوس ہوتا ہے اور خوفزدہ ہوکر بھاگتا ہے اور نہیں چاہتا کہ توحید کا عام اعلان اس کے کان تک پوھچے، ،اسی طرح جب اقامت ہوتی ہے تو کیوں کہ اس میں بھی وہ ہی اعلان ہوتا ہے اسلئے شیطان دور ہوجاتا ہے ،
اس کے علاوہ بھی اس میں کوئی راز مخفی ہو تو ہمیں کیا علم ،ہم لوگ غیب پر ایمان لانے والے ہیں ،اور ہر حال میں الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے بیان کی تصدیق کرتے ہیں اور اس کو بے چوں چراں تسلیم کرتے ہیں ،اس کہ کنہ اور رموز سے واقف ہونا ہمارے لئے ضروری نہیں ،اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بات کو اس وقت تسلیم کیا جائے کہ جب وہ ہماری عقل پے پوری اترے تو پھر ہمارا ایمان عقل پے ہوا نہ کہ رسول الله پر ،بلکہ یہ تو تکذیب ہوئی رسول الله اور منصب رسالت کی کہ اگر کوئی بات ہماری سمجھ نہ آتی تو ہم یہ کہہ دیں کہ یہ بات تسلیم نہیں کی جائیگی گویا آپ نے جو ہمیں بات بتائی ہے وہ غلط ہے ،اگر معیار عقل ہی ہے تو قران مجید کی بہت ساری آیات اس اصول پو پوری نہیں اترتیں
جیسے:
" اِنَّ الَّـذِيْنَ تَوَفَّاهُـمُ الْمَلَآئِكَـةُ ظَالِمِىٓ اَنْفُسِهِـمْ قَالُوْا فِيْـمَ كُنْتُـمْ ۖ قَالُوْا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِى الْاَرْضِ ۚ قَالُـوٓا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللّـٰهِ وَاسِعَةً فَـتُـهَاجِرُوْا فِيْـهَا ۚ فَاُولٰٓئِكَ مَاْوَاهُـمْ جَهَنَّـمُ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيْـرًا (النساء 97)
بے شک جو لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کر رہے تھے ان کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے، انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس ملک میں بے بس تھے، فرشتوں نے کہا کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے، سو ایسوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے"۔
کیا یہ آیت اور اس جیسی دیگر آیات ہماری عقل پے اترتی ہیں؟ یعنی روح قبض کرتے وقت فرشتوں کا مرنے والوں سے باتیں کرنا اور مرنے والے کا جواب بھی دینا ؟؟
جب اس کو تسلیم کیا جاسکتا ہے عقل کو ایک طرف رکھ کر تو حدیث کو ایمان بالغیب تسلیم کرنے میں کیا امر کیا امر مانع ہے ؟
جواب اعتراض # ٢
بھول صرف شیطان کی طرف سے ہی نہیں ہوتی ،ایک بھول فطرت میں بھی ہوتی ہے ،اور ان دونوں بھول سے صرف الله کی ذات مبراء ہے :
" ۖ لَّا يَضِلُّ رَبِّىْ وَلَا يَنْسَى (52)
میرا رب نہ بھٹکتا ہے نہ بھولتا ہے"
شیطان کی طرف سے جو بھول ہوتی ہے وہ یہاں ذکر ہے :
"موسیٰ علیہ سلام کے ساتھی نے کہا کہ میں مچھلی بھول گیا ،اور آپ سے اس کا ذکر کرنا مجہے شیطان نے ہی بھلا دیا"
(الکہف – ٦٣ )
دوسری آیت میں ہے:
"موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر میری گرفت نہ کیجئے"
( الکھف – ٧٣ )
اس آیت سے معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بھولتے تھے ، ان کے ساتھی کی بھول شیطان کی طرف سے تھی اور خود ان کی بھول فطرت واقع ہوئی ،لہٰذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھول کی دو قسمیں ہوئیں یعنی ایک بھول فطری اور ایک شیطان کی طرف سے .
اب ان دونوں آیاتوں کو ملا کر یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ بھول جس طرح پہلی بار شیطان کی طرف سے تھی اسی طرح دوسری بار بھی شیطان کی طرف سے ہوسکتی ہے؟؟
،یعنی موسیٰ علیہ السلام کی بھول بھی شیطان کی طرف سے تھی اور ان پے بھی شیطان تسلط پاسکتا ہے ؟؟؟
یعنی جو اعتراض حدیث پے وہ ہی اعتراض قرآن مجید پے بھی آسکتا ہے.
ہم ایسی سوچ اور ایسے نتیجہ اخذ کرنے سے الله کی پناہ طلب کرتے ہیں، اور یہ ہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ موسیٰ علیہ سلام کی بھول بھی فطری تھی، جو انسانی تخلیق میں شامل ہے .
خلاصہ یہ کہ نماز میں بھول شیطان کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے اور فطرت کے مطابق بھی، لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بھول فطرت کے مطابق تھی نہ کہ شیطان کے تسلط کی وجہ سے ، اسی بھول والی حدیث میں رسول الله نے فرمایا تھا
"میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں ، اسی طرح بھولتا ہوں جسے تم بھولتے ہو "
گویا رسول الله نے خود صراحت فرمادی کہ میری بھول انسانی فطرت کے تقاضوں کے مطابق واقع ہوئی ہے ،
رسول الله کی بھول کا ذکر قران مجید میں بھی ہے:
"اور جب آپ بھول جایا کریں تو اپنے رب کا ذکر کیجئے "
(الکھف – ٢٤ )
اور مزید :
"اور ہمارے بندے ایوب کا ذکر کیجئے ،جب انھوں نے اپنے رب سے کہا ،کہ شیطان نے مجہے سخت تکلیف دی اور عذاب میں مبتلاءکردیا "
( س – ٤١)
کیا ایوب علیہ السلام رسول نہیں تھے ؟؟ان پر شیطان کا تسلط کیسے ہوسکتا ہے ؟؟بتائیں کیا کیا جائے ؟؟؟اس آیت کو قرآن مجید سے نکال دیں کہ شان نبوت پے ضرب ہے ؟؟؟؟مستشرقین کو کیا جواب دیا جائے آیت مذکور کا ؟؟؟
غلط فہمی اور کم علمی سے انسان کچھ کا کچھ سوچ لیتا ہے،اور یہ ہی حال منکرین حدیث کا نہ صرف کم علمی بلکہ ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہے ،
یہاں واضح ہے کہ جو اعتراض حدیث پے ہیں وہ ہی قرآن مجید پے آسکتے ہیں ،اسلئے معیار ایمان ہونا ضروری ہے ،عقل نہیں ،
"کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا "
مزید احادیث اگلی تحریر میں ان شا الله
سیف علی