الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں
۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
محترمی ومکرمی
جزاک اللہ خیرا.
میں بھی یہی سمجہتا ہوں کہ اسکا تغیر اتنا شدید نہیں تھا کہ اسکو مختلط قرار دے کر اسکی روایت کو رد کردیا جائے.البتہ یہ ہے کہ جہاں مخالفت وغیرہ کے ذریعے اسکا وھم ثابت ھوجائے تو وہ روایت رد کردی جائیگی.ورنہ نہیں. واللہ اعلم بالصواب.
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنبی کے لئے تلاوت کی ممانعت والی روایت(جس میں یہ راوی ھے) کے بارے میں کیا خیال ھے؟
یا شیخ یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ اس کو عمرو بن مرۃ سے امام شعبۃ کے علاوہ اعمش، ابن ابی لیلی و دیگر کئی راویوں نے نقل کیا ہے لیکن ان سب میں امام شعبہ کی روایت سب سے اصح ہے کیونکہ امام شعبہ عبد اللہ بن سلمہ کے تغیر سے بخوبی واقف تھے بلکہ امام شعبہ ہی سے تمام لوگوں کو پتہ چلا کہ المرادی متغیر تھا۔ اور ان کو اس کی روایات میں تمیز کرنا اچھی طرح آتا تھا اسی لئے آپ عبد اللہ بن سلمۃ کی جو بھی روایت کرتے تو ساتھ یہ بھی بتا دیا کرتے تھے کہ یہ حدیث کیسی ہے!
اور اس روایت کے متعلق بھی امیر المؤمنین فی الحدیث امام شعبہ فرماتے ہیں: "هذا الحديث ثلث رأس مالي" اور فرمایا: "لا أروي أحسن منه عن عمرو بن مرة"۔
لہٰذا یہ روایت اپنے آپ میں ہی صحیح کہلانے کے قابل ہے لیکن تسلی کے لئے عرض ہے کہ اس کا ایک متابع بھی موجود ہے۔ چنانچہ امام احمد بیان کرتے ہیں: حَدَّثَنَا عَائِذُ بْنُ حَبِيبٍ ، حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ السِّمْطِ ، عَنْ أَبِي الْغَرِيفِ ، قَالَ : أُتِيَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِوَضُوءٍ ، فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا ، وَغَسَلَ يَدَيْهِ وَذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ، ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ ، ثُمَّ قَالَ : هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ ، ثُمَّ قَرَأَ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ ، ثُمَّ قَالَ : " هَذَا لِمَنْ لَيْسَ بِجُنُبٍ ، فَأَمَّا الْجُنُبُ فَلَا ، وَلَا آيَةَ " . (مسند احمد 827)
یہ سند بھی حسن ہے۔ اس کے راویوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے: 1- عائذ بن حبیب
امام احمد فرماتے ہیں: "ذاك ليس به بأس ، قد سمعنا منه"۔ (العلل)
امام یحیی بن معین فرماتے ہیں: "ثقة" (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری)
حافظ ابن حجر تقریب میں فرماتے ہیں: "صدوق رمى بالتشيع"۔ 2- عامر بن السمط
امام یحیی القطان فرماتے ہیں: "ثقةٌ حافظٌ" (تاریخ الکبیر للبخاری)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: "ثقة" (التقریب)۔ 3- عبد اللہ بن خلیفہ ابو الغریف المرادی
امام ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کیا۔
امام یعقوب بن سفیان الفسوی فرماتے ہیں: "ثقة" (المعرفۃ والتاریخ 3 / 200)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: "صدوق رمي بالتشيع"
علماء کے اقوال:
اس حدیث کو درج ذیل علماء نے صحیح یا حسن کہا ہے:
1- امام شعبۃ بن الحجاج۔
2- ترمذی، وقال: "حسن صحیح" (سنن: 146)۔
3- ابن خزیمہ (صحیح ابن خزیمہ: 215)۔
4- ابن حبان (799)
5- حاکم، وقال: "صحیح الاسناد" (7133)
6- البغوی وقال: "حسن صحیح" (شرح السنہ 1/359)
7- ابن عبد البر، وقال: "ثابت" (الاستذکار: 2/460)
8- ضیاء المقدسی (المختارہ)
9- ابن الجارود (المنتقی)
10- ابن العربی المالکی، وقال: "صحیح حسن" (عارضۃ الاحوذی: 1/184)
11- ابن الملقن، وقال: "جید" (البدر المنیر 2/551)
12- بدر الدین عینی الحنفی وقال: "اسنادہ صحیح" (نخب الافکار: 2/211)
13- عبد الحق الاشبیلی (الاحکام الصغری: 134)
14- ابن حجر العسقلانی وقال: "والحق أنه من قبيل الحسن يَصلح للحجة" (فتح الباری: 1/408)
وغیرہم۔
اور معاصرین میں: علامہ ابن باز، علامہ ابن عثیمین، شیخ احمد شاکر، شعیب الارناؤط وغیرہم۔
جزاك الله خيرا
اخي الكريم هذا هو
وللفائدة اقول ان العلامة الالباني رحمه الله جعل في تمام المنة عامر بن السمت وابا الغريف رجلا واحدا والحال انهما رجلان كما ذكرت
اخي الكريم هل قرات مقالة الشيخ المفسر مولانا صلاح الدين يوسف حفظه الله المطبوع في مجلة الاعتصام
اخي الكريم هل قرات مقالة الشيخ المفسر مولانا صلاح الدين يوسف حفظه الله المطبوع في مجلة الاعتصام
جی نہیں، اس مقالۃ کا نام کیا ہے۔ ابھی پڑھ لیتے ہیں۔ ان شاء اللہ۔