- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
ازدواجی حقوق و فرائض:
=================
۱۔ اسلامی نکاح یہ ہے کہ اسنکاح میں لڑکی اور لڑکی والوں کا کوئی خرچہ نہ ہو۔ مہر، ولیمہ اور بعد از نکاح بیوی کا نان نفقہ شوہر کے ذمہ ہے
۲۔ شوہر کی آمدن، دولت میں بیوی کا حق ہے۔ لیکن بیوی کی دولت اور آمدن ( اگر کوئی ہو) میں شوہر کا کوئی حق نہیں۔
۳۔ شادی کے بعد بیوی (اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے بعد) شوہر کے احکامات کی پابند ہے ۔ بیوی شوہر کے حکم کے برخلاف اپنی خواہش یا اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی خواہش یا حکم کی پابند نہیں۔
۴۔ مرد بیوی کے حکم یا اس کی خواہش کا پابند نہیں۔ نہ ہی مرد کی کل آمدن یا کل وقت پر بیوی کا حق ہے۔ مرد شادی سے قبل اپنے تمام فرائض کا شادی کے بعد بھی ذمہ دار رہے گا۔ جیسے والدین اور بہن بھائیوں کی مالی مدد، ان کی دیکھ بھال جبکہ بیوی شادی کے بعد اپنے میکہ والوں کی دیکھ بھال اور خدمت کی پابند نہیں۔ البتہ اپنی ذاتی دولت یا آمدنی اپنے میکہ والوں پر خرچ کرسکتی ہے وہ بھی اپنے شوہر کو بتلا کر یا اس کی اجازت سے
۵۔ اگر بوقت نکاح، لڑکی یا اس کے گھر والوں نے گھریلو کام کاج کے سلسلہ میں کوئی بات طے نہ کرالی ہو تو لڑکی کو بعد از نکاح سسرال میں وہ تمام گھریلو کام کاج کرنے ہوں گے جو اس کے سسرال کی لڑکیاں عرفا کرتی ہیں۔
٦۔ افضل یہی ہے کہ لڑکا نکاح سے قبل لڑکی کے لئے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے الگ رہائش کا انتظام کرے۔ لڑکی نکاح سے قبل اس کا مطالبہ کرے تب نکاح کی صورت میں ایسا کرنا لڑکے پر فرض ہوگا۔ لیکن اگر بوقت نکاح لڑکی اور اس کے گھر والے علیحدہ گھر کا مطالبہ نہ کریں بلکہ مشترکہ گھرانے میں رہنے کو تیار ہو اور اس پر اعتراض نہ کرے تو ایسی صورت میں بعد از نکاح علیحدہ گھر کا مطالبہ نہیں کرسکتی، بالخصوص اس صورت میں جب لڑکا علیحدہ گھر مالی طور پر افورڈ نہ کرسکتا ہو یا وہ والدین کا گھر کسی بھی وجہ سے چھوڑنا نہ چاہتا ہو۔ البتہ مرد کے لئے ایسی صورت میں بھی بہتر و افضل یہی ہے کہ وہ بیوی بچوں کے لئے جیسے ہی ممکن ہو، علیحدہ رہائش کا بندوبست کرے۔
۷۔ شوہر کے لئے بہتر ہے کہ گھر کے کام کاج کے لئے ملازمہ یا لونڈی کا بندوبست کرے۔ اگر بوقت نکاح لڑکی نے یہ شرط رکھی ہو تب مرد کے لئے ایسا کرنا فرض ہوگا۔
۸۔ اگر بیوی ساس سسر کے مشترکہ گھر میں بخوشی یا شوہر کی مجبوری سے رہتی ہے تو اس گھر کا مالک اس کا سسر ہوگا، شوہر نہیں۔ اور اسے سسر کا حکم بھی ماننا ہوگا بشرطیکہ کہ سسر کا حکم اللہ، رسول ص اور اس کے شوہر کے حکم کے خلاف نہ ہو۔ یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ اگر آپ کسی کے گھر میں بلا کرایہ رہتے ہوں تو گھریلو امور کے سلسلہ میں گھر کے مالک کا حکم بھی ماننا ہوگا۔ جیسے گھر کی صفائی، مشترکہ کھانا پکانا، گھر کے مالک کی مرضی سے گھر میں رہنا سہنا وغیرہ۔ اگر گھر کے مالک کا حکم پسند نہیں تو اس کے گھر میں نہ رہئے۔ سسر پر یہ لازم نہیں کہ وہ بہو کے لئے رہائش اور دیگر سہولیات فراہم کرے۔
۹۔ شوہر جب چاہے دوسری، تیسری اور چوتھی شادی کرسکتا ہے ۔ بیوی اپنے شوہر کو ایسے کسی بھی کام سے نہیں روک سکتی۔ البتہ یہ ضرور مطالبہ کرسکتی ہے کہ دیگر بیویوں کے لئے الگ رہائش کا انتظام کیا جائے۔
۱۰۔ ازدواجی زندگی میں مرد کو ٹیم لیڈر یعنی سربراہ گھرانہ کے تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ جبکہ بیوی شوہر کی ماتحت ہوتی ہے۔ ازدواجی زندگی میں باہمی رضامندی سے دونوں میں سے کوئی بھی فریق اپنا شرعی حق چھوڑ سکتا ہے۔ جیسے بیوی اپنا مہر معاف کرسکتی ہے۔ اپنی دولت یا آمدن اپنے شوہر کو خرچ کے لئے دے سکتی ہے۔ شوہر دوسری تیسری شادی نہ کرنے کا وعدہ کرسکتا ہے (ایک سے زیادہ شادی صرف جائز ہے، فرض یا افضل نہیں۔ فرض تو پہلی شادی بھی نہیں ہے۔ یہ سنت ہے۔ کئی صحابہ نے ایک شادی بھی نہیں کی)
واللہ اعلم بالصواب
=================
۱۔ اسلامی نکاح یہ ہے کہ اسنکاح میں لڑکی اور لڑکی والوں کا کوئی خرچہ نہ ہو۔ مہر، ولیمہ اور بعد از نکاح بیوی کا نان نفقہ شوہر کے ذمہ ہے
۲۔ شوہر کی آمدن، دولت میں بیوی کا حق ہے۔ لیکن بیوی کی دولت اور آمدن ( اگر کوئی ہو) میں شوہر کا کوئی حق نہیں۔
۳۔ شادی کے بعد بیوی (اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے بعد) شوہر کے احکامات کی پابند ہے ۔ بیوی شوہر کے حکم کے برخلاف اپنی خواہش یا اپنے والدین اور بہن بھائیوں کی خواہش یا حکم کی پابند نہیں۔
۴۔ مرد بیوی کے حکم یا اس کی خواہش کا پابند نہیں۔ نہ ہی مرد کی کل آمدن یا کل وقت پر بیوی کا حق ہے۔ مرد شادی سے قبل اپنے تمام فرائض کا شادی کے بعد بھی ذمہ دار رہے گا۔ جیسے والدین اور بہن بھائیوں کی مالی مدد، ان کی دیکھ بھال جبکہ بیوی شادی کے بعد اپنے میکہ والوں کی دیکھ بھال اور خدمت کی پابند نہیں۔ البتہ اپنی ذاتی دولت یا آمدنی اپنے میکہ والوں پر خرچ کرسکتی ہے وہ بھی اپنے شوہر کو بتلا کر یا اس کی اجازت سے
۵۔ اگر بوقت نکاح، لڑکی یا اس کے گھر والوں نے گھریلو کام کاج کے سلسلہ میں کوئی بات طے نہ کرالی ہو تو لڑکی کو بعد از نکاح سسرال میں وہ تمام گھریلو کام کاج کرنے ہوں گے جو اس کے سسرال کی لڑکیاں عرفا کرتی ہیں۔
٦۔ افضل یہی ہے کہ لڑکا نکاح سے قبل لڑکی کے لئے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے الگ رہائش کا انتظام کرے۔ لڑکی نکاح سے قبل اس کا مطالبہ کرے تب نکاح کی صورت میں ایسا کرنا لڑکے پر فرض ہوگا۔ لیکن اگر بوقت نکاح لڑکی اور اس کے گھر والے علیحدہ گھر کا مطالبہ نہ کریں بلکہ مشترکہ گھرانے میں رہنے کو تیار ہو اور اس پر اعتراض نہ کرے تو ایسی صورت میں بعد از نکاح علیحدہ گھر کا مطالبہ نہیں کرسکتی، بالخصوص اس صورت میں جب لڑکا علیحدہ گھر مالی طور پر افورڈ نہ کرسکتا ہو یا وہ والدین کا گھر کسی بھی وجہ سے چھوڑنا نہ چاہتا ہو۔ البتہ مرد کے لئے ایسی صورت میں بھی بہتر و افضل یہی ہے کہ وہ بیوی بچوں کے لئے جیسے ہی ممکن ہو، علیحدہ رہائش کا بندوبست کرے۔
۷۔ شوہر کے لئے بہتر ہے کہ گھر کے کام کاج کے لئے ملازمہ یا لونڈی کا بندوبست کرے۔ اگر بوقت نکاح لڑکی نے یہ شرط رکھی ہو تب مرد کے لئے ایسا کرنا فرض ہوگا۔
۸۔ اگر بیوی ساس سسر کے مشترکہ گھر میں بخوشی یا شوہر کی مجبوری سے رہتی ہے تو اس گھر کا مالک اس کا سسر ہوگا، شوہر نہیں۔ اور اسے سسر کا حکم بھی ماننا ہوگا بشرطیکہ کہ سسر کا حکم اللہ، رسول ص اور اس کے شوہر کے حکم کے خلاف نہ ہو۔ یہ ایک عام قاعدہ ہے کہ اگر آپ کسی کے گھر میں بلا کرایہ رہتے ہوں تو گھریلو امور کے سلسلہ میں گھر کے مالک کا حکم بھی ماننا ہوگا۔ جیسے گھر کی صفائی، مشترکہ کھانا پکانا، گھر کے مالک کی مرضی سے گھر میں رہنا سہنا وغیرہ۔ اگر گھر کے مالک کا حکم پسند نہیں تو اس کے گھر میں نہ رہئے۔ سسر پر یہ لازم نہیں کہ وہ بہو کے لئے رہائش اور دیگر سہولیات فراہم کرے۔
۹۔ شوہر جب چاہے دوسری، تیسری اور چوتھی شادی کرسکتا ہے ۔ بیوی اپنے شوہر کو ایسے کسی بھی کام سے نہیں روک سکتی۔ البتہ یہ ضرور مطالبہ کرسکتی ہے کہ دیگر بیویوں کے لئے الگ رہائش کا انتظام کیا جائے۔
۱۰۔ ازدواجی زندگی میں مرد کو ٹیم لیڈر یعنی سربراہ گھرانہ کے تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ جبکہ بیوی شوہر کی ماتحت ہوتی ہے۔ ازدواجی زندگی میں باہمی رضامندی سے دونوں میں سے کوئی بھی فریق اپنا شرعی حق چھوڑ سکتا ہے۔ جیسے بیوی اپنا مہر معاف کرسکتی ہے۔ اپنی دولت یا آمدن اپنے شوہر کو خرچ کے لئے دے سکتی ہے۔ شوہر دوسری تیسری شادی نہ کرنے کا وعدہ کرسکتا ہے (ایک سے زیادہ شادی صرف جائز ہے، فرض یا افضل نہیں۔ فرض تو پہلی شادی بھی نہیں ہے۔ یہ سنت ہے۔ کئی صحابہ نے ایک شادی بھی نہیں کی)
واللہ اعلم بالصواب