• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مجالس میں بچوں کے فرائض اور والدین کی ذمہ داریاں

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مجالس میں بچوں کے فرائض اور والدین کی ذمہ داریاں
عبدالسلام عاصم

میں نے اپنے ناقص علم کے مطابق حرفے چند میں ان حقوق کو سمیٹنےکی کوشش کی ہے جن کی ذمہ داری خالصتاً ایک باپ پر عائد ہوتی ہیں بلاشبہ اسلام نے والدین کو ایک عظیم مقام و مرتبہ سے نوازا ہے جن کا حق ادا کیے بغیر جنت کا حصول ممکن نہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام نے والدین سے اولاد کے حقوق و تربیت کا بھی شدت سے مطالبہ کیا ہے۔ لیکن افسوسناک صورت حال یہ ہےکہ بعض والدین تو اولاد کو بالکل آوارہ چھوڑ دیتے ہیں جس سےوہ جلد ہی صحبت بد کا شکار ہوکر معاشرے میں اپنی دانست کےمطابق غیراسلامی اور غیر معیاری رویے اپناتے ہیں۔ پھر بعض اوقات والدین کوشرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے او رسب سے زیادہ شرمندگی اور افسردگی اس وقت اٹھانا پڑتی ہے جب بچے مجالس و محافل میں نازیبا حرکات سے والدین کی ناقص تربیت کا ثبوت دے رہے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک باپ کے لئے ضروری ہے اور اسلامی آدب کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مجالس میں آداب اور اخلاقیات کی اعلیٰ اقدار کو اپنایا جائے تاکہ نسل نو بلند مرتبہ اسلوب زندگی سے آراستہ ہوسکے اور معاشرے میں عزت و اہمیت کی نگاہ سے دیکھی جائے۔ لوگ اس سے نفرت کی بجائے محبت کریں۔ اس حوالے سے چند آداب ہیں جو مجالس میں اپنائیت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ میں ان کی طرف توجہ و رغبت دلانا ضروری سمجھتا ہوں۔
مہمان کی آمد پر بچوں کا رویہ :
چنانچہ سب سے پہلی اور بنیادی بات محفل و مجلس میں میزبانی کے حوالے سے ہے کہ آنے والے مہمانوں سے بچوں کا رویہ کیسا ہو؟
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بڑے لوگوں کی اولادیں مہمان سے ملاقات کرنے، خندہ پیشانی سےملنے اور ایک دوسرے کی معرفت حاصل کرنے میں کراہت محسوس کرتی ہیں بلکہ اس عمل کو اپنے لئے ایک حقیر عمل سمجھتی ہیں۔اس کی وجہ صرف ایک ہی ہوسکتی ہے کہ ہمارے ہاں نسل نو کی اس معاملے میں تربیت بہت کم ہوتی ہے کہ بچےمہمانوں سے کس انداز سے پیش آئیں۔ ان سے بات چیت کیسے کریں۔ کن کن چیزوں کا خاص خیال رکھنا چاہئیے کہ مہمانوں کی دل آزاری نہ ہو او روہ سمجھیں کہ میں کسی بیگانے کے پاس نہیں بلکہ کسی اپنے کے ہاں ہی ٹھہرا ہوں۔ یہ کوئی معمولی عمل نہیں ہے بلکہ رسول اللہﷺ نے اس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ہی فرمایا تھا:

﴿مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ ﴾[صحيح بخاري، رقم الحدیث، 6018]
''جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اپنےمہمان کی عزت کرے۔''
لہذا ایک محسن باپ وہ ہے جو ایک مربی کی حیثیت سے اپنے بچوں کو اخلاقیات کی طرف توجہ دلائے ۔ انہیں اچھے نصائح سے نوازے او ران نصائح کوعملی جامہ پہنانے کےلئے اپنے بچوں کو گاہے بگاہے تربیت کے اہم پہلوؤں سے شناسائی کراتا رہے تاکہ جب کہیں اتفاقاً وہ گھر میں موجود نہ ہو یا اچانک مہمانوں کو چھوڑ کر کسی کام کے لئے باہر جانا پڑے تو اس کی عدم موجودگی میں اس کے بچے مہمانوں سے اچھے انداز سے پیش آسکیں اور ن میں بڑوں سے بہترین انداز میں بات چیت کرنےکی قدرت پیدا ہوسکے۔ لیکن یہ تب ہوگا جب بچے پہلے سے ہی مہمان نوازی کے اسلوب سے آگاہ ہوں گے۔ جبکہ عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ بچے مہمان کی خدمت میں اس قدر کراہت محسوس کرتےنظر آتے ہیں کہ اگر کسی کو کہا جائے کہ مہمان کے لئے شربت یا سادہ پانی یا کچھ کھانے کو لے آؤ یا ایک سے دوسری مرتبہ کوئی کام کہا جائے تو اس میں اپنی بے عزتی او رحقارت محسوس کرتے ہیں۔ اس عمل کو اپنی شخصیت کےمنافی سمجھتے ہیں ۔یہ نوبت اس وقت آتی ہے جب والدین کی طرف سے بچوں کو تربیت کے ان سنہری اصولوں سے آگاہ نہ کیا گیا ہو جو کہ چھوٹی عمر میں ہی ذمہ دار والدین اپنے بچوں کو سکھا لیتے ہیں ۔ والدین پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ باپ اپنے بچوں کو بتائے کہ اپنے ہاتھوں سےمہمان کی خدمت کرنا او ران سے خندہ پیشانی سے پیش آنا کتنا اہم اور عظیم عمل ہے ۔کائنات کے افضل البشر، خیر الخلائق محمد الرسولﷺ کا طرز زندگی اور آپ کی تعلیم کا یہ اہم جزء ہے ۔ آپؐ اپنی قدرومنزلت کے عظیم ترین مقام اور جلالت کے اعتبار سے بلندپایہ مثال ہونے کے باوجود اپنے مبارک ہاتھوں سےمہمانوں کی خدمت کیاکرتے اور یہی عمل اللہ کے پیارے حبیب حضرت ابراہیم ﷤ خلیل اللہ کا بھی تھا ۔اس سے معلوم ہوا کہ یہ کوئی معمولی عمل نہیں بلکہ یہ شیوہ پیغمبری ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مجلس میں بےجا بولنے سے گریز کرنا:
دوسری بات جس کا مجلس میں خاص خیال رکھا جانا نہایت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جب بڑوں کی مجلس ہو تو ان کی بات انتہائی غور سے سنی جائے (بجائے اس کے اکثر بچے اپنی حرکات سے آئے ہوئے لوگوں کو ڈسٹرب کررہے ہوتے ہیں) مزید یہ کہ اس وقت تک کسی بات کا جواب نہ دیا جائے جب تک ان کومخاطب نہ کیا جائے کیونکہ اسلامی آداب کا یہی تقاضا ہے او ریہی طرز مجلس رسول اللہﷺ کے دور میں صحابہ کرمؓ کی اولادوں کا تھا ۔ جب بڑوں کی مجلس میں بیٹھتے تو مجلس کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے جیسا کہ بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت موجود ہے، فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے سوال کیاکہ وہ کون سا درخت ہے جس کی مثال مؤمن کی طرح ہے وہ درخت اللہ کے حکم سے ہر وقت پھل دیتا ہے اوراس کے پتے بھی نہیں جھڑتے (مؤمن بھی سردی گرمی جاڑہ ہو ہر وقت اللہ کی بندگی اور شکرگزاری کرتا ہے کبھی اس کی ناشکری نہیں کرتا او ریہ کبھی نہیں کہتا کہ میں نے آج عبادت نہیں کرنی۔)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ قریب تھا میں جواب دے دیتا کہ وہ کھجور کا درخت ہےلیکن میں نے ابوبکرؓ اور عمرؓ کی موجودگی میں جواب دینا نا پسند جانا حالانکہ صحابہ کو جواب نہیں آیا تھا تو ابن عمرؓ جواب دے دیتے تو کوئی قباحت نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی آداب مجلس اور بڑوں کا ادب ان پر غالب رہا جبکہ کسی کو صحیح جواب کا علم ہو تو پھر وہ چپ رہے! لیکن ابن عمرؓ نےبچوں کے لئے آداب مجلس کی بہترین عملی مثال پیش کی ہے۔
اس بات کی ذمہ داری بھی والدین پر ہےکہ اپنے بچوں کو ایسے آداب سے آگاہ کرے ۔کیونکہ مجلس میں چھوٹوں کا بڑوں کی مجلس میں بات کو بے جاٹوکنا اور بن بلائے بولنا بچوں کو حیاء سے عاری بنا دیتا ہے جس کانتیجہ بعض اوقات بچوں کی بڑوں سے زبان درازی کی صورت میں والدین کو بھگتنا پڑتا ہے۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
فطری عادات میں تربیت کرنا:
والدین یہ بھی ذمہ داری ہے کہ بچے کو ایسی فطری عادات جن سے ہرچھوٹے بڑے کو واسطہ پڑتا ہے، اپنانے میں بہترین انداز سے راہنمائی کرےمثلاچھینک اور جماعی یہ فطری عادات ہیں ان کے بھی آداب ہیں جو کہ بچوں کو سکھائے جانے بہت ضروری ہیں کیونکہ بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ بچےمجلس میں یا کہیں بھی بیٹھے ہوئے لوگوں کے سامنے جماعی لیتے وقت بہت بُرے انداز میں منہ کھولتے ہیں (ویسے تو یہ عادت بڑوں میں برابر پائی جاتی ہے) یہ طریقہ آداب مجلس کے انتہائی زیادہ خلاف ہے اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بچے اپنے قریب ہی بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف منہ کرکے بغیر منہ ڈھانپے چھینکنا یا کھانسنا شروع کردیتے ہیں تو منہ نہ ڈھانپنے سے چھینک یا کھانسی کرتے وقت گلے سے رطوبت کی پھوار جو اس کی آواز کے ساتھ ہی نکل کر سامنے بیٹھے ہوئے کےکپڑوں اور چہرے تک پہنچ جاتی ہے جس سے مجلس میں بدمزگی پیدا ہوجاتی ہے اور یہ فعل آداب مجلس کے انتہائی زیادہ خلاف ہے بلکہ ایک قبیح حرکت ہے۔ اگرچہ یہ بشری تقاضا ہے لیکن شریعت اسلامیہ جو ایک دین کامل ہے اس نے ہماری اس معاملے میں بھی راہنمائی کی ہے کہ جب چھینک آئے تو اپنے منہ کو کپڑے یا (کپڑا نہ ہونے کی صورت میں) ہاتھوں سے ڈھانپا جائے یاکسی بھی طریقے سے۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث اس معاملے میں ہماری رہنمائی کرتی ہے ۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں:

«أن النبي صلى الله عليه و سلم كان إذا عطس غطى وجهه بيده أو بثوبه وغض بها صوته »[سنن ترمذی ، البانی : حسن صحیح، رقم الحدیث:2745]
''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ چھینک کے وقت اپنے چہرےکو ہاتھوں سے یا کپڑے سے ڈھانپ لیتے او راپنی آواز کو پست رکھتے۔''
اور سب سےبہترین طریقہ بھی یہی کہ چھینک کے وقت اپنی آواز کو حتی الوسع پست رکھا جائے او رمنہ کو ہاتھوں سے ڈھانپا جائے اگررومال وغیرہ ہو تو اس سے ہی ڈھانپا جائے کیونکہ چھینک کے ساتھ گلے سےرطوبت اور بلغم نکلنے کا خدشہ ہوتا ہے تو مناسب نہیں کہ ہاتھوں کو کوئی چیز لگے اور پھر اپنے کپڑوں سےمل لی جائے او رہاتھ دھوئے بغیر چیزوں کو ہاتھ لگائے جائیں۔
اس میں قابل غور بات ہے یہ ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ یہ ادب بھی اپنے بچوں کو سکھلایں کہ کسی محفل یا مجلس میں شرکت کے وقت اگر بچے کو ساتھ لے جانا ہے تو وہ اپنی جیب میں رومال رکھے تاکہ بوقت ضرورت نظافت اختیارکی جائے اور بچے کو یہ عادت ڈالنے کے لئے بار بار رغبت دلائ جائے اور ہاں! ایسا نہ کرنے پربچے کومحض اس بات پر ڈانٹ ڈپٹ کا نشانہ بنائیں کیونکہ بچوںمیں غیر ذمہ داری کا عنصر اس کی عمر کا فطری تقاضا ہےلہٰذا آپ اس سے بالغ نظر آدمی جیسے افعال کی توقع نہیں رکھ سکتے اور رہا جماعی کا مسئلہ تو یہ ایک مکروہ عمل ہے کیونکہ یہ شیطان کی طرف سےہوتا ہے۔
اور اس بارے رسول مکرمﷺ کی حدیث مبارک بھی ہےکہ:

«التثاؤب من الشيطان إذا تثاءب أحدكم فليكظم ما استطاع»[صحيح ابن حبان :2357]
''آپ ؐ نے فرمایا: جماعی شیطان کی طرف سے ہے جب تم میں سے کسی کو جماعی آئے تو جس قدر ہوسکے جماعی کو روک لیا جائے۔''
کیونکہ جماعی سستی کا دوسرا نام ہے او راس سے بدن بوجھل ہوجاتا ہے اور آدمی کاہلی اور سستی کا شکار ہوجاتا ہے (اور چھینک اس کے برعکس ہے اس سے آدمی میں چستگی پیدا ہوتی ہے اور بدن ہلکا ہوجاتا ہے) او رجماعی کے وقت بھی منہ کو ڈھانپنا جائے اور اس کی توجیہہ علماء نے یوں بیان کی ہےکہ اگر منہ کھلا چھوڑ دیاجائے تو شیطان منہ میں داخل ہوجاتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ میں نےاس کے خوبصورت چہرےکوکیسے بدنما کردیا ہے۔ ایک مصلح باپ پر لازم ہے کہ آداب اسلامی کے اس اہم پہلو پر اپنے بچوں کو تکرار او رتنبیہ کے ساتھ توجہ مبذول کروائے اور بتائے کہ جماعی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے او رجب آدمی اپنا منہ کھولتا ہے تو شیطان خوش ہوتا ہے باپ اپنے بچے کو کسی جماعی لیتے شخص کی شکل دکھائے کہ وہ دیکھو اس شخص کی طرف کہ آداب نبیؐ کا ادب نہیں کررہا، کیسےاس نے اپنامنہ کھولا ہوا ہے کتنی بھیانک شکل بنائی ہوئی ہے ۔ یہ چیز اس کی کم اور خفت عقلی پر دلالت کررہی ہے۔ ایک طریقہ یہ بھی ہےکہ باپ بچے کے سامنے آئینہ پیش کرے کہ دیکھو جماعی لیتے ہوئے آدمی کتنا بُرا لگتا ہے۔ اسی طرح مختلف طریقوں سے بچے کی راہنمائی کی جاسکتی ہے ۔ یہ سب اس لئے ہے تاکہ بچے ہر قسم کے آداب سے واقف ہوجائیں ۔ کبھی کسی مجلس یامحفل میں بچے کو ساتھ لے جانے کااتفاق ہو تو والدین کو بچےکی وجہ سے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے اور دوسرے بچوں اور آپ کے بچے میں انفرادیت نظر آئے اور دوسرے لوگ بھی آپ کے بچے کو فالو کرسکیں۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
دعوتوں اور پارٹیوں کے آداب:
او راسی طرح مجالس و محافل سےمتعلق ایک اہم پہلو یہ بھی ہے جب آپ کسی پارٹی یا مجلس و محفل سے رخصت ہوں تو میزبان کا دعائیہ کلمات کے ساتھ شکریہ اداکریں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«لا يشكر الله من لا يشكر الناس»[السلسلة الصحيحة:416]
''اللہ سبحانہ و تعالیٰ بھی اس شخص کی قدر نہیں کرتا جولوگوں کاشکریہ ادا نہیں کرتا۔''
یہاں جوبات مطلوب و مقصود ہے وہ یہ ہےکہ اگر کسی کی طرف سے اچھے عمل کی پیش رفت ہوتی ہے، کوئی آپ کو مدعو کرتا ہے تو محفل یا پارٹی کےاختتام پر اس کا دل اور زبان سےشکریہ ادا کیا جائے کیونکہ یہ خلوص ، محبت و الفت میں اضافےکاسبب ہے۔ اور اسلامی آداب کا تقاضا ہے کہ بچوں کو آداب کےاس اہم پہلو سے روشناس کیا جائے اور تربیت کے ہر ہر پہلو پر کامل توجہ دی جائے او ر بتایا جائے کہ کسی دعوت یا مجلس میں کوئی اچھی چیز ملے چاہے وہ کھانے کی صورت میں ہو چاہے نصیحت یا اچھی گفتگو کی صورت میں ہو تو اہل خانہ یا اہل مجلس کو جزاک اللہ خیراً یا اس جیسےعمدہ دعائیہ کلمات کہے جائیں۔ اور تمام والدین کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ چھوٹی عمر سے ہی بچوں کے ساتھ ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنےکی ضرورت ہوتی ہے۔ذرا سے بڑے ہوجانے پر ان کےمزاج میں پختگی آنے لگتی ہے تو پھر انہیں تبدیل کرنا خاصا مشکل کام ہے۔
امام غزالی نے چند ایسے آداب مجلس ذکر کیے ہیں جو کہ چھوٹی عمر میں بچوں کوسکھائے جانے چاہیے او روہ آداب اس لائق ہیں کہ عام زندگی میں آدمی خود بھی ان پر عمل کرے اور اپنے بچوں کو اس کی طرف راغب کرے خصوصاً مجلس میں اس کاالتزام کیا جائے۔
امام فرماتے ہیں:
'' کہ آداب مجلس کے لئے مناسب امر یہ ہے کہ بچوں کو اس بات کی عادت ڈالی جائے کہ وہ کبھی بھی مجلس میں تھوکیں نہ اپنے نتھنوں میں انگلیاں داخل کریں اور نہ ہی جماعیاں لیں، گردنوں کو نہ پھلانگیں، کسی کے چہرے کی طرف پیٹھ کرکے نہ بیٹھیں کیونکہ اس سے دوسرے کو بات کرنے او رسننے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا اور نہ اپنی ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھا جائے اور نہ ہتھیلی کو اپنی ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر بیٹھیں اورنہ ہی اپنے سر کو کہنی کاسہارا دیں کیونکہ یہ سستی کاسبب ہے اسی طرح بچوں کو مجلس میں بیٹھنے کے آداب سکھانے کےساتھ ساتھ لغو اور لایعنی باتوں سے منع کیا جائے۔''
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
امام غزالی یہ آداب ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
کہ اگر والدین خود کو اور اپنے بچوں کو ان آداب کاعادی بنا لیں تو وہ ان اچھی عادات و خصائل کی بناء پر دوسروں کے لئے آئیڈیل اور نمونہ بن سکتے ہیں۔ اور یہ بات انتہائی قابل غور ہے کہ ابتدا میں اکثر بچوں کی آئیڈیل شخصیات ان کےوالدین ہی ہوا کرتے ہیں ان کےطرز عمل اور سلوک سے ہی پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے معاملات پر کس حد تک سنجیدہ ہیں بچوں میں والدین کی بہتر ہم آہنگی انہیں مستقبل کا ایک کامیاب شخص بنا سکتی ہے۔ تو ان تمام آداب کو عملی جامہ پہنانے کا سب سے بہترین اور مؤثر طریقہ یہ ہے کہ والدین کو جب کسی پارٹی یاولیمے کے پروگرام یا اس کےعلاوہ کہیں اور مدعو کیا جائے تو جہاں تک ہوسکے ہربچے کو اس کی عمر کےمطابق (جو والدین اور بچے میں خاص لاڈ پیار کی عمر ہوتی ہے) اپنے ساتھ رکھے تاکہ مجالس کے آداب سکھائے جاسکیں اور کمی کوتاہی کی اصلاح کردی جائے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مجلس میں والدین اپنے اور بچےکےدرمیان فاصلہ نہ رکھیں بلکہ اپنے ساتھ ساتھ رکھیں کیونکہ مجلس میں والدین اور بیٹے میں تفریق والدین کو ان مناسب مواقع سے محروم کردیتی ہے جن میں انہوں نے بچے کی غلطیوں کی اصلاح کرنی تھی۔
اسی لئے شاید رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا:

«لا يجلس الرجلُ بين الرجل وابنِه في المجلس»[السلسلة الصحيحة:3556]
''کوئی شخص مجلس میں باپ بیٹے کے درمیان حائل نہ ہو۔''
تو ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ باپ بیٹے کے درمیان حائل نہ ہوں۔ اگرچہ جتنے بھی قریبی کیوں نہ ہوں۔اور باپ پر لازم ہے کہ موقع پاتے ہی بچے کی احسن انداز سےخامیاں دور کرے اور بہتر یہ ہے کہ اپنے اور بچے کے درمیان مفارقت نہ ڈالے۔ اور مجلس کے اختتام پر باپ بچے کو مجلس کفارہ کی دعائے ماثور (مسنون دعا) یاد دلانانہ بھولے۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

«من جلس في مجلس فكثر فيه لغطه فقال قبل أن يقوم من مجلسه ذلك : سبحانك اللهم ربنا و بحمدك أشهد أن لا إله إلا أنت أستغفرك و أتوب إليك إلا غفر له ما كان في مجلسه ذلك» [البانی : صحيح الجامع الصغير وزيادته:11137]
’’ جوکسی مجلس میں زیادہ باتیں کر بیٹھے ، اسے مجلس برخاست کرنے سے پہلے کہنا چاہیے کہ،ائے اللہ !ائے ہمارے رب آپ پاک ہیں۔ آپ کی تعریف کرتے ہوئے میں گواہی دیتا ہوں صرف آپ ہی معبود برحق ہیں۔میں آپ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور آپ کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ اس مجلس میں جو بھول چوک ہوئی وہ معاف کردے۔‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
والدین سے گزارش:
یہ غیر معمولی خصائل بچوں میں بیدار کرنے کے لئے ایک مصلح باپ جب کسی مجلس سے اُٹھے تو بلند آواز سے مسنون دعا مجلس پڑھے تاکہ اس کا بچہ اس دعا کو سیکھ سکے اور اپنے باپ کے نقش قدم پر چل سکے اور یہ دعا بچے کوباقاعدہ یاد بھی کروائی جائے۔
ایک بات کا خاص خیال رکھا جائے کچھ لوگ مجالس میں بچوں کو اہمیت نہیں دیتے، بچوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں او ربعض دفعہ بچوں کو ایسی ڈراؤنی نظر سے دیکھتے ہیں کہ بچہ ڈر کے مارے الٹے پاؤں ہوجاتا ہے تو ان کو حقارت کی نگاہ سےنہ دیکھا جائے او رنہ ان کو مجلس سے دھتکارہ جائے۔ او ران کی معمولی سی حرکات سے فوراً سیخ پا نہیں ہوجانا چاہیے، جیساکہ اکثر بچے کی معمولی سے حرکت سے فوراً غیض و غضب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ بچوں کو جذبات سے عاری یا سمجھ بوجھ سے محروم نہ سمجھا جائے بلکہ موجودہ ماہرین نفسیات کے تجربات سے یہ بات معلوم ہوئی ہے بچے کے اندر بھی ایک ایسا شخص چھپا ہوتا ہے جو عزت نفس، خودداری اور انا جیسی خصلتوں سے واقف ہوتا ہے۔
ایسی صورت میں بچوں کو مجلس سےدھتکارا نہ جائے ۔ رسول اللہﷺ کی مجلس میں بھی چھوٹے بچے آج ا
آجایا کرتے تھے تو آپؐ نے ان کی حرکات سے کبھی دل میں تنگی محسوس نہیں کی تھی۔ بلکہ آپؐ بچوں کو جھک کر ملتے اور خوش طبعی سے پیش آتے اور نہایت ہی پیار سے ان کی اصلاح بھی فرما دیتے۔ حضرت حسنؓ و حسین، عبداللہ بن عمرؓ، اسامہ بن زیدؓ، ابن عباسؓ ،انسؓ یہ سب وہ بچے ہیں جن کی تربیت رسول اللہ ﷺ نے فرمائی تھی اور کبھی بےجا ڈانٹا نہیں تھا بلکہ ان کی حرکات و سکنات کی اصلاح فرماتے ہوئے خندہ پیشانی سے پیش آتے اور آپؐ ایک بات کاخاص خیال رکھتے لوگ موسم کا نیا پھل آپؐ کی خدمت میں پیش کرتے تو آپؐ سب سے پہلے بچوں میں تقسیم کرتے اس ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مربی اور مصلح والدین وہی ہیں جو آپؐ کے خصائل عالیہ کی پیروی کرتےہوئے اپنی اولاد کےساتھ حسن اخلاق سے پیش آئیں۔ یہ بات بھی ذہن میں ہونی چاہیے کہ بغیر عملی کردار پیش کئےوالدین ہزاروں جتن کرلیں لیکن بے سود اور بے فائدہ ثابت ہوں گے۔اولاد کی تربیت میں والدین کے قول و فعل اور کردار کا بنیادی اثر ہوتا ہے ۔ لہٰذا اپنے کردار کا خصوصی خیال رکھیے بعض لوگ گھروں میں کردار ، بدعملوں اور بدکرداروں جیسا رویہ اپناتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے امیدیں، پرہیزگار اولادوں جیسی رکھتے ہیں یہ سراسر نفس کا دھوکا ہے۔ اکثر بچے حد درجہ باصلاحیت ہوتے ہیں لیکن والدین کی نالائقیوں او ربداعمالیوں کی وجہ سے ضائع ہوجاتے ہیں ۔ ایک مخلص اور عقل مند والدین وہ ہی ہیں جو بچوں کی اصلاح کے لئے پہلے اپنےکردار کو درست کرتے ہیں۔پھر اپنی اولاد اور پھر معاشرے کے کردار کو بہتر بناتے ہیں۔(وما توفيقي الا بالله)
 
Top