- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
بعض صوفیاء نے کم کھانے، کم سونے، کم گفتگو کرنے اور لوگوں سے کم میل جول رکھنے کو مجاہدہ قرار دیا ہے۔ میری رائے میں اس عنوان کو درست کرنے کی ضرورت ہے یعنی معتدل کھانا، معتدل سونا، معتدل گفتگو کرنا اور معتدل میل جول رکھنا شریعت کا تقاضا ہے۔
کم کھانا اور زیادہ کھانا دونوں شریعت کا مطلوب نہیں ہیں۔ شریعت اسلامیہ نہ تو کم کھانے کا تقاضا کرتی ہے اور نہ ہی زیادہ کھانے کو پسند کرتی ہے بلکہ اس معاملے میں میانہ روی کا درس دیتی ہے۔ صوفیاء نے کہا کہ آپ کم کھائیں تا کہ اپنی شہوت کی قوت کو توڑ سکیں۔ میرے خیال میں یہ سوچ درست نہیں ہے۔ ہمیں ایسا مجاہدہ نہیں چاہیے جو ہماری جبلتوں کو ہی کمزور کر دے اور ہم اپنے نفس کو مار کر اسے فتح کریں۔ بلکہ ہمیں ایسا مجاہدہ کرنا ہے جو ہمارے نفس کو زندہ رکھتے ہوئے اسے اپنے قابو میں رکھ کر دکھا دے۔ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے ساری زندگی روزہ رکھا، اس نے روزہ ہی نہیں رکھا۔ یعنی کم کھانا اگر عبادت کی نیت اور طریقے یعنی روزے کے ذریعے سے بھی ہو تو پھر بھی ناپسندیدہ ہے۔ چونکہ مسلسل روزہ رکھنے سے نفس بھوکا رہنے کا عادی ہو جاتا ہے لہذا مجاہدہ یعنی نفس سے کشمکش بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ مجاہدہ تو اس وقت ہوتا ہے جبکہ خواہش برقرار ہو اور جبلت قائم ہو۔ جب آپ نے خواہش ہی کو مار دیا اور جبلت کو ختم کر دیا اور بھوکے رہنے کو عادت بنا لیا تو اب کیا مجاہدہ رہا؟ اور اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ کھانے کو ناپسند فرمایا ہے اور کہا کہ کافر سات آنتوں سے کھاتا ہے۔ اعتدال یہ ہے کہ خواہش کے مطابق بقدر ضرورت کھانا کھائے اور اس پر اللہ کا دل سے شکر ادا کرے۔
البتہ یہ ممکن ہے کہ کسی کو حالات کے تحت خواہش کے مطابق یا بقدر ضرورت کھانا میسر نہ ہو جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں دو دو ماہ چولہا نہیں جلتا تھا، یہ واقعاتی طور تھا نہ کہ شرعی۔ کم کھانا یہ ہے کہ کھانا میسر ہو، انسان خواہش یا ضرورت کے بقدر اس میں سے نہ لے تا کہ اپنی شہوت کو توڑ سکے تو ایسے کسی عمل کا ثبوت ہمیں آپ کی زندگی سے نہیں ملتا ہے۔ کھانا کم کھا کر اپنی لذت کو توڑنے کی نسبت زیادہ مجاہدہ اس میں ہے کہ کھانا خواہش کے مطابق بقدر ضرورت کھا کر اللہ کا شکر ادا کرے۔ اگر ہمیں دل سے شکر ادا کرنا آ جائے تو پھر شاید کم کھانے سے جو کیفیات حاصل ہوتی ہیں، تو معتدل طریقے سے کھانا کھا کر شکر ادا سے حاصل ہونے والے احوال ان پر غالب آ جائیں۔ واللہ اعلم
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا ہے جو آپ کھانا کھانے کے بعد مانگا کرتے تھے: أللھم بارک لنا فیہ وأطعمنا خیرا منہ۔ اے اللہ، ہمارے کھانے میں برکت ڈال دے اور ہمیں اس سے بھی بہتر کھانا کھلا۔
ابھی یہ موضوع جاری ہے اور اس میں کم سونے، کم گفتگو کرنے اور کم میل جول رکھنے پر بھی گفتگو ہو گی۔
کم کھانا اور زیادہ کھانا دونوں شریعت کا مطلوب نہیں ہیں۔ شریعت اسلامیہ نہ تو کم کھانے کا تقاضا کرتی ہے اور نہ ہی زیادہ کھانے کو پسند کرتی ہے بلکہ اس معاملے میں میانہ روی کا درس دیتی ہے۔ صوفیاء نے کہا کہ آپ کم کھائیں تا کہ اپنی شہوت کی قوت کو توڑ سکیں۔ میرے خیال میں یہ سوچ درست نہیں ہے۔ ہمیں ایسا مجاہدہ نہیں چاہیے جو ہماری جبلتوں کو ہی کمزور کر دے اور ہم اپنے نفس کو مار کر اسے فتح کریں۔ بلکہ ہمیں ایسا مجاہدہ کرنا ہے جو ہمارے نفس کو زندہ رکھتے ہوئے اسے اپنے قابو میں رکھ کر دکھا دے۔ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے ساری زندگی روزہ رکھا، اس نے روزہ ہی نہیں رکھا۔ یعنی کم کھانا اگر عبادت کی نیت اور طریقے یعنی روزے کے ذریعے سے بھی ہو تو پھر بھی ناپسندیدہ ہے۔ چونکہ مسلسل روزہ رکھنے سے نفس بھوکا رہنے کا عادی ہو جاتا ہے لہذا مجاہدہ یعنی نفس سے کشمکش بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ مجاہدہ تو اس وقت ہوتا ہے جبکہ خواہش برقرار ہو اور جبلت قائم ہو۔ جب آپ نے خواہش ہی کو مار دیا اور جبلت کو ختم کر دیا اور بھوکے رہنے کو عادت بنا لیا تو اب کیا مجاہدہ رہا؟ اور اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ کھانے کو ناپسند فرمایا ہے اور کہا کہ کافر سات آنتوں سے کھاتا ہے۔ اعتدال یہ ہے کہ خواہش کے مطابق بقدر ضرورت کھانا کھائے اور اس پر اللہ کا دل سے شکر ادا کرے۔
البتہ یہ ممکن ہے کہ کسی کو حالات کے تحت خواہش کے مطابق یا بقدر ضرورت کھانا میسر نہ ہو جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں دو دو ماہ چولہا نہیں جلتا تھا، یہ واقعاتی طور تھا نہ کہ شرعی۔ کم کھانا یہ ہے کہ کھانا میسر ہو، انسان خواہش یا ضرورت کے بقدر اس میں سے نہ لے تا کہ اپنی شہوت کو توڑ سکے تو ایسے کسی عمل کا ثبوت ہمیں آپ کی زندگی سے نہیں ملتا ہے۔ کھانا کم کھا کر اپنی لذت کو توڑنے کی نسبت زیادہ مجاہدہ اس میں ہے کہ کھانا خواہش کے مطابق بقدر ضرورت کھا کر اللہ کا شکر ادا کرے۔ اگر ہمیں دل سے شکر ادا کرنا آ جائے تو پھر شاید کم کھانے سے جو کیفیات حاصل ہوتی ہیں، تو معتدل طریقے سے کھانا کھا کر شکر ادا سے حاصل ہونے والے احوال ان پر غالب آ جائیں۔ واللہ اعلم
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا ہے جو آپ کھانا کھانے کے بعد مانگا کرتے تھے: أللھم بارک لنا فیہ وأطعمنا خیرا منہ۔ اے اللہ، ہمارے کھانے میں برکت ڈال دے اور ہمیں اس سے بھی بہتر کھانا کھلا۔
ابھی یہ موضوع جاری ہے اور اس میں کم سونے، کم گفتگو کرنے اور کم میل جول رکھنے پر بھی گفتگو ہو گی۔