سعودی جنگجوؤں کو وطن واپسی کے لیے 15 دن کی مہلت
سعودی حکومت نے شام میں باغیوں کے شانہ بشانہ لڑنے والے دو گروپوں کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے شام میں برسرِ پیکار سعودی شہریوں کو لڑائی چھوڑ کر وطن واپس آنے کے لیے 15 دن کی مہلت دی ہے۔
سعودی وزارتِ داخلہ نے شامی باغیوں کی جن دو تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا ہے ان میں 'جبتہ النصرہ' اور 'دولت اسلامیہ فی العراق و شام' شامل ہیں۔
سعودی بادشاہ کی جانب سے گذشتہ ماہ جاری ہونے والے ایک فرمان میں کہا گیا تھا کہ کوئی بھی سعودی شہری کسی غیر ملک میں جاری لڑائی میں حصہ لیتا پایا گیا تو اسے قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
اس وقت شام میں جاری لڑائی میں سینکڑوں سعودی جنگجو حصہ لے رہے ہیں اور نامہ نگاروں کے مطابق اگرچہ سعودی عرب شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف سنّی العقیدہ باغیوں کی بغاوت کا حامی ہے لیکن سعودی حکام کو خدشہ ہے کہ یہ جنگجو وطن واپسی پر ملکی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
گذشتہ ماہ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے اپنے فرمان میں کہا تھا کہ بیرونِ ملک جنگ میں حصہ لینے یا 'دہشت گرد گروہوں' سے روابط پر کسی بھی شہری کو 20 برس قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔
اس نئے قانون کے تحت ایسی تنظیموں کی حمایت کرنے پر سخت پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں۔
تاہم حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس قانون پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ اسے پرامن سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سعودی عرب نے شام میں لڑنے والی باغی تنظیموں کے علاوہ مصر کی اخوان المسلمین کو بھی باقاعدہ طور پر دہشت گرد تنظیموں کی سرکاری فہرست میں شامل کیا ہے۔
اخوان المسلمین پر پہلے ہی سعودی عرب میں پابندی عائد ہے اور حال ہی میں سعودی عرب نے اس تنظیم کے اہم حامی سمجھے جانے والے خلیجی ملک قطر سے اپنا سفیر بھی واپس بلایا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمین کے قدامت پسند سنّی نظریات سعودی وراثتی بادشاہت کے اصول سے متصادم ہیں۔
ہفتہ 8 مارچ 2014