ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
مجموع فتاویٰ لابن تیمیہ میں علومِ قرآن
قاری محمد اِبراہیم میر محمدی
مرتّب: محمد مصطفی راسخ
مرتّب: محمد مصطفی راسخ
اَئمہ اسلاف میں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ وہ متعدد کتب کے مصنف ہیں اور اہل علم کے ہاں ان کی آراء کو معتبر خیال کیا جاتاہے، اہل سنت والجماعت کے تمام مکاتب ِفکر ان کے نقطہ نظر کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ میں انہوں نے مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے متعدد علوم کے ساتھ ساتھ قراء اتِ قرآنیہ کی حجیت، قراء اتِ قرآنیہ سے استدلال، منکرین قراء ات کا حکم، قراء ات شاذہ کی شرعی حیثیت، ضبط القرآن، رسم القرآن، جمع القرآن، تجوید القرآن، حفاظتِ قرآن اور آدابِ تلاوت وغیرہ جیسے موضوعات کو بالتفصیل بیان کیا ہے۔ امام صاحب نے تقریباً چار مختلف مقامات پر حجیت ِقراء ات کے حوالے سے گفتگو کی ہے، جس میں انہوں نے حدیث ’’ أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلـٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ ‘‘ (صحیح البخاري: ۴۹۹۲) کی وضاحت، نماز میں قراء اتِ مختلفہ کی تلاوت اور قراء اتِ عشرہ کو جمع کرکے پڑھنے کے بارے میں تفصیلی بحث کی ہے۔
اسی طرح انہوں نے مختلف سوالات کے جواب دیتے ہوئے تقریباً بیس (۲۰) مختلف مقامات پر اپنے موقف کی تائید میں قراء اتِ قرآنیہ سے استدلال کیا ہے۔ رُشد کے گذشتہ شمارہ قراء ات نمبر حصہ دوم میں ہم نے ’’آئمہ اسلاف اور عرب مفتیان کے فتاویٰ‘‘ نامی مضمون میں امام ابن تیمیہ کے حجیت ِقراء ات کے حوالے سے تفصیلی فتاویٰ کا ترجمہ پیش کیا تھا۔ اس مضمون کے چھپ جانے کے بعد اُستاد القراء قاری محمد ابراہیم میر محمدی﷾ نے مجموع فتاویٰ میں موجود علوم قرآن اور قراء اتِ قرآنیہ پر مشتمل ابحاث کے حوالے سے تفصیلی مواد ہمیں ارسال کیا جو انہوں نے کچھ عرصہ قبل پورے مجموع فتاویٰ کے مطالعہ سے منتخب کیا تھا۔ اس کو تفصیلاً نقل کرنا تو مشکل ہے، کیونکہ یہ تقریباً چار سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اختصار کے پیش نظر مجلس التحقیق الاسلامی کے فاضل رُکن قاری محمد مصطفی راسخ نے ان ابحاث کا اشاریہ تیار کر دیا ہے تاکہ قارئین براہ راست مجموع فتاویٰ سے استفادہ کرسکیں۔ (اگر اللہ نے موقع دیا تو تفصیلی ابحاث بھی اِن شاء اللہ بعد میں کبھی شائع کردی جائیں گی)
ہم علومِ قرآن سے متعلق ان تمام ابحاث کا اشاریہ قارئین کے سامنے پیش کر رہے ہیں تاکہ عوام بھی اس بیش قیمت خزینہ سے مستفید ہو سکیں۔ مجموع فتاویٰ کا مطالعہ کرنے سے قارئین کو اندازہ ہوگا کہ امام صاحب نہ صرف قراء اتِ قرآنیہ کے عالم تھے بلکہ وہ متعدد فقہی مسائل میں ان سے استدلال بھی کیا کرتے تھے۔ (ادارہ)