ام نور العين
رکن
- شمولیت
- جولائی 31، 2011
- پیغامات
- 67
- ری ایکشن اسکور
- 263
- پوائنٹ
- 71
بسم اللہ الرحمن الرحيم
كتب احاديث کی ورق گردانى كرتے گنہ گار نگاہیں كچھ مبارك روشن لفظوں پر جا ٹھہریں ۔۔۔۔ اور نجانے كيوں سارا منظر نمكين دھند کی لپيٹ ميں آگیا۔۔۔" أكمل المؤمنين إيمانا أحاسنهم أخلاقا الموطؤون أكنافا الذين يألفون و يؤلفون ، و لا خير فيمن لا يألف و لا يؤلف " ."مومنوں ميں سے سب سے مكمل ایمان والے وہ لوگ ہیں جو سب سے اچھے اخلاق والے ہیں، نرم خو، جو لوگوں كو چاہتے ہیں اور چاہے جاتے ہیں، اور اس شخص ميں كوئى خير نہیں جو نہ لوگوں کو چاہے نہ چاہا جائے"۔(درجہ حديث حسن، السلسلہ الصحيحہ اللشيخ الألباني رحمہ اللہ)
رحمت للعالمين ( ميرے ماں باپ اور اولاد آپ پر قربان) صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك اور مرتبہ فرمايا: " المؤمن يألف و يؤلف و لا خير فيمن لا يألف ، و لا يؤلف و خير الناس أنفعهم للناس " . مومن محبت كرنے والا اور لوگوں ميں محبوب ہوتا ہے، اور اس شخص ميں كوئى بھلائى نہیں جو نہ محبت كرتا ہو، نہ لوگوں ميں محبوب ہو۔ اور انسانوں ميں سے بہترین وہ ہے جو انسانوں كو فائدہ پہنچائے۔(درجہ حديث صحيح، السلسلہ الصحيحہ للعلامہ الالباني رحمہ اللہ)
ان احاديث مباركہ كو پڑھ كر ضمير نے اتنے کڑے احتساب كے کٹہرے ميں لا کھڑا كيا ہے كہ شايد برسوں جواب بن نہ پڑے،ندامت سے جھکا سر نہ اٹھے ۔۔۔ ہم اسلام وايمان كے دعوے دار دنيا جہان كى اصلاح سے فراغت پائيں تو كبھی اپنے نفس كى بارى آئے؟
ہم جو كہ اسلام كا دعوى ركھتے ہیں ۔۔۔ مگر جن كے چہرے اپنے بہن بھائيوں كى خوشى ديكھ كر كِھلنے كى بجائے مرجھا جاتے ہیں اور مبارك باد كے دو لفظ كہنا دشوار ہو جاتے ہیں؟
ہم جو ايمان مجمل ومفصل كى تمام تر تفاصيل ميں ہمہ وقت نيم پختہ علم كى بنياد پر دھواں دھار مباحثے كرتے ہیں ۔۔۔ كسى مسلمان بہن بھائى كى بپتا سن كر ہمیں ہمدردى يا ہمت افزائى كے دو حرف كہنا دو بھر ہوجاتا ہے؟
ہم جو دوسروں کے لیے سراپا اعتراض، تنقيد اور نشترِ اصلاح بن كر جيتے ہیں ۔۔۔ كسى كى اچھی تحرير ، اچھی سوچ يا نماياں كاميابى کا علم ہونے پر ہمارى زبانيں گنگ ہو جاتى ہیں، جذبے سرد پڑ جاتے ہیں۔ تہنیت کے چند کلمے ادا نہیں ہو پاتے؟
ہم جنہیں بتايا گيا ہے كہ مناصب واختيار امانت ہوتے ہیں اور امانتيں ان كے حق داروں تك پہنچانے کا امر كيا گیا ہے ۔۔۔ ہم جب بڑے بڑے منصبوں پر پہنچ جاتے ہیں تو ظرف كو بڑا بنانا ايسا بھولتے ہیں كہ خود سے كم عمر، كم منصب، كم علم افراد ميں صلاحيتوں كى بو پاتے ہی ان كو اپنا حريف سمجھ بيٹھتے ہیں؟ ان کی حوصلہ شکنی شعار بنا لیتے ہیں؟
ہم جنہیں لعن طعن اور بدگوئی سے روكا گیا تھا ۔۔۔ ہمہ وقت لعنت اور طعنہ زنى كو شعار بنائے بیٹھے ہیں یہ سوچے بنا كہ سياہ راہوں كے بھٹکے مسافر دعائے ہدايت كے زيادہ حق دار ہیں؟
ہم جو كہ اسلام جيسے آفاقى پیغام كے داعى بن كر نكلتے ہیں ۔۔۔ مگر ہمارى محدود سوچوں كا پنچھی اپنے خاندان، اپنے احباب، اپنےشہر، اپنی رياست اور اپنے اپنے ملكوں كے پنجروں كى قيد سے باہر نہیں نكلتا؟
ہم جو برائيوں سے روكنے اور نيكيوں كا حكم دينے كا حلف اٹھا كر ميدان دعوت ميں نکلے تھے ۔۔۔ ہمارا پسندیدہ منصب، من چاہا اختيار اور ہمہ وقت مدح ميں رطب اللسان احباب ہمارے ساتھ ہونے كى شرط پوری نہ ہو تو ہم مقدس حلف بھی توڑ ديتے ہیں؟
ہم جو نشانِ سلف صالح ہونے کے دعویدار ہیں ۔۔۔ مگر ہمارے دل اتنے چھوٹے اور اخلاق اتنے كج ہیں كہ اپنی تحريروں ميں دوسروں كى تحريروں سے پیوند كارى كرتے وقت صاحب تحرير كا شكريہ تك ادا نہیں كرتے؟
كيا كبھی دوسروں كو ايمان ،اسلام، كردار اور جنت سے محرومى كے سرٹیفیکیٹ بانٹتے ہمارى نظر اپنے ہاتھوں پر بھی پڑے گی جو اخلاق ،محبت ، سچائى، شائستگی، وقار اور مروت كے خون سے رنگے ہیں؟
ہم جنہیں لوگوں كو چاہنے كى ترغيب دى گئی ہے۔۔۔ بد اخلاقى، بدگمانی، بد گوئى اور نفرت كا تيغ و خنجر اور بھالے سنبھالے ہم ہر اس غافل و معصوم انسان پر پیٹھ پیچھے سے بے دريغ وار كرتے ہیں جس كا عقيدہ مختلف ہو، جس كا علم كم ہو، جو ان جان ہو،جس كى زبان، علاقائى يا تہذیبى شناخت مختلف ہو يا بقول ہمارے "جونجانے كيوں ہمیں زہر لگتا ہو" ، لوگوں كا مذاق اڑانے كے ليے ان كا نام بگاڑنے سے لے كر اپنامنہ بگاڑنے اور بے ہودہ لطيفے گھڑنے تك ہر كام كر گزرتے ہیں؟
ہماری جبينوں پر چمکتے سجدوں كےان نشانوں كا كيا فائدہ جب ہمارے دماغ بدگمانيوں سے بھرے ہوں ، سوچوں ميں نفرت كا زہر بھرا ہو اور احباب كى مجلسيں دوسرے انسانوں کی غيبت کی سياہیوں سے آلودہ ہوں؟
اے اہل ايمان، اے اہل كردار، اے اہل اسلام !
جب كبھی ڈھیروں ڈھیر انسانوں کے جذبات، احساسات كا خون كر كے، دوسروں کے كردار اور ايمان كے متعلق بد گوئی، بہتان تراشى، چغلی، غيبت كى مردار خورى كے بعد كبھی فرصت كے دو چار لمحے ميسر آئیں تو سوچنا گوارا كيجيے کہ وہ كيا بات تھی كہ رحمت للعالمين كا لقب اس خاتم الرسل صلى اللہ عليہ وسلم كو عطا ہوا، جس كى امت ہونے كا دعوى ہم رکھتے ہیں؟
اس امت كى وہ پہلی نسليں جن كے متعلق زبان اطہر نے بہترین ہونے كی گواہی دی ان كے كردار و اخلاق سے ہمارے نامہ اعمال تك كتنى سياہ صديوں كا فاصلہ ہے؟
كيا اس معيارِ اخلاق كے ساتھ ہم جہاں گیری،جہاں دارى، جہاں بانى اور جہاں آرائى كا منصوبہ رکھتے ہیں؟
اسلامى نظام حكومت قائم كرنے كى خواہش ميں خوش بيانيوں كا انبار لگانا بہت آسان ہے مگر اسلامى نظامِ اخلاق و مروت و احسان كا نمونہ نظر آنا مشكل ۔۔۔
كون صاحبِ دل ہے جو آج سے انسانوں كو چاہنے اور اپنا بنانے كا مقصد لے کر اٹھے اور اپنے ايمان كى تكميل كا سوچے؟ كوئى ہے جوانسانوں سے غير مشروط محبت كے معاملے ميں اپنے رسول رحمت (صلى اللہ عليہ وسلم ) كا امتى ہونے كا حق ادا كرے؟
کبھی اے نوجواں مسلم! تدّبر بھی کیا تونے؟
وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سردارا
تمدّن آفریں، خلاّق آئینِ جہاں داری وہ
صحرائے عرب، یعنی شتربانوں کا گہوارا
سماں الفقر فخری کارہا شان امارت میں
"بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبارا"
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرانشیں کیا تھے
جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیّل سے فزوں تر ہے وہ نظّارا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت، وہ سیّارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثرّیا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا