• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مجھے تم سے محبت ہے

شمولیت
مئی 14، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
46
مجھے تم سے محبت ہے
.........................................
✍ عبيد الله الباقي أسلم
........................................
محبت ایک ایسے پاکیزہ جذبے کا نام ہے؛ جو انسانی زندگی میں ایک محرک کا کردار ادا کرتا ہے.
یہ مقدس جذبہ بالکل اس صاف و شفاف پانی کی طرح ہے؛ جو کسی بھی رنگ کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جذبہ محبت کا معنی: جگہ، لوگ، اور ماحول کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے...
امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :" یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کے اندر قائم ہوتا ہے، وہ بھی اس کی تعبیر نہیں کر سکتا ہے[فتح الباري:10/462-463].
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :" محبت کی حقیقت یہ ہے کہ: محبوب کی (ہر) پسند میں موافقت حاصل ہو، لہذا ہر اس چیز کو پسند کرنے لگے؛ جو اس کے محبوب کی پسند ہو"[طريق الهجرتين:1/404].
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:"محبت دل میں ایک درخت (کی مانند) ہے، جس کی جڑیں محبوب کے لئے انکساری ہے، اور اس کی شاخ اس کی معرفت ہے، اور اس کی ٹہنیاں اس کی خشیت ہے، اور اس کی پتیاں اس کی حیا ہے، اور اس کا پھل اس کی طاعت ہے، اور اس کی سینچائی کا مادہ اس کا ذکر ہے، جب بھی محبت ان میں سے کسی بھی چیز سے خالی ہو، وہ ناقص محبت کہلائے گی"[روضة المحبين:1/409].
یہ ہے محبت کی حقیقت، مگر آج جس محبت کے نام پر بیہودہ کھیل کھیلا جا رہا ہے؛ اس سے تو بے حیائی بھی شرما جائے.
معاشرے پر طائرانہ نظر ڈالیں تو آئے دن محبت کے نام پر مختلف کہانیاں سنائی دیتی ہیں:
* تین بچے کی ماں ایک بے روزگار نوجواں کے ساتھ بھاگ گئی.
* ایک نوجوان لڑکی ساٹھ سالہ بڈھے کے ہمراہ فرار ہوئی.
* دو نوجوان جوڑوں نے بھاگ کر شادی رچائی.
* فلاں کی سترہ سالہ لڑکی اور فلاں کا نوجوان لڑکا چند دنوں سے لا پتہ ہیں.
* فلاں کی بیٹی شادی کے محض ایک دن قبل فلاں لڑکے کے ساتھ بھاگ نکلی.
اور ان ساری کہانیون کے پیچھے عموماً ایک ہی جملہ کارفرما ہوا کرتا ہے"مجھے تم سے محبت ہے".
اس پالگل پن کی رو میں بہ کر ایسی بے شمار داستانیں روزانہ جنم لیتی ہیں، اور یہ زہر آہستہ آہستہ معاشرے کی ساخت میں سرایت کرتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے شیطان لعین کو مسکرانے کا ایک حسین موقع فراہم ہو چکا ہے.
اس بے جا محبت کے نام پر نہ جانے کتنے گھرانے اجڑ گئے، کتنے افراد ہلاک ہوئے، کتنے نوجوان راہ راست سے بھٹک گئے، اور کتنے خاندانوں کے درمیان عداوت و دشمنی کے کانٹے گاڑ دیئے گئے...
آخر یہ کیسی بلا ہے؟
کہاں سے اسے فروغ مل رہا ہے؟
کیا واقعی اسی کا نام پیار ہے؟
کیا سچ میں جذبہ محبت اس کی اجازت دیتا ہے؟
اگر اس کا جواب اثبات میں ہے؛ تو پھر ہر شخص خود ہی سے یہ سوال کرے :
کیوں نہیں کوئی باپ اپنی بیٹی کے لئے، کوئی بھائی اپنے اپنی بہن کے لئے، اور کوئی شوہر اپنی بیوی کے لئے یہ نازیبا حرکت برداشت کرتا ہے؟!
کیونکہ انسانیت کی عدالت اسے جائز قرار نہیں دیتی ہے، یہ شرفاء کی پہچان نہیں ہوسکتی ہے، اسے مہذب گھرانے کے لوگ برداشت نہیں کر سکتے ہیں...اسی لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلی فرصت میں معاشرے سے اس نازیبا کرتوت کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا جائے، ان بے حیائی حرکتوں سے نئی نسل کو باز رکھا جائے، ساتھ ہی ساتھ اس بات کی تلقین کی جائے کہ گلستانِ محبت کی سینچائی کے لئے ایک خاص قسم کے مادوں کی ضرورت ہے، باغِ محبت کے مخصوص پیڑوں کے پھل ہی ذائقہ دار ہوا کرتے ہیں، اور اس شجرہ محبت کے ان ہی پھولوں کو توڑا جا سکتا ہے؛ جن کی خوشبوؤں کا احساس بڑا ہی الگ ہوا کرتا ہے...
فطری طور ہر کسی کے دل میں جذبہ محبت کی جنگاری جل سکتی ہے، کسی کی ادا بھا سکتی ہے، کسی کے اخلاق و عادات، اعمال و کردار اچھے لگ سکتے ہیں، کسی جنس مختلف کا خیال دل میں آسکتا ہے، اور اسے شریکہ حیات بنانے کا خواب بھی دیکھا جا سکتا ہے... مگر اس پاکیزہ جذبہ کے لئے چند ایسے اصول ہیں؛ جنہیں اپنانا ضروری ہے.
صرف دین اسلام ہی فطرت سلیمہ کے عین موافق ہے؛ یہی وجہ ہے کہ وہ دوسرے شعبہائے زندگی کی طرح اس باب میں بھی رہنمائی کرتا ہے، اور راہ محبت کے مسافروں کے لئے ان بنیادی اصولوں کو لازم قرار دیتا ہے:
* اللہ و رسول کی محبت تمام لوگوں کی محبت پر مقدم ہے؛ لہذا اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے؛ انہیں زندگی میں نافذ کیا جائے، اور جن چیزوں سے منع کیا ہے؛ ان سے اجتناب کیا جائے.
* محبت الہی میں کسی کی شراکت قابل برداشت نہیں ہے؛ کیونکہ یہ عظیم محبت صرف اللہ کے لئے خاص ہے، اور یہی محبت بندے کو اس کے رب کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کرتی ہے، اور پھر جو بھی عبادت اپنے معبود حقیقی کے لئے انجام دیتا ہے؛ اس کے تئیں اسے ایک طرف عدم قبولیت کا خوف ستاتا ہے، تو دوسری طرف وہ کبھی بھی امید کا دامن نہیں چھوڑتا ہے، اور اسی لئے کہتے ہیں کہ: محبت، خوف، اور امید ہی عبادت کے اہم ارکان ہیں.
* طبیعی محبت کے مجالات مفتوح ہیں، مگر اس باب میں بھی کسی بھی صورت میں خواہشات نفسانی کی کوئی گنجائش نہیں ہے؛ ماں باپ، بیوی بچے، استاذ شاگرد، کھانے پینے، اور دیگر اشیاء کی محبت ایک فطری امر ہے؛ مگر محبت کے اصولوں کو ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے.
* اللہ عزوجل جن صفات کو پسند فرماتا ہے؛ انہیں اپنائی جائیں؛ تقوی شعاری، پرہیزگاری، انصاف پسندی، احسان و خیر خواہی، توبہ و انابت الہی، طہارت و پاکیزگی، راہ الہی میں سرفروشی، نبی علیہ السلام کی اطاعت و فرماں برداری جیسی صفات کو رب العالمین خوب پسند کرتا ہے؛ لہذا ان عظیم صفات سے متصف ہونے کی کوشش کی جائے، جس سے ان شاء اللہ ہم بھی اللہ عزوجل کے نزدیک محبوب بن سکتے ہیں.
* جن لوگوں سے رب محبت کرتا ہے، ان ہی سے محبت کی جائے؛ لہذا مؤمنوں، اور اللہ کے دوستوں سے دوستی و محبت کا تعلق رکھا جائے، مگر کفار و مشرکین اور اللہ کے دشمنوں سے اللہ اور اس کے دین کی خاطر دشمنی و عداوت کا جذبہ رکھا جائے، ساتھ ہی ساتھ قومی وملی، اور ملکی مصالح کی صورت میں اسلامی اصولوں کا پورا خیال رکھا جائے.
راہ محبت میں مذکورہ اصولوں کا التزام کیا جائے، جس سے معاشرے میں محبت کی ایک ایسی روحانی فضا قائم ہوگی؛ جہاں اس جذبہ محبت کو فروغ ملے گا، ایک ایسا ایمانی ماحول پیدا ہوگا؛ جہاں لوگ محبت الہی کی خاطر مرنے مٹنے کے لئے تیار ہوں گے، ایک ایسا پرچم لہرایا جائے گا؛ جس کے سائے تلے ایمان اور اہل ایمان کی قدردانی ہوگی، اور اسی رشتہ ایمان کے سر چشمے کے ذریعہ اتحاد و اتفاق، اخوت و بھائی چارگی، رافت و رحمت، اور محبت و الفت جیسے پاکیزہ جذبات کی آبیاری ہو گی، ان شاء اللہ، پھر آسانی سے ایک دوسرے کو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ "إني أحبك في الله".
رب سے میری یہی "تمنا" اور دعا ہے کہ آئے اللہ! ہم سب کو ایک بنا دے، نیک بنا دے، پکے اور سچے مسلمان بنادے، اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنے والے بنادے.
آئے اللہ! ہمیں بھی اتفاق و اتحاد، اور رشتہ ایمانی کی رسی میں مضبوطی سے باندھ دے، محبت الہی، اور اطاعت رسول کے شیدائی بنا دے، جب تک زندہ رکھ اسلام و توحید پر باقی رکھ، اور خاتمہ ہو تو خاتمہ بالخیر والإيمان کی توفیق عطا فرما، آمین یارب العالمین.
 
Top