محمد عاصم
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 10، 2011
- پیغامات
- 236
- ری ایکشن اسکور
- 1,027
- پوائنٹ
- 104
عمران اسلم بھائی ڈاکٹر صاحب نے اس ویکسین کے خلاف بات کرکے اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا ہے؟؟؟ بھائی جان ڈاکٹر صاحب نے کیا آپ کے سامنے لیباٹری رپورٹ بھی رکھی تھی کہ نہیں؟؟؟عاصم بھائی آپ نے پولیو ویکسین سے متعلق جو سوالات اٹھائے ہیں وہ واقعتاً اہمیت کے حامل ہیں۔ لیکن میری اس حوالے سے تین ڈاکٹرز سے بات ہوئی ہے۔ جن میں سے ایک کا مذہب کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔(ان میں سے ایکPEADSایسوسی ایٹ پروفیسر چائلڈ سپیشلسٹ مئیو ہسپتال ہیں) ان سب کا کہنا تھا کہ بچوں کو پولیو ویکسین پلانی چاہیے اس میں کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے جو افواہیں پھیلائی جاتی ہیں وہ صرف خیالی باتیں ہیں۔
اصل میں کافروں کے ایجنٹ حکمران اس کی اصلیت سے ڈر گے ہیں کہ اب عوام کو کیا منہ دیکھائیں گے مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ ایک بہت بُری اور خطرناک سازش ہے اس بارے ندائے ملت میں بھی رپورٹ سامنے آچکی ہے کہ یہ سب کافروں کا آبادی کنٹرول پروگرام ہے مجھے وقت ملا تو اُس رپورٹ کی موبائل میں تصاویر بناکر آپ کے ساتھ شئیر کرنگا ان شاءاللہ
باقی آپ یہ بھی مطالعہ کریں
کیا پولیو کے قطرے پلانے سے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہےَ؟ کیا بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے چائیں؟
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایک روز قبل پولیو کے خاتمہ کیلئے مہم شروع کی گئی تھی تاہم عالمی ادارہ صحت کے 5کارکنوں کی ہلاکت کے باعث یہ مہم موخر کر دی گئی ہے آج بھی پشاور میں عالمی ادارہ صحت کے دو کارکنوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عالمی صحت کے انسداد پولیو مہم کے کارکنوں کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ؟
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں پولیو مہم زورشور سے جاری ہے۔ پولیو کے قطرے پہلے پانچ سال میں ایک دفعہ بچوں کو پلائےجاتے تھے پھر اس کے بعد ہر سال بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جانے لگے۔ اب ہر تین ماہ بعد بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔علاقائی مرکز صحت کےکارکن گھر گھر جا کرپوچھتے ہیں کہ آپ کے گھر میں بچے ہیں تو ان کو پولیو کے قطرے پلائیں۔ اگر گھر میں بچوں کو قطرے پلائے جاتے ہیں تو پھر گھر کے باہرمرکز صحت کے کارکن نشان لگا دیتے ہیں اور جو والدین بچوں کو پولیو کےقطرے نہیں پلاتے انہیں یہ کارکن مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو ہر حال میں یہ قطرے پلائیں۔بصورت دیگر انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ مرکز صحت جا کر وضاحت کریں کہ وہ بچوں کو قطرے کیوں نہیں پلاتے۔یہ امر باعث حیرت ہےکہ پاکستان میں پولیو سے بچوں میں ہلاکتوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ دیگر بیماریوں ہیپاٹائٹس ، تھلیسمیہ انفولنزا وغیرہ کے سبب بچوں کی ہلاکتیں زیادہ ہیں۔لیکن سرکاری سطح پر ان بیماریوں سے بچنے کیلئے ان بڑے پیمانے پر مہم نہیں چلائی جاتی جتنی پولیو کی مہم چلائی جاتی ہے۔اب سےکچھ عرصے پہلے وزارت بہبود آبادی کی جانب سے پولیوں کے قطرے پلانے کی مہم کے اشتہارات میڈیا پر نشر کئے جاتے تھے۔ جب لوگوں کے علم میں یہ بات آئی کہ پولیو کےقطرے پلانے کی مہم سے وزارت بہبود آبادی کا کیا تعلق یہ تو وزارت صحت کا کام ہے تو شہریوں میں تشویش پیدا ہوئی اور پھر یہ افوا پھیلتی چلی گئی کہ پولیوں کےقطرے پلانے کا مقصد بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانا ہے۔اور پولیو کے قطروں کے ذریعے بچے پیدا کرنے والے جراثیم کم کرنا ہے۔ خیبر پختون خوا میں عوام بچوں کو پولیو کے
قطرے نہیں پلاتے اور مرکز صحت کے کارکنوں کومار بھگاتے ہیں۔ تاہم عالمی مرکز صحت کی صرف پولیو میں بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے باعث عوام میں تشویش پائی جاتی ہے۔اور یہ رائے پختہ ہوتی جا رہی ہےکہ پولیو کی مہم پرجو خاص زور دیا جا رہا ہے اس کی وجہ صرف بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانا ہے اور اس کے لیے مردوں اور عورتوں میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کو کم کرنا ہے۔ شہری ایس ایم ایس کے ذریعہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو آگاہ کر رہے ہیں کہ وہ سافٹ ڈرنکس ماونٹین ڈیو، انرجی ڈریکس اسٹینگر پیپسی اور کوکا کولا نہ پیں ان کے پینے سے صرف لڑکیا ں ہی پیدا ہونگی