*تزکیہ نفس*
آج ہم غیبت پر
*ابھارنے والے اسباب* پر بات کریں گے..
غیبت کرنے کی سب سے بنیادی وجہ یہ ہے کہ *ہمیں کسی کی بات سن کر یا اس کا کام دیکھ کر غصہ آ جاتا ہے*،، اور غصہ میں بھڑک کر ہم اس انسان کی غیبت کر کے اپنا دل ٹھنڈا کرتے ہیں.
اپنی سہیلیوں،، رشتہ داروں اور میل جول کے مختلف افراد کا ساتھ دینا اور ان کو اپنے سے راضی رکھنے کی کوشش کرنا بھی غیبت کی وجہ بنتی ہے،، کہ *جب وہ کسی کی برائی کر رہے ہوتے ہیں یا کسی کا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم ان کی بات سے اختلاف کریں گے یا ان کو اس کام سے روکیں گے تو وہ ناراض ہو جائیں گے...* اور ہم ان کا ساتھ دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم کسی کو ناراض نہ کر کے *اچھے اخلاق* کا مظاہرہ کر رہے ہیں..
غیبت کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم کسی کی برائی کر کے اس کو کم تر اور اپنے آپ کو بلند تر ثابت کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں..
جیسے کہ
*فلاں جاہل ہے،، اس کو تو کسی بات کا پتہ ہی نہیں ہوتا،، پہننے اوڑھنے کا سلیقہ ہی نہیں ہے،، کھانے کی تمیز نہیں ہے،، وغیرہ وغیرہ*. اور یہ سب کہنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنی فضیلت یا بڑائی کو بیان کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ مجھے سب پتہ ہے،، جو مجھے علم ہے وہ اس کو نہیں ہے..
بعض دفعہ ہم صرف
*لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے،، ان کو خوش کرنے کے لیے انجوائے منٹ،، تفریحِ طبع یا مذاق کے نام پر*
کسی کا تذکرہ اس انداز سے کرتے ہیں کہ وہ سن کر ہنستے ہیں.
بعض دفعہ انسان *حسد کے جذبے سے مغلوب ہو کر* غیبت کرتا ہے. وہ اس طرح کہ جب لوگ کسی کی تعریف کرتے ہیں،، یا اس کی عزت کرتے ہیں یا اس سے محبت کا اظہار کرتے ہیں...
تو انسان اس شخص کی برائیاں بیان کرنا شروع کر دیتا ہے تاکہ لوگوں کے دلوں سے اس شخص کی محبت،، عزت یا پسندیدگی ختم ہو جائے..
کئی دفعہ جب ہم بور ہو رہے ہوتے ہیں تو اپنی *بوریت کا علاج لوگوں کے برے تذکرے سے کرتے ہیں..* اور *مردار گوشت سے اپنے پیٹ کو بھرتے ہیں..*
اور کئی دفعہ تو صرف *گفتگو کا تسلسل جاری رکھنے کے لیے،، زیادہ بولنے کے شوق کے ہاتھوں* کسی کی برائی شروع کر دیتے ہیں.
اور چونکہ
شیطان ان چیزوں سے بہت خوش ہوتا ہے تو اس میں ایسی لذت محسوس ہوتی ہے کہ گھنٹوں کے گزرنے کا بھی پتہ نہیں چلتا..
بعض دفعہ ہم کسی کے بارے میں جو بات کر رہے ہوتے ہیں بذات خود وہ بات اتنی بری نہیں ہوتی لیکن *ہمارا بات کرنے کا طنزیہ،، یا مزاحیہ،، یا مذاق اڑانے والا یا تحقیر آمیز انداز اس کو نہایت نامناسب بنا دیتا ہے،،* کہ جس شخص کی وہ بات ہے اسے اگر معلوم ہو جائے تو اسے بے حد ناگوار گزرے.. اور *غیبت اپنے بھائی یا بہن کا ایسا تذکرہ ہی تو ہے جو اسے برا معلوم ہو..*
یوں ایک چھوٹی سی بات ہمارے نامناسب رویے اور انداز کی وجہ سے بڑی برائی یعنی غیبت میں تبدیل ہو جاتی ہے..
اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو ہم روزمرہ کی بنیاد پر اکثر ہی اس قسم کی غیبت میں مبتلا ہوتے ہیں.. ذرا سوچیں کہ کیا ہم ہمیشہ دوسروں کی بہت بڑی بڑی خامیاں اور برائیاں بیان کرتے ہیں؟؟ انھوں نے زندگی میں جو چار،، چھ یا دس دفعہ ہم سے زیادہ برا رویہ رکھا یا ہمیں نقصان پہنچایا صرف وہی کسی کو بتاتے ہیں یا روزانہ کی چھوٹی سی چھوٹی بات بھی کسی کو برے اور منفی انداز میں بتائے بغیر نہیں رہ پاتے؟؟
آج خود *اپنا محاسبہ* کرنا ہے،، اور اوپر بیان کی گئی وجوہات میں سے تلاش کرنا ہے کہ میرے لیے غیبت کا محرک کیا بنتا ہے..؟؟ کیونکہ اگر وجہ سمجھ آ جائے تو علاج بھی آسان ہو جاتا ہے..
*مریم جمیلہ علوی.....*