- شمولیت
- اگست 28، 2019
- پیغامات
- 69
- ری ایکشن اسکور
- 12
- پوائنٹ
- 56
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محبت رسول اور صحابہ
محبت رسول اور صحابہ
ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی
الحمدللہ ورب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،امابعد:
محترم سامعین!
جیسا کہ ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے اور ہمیں اس بات کا مکلف بنایا ہے کہ ہم اپنی جان ومال، اپنی آل واولاد ،اپنے خاندان اور اپنی ساری کائنات سے زیادہ ہم اپنے نبیﷺ سے محبت کریں مگر افسوس صد افسوس اور بڑے ہی شرم وعار کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج ہمیں اللہ اور اس کے رسول سے زیادہ اپنی جان اور اپنے مال ومنال اور اپنی آل واولاد سے محبت ہے،آج ہم اس محبت میں کوتاہ ہیں جومحبت ہمارے اوپر فرض اور واجب ہےمگر آپ کو یہ سن کر بڑی حیرانی ہوگی کہ اس روئے زمین پر کچھ ایسی مخلوق بھی ہیں جوبے جان ہیں اور اس پرآپﷺ کی محبت فرض اورواجب بھی نہیں ہے مگر اسے بھی آپﷺ سے محبت تھی۔سبحان اللہ۔ہمیں تو حکم بھی دیا گیا اور ہمارے اوپر آپﷺ کی محبت کوفرض وواجب بھی قراردی گئی مگر اس مخلوق کو نہ تو حکم ہوا اور نہ ہی اس کے اوپر آپﷺ کی محبت کو فرض وواجب قرار دی گئی مگر اسے بھی آپﷺ سے بے پناہ محبت تھی،اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسی کون سی بے جان مخلوق ہے جسے آپﷺ شدید محبت تھی تو وہ مخلوق جمادات میں سےایک پتھروں کا پہاڑ ہے اور نباتات میں سےایک لکڑی کا ٹکڑا ہےجیسا کہ خادم رسول سیدنا انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ایک دن آپﷺ نے احد پہاڑ کو دیکھ کر فرمایا ’’ وَهَذَا أُحُدٌ وَهُوَ جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ ‘‘ یہ احد پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتاہے اور ہم بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ (مسلم:1392،بخاری:7333)یہ تو آپ نے ایک بے جان پتھر کے بارے میں سنا کہ اس کوبھی آپﷺ سے محبت تھی ،اب ایک دوسری حدیث ایک بے جان لکڑی کے بارے میں سنئے کہ ایک لکڑی کو بھی آپﷺ سے کتنی شدید محبت تھی کہ جب اسے آپﷺ سے جدا کیا گیا تو وہ بچے کی طرح بلک بلک کر رونے لگی،اور اس کی رونے کی آواز کو اولیاء اللہ کی جماعت یعنی کہ صحابۂ کرام نے اپنے کانوں سنا بھی تھا ۔سبحان اللہ۔جیسا کہ سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ جب جمعہ کا خطبہ دیتے تو اپنی پیٹھ کوایک لکڑی سے سہارا دے کر کھڑے ہوجاتے،جب لوگوں کی تعداد زیادہ ہوگئی تو آپﷺ نے یہ حکم دیا کہ ’’ ابْنُوا لِي مِنْبَرًا ‘‘تم لوگ میرے لئے ایک منبر بنا دو،اور یہ حکم آپﷺ نے اس لئے دیا تاکہ آپ کی آواز کو لوگ اچھی طرح سے سن سکے اور سمجھ سکے،آپ نے جیسے ہی حکم دیا لکڑی کا منبر بناکرکے وہاں پر رکھ دیا گیا ،پھر آپ خطبہ دینے کے لئے اس لکڑی کے ٹکڑے کا سہارا چھوڑ دیااور منبر پر جلوہ افروز ہوگئے،اب کیا ہوتا ہے ذرا غور سے سنئے،سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ ’’ فَلَمَّا قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ لِيَخْطُبَ حَنَّتِ الْخَشَبَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‘‘جب آپﷺ خطبہ دینے کے لئے منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو وہ لکڑی کا ٹکڑا بلک بلک کر رونے لگا،سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ ’’ وَأَنَا فِي الْمَسْجِدِ فَسَمِعْتُ الْخَشَبَةَ حَنَّتْ حَنِينَ الْوَلَدِ ‘‘ میں خود مسجد میں موجود تھا اور میں نے اپنی کانوں سے سنا کہ وہ لکڑی کا ٹکڑاٹھیک اسی طرح سے رو رہاتھا جس طرح سے ایک گم شدہ بچےکی ماں بے قرار وبے چین ہو کراپنے بچے کے لئے بلک بلک کر روتی ہے۔حضرت انسؓ کہتے ہیں وہ لکڑی کا ٹکڑا ’’ فَمَا زَالَتْ تَحِنُّ ‘‘ برابر بلک بلک کر روتارہا ، یہاں تک کہ ’’ حَتَّى نَزَلَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحْتَضَنَهَا فَسَكَنَتْ ‘‘آپﷺ منبر پر سے نیچے تشریف لائے اور اس کے نزدیک گئے اور پھر اس لکڑی کے ٹکڑے کو اپنے آغوش میں لیا تو تب جا کر اس کا رونا بند ہوا اور اسےچین وسکون ملا۔سبحان اللہ۔دیکھا اور سنا آپ نے کہ ایک لکڑی کا آپﷺ سے محبت کا یہ عالم ہے کہ جب تک آپﷺ نے اسے اپنے آغوش میں نہ لیا ،تب تک اسے چین وسکون اورقرار نہ ملا، اس حدیث کے نیچے امام ابن حبانؒ لکھتے ہیں کہ جب یہ حدیث امام حسن بصریؒ بیان کرتے تو رونے لگ جاتے اور فرماتے کہ ’’ يَا عِبَادَ اللَّهِ الْخَشَبَةُ تَحِنُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَوْقًا إِلَيْهِ لِمَكَانِهِ مِنَ اللَّهِ فَأَنْتُمْ أَحَقُّ أَنْ تَشْتَاقُوا إِلَى لِقَائِهِ ‘‘اے اللہ کے بندو!ذرا غور کرو کہ اللہ کے پاس جو آپﷺ کا مقام ومرتبہ ہے اس کو دیکھ کر ایک لکڑی کا ٹکڑا آپﷺکے قربت کی جدائی پر کتنا بے چین وبے قرار ہوتاہےتو تمہیں آپﷺ کی ملاقات کے شوق میں کتنا بے چین وبے قرار ہونا چاہئے۔(صحیح ابن حبان:6507،احمد:13363،الصحیحۃ:2174) میرے بھائیو اور بہنو!ذرا ہم اور آپ اپنے اپنے گریبان میں جھانک کرنبیﷺ کی محبت کا جائزہ لیں کہ ہم اپنے نبیﷺ سے کتنی محبت کرتے ہیں اور ایک بے جان چیز کا آپﷺ سے محبت کا اندازہ لگائیے کہ ایک بے جان چیز کو آپﷺ سے کتنی شدید محبت تھی کہ وہ آپﷺ کی جدائی برداشت نہ کرسکی اوربلک بلک کررونے لگی،اورذرایہ بھی سوچئے کہ جب ایک بے جان چیز کو آپﷺ سے اتنی شدیدمحبت تھی تو جو صحابۂ کرامؓ تھے اور جو صحابیات تھیں انہیں آپﷺ سے کتنی شدید محبت رہی ہوگی،اور خود اس وقت کے اپنوں اورغیروں نے بھی اس بات کی گواہی دی تھی کہ جیسی محبت ان صحابہ ٔ کرام نے آپﷺ سے کی پھر ویسی محبت اس کائنات میں کبھی بھی کسی نے کسی سے نہ کی ہوگی جیسا کہ سیدنا انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ ’’ لَمْ يَكُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‘‘ صحابۂ کرام کے نزدیک آپﷺ سے زیادہ محبوب اس کائنات میں کوئی اور نہ تھا۔(ترمذی:2754،اسنادہ صحیح)یہ تو اپنوں کی گواہی تھی اب ذرا غیروں کی گواہی خود ان کی زبانی سنئے، صحیح بخاری کے اندر یہ بات مذکور ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع سےعروہ بن مسعودؓکفارمکہ کے طرف سے ثالثی بن کر آپﷺ کے پاس آئے اورپھر واپس جاکر انہوں نے قریش مکہ کے سامنے میں برملا یہ کہا کہ اے ميري قوم كے لوگوں سن لو!اللہ کی قسم !میں نے اب تک کئی بادشاہوں کے دربارمیں حاضری دی ہے،میں نے قیصر وکسری اورنجاشی ان سب کے دربار میں حاضری دی ہے ،لیکن’’ وَاللَّهِ إِنْ رَأَيْتُ مَلِكًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَمَّدًا ‘‘ اللہ کی قسم!میں نے کبھی بھی یہ نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے ساتھی اس کی اتنی زیادہ تعظیم کرتے ہوں جتنی زیادہ محمدﷺ کے اصحاب محمدﷺ کی تعظیم کرتے ہیں،اللہ کی قسم!اگر محمدﷺ نے بلغم بھی تھوک دیا تو ان کے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں پر لے لیااور اسے اپنےچہرے اور اپنے بدن پر مل لیا،محمدﷺ نے انہیں اگر کوئی حکم دیا تو ہر شخص نے اسے بجالانےمیں ایک دوسرے پر سبقت کرنے کی کوشش کی ،محمدﷺ نے اگروضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس وضوکے پانی کے لئے لڑائی ہوجائے گی،جب محمدﷺ گفتگوکا آغازکرتے ہیں تو ہرطرف خاموشی ہی خاموشی چھاجاتی ہے،اور ان کے دلوں میں محمدﷺ کی تعظیم کا یہ عالَم ہے کہ وہ محمدﷺ کونظر بھرکر دیکھتے تک نہیں ہیں۔ (بخاری:2731/2732)اللہ اکبر کبیرا۔سنا آپ نےصحابۂ کرام کا آپﷺ سے سچی محبت کا عالم اور ایک ہم اورآپ ہیں دعوے تو بہت زوروشور سے کرتے ہیں کہ ہم محب رسول ہیں مگر جب نبیﷺ کے فرمان کی بات آجاتی ہے تو بغلیں جھانکنے لگ جاتے ہیں۔
محترم سامعین!
پچھلے خطبۂ جمعہ کے اندر آپ نے ایک حدیث سنی تھی کہ جو انسان اللہ اور اس کے رسول ﷺسے اپنے دل وجان سے محبت کرے گا تو اسے ایمان کی مٹھاس اور چاشنی ضرور ملے گی،اوراس کی دلیل اور اس کا واضح ثبوت یہی صحابۂ کرام ہیں کہ انہوں نے اپنا تن من دھن سب کچھ اپنے نبی کے نام کردیا تھا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کواپنے ایمان میں مزہ آتاتھا،تیر وتلوار کے زخم کھانے میں بھی انہیں مزہ آتا تھا،تکلیفیں جھیلنے میں تو انہیں اور مزہ آتاتھا،انگاروں اور گرم ریت پر لیٹنے میں تو انہیں صرف مزہ ہی نہیں بلکہ خوشی ہوتی تھی اوریہی وہ وجہ تھی کہ دنیا کی بڑی سی بڑی طاقتیں اوربڑی سی بڑی مصیبتیں بھی ان کے پاؤں کو ڈگمگانہ سکیں،اور یہ سب کیوں ہوا؟صرف اورصرف اس وجہ سے کہ وہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں سچےوپکے تھے،ذرا آپ خود سوچئے کہ صحابۂ کرام کو دنیا میں جنت کی بشارتیں اوراللہ کی رضاوخوشنودی ایسے ہی مل گئیں تھیں؟؟ نہیں !ہرگز نہیں !بلکہ اس کے لئے انہوں نے اپنے جان ومال اور اپنی تمام خواہشات کواللہ اور اس کے رسول کے نام کردیاتھا!اور ایک ہم اور آپ ہیں ،ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں پھوکٹ اور فری میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت مل جائے،ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم نماز نہ پڑھیں مگر اللہ ہم سے محبت کرے،ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم جیسا چاہیں ویسا کریں مگر اللہ ہم سے خوش رہے،ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم من مانی زندگی گذاریں مگر اللہ ہم سے راضی رہے،ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم دین پر نہ چلیں مگر اللہ ہمارے دشمنوں کو ہلاک وبرباد کردے،ہم یہ چاہتے ہیں کہ اپنے رسولﷺ کی نافرمانی کرتے رہیں مگر اللہ ہمیں اپنی رحمتوں سے نوازتا رہے،نہیں میرے بھائیو نہیں!یہ ہماری بھول ہے،ایسا نہیں ہوتاہےکہ کسی کو فری اور پھوکٹ میں سب کچھ مل جائے،کچھ پانے اورکچھ مقام حاصل کرنے کے لئے کچھ قربانیاں دینی پڑتی ہے،اپنی تمام نفسانی خواہشات کو چھوڑکراللہ اوراس کے رسولﷺ کی تن من دھن سے غلامی کرنی پڑتی ہے تواگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اللہ ہم سے محبت کرنے لگے،اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے،اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اللہ ہمارےدشمنوں کو ہلاک وبرباد کردے تو پھر ہم کوبھی انہیں صحابۂ کرام کی طرح اللہ اور اس کے رسولﷺ سے دل وجان سےمحبت کرنی پڑے گی،او ر انہیں کی طرح اپنا تن من دھن اور اپنا سب کچھ اللہ اور اس کے رسول کے نام کرنی پڑےگی،اب آپ کے ذہن ودماغ میں یہ بات آئے گی کہ آخران مقدس ہستیوں نے کس طرح سے آپﷺ سے محبت کی تھی توبطورنمونہ دو چار انوکھی مثالیں سنئے اور اپنے ایمان کو ٹٹولئےکہ کیا ہم بھی اپنے نبیﷺ سے اس قدر محبت کرتے ہیں جس طرح سے ان صحابۂ کرام نے آپﷺسےمحبت کیا تھا؟؟
میرے دوستو!
آئیے اس بارے میں سب سے پہلے ایک ایمان افروز اورہمارے روحوں کو جھنجھوڑدینے والا واقعہ سنتے ہیں،واقعہ کچھ یوں ہے کہ مشرکین مکہ نے دھوکے سے سیدنا زید بن دَثِنہؓ کو پکڑلیااور جب ان کوسرعام قتل کرنے لگے تو اس وقت ابوسفیانؓ(جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) نے ان سے کہا کہ اے زید ! ’’ أَنْشُدُكَ اللَّهَ يَا زَيْدُ أَتُحِبُّ أَنَّ مُحَمَّدًا عِنْدَنَا الْآنَ بِمَكَانِكَ نَضْرِبُ عُنُقَهُ وَإِنَّكَ فِي أَهْلِكَ ‘‘میں تجھے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتاہوں کہ کیا تو یہ پسند کرتاہے کہ اب اس وقت تیری جگہ پرمحمدﷺ ہمارے پاس ہوتےاور ہم ان کی گردن مارتے اور تو اپنے گھر میں آرام سے ہوتا،اتنا سننا تھا کہ سیدنا زیدؓ نے یک لخت کہا کہ ’’ وَاللَّهِ مَا أُحِبُّ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْآنَ فِي مَكَانِهِ الَّذِي هُوَ فِيهِ يُصِيبُهُ شَوْكَةٌ تُؤْذِيهِ وَأَنَا جَالِسٌ فِي أَهْلِي ‘‘اللہ کی قسم!میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتاکہ ابھی اس وقت جہاں آپﷺ موجود ہیں وہاں آپ کو کوئی ایسا کانٹا بھی چبھےجس سے آپ کو تکلیف ہو اور میں اپنے گھروالوں میں بیٹھارہوں، یہ سن کراسی وقت ابوسفیانؓ نے یہ جملہ کہا تھا کہ ’’ مَا رَأَيْتُ مِنَ النَّاسِ أَحَدًا يُحِبُّ أَحَدًا كَحُبِّ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ مُحَمَّدًا ‘‘میں نے لوگوں میں سے کسی ایک کو بھی کسی دوسرے سے ایسی محبت کرتے کبھی نہیں دیکھا جیسی محبت محمدﷺ کے ساتھی ان سے کرتے ہیں۔(تفسیر بغوی:1/238)دیکھا اور سنا آپ نے کہ صحابی ٔ رسول سیدنا زیدؓ نے کیسی محبت آپﷺ سے کی تھی اور ایسی ہی محبت اللہ کو چاہئے۔
میرے بھائیو اور بہنو! اب میں آپ کے دلوں میں آپﷺ کی محبت کی جوت کو جگانے کے لئے ایک اور واقعہ سنانا چاہتاہوں تاکہ ہمارے دلوں کے اندر بھی آپ ﷺ کی محبت ویسی ہی پیداہوسکے جیسی محبت ان صحابۂ کرام کے دلوں میں تھی،اور یہ ممکن ہے کہ اگر ہم ان مقدس ہستیوں کے واقعات کو سنیں گے یا پھر پڑھیں گے تو ہمارے دلوں کے اندر بھی ویسی ہی محبت ِرسول کا جذبہ پیدا ہوسکتاہے،اور یہ کوئی بعید نہیں ہے کیونکہ یہ محاورہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ ’’ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتاہے ‘‘ یعنی آدمی کو دیکھ کر آدمی ڈھنگ اختیارکرتاہےتو کیا پتہ اگر ہم اللہ کے ان پاکبازولیوں یعنی کہ صحابۂ کرام کےحالات وواقعات سنیں گے اور پڑھیں گے تو ہمارے اندر بھی محبت رسول کا وہی جذبہ پیدا ہوجائے!اورمیں تو یہ کہتاہوں کہ آج بھی ہمارے اندر محبتِ رسول کا وہی جذبہ پیدا ہوسکتاہے بس ان اصحابِ رسول کی سیرتوں اورکرداروں کو باربارپڑھنے اورباربار سننے کی ضرورت ہے،اب آئیے محبتِ رسولﷺ کا ایک اور ایمان افروز واقعہ سنتے ہیں ،یہ اس وقت کی بات ہے جب صرف اور صرف 38 لوگ ہی اسلام قبول کئے تھےتو سیدنا ابوبکرصدیقؓ نے کہا کہ اے اللہ کے نبیٔ اکرم ومکرمﷺکیوں نہ ہم خانۂ کعبہ کے پاس اسلام کی اعلانیہ طور پر تبلیغ کریں؟تو آپﷺ نے کہا کہ اے ابوبکر ابھی تو ہماری تعداد بہت ہی کم ہے!مگر سیدناابوبکرؓ نے اتنی زیادہ درخواست کی کہ آپﷺ نے کہا کہ چلو پھر ٹھیک ہے جب تم اتنا کہہ ہی رہے ہو توجاؤ لوگوں کو اعلانیہ طور پر اسلام کی دعوت دو،اتنا سننا تھا کہ سیدنا ابوبکرصدیقؓ سیدھے خانۂ کعبہ میں آئے کھڑے ہوئے اور اسلام کی تبلیغ شروع کردی،اس حال میں کہ آپﷺ بھی وہاں موجود تھے تو دنیا کے سب سے پہلے خطیب یہی ابوبکرؓ ہیں ،جنہوں نے سب سے پہلے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی،توخیرجیسے ہی سیدنا ابوبکرؓ نے دعوت توحید پیش کی، پھر کیا تھا،اسلام اور توحید کی آواز سنتے ہی مشرکین مکہ آگ بگولہ ہوکر سیدنا ابوبکرؓ پر ٹوٹ پڑے،اور خوب مارنا شروع کردیا،وہیں پر عتبہ بن ربیعہ بھی تھا وہ تو اٹھا اور جوتے سے سیدنا ابوبکرﷺ کو اتنا مارا،اتنامارا،اتنامارا کہ ان کا چہرہ سوج گیااور اتنا سوج گیا کہ ان کی ناک بھی نظر نہیں آرہی تھی،اتنے میں ان کے قبیلے بنو تَیْم والے آگئےاور مشرکوں سے بچاکرکے ان کو اس حال میں گھرلے گئے کہ حضرت ابوبکرؓخون سے لت پت تھے،سب کو یقین ہوگیا کہ اب یہ مرجائیں گےاور ان کا بچنا ناممکن ہے،ان کی یہ حالت ودرگت دیکھ کرہی ان کے قبیلے والے نے کہا کہ اگر ابوبکر کو کچھ ہوا تو ہم عتبہ کو نہیں چھوڑیں گے،خیر سب لوگ اٹھا کر ان کو ان کے گھر لائے اورسب لوگ ان کے آس پاس اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک کہ ان کو ہوش نہ آگیا،مگر ہوش میں آتے ہی انہوں نے جو جملہ سب سے پہلے کہا وہ سنئے اور دیکھئے کہ سیدناابوبکرؓ کو آپﷺ سے کتنی شدید محبت تھی،جیسے ہی آنکھ کھلی فورا ًزبان سے گویاہوئے کہ ’’ مَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘ ‘ پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ آپﷺ کس حال میں ہیں؟یہ سنتے ہی ان کے قبیلے والے ناراض ہوکر وہاں سے چلتے بنے اور ان کی والدہ سے کہا کہ آپ اسے کچھ کھلائیں اور پلائیں تاکہ اس کے ہوش ٹھکانے آجائے،قربان جائیے سیدناابوبکرؓ کی محبتِ رسول پر کہ ادھر ماں باربار کچھ کھانے پینے کے لئے اصرار کررہی ہے اور ادھر سیدناابوبکر یہی جملہ ’’ مَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‘ ‘ باربار دہرارہے ہیں کہ نہیں پہلے مجھے میرے محبوب کے بارے میں کچھ بتاؤ کہ وہ کیسے ہیں؟بالآخر ماں نے کہا کہ اللہ کی قسم مجھے تمہارے ساتھی کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ کس حالت میں ہیں اور کہاں پر ہیں! یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ آپ ام جمیلؓ بنت خطاب یعنی عمر کی بہن کے پاس جائیے اور ان سے آپﷺ کے بارے میں پوچھئےکہ وہ کس حال میں ہیں،یہ سن کر ابوبکرؓ کی والدہ ام جمیلؓ بنت خطاب کے پاس جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’’ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ يَسْأَلُكَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ‘‘ ابوبکر محمدبن عبداللہ کے بارے میں پوچھ رہے ہیں کہ وہ کس حال میں ہیں؟ تو ام جمیلؓ بنت خطاب نے فوراً جواب دیا کہ ’’ مَا أَعْرِفُ أَبَا بَكْرٍ وَلَا مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ‘‘ میں کسی ابوبکراور محمدبن عبداللہ کو نہیں جانتی ہوں،جب ایسا حضرت عمرکی بہن نے کہا تو سیدنا ابوبکرؓ کی والدہ نے کہا کہ آپ خود ہی میرے بیٹے کے پاس چلیں اور ان کو تسلی دیں اور ان کو بتائیں کہ آپﷺ کس حال میں ہیں،جب ام جمیلؓ سیدنا ابوبکرؓ کے پاس پہنچی تو بےساختہ بول اٹھیں کہ اللہ ایسے لوگوں کو ہلاک وبرباد کرے جنہوں نے آپ کو اس طرح سے مارا اور پیٹاہےاور یقیناً یہ لوگ بڑے ہی فاسق وفاجر ہے، سیدناابوبکرؓ نے کہا کہ آپﷺ کس حال میں ہیں؟سیدہ ام جمیلؓ نے آنکھوں کے اشارے سے کہا کہ’’ هَذِهِ أُمُّكَ تَسْمَعُ ‘‘ یہاں آپ کی والدہ ہیں اورہماری باتیں سن رہی ہیں؟ابوبکرؓ نے کہا’’فَلَا شَيْءَ عَلَيْكِ فِيهَا ‘‘کہ کوئی بات نہیں ہے،ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے ،بس آپ مجھے آپ ﷺ کے بارے میں جلدی بتائیے،سیدہ ام جمیلؓ نے کہا کہ ’’ سَالِمٌ صَالِحٌ ‘‘ آپﷺ بالکل صحیح سالم ہیں،پھر پوچھا کہ ’’ فَأَيْنَ هُوَ ‘‘ وہ ابھی اس وقت کہاں پر ہیں؟ سیدہ ام جمیلؓ نےجواب دیا کہ’’فِي دَارِ أَبِي الْأَرْقَمِ ‘‘ ابھی تو آپﷺ دارِارقم میں موجود ہیں،اب سیدنا ابوبکرؓ نے کیاکہا ذرا غورسے سنئےاورآپﷺ سے محبت کا جذبہ دیکھئے ،انہوں نے کہا کہ ’’ فَإِنَّ لِلَّهِ عَلَيَّ أَنْ لَا أَذُوقَ طَعَامًا أَوْ شَرَابًا أَوْ آتِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‘‘اللہ کے لئے مجھ پر عہد ہے یعنی کہ اللہ کی قسم!جب تک میں آپﷺ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں گا تب تک نہ تو میں ایک نوالہ کھاناکھاؤں گا اور نہ ہی ایک گھونٹ پانی پیوں گا۔اللہ اکبر کبیرا۔بالآخر رات کی تاریکی میں ان کی والدہ ام الخیرؓ اور ام جمیلؓ نےسہارا دے کر ان کوآپﷺ کی خدمت میں پہنچا دیا۔(البدایہ والنہایہ:3/30،الرحیق المختوم:ص173)دیکھااورسنا آپ نے سیدناابوبکرؓ کی آپﷺ سے محبت کا عالم کہ درد وتکلیف میں ہیں،چہرہ سوجاہوا ہے چلنے کی سکت نہیں ہیں مگر یہ کہہ رہے ہیں کہ جب تک میں آپﷺ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں تب تک مجھے چین وسکون اورقرار نہیں ملے گا،علامہ اقبال نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ
پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے خدا کا رسول بس
صدیق کے لئے خدا کا رسول بس
میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو اور بہنو!
میرے ذہن ودماغ میں ایک ایک کرکے آپﷺ کےپیارے جاں نثاروں کے واقعات آتے چلے آرہے ہیں ،میں کس کس واقعے کو آپ کے سامنے میں رکھوں،آپ نے میزبانِ رسول سیدنا ابوایوب انصاریؓ کا نام تو سنا ہی ہوگا،ذرا ان کی بھی آپﷺسےمحبت کا جذبہ سنئے ،وہ خود بیان کرتے ہیں کہ ’’ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُتِيَ بِطَعَامٍ أَكَلَ مِنْهُ وَبَعَثَ بِفَضْلِهِ إِلَيَّ ‘‘آپﷺ کے پاس جب کھانالایا جاتاتو آپﷺ کھاناکھانے کے بعد میرے پاس بچاہواکھانا بھیج دیتے،لیکن ’’ وَإِنَّهُ بَعَثَ إِلَيَّ يَوْمًا بِفَضْلَةٍ لَمْ يَأْكُلْ مِنْهَا لِأَنَّ فِيهَا ثُومًا ‘‘ایک دن پورا کا پورا کھانا میرے پاس بھیج دیا کیونکہ اس میں لہسن تھا،تومیں نے آپﷺ سے پوچھا کہ’’ أَحَرَامٌ هُوَ ‘‘ کیا لہسن کھانا حرام ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ لَا وَلَكِنِّي أَكْرَهُهُ مِنْ أَجْلِ رِيحِهِ ‘‘ نہیں !نہیں!یہ لہسن حرام نہیں ہے مگر میں اس لہسن کو اس کی بدبو کی وجہ سے ناپسند کرتاہوں،اب ذرا ابوایوب انصاریؓ کی محبت دیکھئے ،جب ایساآپﷺ نے کہا کہ مجھے یہ لہسن پسند نہیں ہے تو ابوایوب انصاریؓ نے کہا کہ ’’ فَإِنِّي أَكْرَهُ مَا كَرِهْتَ ‘‘جوچیز آپ کو ناپسند ہے اب سے مجھے بھی وہ چیز ناپسند ہے۔(مسلم:2053)سبحان اللہ۔اورایک دوسری روایت کے اندر ہے،سیدناابوایوب انصاریؓ خود بیان کرتے ہیں کہ ہجرت کے وقت جب آپﷺ ان کے مکان میں اترے تو آپﷺ ان کے مکان کے نچلے حصے میں ٹھہرے اوروہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اوپری منزل پر رہنے لگے،مگر ایک دن جو ان کے دل میں خیال آیا اس سے تو وہ اپنی بیوی وبچوں کے ساتھ رات بھر بے چین وبے قرار ہوکر جاگتے رہے اور کہنے لگے کہ ’’ نَمْشِي فَوْقَ رَأْسِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَنَحَّوْا فَبَاتُوا فِي جَانِبٍ ‘‘ہم آپﷺ کے سرکے اوپر چلا کرتے ہیں (یہ تو بہت بڑی بے ادبی اور گستاخی ہے،اس لئے)وہ لوگ ہٹ کر گھرکے ایک کونے میں رات گذاری،پھر جب صبح ہوئی تو یہ آپﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ اے اللہ کے نبیﷺ آپ اوپری منزل پر چلے جائیں،آپ نے کہا کہ ’’السُّفْلُ أَرْفَقُ ‘‘ نیچے کی منزل ہی آرام دہ ہے ،یہ سن کر سیدنا ابوایوب انصاریؓ نے جو کہا وہ ذرا غورسے سنئے ،انہوں نے بلاساختہ کہا کہ ’’ لَا أَعْلُو سَقِيفَةً أَنْتَ تَحْتَهَا ‘‘نہیں!میں اس چھت پر زندگی نہیں گذارسکتا جس کے نیچے آپ ہوں،جب ایسا سیدنا ابوایوب انصاریؓ نے کہا تو آپﷺ اوپری منزل پر شِفٹ ہوگئے،اب قیام کے دوران کیا ہوتاہےذرا اس کو غورسے سنئے اوراپنے ایمان کا جائزہ لیجئے،’’ فَكَانَ يَصْنَعُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا فَإِذَا جِيءَ بِهِ إِلَيْهِ سَأَلَ عَنْ مَوْضِعِ أَصَابِعِهِ ‘‘یہ آپﷺ کے لئے کھانا تیارکرکے بھیجتے ،پھر جب آپﷺ کھانا کھانے کے بعد کچھ ان کو بچاکر بھیجتے تو یہ کھانا لانے والے سے پوچھتے کہ پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ آپﷺ کی انگلیاں کھانے کی کس جگہ پر لگی ہیں؟پھر جب کھانا لانے والےان کو بتاتےکہ یہاں اور یہاں سے آپﷺ نے نوالہ اٹھایا ہے تو ’’ فَيَتَتَبَّعُ مَوْضِعَ أَصَابِعِهِ ‘‘ ابوایوب انصاری ؓ آپﷺ کے انگلیوں کے نشانات کو ڈھونڈ ڈھونڈ کرکے اسی جگہ سے ہی کھاتے۔سبحان اللہ۔(مسلم:2053)سنا آپ نے! اسے کہتے ہیں محبتِ رسول اور ایک ہم اور آپ ہیں اپنے نبی سے محبت کا دم تو بھرتے ہیں مگر جب نبی کے حکم اورنبی کی پسند وناپسند کی بات آجاتی ہے تو ہم الٹے پاؤں پھرجاتے ہیں،اورطرح طرح کے حیلوں وبہانوں سے اس سے کتراتے اورجی چرانے لگ جاتے ہیں،ذرااپنے ایمان کوٹٹولئےاورخود اپنے آپ سے یہ سوال کیجئے کہ کیا ہم حقیقی معنوں میں آپﷺ سے سچی محبت کرتے ہیں؟محبت سیکھنی ہے توسیدنا ابوایوب انصاریؓ سےسیکھئے کہ جونبی کو پسند تھا وہ ہمیں بھی پسند ہو اور جونبی کو ناپسند تھا وہ ہمیں بھی ناپسند ہو۔
برادران اسلام!
صرف یہی ایک ابوایوب انصاریؓ ہی نہیں ہیں جوآپﷺ سے اتنی شدید محبت کرتے ہیں بلکہ ہرصحابیٔ رسول ایسے ہی تھے،میں کن کن کے حالات اورواقعات کو سناؤں؟محبت رسول سیکھنی ہے تو خادم رسول سیدنا انس بن مالکؓ سے سیکھئے کہ آپﷺ کو کدو شریف بہت پسند تھا تو ان کو بھی کدو شریف سے محبت ہوگئی،وہ خود بیان کرتے ہیں کہ ایک درزی نے آپﷺ کی دعوت کی تو میں بھی اس دعوت میں شامل تھا،اس درزی نے روٹی اور شوربا جس میں کدوشریف اور بھناہوا گوشت تھا وہ آپﷺ کے سامنے میں پیش کردیا،’’ فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَتَبَّعُ الدُّبَّاءَ مِنْ حَوْلِ الْقَصْعَةِ ‘‘ تو میں نے دیکھا کہ آپﷺ بڑی رغبت وچاہت سے کدوکے ٹکڑے پیالے میں تلاش کررہے ہیں ،یہ دیکھ کر میں نے کدو کے ٹکڑے کو اٹھا اٹھاکر آپ کے پلیٹ میں رکھناشروع کردیا اور آپ بڑے ہی ذوق وشوق سے اس کو کھاتے رہے،پھرسیدنا انسؓ جو کہتے ہیں وہ ذراغور سے سنئے،وہ کہتے ہیں کہ ’’ فَلَمْ أَزَلْ أُحِبُّ الدُّبَّاءَ مُنْذُ يَوْمِئِذٍ ‘‘ پھر تو اس دن سے هي مجھے کدو شریف سے محبت ہوگئی۔ (بخاري:2092/5379،مسلم:2041)۔سبحان اللہ۔سنا آپ نے اور یہی ہے اصل محبت کہ جو نبی کو پسند، وہ ہمیں بھی پسند ہو اورجو نبی کی ناپسند ، وہ ہماری بھی ناپسند ہو۔
میرے دوستو!دیکھا اورسنا آپ نے کہ صحابۂ کرامؓ کو آپﷺ سے کیسی محبت تھی اور یہی وہ چیز تھی جس کی وجہ سے انہیں دنیا ہی میں جنت کی بشارتیں اور اللہ کی رضاوخوشنودی کا سرٹیفیکٹ’’ رضی اللہ عنہ ورضوا عنہ ‘‘ ملا،اب اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں بھی اللہ کی رضا وخوشنودی ملے توہمیں بھی انہیں کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئےانہیں کی طرح دل وجان سے اپنے نبیﷺ سے محبت کرنی پڑے گی،اوراس محبت رسول کی نشانی وعلامت یہ ہے کہ ہم نبیﷺ کی سنتوں سے محبت کرے کیونکہ نبیﷺ کی سنت پر عمل کرنا ہی نبی ﷺ سے سچی محبت کی علامت ہے،اوراس بات کی جانکاری تو خود جناب محمدعربیﷺ نے دی ہے کہ ’’ مَنْ أَحَبَّ سُنَّتِي فَقَدْ أَحَبَّنِي ‘‘جس نے میری سنت سے محبت کی تو دراصل اسی نے مجھ سے محبت کی ۔(تاریخ ابن عساکر:3/145،تحفۃ الاحوذی :7/371)اوریہ بات اچھی طرح سے آپ یاد رکھ لیں اورجان لیں کہ نبیﷺ کی سنتوں کو چھوڑنے والا نبیﷺ سے محبت کرنے والا کبھی نہیں ہوسکتاہے،نماز ودیگر فرائض سے دوررہنے والا محب رسول نہیں ہوسکتاہے،اگر ہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہمیں اللہ اوراس کے رسول سے محبت ہے تو پھر ہمیں اللہ اوراس کے رسولﷺ کے دین کے مطابق زندگی گذارنی پڑے گی،اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم بھی اللہ کی نظر میں ان صحابۂ کرام کی طرح محبوب بن جائیں تو فرائض یعنی کہ نماز ،روزے،حج وزکاۃ اور دیگر نیکیوں کو پابندی سےادا کرنی پڑے گی،آج بھی اگرہم سچے دل سے تائب ہوکر اللہ اور اس کے رسول کے دین کی طرف پلٹ آئیں اورنیکیوں کو انجام دینے لگ جائیں تو ہمیں بھی اللہ اور اس کے رسول کی محبت مل سکتی ہےجیسا کہ خادم رسول سیدنا انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ بحرین سے کچھ لوگ آپﷺ کے پاس مہمان بن کر ٹھہرے ہوئے تھے کہ ایک دن جب آپﷺ نے وضو کیا تووہ لوگ آپﷺ کے وضو کے پانی کی طرف دوڑے،اس میں سے انہوں نے جو پانی پایا وہ پی لیا ،اور جو زمین پر گرا ہوا تھا اسے اپنے چہروں،سروں اور سینوں پر مل لیا،یہ منظر دیکھ کرآپﷺ نے ان سے پوچھا کہ ’’ مَا دَعَاكُم إِلَى ذَلِكَ ‘‘ آپ لوگوں نے ایسا کیوں کیا؟توانہوں نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ’’ حُبًّا لَكَ ‘‘ آپ کی محبت میں ہم نے ایسا کیاہے ’’ لَعَلَّ اللهَ يُحِبُّنَا يَا رَسُوْلَ اللهِ ‘‘ اوراے اللہ کے نبیﷺ کیا پتہ شاید ایسا کرنے کی وجہ سے اللہ بھی ہم سے محبت کرنے لگے،تو آپﷺ نے اسی موقع سے یہ بیان فرمایا کہ ’’ إِنْ كُنْتُم تُحِبُّونَ أَنْ يُحِبَّكُمُ اللهُ وَرَسُوْلُهُ ‘‘ اگر تم یہ پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ تم سے محبت کرنے لگے تو پھر ’’ فَحَافِظُوا عَلَى ثَلَاثِ خِصَالٍ ‘‘ تم تین عادتوں اور تین خصلتوں کو اپنا لو،نمبر ایک ’’ صِدْقِ الحَدِيْثِ‘ ‘ہمیشہ سچ بولو،اورنمبر دو ’’ وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ ‘‘امانتیں اداکردیا کرو، اور نمبر تین ’’ وَحُسْنِ الجِوَارِ ‘‘ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرو،پھر آپﷺ نے فرمایا کہ(دیکھو ایک بات ہمیشہ یادرکھنا) ’’ فَإِنَّ أَذَى الْجَارِ يَمْحُوْ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَمْحُوْ الشَّمْسَ الْجَلِيْدَ ‘‘ پڑوسیوں کو تکلیف دینے سے نیکیاں ایسے ہی ضائع وبرباد ہوجاتی ہیں جس طرح سے سورج برف کو پگھلا کرختم کردیتاہے۔(الصحیحۃ:2998)جی ہاں میرے بھائیو اور بہنو!سن لوجہاں ایک طرف سچ بولنے اور امانت اداکرنے اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت حاصل ہوتی ہے وہیں دوسری طرف پڑوسیوں کے ساتھ براسلوک کرنے اورپڑوسیوں کو ستانے سے،پڑوسیوں کو تکلیف دینےاور پڑوسیوں کے ناک میں دم بھرنے سے،اور طرح طرح کے حیلوں اور بہانوں کے ذریعےپڑوسیوں کا جینا حرام کرنے سے ایک انسان کے تمام نیک اعمال ضائع وبرباد ہوجاتے ہیں،اور غور کیجئے کہ آپﷺ نے کتنی اعلی تشبیہ دی ہے کہ جس طرح سے دھوپ کی شدت وتمازت سےبرف کے ٹکڑے کا بچ جانا ناممکن ومحال ہے ٹھیک اسی طرح سے پڑوسیوں کو تکلیف دینے سے کسی نیک اعمال کا بچ جانا بھی محال اور ناممکن ہے،اس لئے میرے بھائیو اور بہنو!اگراپنی آخرت کی سلامتی چاہتے ہو توپھر اپنے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے برتاؤ سے پیش آیا کرو،اور آخر میں آپ سب سے یہی کہوں گا کہ اے مسلمانوں!اپنے اپنے بچوں کو کفارومشرکین،اور ہیرو اور ہیروئینوں اور کرکیٹروں کی داستاں نہ سنایا کرو بلکہ ان کوصحابہ وصحابیات کے واقعات وحالات سنایاکرو تاکہ ان کے دلوں میں بھی محبتِ رسول کا وہی جذبہ پیداہو جو ان صحابہ وصحابیات کے دلوں میں تھا۔
اب آخر میں اللہ رب العزت سے دعاگوہوں کہ اے بارالہ تو ہمیں بھی ان صحابہ ٔکرام کی طرح اللہ اور اس کے رسولﷺ سے بے پناہ محبت کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
کتبہ
ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی
ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی
اٹیچمنٹس
-
820.3 KB مناظر: 7