اسلئے مذکورہ بالادلائل کی روشنی میں یہ ثابت ہوا کہ :
1-اس تہوار کامنانا یا منا نے والوں کی محفل میں شرکت ناجائز ہے, حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ " جب یہودیوں کی خاص عید ہے اور عیسائیوں کی اپنی خاص عید تو پھر جس طرح ان کی شریعت اور قبلہ میں مسلمان شخص شریک نہیں, اسی طرح ان کے تہواروں میں بھی شریک نہیں ہوسکتا " (مجلۃ الحکمۃ 3/193)
2- اس تہوار کومنا نے یا انکی محفلوں میں شرکت کرنے سے ان کی مشابہت , انہیں خوشی وسرور,اورانکی تعداد میں بڑھوتری اورزیلدتی حاصل ہوتی ہے جوناجائز ہے,
اللہ تعالى کا ارشاد ہے ( اے ایمان والو!تم یہود ونصاری کو دوست نہ بناؤ , یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں , یقیناًاللہ تعالى ظالموں کو ہوگز ہدایت نہیں دکھاتا ) [المائدہ:51]
اور شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
"مسلمانوں کیلئے جائز نہیں کہ وہ کفارسے ان کے خصوصی تہواروں میں ان کے لباس ,کھانے, پینے, غسل کرنے, آگ جلانے ,اور اپنی کوئی عبادت اور کام وغیرہ, یا عبادت سے چھٹی کرنے میں ان کفار کی مشابہت کریں . مختصر طور پریہ کہ :ان کے لئے یہ جائز نہیں کہ کفار کے کسی خاص تہوار کو ان کے کسی شعار کے ساتہ خصوصیت دیں ,بلکہ ان کے تہوار کا دن, مسلمانوں کے یہاں باقی عام دنوں جیسا ہی ہونا چاہئیے" (مجموع الفتاوى :35/329)
3-مسلمانون میں سے جو بھی اس تہوارکو منا تا ہے اس کی معاونت نہ کی جائے بلکہ اسے اس سے روکنا واجب ہے , کیونکہ مسلمانوں کا کفارکے تہوار کو منانا ایک منکر اور برائی ہے جسے روکنا واجب ہے,
شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ " اور جس طرح ہم ان کے تہواروں میں کفارکی مشابہت نہیں کرتے , تو اس طرح مسلمانوں کی اس سلسلے میں مدد واعانت بھی نہیں کی جائیگی بلکہ انہیں اس سے روکا جائیگا ) الإقتضاء 2/519-520)
تو شیخ الإسلام کے فیصلے کی بنا پر مسلمان تاجروں کے لیے جائز نہیں کہ وہ یوم محبت کے تحفے و تحائف کی تجارت کریں, چاہے وہ کوئی معین قسم کا لباس ہو,یا سرخ گلاب کے پھول وغیرہ,اور اسی طرح اگرکسی شخص کو یوم محبت میں کوئی تحفہ دیا جائےتو اس تحفہ کو قبول کرنا بھی جائز نہیں, کیونکہ اسے قبر ل کرنے میں اس تہوار کا اقرار اور اسے صحیح تسلیم کرنا ہے, اور باطل ومعصیت میں مدد ہے, اللہ تعالى کا فرمان ہے المائدۃ:3] "نيكي اورپرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گنا ہ اور ظلم وزیادتی میں مدد نہ کرو "
4-یوم محبت کی مبارکبادی کا تبادلہ نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ نہ تو یہ مسلمانوں کا تہوار ہے اور نہ ہی عید , اور اگر کوئی مسلمان کسی کو اسکی مبارکبادی بھی دے تو اسے جوابا مبارکبادی بہی نہیں دینی چاہئیے,
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:" اورکفارکے خصوصی شعارجو صرف ان کے ساتہ ہی خاص ہیں ان کی مبارکبادی دینا متفقہ طور پر حرام ہے مثلا :انہیں ان کے تہواروں, یاروزے کی مبارکبادی دیتے ہوئے یہ کہا جائے :آپ کو عید مبارک ,یا آپ کو یہ تہوار مبارک ہو , لہذا اگر اسے کہنے والا کفرسے بچ جائے تو پھر بھی یہ حرام کردہ اشیاء میں سے ہے , اوریہ اسی طرح ہے کہ صلیب کو سجدہ کرنے والے کسی شخص کو مبارکبادی دی جائے , بلکہ یہ اللہ تعالى کے نزدیک شراب نوشی اور بے گناہ شخص کو قتل کرنے اور زنا کرنے سے بھی زیادہ عظیم اور اللہ کو ناراض کرنے والی ہے , اوربہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے یہاں دین کی کوئی قدر وقیمت نہیں, وہ اس کا ارتکا ب کر تے ہیں, اور انہیں یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ انہوں نے کتنا بڑا قبیح جرم کیا ہے , لہذا جس نے بھی کسی کو معصیت اور نافرمانی’ یا کفروبدعت پر مبارکبادی دی اس نے اپنے آپ کو اللہ تعالى کے غصہ اورناراضگی پر پیش کردیا" (أحکام أہل الذمۃ 1/441-442)