@اسحاق سلفی بھائی اس مضمون کو جو اوپر پوسٹ ہے آپ کیا اس کو قرآن کی آیت اور حدیث کے ریفرنس کے ساتھ ترتیب کر کے اور ایک اچھی سی امیج کے ساتھ دوبارہ پوسٹ کر دے - تاکہ سوشل میڈیا پر اس کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جا سکے -
اللہ آپ کی اس کام میں مدد کرے - آمین
محترم بھائی ! اللہ کی توفیق سے مجھ فقیر سے جو ممکن ہے ،پیش خدمت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عن عائشة أنها قالت: لَمَّا رَأَيْتُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طِيبَ نَفْسٍ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ لِي، فَقَالَ: “اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَائِشَةَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنَبِهَا وَمَا تَأَخَّرَ، مَا أَسَرَّتْ وَمَا أَعْلَنَتْ”، فَضَحِكَتْ عَائِشَةُ حَتَّى سَقَطَ رَأْسُهَا فِي حِجْرِهَا مِنَ الضَّحِكِ، قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “أَيَسُرُّكِ دُعَائِي”؟ فَقَالَتْ: وَمَا لِي لَا يَسُرُّنِي دُعَاؤُكَ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “وَاللَّهِ إِنَّهَا لَدُعَائِي لِأُمَّتِي فِي كل صلاة” أخرجه ابن حبان، والحاكم بلفظ قريب، وصححه الألباني.
(1)أخرجه ابن حبّان (9/122 ح711) ورواه أبو القاسم اللالكائي في اعتقاد أهل السنة (8/1429 ح2756). إسناده صحيح، وقال الهيثمي: رجاله ثقات . مجمع الزوائد (9/246)
ترجمہ :
" حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میں نے حضور اکرم (ﷺ) کو خوشگوار حالت میں دیکھا تو میں نے عرض کیا :
یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے میرے حق میں دعا فرمائیں۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اے اللہ۔۔۔! عائشہ کے اگلے اور پچھلے، ظاہری و باطنی، تمام گناہ معاف فرما۔
یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا خوشی سے لوٹ پوٹ ہو گئیں۔
اس پر حضور نبی اکرم(ﷺ) نے پوچھا:عائشہ۔۔۔ بڑی خوش ہو رہی ہو۔۔؟؟ انہوں نے عرض کیا : خوشی کیسے نا ہو۔ آپ نے اتنی بڑی دعا جو میری حق میں کردی۔
تو حضور نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا : اللہ کی قسم! یہ دعاء تو میں ہر نماز میں اپنی امت کے لیے مانگتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۲)صحیح بخاری
كتاب أحاديث الأنبياء
کتاب انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
- باب قول الله تعالى: {إنا أرسلنا نوحا إلى قومه أن أنذر قومك من قبل أن يأتيهم عذاب أليم} إلى آخر السورة:
حدیث نمبر: 3340
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:"كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَعْوَةٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً، وَقَالَ: أَنَا سَيِّدُ الْقَوْمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَلْ تَدْرُونَ بِمَنْ يَجْمَعُ اللَّهُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَيُبْصِرُهُمُ النَّاظِرُ وَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي وَتَدْنُو مِنْهُمُ الشَّمْسُ، فَيَقُولُ: بَعْضُ النَّاسِ أَلَا تَرَوْنَ إِلَى مَا أَنْتُمْ فِيهِ إِلَى مَا بَلَغَكُمْ أَلَا تَنْظُرُونَ إِلَى مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ، فَيَقُولُ: بَعْضُ النَّاسِ أَبُوكُمْ آدَمُ فَيَأْتُونَهُ، فَيَقُولُونَ: يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ وَأَسْكَنَكَ الْجَنَّةَ أَلَا تَشْفَعُ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ وَمَا بَلَغَنَا، فَيَقُولُ: رَبِّي غَضِبَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَنَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَسَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا أَمَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَى إِلَى مَا بَلَغَنَا أَلَا تَشْفَعُ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، فَيَقُولُ: رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ نَفْسِي نَفْسِي ائْتُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَأْتُونِي فَأَسْجُدُ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَسَلْ تُعْطَهْ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ: لَا أَحْفَظُ سَائِرَهُ".
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، ہم سے محمد بن عبید نے بیان کیا، ہم سے ابوحیان یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت میں شریک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دستی کا گوشت پیش کیا گیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت مرغوب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دستی کی ہڈی کا گوشت دانتوں سے نکال کر کھایا۔ پھر فرمایا کہ میں قیامت کے دن لوگوں کا سردار ہوں گا۔ تمہیں معلوم ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) تمام مخلوق کو ایک چٹیل میدان میں جمع کرے گا؟ اس طرح کہ دیکھنے والا سب کو ایک ساتھ دیکھ سکے گا۔ آواز دینے والے کی آواز ہر جگہ سنی جا سکے گی اور سورج بالکل قریب ہو جائے گا۔ ایک شخص اپنے قریب کے دوسرے شخص سے کہے گا، دیکھتے نہیں کہ سب لوگ کیسی پریشانی میں مبتلا ہیں؟ اور مصیبت کس حد تک پہنچ چکی ہے؟ کیوں نہ کسی ایسے شخص کی تلاش کی جائے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں ہم سب کی شفاعت کے لیے جائے۔ کچھ لوگوں کا مشورہ ہو گا کہ دادا آدم علیہ السلام اس کے لیے مناسب ہیں۔ چنانچہ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے باوا آدم! آپ انسانوں کے دادا ہیں۔ اللہ پاک نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا تھا، اپنی روح آپ کے اندر پھونکی تھی، ملائکہ کو حکم دیا تھا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا تھا اور جنت میں آپ کو (پیدا کرنے کے بعد) ٹھہرایا تھا۔ آپ اپنے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیں۔ آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس درجہ الجھن اور پریشانی میں مبتلا ہیں۔ وہ فرمائیں گے کہ (گناہ گاروں پر) اللہ تعالیٰ آج اس درجہ غضبناک ہے کہ کبھی اتنا غضبناک نہیں ہوا تھا اور نہ آئندہ کبھی ہو گا اور مجھے پہلے ہی درخت (جنت) کے کھانے سے منع کر چکا تھا لیکن میں اس فرمان کو بجا لانے میں کوتاہی کر گیا۔ آج تو مجھے اپنی ہی پڑی ہے (نفسی نفسی) تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ۔ ہاں، نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ چنانچہ سب لوگ نوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے، اے نوح علیہ السلام! آپ (آدم علیہ السلام کے بعد) روئے زمین پر سب سے پہلے نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ”عبدشکور“ کہہ کر پکارا ہے۔ آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ آج ہم کیسی مصیبت و پریشانی میں مبتلا ہیں؟ آپ اپنے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کر دیجئیے۔ وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا غضبناک نہیں ہوا تھا اور نہ کبھی اس کے بعد اتنا غضبناک ہو گا۔ آج تو مجھے خود اپنی ہی فکر ہے۔ (نفسی نفسی) تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جاؤ چنانچہ وہ لوگ میرے پاس آئیں گے۔ میں (ان کی شفاعت کے لیے) عرش کے نیچے سجدے میں گر پڑوں گا۔ پھر آواز آئے گی، اے محمد! سر اٹھاؤ اور شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ مانگو تمہیں دیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «لكلِّ نَبِيٍّ دَعْوةٌ مُسْتَجَابَةٌ فَتَعَجَّلَ كُلٌّ نَبِيٍّ دَعْوَتَهُ، وَإنِّي اخْتَبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لأُمَّتِي يَومَ القِيَامَة، فهي نَائِلةٌ إنْ شَاءَ اللهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لاَ يُشْركُ بِاللهِ شَيْئًا »(3).
متفق عليه، واللفظ لمسلم رواه في صحيحه، (715 ح199) بسنده عن أبي هريرة مرفوعًا
آپ نے فرمایا تھا کہ اللہ پاک نے ہر نبی کو ایک دعا دی ہے اس دعا میں اللہ پاک سے جو مانگا جائے اللہ پاک ضرور قبول کرتا ہے. تو ہر نبی نے موقع ملتے ہی (دنیا میں ) یہ دعاء مانگ لی
میں نے وہ دعا قیامت والے دن کے لیے سنبھال کر رکھی ہے اپنی امت کی شفاعت لیے مانگوں گا۔اور اس فائدہ میرا ہروہ امتی اٹھائے گا
جو مرتے دم شرک سے پاک تھا۔ (متفق علیہ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۳)