السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم شیخ کفایت اللہ اس اعتراض کا جواب درکار ہے
جہاد قسطنطنیہ اور کفایت سنابلی پر رددد
سنابلی صاحب نے حضرت عبدالرحمن بن خالد بن ولید رضی اللہ کی جہاد قسطنطنیہ والی روایت پر چند اعتراضات کیے ہیں, میں اپنے اس مضمون میں ان اعتراضات کا ردد کرونگا.. ان شاء اللہ
( یزید پر الزامات کا جائزہ صفحہ نمبر 583 سے 600)
میرا مضمون دو حصوں میں تقسیم ہوگا
1-حصہ اول : عبدالرحمن خالد بن ولید رضی اللہ کے جہاد قسطنطنیہ میں امیر لشکر کے بیان میں
2- حصہ دوم : جمہور ائمہ اور عبدالرحمن بن خالد کی صحیح تاریخ وفات کے بیان میں
حصہ اول
عبدالرحمن بن خالد بن ولید امیر لشکر تھے
سنن ابو داود 2512
جناب اسلم ابو عمران بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ مدینہ منورہ سے جہاد کے لیے روانہ ہوئے, ہم قسطنطنیہ جانا چاہتے تھے اور جناب عبدالرحمن بن خالد ولید ہمارے امیر جماعت تھے رومی لوگ اپنی پشت فصیل شہر کی طرف کیے ہمارے مدمقابل تھے...... الخ
اس صحیح روایت کو رد کرنے کے لیے سنابلی نے سنن کبری نسائی10/28 کی روایت پیش کی
اسلم ابو عمران بیان کرتے ہیں کہ ہم قسطنطنیہ میں تھے اور اہل مصر کے امیر عقبہ بن عامر جہنی تھ اور اہل شام کے امیر فضالہ بن عبید انصاری تھے..... الخ
اور اپنی طرف سے نتیجہ نکالتے ہوئے فیصلہ کردیا کی اسی طرح عبدالرحمن بن خالد صرف مدینہ منورہ کی جماعت کے ہی امیر تھے.
( یزید پر الزامات کا جائزہ 584)
الجواب
سنن کبری نسائی میں حضرت عبدالرحمن بن خالد کا دور دور تک اتا پتہ نہی ہے پھر بھی سنابلی صرف شیطانی قیاس سے انہیں صرف اہل مدینہ کا امیر جماعت بنانے پر تلا ہوا ہے.
سنابلی کی تاویل کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو کیا مدینہ منورہ کا امیر جماعت تمام لشکر کا امیر نہی بن سکتا؟؟؟
جس طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ امیر شام کے عہدے پر رہتے ہوئے کئی جہاد میں امیر لشکر بھی تھے.
دوم حضرت عبدالرحمن بن خالد اپنی وفات تک "حمص کے امیر" تھے
( تاریخ طبری ، 4/325 , المنتظم ابن جوزی 5/59, )
اس سے ثابت ہوا کی حضرت عبدالرحمن بن خالد تمام لشکر کے امیر تھے.
سنابلی نے آگے یزید کو اس لشکر کا امیر بنانے کی کوشش کی ہے. حالانکہ خوردبین لگا کر بھی مذکورہ روایات میں یزید کو تلاش کرنا ایک ناممکن عمل ہے.
سنابلی مزید لکھتا ہے کی صحیح بخاری حدیث نمبر 1186 سے ثابت ہے کی مشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی وفات روم کے اس جہاد میں ہوئی تھی جسکا امیر یزید تھا.
اور اپنی طرف سے نتیجہ نکال لیا کی سنن ابودواد والی جہاد قسطنطنیہ اور یزید کی امارت والی جہاد ایک ہی ہے.
سنابلی یہ روایت دے کر خود پھنس گیا کیونکہ سنابلی بھی یہ تسلیم کرتا ہے کی ابو ایوب انصاری رضی اللہ کی وفات 50،51 ھجری ہے.
آگے سنابلی مزید لکھتا ہے کی ابو ایوب انصاری رضی اللہ صرف یزید کی امارت والے جہاد قسطنطنیہ میں ہی شامل تھے اور اس طرح ثابت کردیا کی عبدالرحمن بن خالد کے ساتھ بھی ابوایوب انصاری شامل تھے اور یہ جہاد قسطنطنیہ ایک ہی ہے جسکا امیر یزید تھا اور اپنی تائید کے لیے تاریخ ابن عساکر 16/62سے ایک ضعیف روایت اٹھا لایا. حالانکہ اس ضعیف روایت میں بھی ایسی کوئی وضاحت نہی ہے
حالانکہ اس سند میں ابن ليه ہے جنکا حافظہ خراب ہوگیا تھا یہ کثیرالغلط اور کثیرالوہم ہیں, اس کے ساتھ ساتھ ابن لیہہ اور ولید بن مسلم دونوں مدلس راوی ہیں اور انہوں نے یہ روایت "عن" سے نقل کی ہے.اور مدلس کا عنعنعہ ضعیف ہوتا ہے. ابن لیہہ اور ولید بن مسلم چوتھے طبقہ کے مدلس راوی ہیں. یہ روایت تو اس قابل ہی نہی کی اسے صحیح روایت کے مقابل ہیش کیا جا سکے.
سنابلی کو یہ بھی پتہ نہی کہ قسطنطنیہ پر 16 دفعہ حملہ ہوا ہے
( البدایہ ابن کثیر 8/133 ایضاً 127)
بلکہ ان تمام حملوں سے پہلے بھی قسطنطنیہ پر ایک لشکر کے حملہ کا ثبوت ملتا ہے جس کے امیر خود امیر معاویہ رضی اللہ تھے اور یہ حملہ 32 ھجری کو ہوا.
( اس وقت یزید 6 سالہ بچہ تھا).
( طبری 4/304، البدایہ 7/159، 8/126، تاریخ اسلام ذہبی وغیرہ)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ان تمام حملوں میں جہاد و شہادت کی غرض سے شامل ہوئے اور آخر میں 51 ھجری میں جام شہادت نوش فرمائی
ہمارا استدلال سنن ابو داود کی صحیح روایت 2512سے ہے جس کے الفاظ یہ ہیں
ابو عمران کہتے ہیں کی چنانچہ ابو ایوب انصاری اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہے حتی کی قسطنطنیہ میں ہی دفن ہوئے.
حصہ دوم
سنابلی نے یزید کو اول جیش کا سپہ سالار بنانے کے لیے حضرت عبدالرحمن بن خالد بن ولید رضی اللہ کو 61 ھجری تک زندہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے. سنابلی نے 44،45،46،47 ھجری تاریخ وفات والی جو رایت نقل کی ہے اس کے بعد صرف اپنے قیاس سے 57، 61 ھجری والی روایت پیش کی ہے اور اسے راجح قرار دے دیا.
جبکہ اکثر مورخین نے نقل کیا ہے کی عبدالرحمن بن خالد 46 ھجری میں فوت ہوئے اور انہیں زہر دیا گیا تھا.
اس پر سنابلی نے ایک موضوع و من گھڑت روایت سے استدلال کیا کی امیر معاویہ کی وفات کے بعد خلافت کے لیے لوگوں نے عبدالرحمن بن خالد کا نام پیش کیا تو امیر معاویہ نے اثال نامی حکیم کے زریعہ سے عبدالرحمن بن خالد کو زہر پلا دیا جس وہ فوت ہوگئے
( الاغانی الابی الفرج اصبھانی 16/209)
اور اپنی طرف سے نتیجہ نکال لیا کی ولی عہدی کا معاملہ 57 ھجری کو مشہور ہے اس لیے انکی وفات بھی 57 ھجری میں ہوئی
سنابلی ناصبی کو شرم آنی چاہیے کی ایسے موضوع و من گھڑت روایت سے استدلال کر رہا ہے. یہ روایت تو نقل کے قابل بھی نہی کیوں کی اس روایت کے راوی کذاب ہیں.
سنابلی نے حاشیہ میں "اسنادہ مظالم" لکھ کر اس روایت کا من گھڑت ہونا خود ہی تسلیم کرلیا ہے.
آگے سنابلی 61 ھجری والی روایت قیاس سے کچھ اس طرح ثابت کرتا ہے
یزید بن الاصم سے مروی ہے کی میں میمونہ رضی اللہ کی تدفین کے وقت حاضر تھا, ان کی قبر میں عبداللہ بن عباس, عدالرحمن بن خالد بن ولید, میں اور عبیدالہہ الخولانی اترے اور انکی نمسز جنازہ ابن عباس رضی اللہ نے پڑھائی. محمد بن عمر نے کہا کی انکی وفات 61 ھجری ہے.
( طبقات الکبری 8/140)
سنابلی نے اس روایت کی مکمل سند تک زکر نہی کیا ہے, سند اس طرح ہے
اخبرنا محمد بن عمر حدثنا عبداللہ بن المحرر عن یزید ابن الاصم..... الخ
سند میں پہلا راوی محمد بن عمر واقدی جیسا راوی ہے جس پر بہت ہی شدید جروحات موجود ہیں
دوسرا راوی عبداللہ بن المحرر ہے جس کے بارے میں امام ذہبی رحمتہ اللہ میزان الاعتدال 2/500 میں نقل فرماتے ہیں
امام احمد نے فرمایا کی اس سے احادیث ترک کی گئی ہیں
امام دارقطنی اور ایک جماعت نے متروک کہا ہے
اب حبان نے کذاب کہا ہے
لہذا سنابلی صاحب کا یزید کی محبت میں ایسی من گھڑت روایت سے استدلال باطل ثابت ہوا
اب میں آخر میں جمہور محدثین و مورخین کے حوالے نقل کرتا ہوں جنہوں نے بالاتفاق عبدالرحمن بن خالد بن ولید کی وفات 46،47 ھجری نقل فرمائی ہے
1- یعقوب بن سفیان الفسوی وفات 277 ھجری
مات عبدالرحمن بن خالد بن ولید سنہ ستہ و اربعین
ترجمہ: حضرت عبدالرحمن بن خالد بن ولید کی وفات 46 ھجری کو ہوئی.
( المعرفتہ و التاریخ 3/319 یعقوب بن سفیان فسوی)
2- ابن حبان 354 ھجری
حضرت عبدالرحمن بن خالد بن ولید رضی اللہ کی وفات 46 ھجری کو سعید بن ابی وقاص رضی اللہ سے قبل ہوئی
( ابن حبان کتاب الثقات. 3/250 راوی نمبر 819)
3-ابن حبان
عبدالرحمن بن خالد بن ولید کی وفات 46 ھجری کو ہوئی
( ابن حبان - مشاھیر علماء الامصار)
4-ابو سلیمان الربعی المتوفی 379 ھجری
عبدالرحمن بن خالد بن ولید کی وفات 46 ھجری کو ہوئی
( تاریخ مولدالعماء ووفاتھم 1/145)
5- حافظ ابن عساکر 571 ھجری
حافظ اب عساکر رحمتہ اللہ نے اپنی سند سے چار روایت نقل کرکے عبدالرحمن بن خالد بن ولید رضی اللہ کی وفات 46 ھجری نقل فرمائی ہے اور واقدی کی کتاب الصوائف کے حوالے سے ایک روایت 47 ھجری نقل فرمائی ہے
( تاریخ دمشق 34/334)
6-حافظ ابن اثیر الجزری 630 ھجری
آپ نے بھی تاریخ وفات 47 ھجری نقل فرمائی ہے
( اسدالغابہ فی معرفتہ الصحابہ 3/436)
7- امام ذہبی 748 ھجری
امام ذہبی رحمتہ اللہ نے بھی تاریخ وفات 46 ھجری نقل فرمائی ہے
( تاریخ السلام ذہبی 2/419)
8- حافظ ابن حجر عسقلانی 852 ھجری
آپ اپنی مشہور تصنیف الاصابہ میں فرماتے ہیں کی عبدالرحمن بن خالد بن ولید کی وفات 46 ھجری میں ہوئ.
( الاصابہ فی تمیز الصحابہ 5/28)
الغرض کسی ایک معتبر محدث و مورخ نے 57،61 ھجری تاریخ وفات نقل نہی کی ہے.
کتاب ایسے ہی دجل و فریب پر مبنی ہے اگر اسکی کتاب کا مکمل رددد کیا جائے تو 900 صفحات کے جواب میں 3000 صفحات کا بحر زخار تیار ہوجائے