2030ء...!!!
"ٹینا، تمہیں پتہ ہے کہ تم کتنی پر کشش ہو؟" ناز نے پورے پانچ منٹ تک باریک کاٹن کے بلیک سلیو لیس ٹاپ، سکن ٹائیٹ جینز اور بلیک ہائی ہیل سینڈلز میں ملبوس ٹینا کو سر تا پا گھور کر اسکی تعریف کی.
"آئینہ تو کنجوسی کر جاتا ہے پر کالج کے لڑکوں کی 'فراخ دل' نظروں کے سامنے سے گزرتے ہوئے کبھی کبھی شک پڑتا ہے کہ شاید مجھے دیکھ کر انہیں 'کچھ کچھ ہوتا ہے'."
ٹینا نے ہنستے ہوئے برجستہ جواب دیا.
"ہنستے ہوئے تو اور بھی قیامت ڈھاتی ہو. اب تک کتنے بوائے فرینڈز پھڑکا چکی ہو؟"
ناز نے اسے مسلسل اپنائیت سے دیکھتے ہوئے کہا.
"ایک بھی نہیں. میں کوئی'ایسی ویسی' لڑکی نہیں ہوں." ٹینا کھنکھناتی ہنسی کے ساتھ ایک ادا سے ماتھے پر آئی آوارہ لٹ کو ہٹاتے ہوئے بولی.
"ہممم. اسکا مطلب ہے ہمارے جیسی لڑکی ہو."ناز نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ اسے آنکھ ماری.
یہ تھا اس پیار بھرے تعلق کا آغاز، جسکے بعد محبت کی ایک انوکھی داستان نے جنم لیا. ناز شہر کے مشہور کالج میں فائن آرٹس کی سٹوڈنٹ تھی. پچھلے ایک سال کے دوران وہ کلاس کی واحد لڑکی تھی کہ بھرپور خوبصورتی کے باوجود جسکا کوئی افئیر "کالج گاسپ" کا حصہ نہیں بن پایا تھا. گوری رنگت، لمبے قد اور متناسب جسم کو دیکھ کر کئی لڑکے اسکی لمبی گھنی زلفوں کا اسیر بننے کی فرمائش کر چکے تھے، جسے اس نے ہر بار نرمی سے ٹال دیا تھا. اسے وجیہہ سے وجیہہ لڑکے میں بھی کبھی کوئی کشش محسوس نہ ہوئی تھی. بلکہ ہمیشہ سے اپنی نازک صنف کے کلب کی ممبرز میں رہنا ہی اچھا لگتا تھا.
اگلے ہفتے کے دوران ٹینا ناز کی روم میٹ بن گئی اور اب "دھنک" اور "کرن" کی یہ جوڑی کالج میں ہر جگہ اکٹھے ہی "رنگ بکھیرتی" نظر آتی. اگلے ماہ کے دوران سب جان چکے تھے کہ وہ اب محض سہیلیاں نہیں بلکہ "گرل فرینڈز" ہیں. لیکن شخصی آزادی کے رائج تصور کے مطابق کبھی کسی نے ان پر اعتراض نہ کیا.
وقت پر لگا کر گزرتا گیا اور گریجویشن کرتے پتہ بھی نہ لگا. یہی موقعہ تھا کہ وہ دونوں اپنے والدین کو اپنے مستقبل بارے فیصلے سے آگاہ کرتیں.
"ماما، وہ میں نے اپنا لائف پارٹنر چوز کر لیا ہے." ناز نے ایک دن ہمت کر کے ناشتے کی میز پر اپنی والدہ کو بتایا.
"ہممم. کیا کرتا ہے وہ؟" مسز نواز کچھ دیر سوچ کر اسے بغور دیکھتے ہوئے بولیں.
"ماما، 'کرتا' نہیں 'کرتی'...." ناز نے ڈرتے ڈرتے کہا.
"کیا؟!!!" الٹرا ماڈرن بیک گراؤنڈ اور لبرل نظریات کے باوجود مسز نواز کیلئے یہ اعلان کسی دھماکے سے کم نہ تھا.
"ہم دونوں نے الگ اپارٹمنٹ لے کر رہنے کا فیصلہ کیا ہے." ناز نے مزید انکشاف کیا.
"لیکن تمہیں کب یہ پتہ چلا کہ تم' نارمل' نہیں ہو؟" مسز نواز ابھی بھی کہیں اور ہی گم تھیں.
"او فار گاڈز سیک ماما... کیسی دقیانوسی مولویوں والی باتیں کر رہی ہیں. یہ کوئی ایب نارمل بی ہیوئیر نہیں ہے. کافی عرصہ پہلے ہی اسے نفسیات کی کتابوں میں ایک انوکھا پر مکمل طور پر نارمل رجحان تسلیم کر لیا گیا ہے. مجھے کبھی لڑکوں میں کوئی اٹریکشن محسوس ہی نہیں ہوئی. پہلے کئی ایک لڑکیوں کو دیکھ کر مجھے اپنے اندر عجیب سی لہریں گردش کرتی محسوس ہوتی تھیں لیکن میں انہیں وہم سمجھ کر نظر انداز کرتی رہی. پر ٹینا کو دیکھنے کہ بعد تو مجھے یقین ہو گیا کہ آئی ایم ڈفرنٹ. اٹ واز لو ایٹ فرسٹ سائیٹ..." ناز، جو اب اپنی جھجھک پر قابو پا چکی تھی، روانی سے بولتی چلی گئی.
"لیکن لوگ کیا کہیں گے. اور اگر مولویوں کو پتہ لگ گیا تو وہ تو تم لوگوں کو سنگسار کر کے چھوڑیں گے." مسز نواز ابھی تک حیرت، خوف اور پریشانی کے ملے جلے جذبات سے گزر رہی تھیں...
دوسری طرف ٹینا اپنے والد کو یہی سب کچھ پڑھا رہی تھی.
"ڈیڈی، اب ملک کے حالات وہ نہیں رہے. اب یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان نہیں، بلکہ یونائیٹڈ سٹیٹس آف پاکستان ہے. یہ ایک لبرل، سیکولر ریاست ہے. اب یہاں مولویوں کو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا. کچھ دن شور مچائیں گے جو انکا جمہوری حق ہے اور پھر خاموش ہو جائیں گے. کیونکہ تہتر کے آئین میں تہترویں ترمیم کے بعد اب ملک کا کوئی قانون انکے حق میں نہیں جاتا."
ادھر ناز نے اپنی ماں کو تسلی دیتے ہوئے کہا، "ماما، آپ فکر نہ کریں. قانون کیا، اب تو اسلام سے بھی ان چندے پر پلنے والوں کی اجارہ داری ختم کر دی گئی ہے. ہم نے چیف سکالر آف پاکستان سے مل کر تفصیلی بات کی ہے. وہ کہتے ہیں کہ 'ہمارے مطابق' قرآن میں جو اس عمل پر قوم لوط پر عذاب کا ذکر ہے، اول تو وہ صرف مردوں کے بارے میں ہے. لوط علیہ السلام کی بیوی انکی مددگار تھی صرف خوبصورت لڑکوں کی خبر پہنچانے تک. خود وہ لیزبین نہیں تھی. اور دوسری بات یہ کہ یہ عمل حرام تھا بھی تو انکی شریعت میں تھا، ہماری شریعت میں قران اس بارے میں خاموش ہے اور حدیثیں اول تو ہیں ہی بہت کم اور جو ہیں وہ بھی قابل اعتبار نہیں کیونکہ قرآن میں ایسی کوئی تصریح نہیں..."
الغرض دونوں بالآخر اپنے والدین کو منانے میں کامیاب ہو گئیں اور دونوں خاندان اگلے ہی ماہ کانووکیشن والے دن پاکستان فری میسنری ہیڈکوارٹر میں جمع ہوئے اور گرینڈ ماسٹر کے سامنے دونوں کی شادی کی تقریب نہایت خفیہ طریقے سے انجام پائی. تقریب میں گرینڈ ماسٹر نے انکا تعارف تنظیم کے اہم رکن ڈاکٹر علوی سے کروایا جو کہ شہر کے ٹاپ گائناکالوجسٹ تھے اور ساتھ ہی معنی خیز انداز میں مسکرا کر آنکھ ماری.
ٹینا اور ناز نے شہر کے پوش علاقے میں ایک اپارٹمنٹ لے لیا اور اسی میں اپنا سٹوڈیو بھی قائم کر لیا. دونوں ایبسٹریکٹ آرٹ کی ماہر تھیں اور اپنے فن کو بھی فیمن ازم، لبرل ازم، ہم جنس پرستی وغیرہ کی ترویج کیلئے استعمال کرتیں. اور ایسا وہ بلا خوف و خطر کرتیں کہ انہیں پتہ تھا کہ تجریدی آرٹ مولویوں کی سمجھ سے بالاتر چیز ہے.
ایک روز ٹینا کو صفائی کے دوران ڈاکٹر علوی کا وزٹنگ کارڈ مل گیا. اسے دیکھتے ہی اسکے دل کے کسی نہاں خانے میں موجود مامتا جاگ اٹھی اور اس نے اسی لمحے ماں بننے کا فیصلہ کر لیا.
اس نے ناز کو "شرماتے ہوئے" اپنے فیصلے سے آگاہ کیا اور ساتھ ہی ڈاکٹر علوی کی اپائنٹمنٹ بھی لے لی.
"ہمم. تو تم دونوں نے نیکسٹ سٹیپ کا فیصلہ کر ہی لیا پھر؟" ڈاکٹر علوی نے مسکرا کر پوچھا.
"جی سر. اب میری ماں بننے کی خواہش عروج پر پہنچ چکی ہے اور نازو بھی مکمل طور پر میرے ساتھ ہے." ٹینا نے لاڈ سے ناز کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا.
"کیا آپکو اندازہ ہے کہ اس قسم کا عمل اس ملک میں پہلی بار ہو گا اور پوری دنیا میں تہلکہ مچ جائے گا. اصل میں اب عین وہ وقت آن پہنچا ہے جسکے بارے میں تیس سال قبل ہی ہم مکمل پلاننگ کر چکے تھے. اس کے ردعمل سے ہم اپنا آئیندہ لائحہ عمل طے کرینگے. میں آپکو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ مولویوں کی طرف سے شدید احتجاج کی توقع ہے اور حالات پرتشدد رخ بھی اختیار کر سکتے ہیں. اگرچہ ریاستی مشینری اور قانون مکمل طور پر ہمارے کنٹرول میں ہے لیکن پھر بھی آپ تیار رہئیے گا. کسی بھی وقت آپکو ملک سے نکالنا پڑ سکتا ہے. تو پھر کیا آپ تیار ہیں؟"
"یعنی ہم پوری دنیا میں مشہور ہو جائیں گی؟ وائے ناٹ... آپ اپنا کام کریں ڈاکٹر صاحب. ہم تیار ہیں." ناز نے پرجوش لہجے میں کہا.
"ٹھیک. تو کیا آپ نے سپرم ڈونر کا بندوبست کر لیا ہے؟"
"نہیں. ہم چاہتے ہیں کہ باپ کا نام ہمارے سے اور ہونے والے بچے سے ہمیشہ پوشیدہ رہے. لہٰذا آپ ہی کسی ذہین فطین قسم کے ڈونر کا بندوبست کریں." ٹینا بولی.
"مجھے اندازہ تھا. دراصل ایک سال قبل ہی ہم نے مغربی طرز پر ایک 'سپرمز اینڈ اووا بنک' قائم کیا ہے جو فی الحال نہایت خفیہ ہے. ہم کئی بے اولاد جوڑوں کو مردانہ جرثومے اور زنانہ بیضے فراہم کر چکے ہیں. ساتھ ہی ایک پراجیکٹ 'سروگیٹ مدرہُڈ' کا بھی چل رہا ہے جس میں کسی رضاکار خاتون کا رحم کرائے پر حاصل کیا جاتا ہے. جن خواتین کا یوٹرس کسی وجہ سے نکال دیا گیا ہو، انکے بیضے کا انکے شوہر کے سپرم سے ملاپ کروا کر اس دوسری خاتون کی بچہ دانی میں امپلانٹ کر دیا جاتا ہے اور نو ماہ بعد اسکی فیس ادا کر کے بچہ والدین کے حوالے کر دیتے ہیں."
ٹینا اور ناز کی آنکھیں یہ سب کچھ سن کر پھٹی کی پھٹی اور منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا....
اور پھر ٹھیک نو ماہ بعد پورے ملک کے اخبارات کی شہہ سرخی تھی:
'یونائیٹڈ سٹیٹس آف پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار لیزبین جوڑا "ماں-ماں" بن گیا...!!!'
توقع کے عین مطابق ملک بھر میں مذہبی طبقے میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی. ہنگامے پھوٹ پڑے. ٹینا اور ناز کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا کے مطالبات زور پکڑنے لگے. اور ساتھ ہی ڈاکٹر علوی کے خلاف بھی دینی جماعتوں نے باقاعدہ مہم کا آغاز کر دیا. ایسے میں حسب معمول امریکی صدر شخصی آزادی کا نعرہ لے کر میدان میں اترا اور یہ کہتے ہوئے کہ جسم انسان کی ملکیت ہے، وہ جیسے چاہے اسے استعمال کرے، تینوں کو فرار کروا کر اپنے دیس لے گیا. قریب تھا کہ حالات قابو سے باہر ہو جاتے کہ اچانک ایک ویڈیو منظر عام پر آ گئی اور آتے ساتھ ہی وائرل ہو گئی.
یہ ویڈیو خفیہ طور پر بنائی گئی تھی جس میں ڈاکٹر علوی کو پاکستان میں فری میسنری کے گرینڈ ماسٹر کے ساتھ بات کرتے دکھایا گیا تھا. گرینڈ ماسٹر کے استفسار پر وہ بتا رہا تھا،
"مشن کامیابی سے مکمل کر لیا گیا ہے، سر. ٹینا کا انتخاب اسکی مخصوص جینیاتی ساخت کی وجہ سے کیا گیا تھا. اسکے لئیے سپرم بھی ہم نے ایک ایسے 'گے' مرد کے لئیے جو ہم جنس پرست ہونے کے علاوہ بلا کا ذہین اور جسمانی طور پر بھی نہایت مضبوط تھا. اسکے جینز میں تھوڑے سے ردوبدل کر کے، ٹینا کے بیضے سے ملاپ کے بعد ہم ایک ایسا بچہ تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جسکی جینیاتی ساخت سو فیصد یقین سے یہ ثابت کر دے گی کہ ہم جنس پرستی انسانی جینز میں موجود ایک مخصوص صلاحیت کا نام ہے نہ کہ کسی اختیاری فعل یا دماغی خلل کا. یوں ہم اسلامی تعلیمات کو مکمل طور پر غلط ثابت کر کے اسکے پھیلاؤ کو مؤثر طریقے سے روک سکیں گے....."
اور ساتھ ہی کسی عالم کا بیان چل رہا تھا جسکا عنوان تھا،