• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محترم ڈاکٹر رضوان اسد خان صاحب کی تحریریں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فیس بک کے کوچہ یادداشت سے:


ایک آخری حد تک مرعوب، معذرت خواہ اور شدید ترین احساس کمتری کا شکار طبقہ "عقل" کو "وحی" پر حاکم بنانے کی راہ پہ چل پڑا ہے۔
فرد اور معاشرے کو ہر قسم کی "الہامی" پابندیوں سے آزاد کر کے کچھ "عقلی" اور نفسانی خواہشات کے حصول کیلئے بے مہار آزادی فراہم کرنا="لبرل ازم"
اسکا سب سے بڑا ستون ریاستی امور کو "الہامی" ضابطے سے نکال کر "عقلی" ضوابط کے ماتحت کرنا ="سیکولرزم"
لبرل ازم کا دوسرا بڑا ستون قوانین کے "الہامی" ماخذ کا انکار کر کے "عقل اجتماعی" سے اخذ کرنا ="جمہوریت"
اور پھر جو بچا کھچا انفرادی نوعیت کا دین لوگوں میں رہ جائے اسے بھی "وحی غیر متلو" یعنی حدیث کو "عقلی" پیمانوں پر مشکوک بنا کر اور اسے "وحی متلو" یعنی قران سے متصادم قرار دے کر ناقابل عمل بنانا اور نت نئے نام نہاد "اجتہادات" کا دروازہ کھول کے دین میں تحریف کی بنی اسرائیلی سنت پہ عمل کرنا ="غامدیت"

اللھم انا نعوذبک من سوء الفتن۔
آمین یا رب العالمین۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
"ہیپی ویلنٹائن ڈے"
یا
"ایکسٹارٹ ان کلینڈسٹائین وے"...؟؟؟


کیپٹل ازم کا سارا دارومدار مارکیٹ پر ہے،
مارکیٹ کا سارا دارومدار "مارکیٹنگ" پر ہے،
مارکیٹنگ کا سارا دارومدار تشہیر پر ہے،
تشہیر کا سارا دارومدار کشش پر ہے،
اور عورت سے زیادہ پرکشش چیز اس کائنات میں پیدا نہیں ہوئی....!!!
اگر ویلنٹائن ڈے ختم کر دیں تو چاکلیٹس، پرفیومز، ڈریسز، بیگز، شوز، گلاسز، وغیرہ میں کشش کیسے پیدا ہو گی، کشش نہیں ہوگی تو تشہیر بےکار، تشہیر کے بغیر مارکیٹنگ بے سود، مارکیٹنگ کے بغیر مارکیٹ ڈاؤن اور مارکیٹ ڈاؤن کا مطلب ہے "ایکسٹریم کیپٹل ازم" یعنی "نیو لبرل ازم" کی موت....!!!
(یہ محض ایک مثال ہے)

نیو لبرل ازم کی موت کا مطلب ہے سرمائے کے چند ہاتھوں میں ارتکاز میں مشکلات اور پھر ان "چند ہاتھوں" کا دولت کے بل بوتے پر پارلیمنٹ، عدلیہ، مقننہ اور میڈیا (نظام کے ستونوں) پر سے کنٹرول ختم....!!!
"کنٹرول" کا مطلب ہے طاقت اور اب تک کے مسلمہ فلسفوں کے مطابق "طاقت" ہی انسان کا اصل مقصود ہے.
تو دیکھا آپ نے کہ آج کے "خفیہ ہاتھ" نے،
فرائیڈ کے "سیکس"،
مارکس کے "سرمائے"،
اور نیٹشے کے "طاقت"،
کے فلسفوں کو کس طرح
ملٹن فرائیڈ مین کے "نیو لبرل ازم"
کی ایک کڑی میں پرو کر
ڈانلڈ ٹرمپ جیسے "انٹر پرینیور" کو
دنیا کیلئے "بلیک سوان" بنا دیا ہے....!!!​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تیری مسیحائی کا سوال ہے۔۔۔!!!


رالف ڈوبیلی نے اپنی کتاب میں سوچ کے مختلف سقم واضح کیے ہیں جو مغربی عوام کے مشاہدات پر مبنی ہیں۔ اگر کوئی ہند و پاک معاشرے کی ذہنیت پر کتاب لکھے تو شاید کئی جلدیں بن جائیں۔۔۔!!!
آج ان میں سے ایک کا ذکر کرتے ہیں:
ہماری عوام کا خیال ہے کہ ڈاکٹرز مریضوں کو لوٹتے ہیں۔ پرائیویٹ کلینکس پر بڑی بڑی فیسیں بٹورتے ہیں۔ آپریشن کے بے تحاشا چارجز لیتے ہیں۔ ڈاکٹری کو کاروبار بنا رکھا ہے۔ قصائی ہیں، ڈاکو ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔
پہلے تو میں کھلے دل سے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ ہر شعبے کی طرح کالی بھیڑیں ہمارے پروفیشن میں بھی ہیں۔
-- سرکاری ہسپتال میں مریض کو صحیح طرح نہ دیکھنا اور اپنے کلینک ریفر کرنا/کروانا،
-- فارما کمپنیوں سے سازباز کر کے بے جا اور بلا ضرورت ادویہ لکھنا،
-- لیبارٹریز سے سازباز کر کے غیر ضروری ٹیسٹ کروانا،
-- ایمرجنسی کیس میں مریض کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر ناجائز پیسے کمانا،
-- غیر ضروری طور پر، محض دولت کے لالچ میں، مریض کو مہنگے ہسپتالوں میں داخل رکھنا۔۔۔۔
یہ سب بلا شبہہ "جرائم" کے زمرے میں آتے ہیں اور کوئی بھی ذی شعور، خواہ وہ ڈاکٹر ہی کیوں نہ ہو ان سب قبیح امور کی حمایت نہیں کر سکتا۔
اب آتے ہیں اصل مسئلے کی جانب:
یہ کہنا کہ ڈاکٹر پرائیویٹ کلینکس کھول کے بیٹھے ہیں اور وہاں "انّھے وا"(بے تحاشا) فیس لیتے ہیں، دراصل "سوچ کا سقم" ہے۔
بھائی آپ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ ایک "پرائیویٹ کلینک" ہے جو کہ ڈاکٹر کی ذاتی ملکیت ہے۔ یہاں وہ چاہے تو مفت دیکھے، چاہے تو 5 ہزار فیس لے۔ چاہے تو ایمرجنسی کیس دیکھے چاہے تو نہ دیکھے۔ چاہے تو ایک گھنٹہ بیٹھے، چاہے تو رات دو بجے تک بیٹھا رہے۔ آپ کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے والے؟!!!
آپکو فیس زیادہ لگتی ہے؟ آپ وہاں نہ جائیں۔ کس نے مجبور کیا ہے؟ سرکاری ہسپتال میں چیک کروا لیں۔ لیکن اگر آپ وہاں کے مصائب برداشت نہیں کر سکتے تو سہولت کی قیمت ادا کریں۔ یہ تو دکان والا معاملہ ہے۔ چیز مہنگی لگتی ہے تو نہ خریدیں، کسی سستی دکان یا یوٹیلٹی سٹور سے خرید لیں۔ لیکن کبھی مہنگے برانڈز کے ریٹ ڈالر کی قیمت کے ساتھ ہی تبدیل ہونے پر کسی نے واویلا نہیں مچایا، ریستورانوں میں حالیہ ٹیکس سے نرخوں میں بے تحاشا اضافے پر کوئی نہیں بولا۔ لان والے سیل میں قیمت دگنی کر کے آدھی لگا دیں تو یہ لوگ ایسے اس پر ٹوٹتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔۔۔!!!
لیکن گالیاں اگر کسی کو پڑتی ہیں، تو وہ ڈاکٹر ہی ہے۔۔۔!!!
لیکن خدارا اب سرکاری ہسپتالوں کی دگرگوں حالت کی ذمہ داری بھی ڈاکٹر پہ نہ ڈال دیجئے گا۔ اسکے ذمہ دار وہ ہیں جنکو آپ ہر سال ووٹ دیکر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں اور حالت نہ سدھرنے کے باوجود بار بار منتخب کرتے ہیں۔ ووٹ دیتے وقت آپکی ترجیح اور معیار اگر تھانے کچہری کے چکروں میں سہولت ہوتی ہے، تو بعد میں صحت کی سہولتوں کے فقدان کا رونا اول تو روئیں ہی ناں۔۔۔ اور اگر رونا ہی ہے تو ڈاکٹر بیچارے کو اسکا ذمہ دار نہ ٹھرائیں جو خود اس نظام میں پستا چلا جا رہا ہے۔ جو خود بھی اگر سرکاری ملازم نہیں، تو صحت کی کوئی سہولت اسکے اور اسکے کنبے کے لیے فری نہیں۔۔۔!!!
کہتے ہیں ڈاکٹری کا پیشہ کیونکہ انسانی جان سے متعلق ہے اس لیے یہ زیادہ حساس اور ذمہ دارانہ رویے کا متقاضی ہے۔ تسلیم۔۔۔۔ لیکن ٹھہرئیے۔۔
-- کیا گھر کے قریب سے ہائی وولٹیج تاروں کا ننگی حالت میں گزرنا جان کے لیے خطرناک نہیں؟
-- کیا مین ہول کا ڈھکن غائب ہونا خطرناک نہیں؟
-- کیا گلی گلی کے کونے کونے پر کوڑے کے ڈھیر بیماریاں نہیں پھیلاتے؟
-- کیا ناقص پل بنانے والے پھولوں کے ہار کے مستحق ہیں یا جوتوں کے ہار کے؟
لیکن ان سب "غافل" سرکاری اداروں میں کام نہ ہونے پر رشوت کو اب "جائز" سمجھ لیا گیا ہے۔۔۔!!!
لیکن سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر سے مریضوں کے شدید رش، غیر انسانی ڈیوٹی آورز، خود ڈاکٹرز کے لیے کھانے پینے کی سہولیات کے فقدان کے باعث کوئی معمولی کوتاہی بھی ہو جائے تو میڈیا پر بریکنگ نیوز چل پڑتی ہے۔!!!
تو جناب ہر ملک میں پرائیویٹ علاج ایک قسم کی "عیاشی"(لگژری) ہی ہوتا ہے۔ مغرب میں پرائیویٹ ڈاکٹرز کی فیس سن کر یہاں والوں کی آنکھیں ڈیلوں سے باہر آ جائیں، پر وہاں کبھی انکی عوام نے اس پر اعتراض نہیں کیا کیونکہ انہیں بنیادی اور ایمرجنسی سہولیات اعلیٰ معیار کے ساتھ سرکاری سیٹ اپ میں مل جاتی ہیں۔ آپ بھی صحت کی بہترین سہولیات چاہتے ہیں تو یہ آپکا حق ہے۔ پر یہ حق غلط جگہ نہ جتائیں۔ اپنے غلط فیصلوں کی ذمہ داری خود قبول کریں۔ اپنی غلطی دوسروں کے سر منڈھنا بھی سوچ کا ایک بہت بڑا سقم ہے۔۔۔!!!
اور چلتے چلتے ایک سقم اور بتاتا چلوں:
ایک پیشے سے متعلق لوگوں کو اجتماعی طور پر برا بھلا کہنا اور پھر انہی سے علاج کروانا۔۔۔!!!​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
2030ء...!!!


"ٹینا، تمہیں پتہ ہے کہ تم کتنی پر کشش ہو؟" ناز نے پورے پانچ منٹ تک باریک کاٹن کے بلیک سلیو لیس ٹاپ، سکن ٹائیٹ جینز اور بلیک ہائی ہیل سینڈلز میں ملبوس ٹینا کو سر تا پا گھور کر اسکی تعریف کی.
"آئینہ تو کنجوسی کر جاتا ہے پر کالج کے لڑکوں کی 'فراخ دل' نظروں کے سامنے سے گزرتے ہوئے کبھی کبھی شک پڑتا ہے کہ شاید مجھے دیکھ کر انہیں 'کچھ کچھ ہوتا ہے'."
ٹینا نے ہنستے ہوئے برجستہ جواب دیا.
"ہنستے ہوئے تو اور بھی قیامت ڈھاتی ہو. اب تک کتنے بوائے فرینڈز پھڑکا چکی ہو؟"
ناز نے اسے مسلسل اپنائیت سے دیکھتے ہوئے کہا.
"ایک بھی نہیں. میں کوئی'ایسی ویسی' لڑکی نہیں ہوں." ٹینا کھنکھناتی ہنسی کے ساتھ ایک ادا سے ماتھے پر آئی آوارہ لٹ کو ہٹاتے ہوئے بولی.
"ہممم. اسکا مطلب ہے ہمارے جیسی لڑکی ہو."ناز نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ اسے آنکھ ماری.
یہ تھا اس پیار بھرے تعلق کا آغاز، جسکے بعد محبت کی ایک انوکھی داستان نے جنم لیا. ناز شہر کے مشہور کالج میں فائن آرٹس کی سٹوڈنٹ تھی. پچھلے ایک سال کے دوران وہ کلاس کی واحد لڑکی تھی کہ بھرپور خوبصورتی کے باوجود جسکا کوئی افئیر "کالج گاسپ" کا حصہ نہیں بن پایا تھا. گوری رنگت، لمبے قد اور متناسب جسم کو دیکھ کر کئی لڑکے اسکی لمبی گھنی زلفوں کا اسیر بننے کی فرمائش کر چکے تھے، جسے اس نے ہر بار نرمی سے ٹال دیا تھا. اسے وجیہہ سے وجیہہ لڑکے میں بھی کبھی کوئی کشش محسوس نہ ہوئی تھی. بلکہ ہمیشہ سے اپنی نازک صنف کے کلب کی ممبرز میں رہنا ہی اچھا لگتا تھا.
اگلے ہفتے کے دوران ٹینا ناز کی روم میٹ بن گئی اور اب "دھنک" اور "کرن" کی یہ جوڑی کالج میں ہر جگہ اکٹھے ہی "رنگ بکھیرتی" نظر آتی. اگلے ماہ کے دوران سب جان چکے تھے کہ وہ اب محض سہیلیاں نہیں بلکہ "گرل فرینڈز" ہیں. لیکن شخصی آزادی کے رائج تصور کے مطابق کبھی کسی نے ان پر اعتراض نہ کیا.
وقت پر لگا کر گزرتا گیا اور گریجویشن کرتے پتہ بھی نہ لگا. یہی موقعہ تھا کہ وہ دونوں اپنے والدین کو اپنے مستقبل بارے فیصلے سے آگاہ کرتیں.
"ماما، وہ میں نے اپنا لائف پارٹنر چوز کر لیا ہے." ناز نے ایک دن ہمت کر کے ناشتے کی میز پر اپنی والدہ کو بتایا.
"ہممم. کیا کرتا ہے وہ؟" مسز نواز کچھ دیر سوچ کر اسے بغور دیکھتے ہوئے بولیں.
"ماما، 'کرتا' نہیں 'کرتی'...." ناز نے ڈرتے ڈرتے کہا.
"کیا؟!!!" الٹرا ماڈرن بیک گراؤنڈ اور لبرل نظریات کے باوجود مسز نواز کیلئے یہ اعلان کسی دھماکے سے کم نہ تھا.
"ہم دونوں نے الگ اپارٹمنٹ لے کر رہنے کا فیصلہ کیا ہے." ناز نے مزید انکشاف کیا.
"لیکن تمہیں کب یہ پتہ چلا کہ تم' نارمل' نہیں ہو؟" مسز نواز ابھی بھی کہیں اور ہی گم تھیں.
"او فار گاڈز سیک ماما... کیسی دقیانوسی مولویوں والی باتیں کر رہی ہیں. یہ کوئی ایب نارمل بی ہیوئیر نہیں ہے. کافی عرصہ پہلے ہی اسے نفسیات کی کتابوں میں ایک انوکھا پر مکمل طور پر نارمل رجحان تسلیم کر لیا گیا ہے. مجھے کبھی لڑکوں میں کوئی اٹریکشن محسوس ہی نہیں ہوئی. پہلے کئی ایک لڑکیوں کو دیکھ کر مجھے اپنے اندر عجیب سی لہریں گردش کرتی محسوس ہوتی تھیں لیکن میں انہیں وہم سمجھ کر نظر انداز کرتی رہی. پر ٹینا کو دیکھنے کہ بعد تو مجھے یقین ہو گیا کہ آئی ایم ڈفرنٹ. اٹ واز لو ایٹ فرسٹ سائیٹ..." ناز، جو اب اپنی جھجھک پر قابو پا چکی تھی، روانی سے بولتی چلی گئی.
"لیکن لوگ کیا کہیں گے. اور اگر مولویوں کو پتہ لگ گیا تو وہ تو تم لوگوں کو سنگسار کر کے چھوڑیں گے." مسز نواز ابھی تک حیرت، خوف اور پریشانی کے ملے جلے جذبات سے گزر رہی تھیں...
دوسری طرف ٹینا اپنے والد کو یہی سب کچھ پڑھا رہی تھی.
"ڈیڈی، اب ملک کے حالات وہ نہیں رہے. اب یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان نہیں، بلکہ یونائیٹڈ سٹیٹس آف پاکستان ہے. یہ ایک لبرل، سیکولر ریاست ہے. اب یہاں مولویوں کو کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا. کچھ دن شور مچائیں گے جو انکا جمہوری حق ہے اور پھر خاموش ہو جائیں گے. کیونکہ تہتر کے آئین میں تہترویں ترمیم کے بعد اب ملک کا کوئی قانون انکے حق میں نہیں جاتا."
ادھر ناز نے اپنی ماں کو تسلی دیتے ہوئے کہا، "ماما، آپ فکر نہ کریں. قانون کیا، اب تو اسلام سے بھی ان چندے پر پلنے والوں کی اجارہ داری ختم کر دی گئی ہے. ہم نے چیف سکالر آف پاکستان سے مل کر تفصیلی بات کی ہے. وہ کہتے ہیں کہ 'ہمارے مطابق' قرآن میں جو اس عمل پر قوم لوط پر عذاب کا ذکر ہے، اول تو وہ صرف مردوں کے بارے میں ہے. لوط علیہ السلام کی بیوی انکی مددگار تھی صرف خوبصورت لڑکوں کی خبر پہنچانے تک. خود وہ لیزبین نہیں تھی. اور دوسری بات یہ کہ یہ عمل حرام تھا بھی تو انکی شریعت میں تھا، ہماری شریعت میں قران اس بارے میں خاموش ہے اور حدیثیں اول تو ہیں ہی بہت کم اور جو ہیں وہ بھی قابل اعتبار نہیں کیونکہ قرآن میں ایسی کوئی تصریح نہیں..."
الغرض دونوں بالآخر اپنے والدین کو منانے میں کامیاب ہو گئیں اور دونوں خاندان اگلے ہی ماہ کانووکیشن والے دن پاکستان فری میسنری ہیڈکوارٹر میں جمع ہوئے اور گرینڈ ماسٹر کے سامنے دونوں کی شادی کی تقریب نہایت خفیہ طریقے سے انجام پائی. تقریب میں گرینڈ ماسٹر نے انکا تعارف تنظیم کے اہم رکن ڈاکٹر علوی سے کروایا جو کہ شہر کے ٹاپ گائناکالوجسٹ تھے اور ساتھ ہی معنی خیز انداز میں مسکرا کر آنکھ ماری.
ٹینا اور ناز نے شہر کے پوش علاقے میں ایک اپارٹمنٹ لے لیا اور اسی میں اپنا سٹوڈیو بھی قائم کر لیا. دونوں ایبسٹریکٹ آرٹ کی ماہر تھیں اور اپنے فن کو بھی فیمن ازم، لبرل ازم، ہم جنس پرستی وغیرہ کی ترویج کیلئے استعمال کرتیں. اور ایسا وہ بلا خوف و خطر کرتیں کہ انہیں پتہ تھا کہ تجریدی آرٹ مولویوں کی سمجھ سے بالاتر چیز ہے.
ایک روز ٹینا کو صفائی کے دوران ڈاکٹر علوی کا وزٹنگ کارڈ مل گیا. اسے دیکھتے ہی اسکے دل کے کسی نہاں خانے میں موجود مامتا جاگ اٹھی اور اس نے اسی لمحے ماں بننے کا فیصلہ کر لیا.
اس نے ناز کو "شرماتے ہوئے" اپنے فیصلے سے آگاہ کیا اور ساتھ ہی ڈاکٹر علوی کی اپائنٹمنٹ بھی لے لی.
"ہمم. تو تم دونوں نے نیکسٹ سٹیپ کا فیصلہ کر ہی لیا پھر؟" ڈاکٹر علوی نے مسکرا کر پوچھا.
"جی سر. اب میری ماں بننے کی خواہش عروج پر پہنچ چکی ہے اور نازو بھی مکمل طور پر میرے ساتھ ہے." ٹینا نے لاڈ سے ناز کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا.
"کیا آپکو اندازہ ہے کہ اس قسم کا عمل اس ملک میں پہلی بار ہو گا اور پوری دنیا میں تہلکہ مچ جائے گا. اصل میں اب عین وہ وقت آن پہنچا ہے جسکے بارے میں تیس سال قبل ہی ہم مکمل پلاننگ کر چکے تھے. اس کے ردعمل سے ہم اپنا آئیندہ لائحہ عمل طے کرینگے. میں آپکو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ مولویوں کی طرف سے شدید احتجاج کی توقع ہے اور حالات پرتشدد رخ بھی اختیار کر سکتے ہیں. اگرچہ ریاستی مشینری اور قانون مکمل طور پر ہمارے کنٹرول میں ہے لیکن پھر بھی آپ تیار رہئیے گا. کسی بھی وقت آپکو ملک سے نکالنا پڑ سکتا ہے. تو پھر کیا آپ تیار ہیں؟"
"یعنی ہم پوری دنیا میں مشہور ہو جائیں گی؟ وائے ناٹ... آپ اپنا کام کریں ڈاکٹر صاحب. ہم تیار ہیں." ناز نے پرجوش لہجے میں کہا.
"ٹھیک. تو کیا آپ نے سپرم ڈونر کا بندوبست کر لیا ہے؟"
"نہیں. ہم چاہتے ہیں کہ باپ کا نام ہمارے سے اور ہونے والے بچے سے ہمیشہ پوشیدہ رہے. لہٰذا آپ ہی کسی ذہین فطین قسم کے ڈونر کا بندوبست کریں." ٹینا بولی.
"مجھے اندازہ تھا. دراصل ایک سال قبل ہی ہم نے مغربی طرز پر ایک 'سپرمز اینڈ اووا بنک' قائم کیا ہے جو فی الحال نہایت خفیہ ہے. ہم کئی بے اولاد جوڑوں کو مردانہ جرثومے اور زنانہ بیضے فراہم کر چکے ہیں. ساتھ ہی ایک پراجیکٹ 'سروگیٹ مدرہُڈ' کا بھی چل رہا ہے جس میں کسی رضاکار خاتون کا رحم کرائے پر حاصل کیا جاتا ہے. جن خواتین کا یوٹرس کسی وجہ سے نکال دیا گیا ہو، انکے بیضے کا انکے شوہر کے سپرم سے ملاپ کروا کر اس دوسری خاتون کی بچہ دانی میں امپلانٹ کر دیا جاتا ہے اور نو ماہ بعد اسکی فیس ادا کر کے بچہ والدین کے حوالے کر دیتے ہیں."
ٹینا اور ناز کی آنکھیں یہ سب کچھ سن کر پھٹی کی پھٹی اور منہ کھلے کا کھلا رہ گیا تھا....
اور پھر ٹھیک نو ماہ بعد پورے ملک کے اخبارات کی شہہ سرخی تھی:
'یونائیٹڈ سٹیٹس آف پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار لیزبین جوڑا "ماں-ماں" بن گیا...!!!'
توقع کے عین مطابق ملک بھر میں مذہبی طبقے میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی. ہنگامے پھوٹ پڑے. ٹینا اور ناز کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا کے مطالبات زور پکڑنے لگے. اور ساتھ ہی ڈاکٹر علوی کے خلاف بھی دینی جماعتوں نے باقاعدہ مہم کا آغاز کر دیا. ایسے میں حسب معمول امریکی صدر شخصی آزادی کا نعرہ لے کر میدان میں اترا اور یہ کہتے ہوئے کہ جسم انسان کی ملکیت ہے، وہ جیسے چاہے اسے استعمال کرے، تینوں کو فرار کروا کر اپنے دیس لے گیا. قریب تھا کہ حالات قابو سے باہر ہو جاتے کہ اچانک ایک ویڈیو منظر عام پر آ گئی اور آتے ساتھ ہی وائرل ہو گئی.
یہ ویڈیو خفیہ طور پر بنائی گئی تھی جس میں ڈاکٹر علوی کو پاکستان میں فری میسنری کے گرینڈ ماسٹر کے ساتھ بات کرتے دکھایا گیا تھا. گرینڈ ماسٹر کے استفسار پر وہ بتا رہا تھا،
"مشن کامیابی سے مکمل کر لیا گیا ہے، سر. ٹینا کا انتخاب اسکی مخصوص جینیاتی ساخت کی وجہ سے کیا گیا تھا. اسکے لئیے سپرم بھی ہم نے ایک ایسے 'گے' مرد کے لئیے جو ہم جنس پرست ہونے کے علاوہ بلا کا ذہین اور جسمانی طور پر بھی نہایت مضبوط تھا. اسکے جینز میں تھوڑے سے ردوبدل کر کے، ٹینا کے بیضے سے ملاپ کے بعد ہم ایک ایسا بچہ تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جسکی جینیاتی ساخت سو فیصد یقین سے یہ ثابت کر دے گی کہ ہم جنس پرستی انسانی جینز میں موجود ایک مخصوص صلاحیت کا نام ہے نہ کہ کسی اختیاری فعل یا دماغی خلل کا. یوں ہم اسلامی تعلیمات کو مکمل طور پر غلط ثابت کر کے اسکے پھیلاؤ کو مؤثر طریقے سے روک سکیں گے....."
اور ساتھ ہی کسی عالم کا بیان چل رہا تھا جسکا عنوان تھا،​
"و مکروا و مکر اللہ، واللہ خیر الماکرین"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کھیل، مارکیٹنگ اور عورت

نیو لبرل کیپٹل ازم کے "پیغمبر" ملٹن فرائیڈمین کے مطابق "مارکیٹ" ہی اس "دین" کا "بھگوان" ہے. اور یہ "خدا" خوش ہوتا ہے زیادہ بکری سے، زیادہ صارفین سے..... یعنی اسکے چرنوں میں زیادہ سے زیادہ "پیسہ" لٹانے سے.

اسکے "پنڈت" جانتے ہیں کہ پیسہ اسی صورت میں لٹایا جاتا ہے جب "مال" میں کشش ہو. اسی لئیے اسکی "تبلیغ" کیلئے نہ صرف یہ کہ مال کو پرکشش بنا کر پیش کیا جاتا ہے بلکہ پرکشش چیزوں کو بھی "مال" بنا کر بیچا جاتا ہے.

یعنی کرسمس، نیو ائیر، ویلنٹائن ڈے، عید، ہولی، وغیرہ پر تحفتاً دی جانے والی چیزوں کو ہی دیدہ زیب بنانا کافی نہیں، بلکہ ان تہواروں کو ہی اس انداز میں پیش کرنا ضروری ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ تحائف خریدیں.

لیکن "پنڈت" کہتے ہیں کہ مارکیٹ کے دیوتا کو بازاروں تک کیوں محدود رکھا جائے. کیوں نہ پوری دنیا کو ہی بازار بنا دیا جائے اور ہر شخص کے دل میں اس خدا کا مجسمہ نصب ہو. ہر چیز پر "پرائیس ٹیگ" ہو اور سب کچھ برائے فروخت ہو. لہٰذا اب صرف گھر، گاڑی، خوراک، پوشاک ہی نہیں بلکہ دین، ایمان، جذبات، جسم، وفا،........، سب بکتا ہے. بس آپکو خریدار کو "لبھانے" کا "فن" آنا چاہیے.

اسی لئیے آج کی دنیا میں کھیل بھی بکتا ہے اور کھلاڑی بھی. اور کھیلوں کو بیچنے کیلئے انکے تہواروں، مثلاً اولمپکس، ورلڈ کپ ٹورنامنٹس، ومبلیڈن، سوپر بول وغیرہ کے بعد اب "کرکٹ سوپر لیگز" کو بھی "مارکیٹ" کے چرنوں میں سجدہ ریز کروا دیا گیا ہے. اور "تماشائی" کو "گاہک" بنانے کا عمل جاری ہے.

"مارکیٹنگ" کا بہت بڑا میدان آجکل کھیل کا میدان ہے...!!!

اور اگر سٹیڈیم ایک بہت بڑا "اشتہار" ہے تو "ماڈلز" کے بغیر ادھورا ہے. اور ماڈلنگ کا کام اب لیا جاتا ہے کھلاڑیوں سے اور "چئیر لیڈرز" سے.
جی وہی عورت جسکے اپنے "مال" سے پردہ ہٹا کر، اسے مارکیٹ کے مال میں کشش پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے. یہ وہ لڑکیاں ہوتی ہیں جنکا کام تماشائیوں کو کھیل کے اہم لمحات میں کھلاڑی کی اچھی کارکردگی کی طرف توجہ دلا کر ایک منظم طریقے سے داد دلوانا ہوتا ہے.
توجہ مبذول کروانا اور پھر اسے برقرار رکھنا کوئی آسان کام نہیں. یہ وہ طوطا ہے جس میں کیپٹل ازم کے دیو کی جان ہے. اس پر بے تحاشہ تحقیقات ہوئی ہیں اور سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں.
اور توجہ حاصل کرنے کیلئے آجتک عورت کے استعمال سے زیادہ مؤثر طریقہ دریافت نہیں ہوا.
آپ کو کچھ بھی "بیچنا" ہو،
عورت کو ننگا کر کے اسکے اشتہار میں پیش کر دیں.

1950 کی دہائی میں پہلی بار امریکہ میں نیشنل فٹبال لیگ کے میچوں میں تماشائیوں کی توجہ کو مرکوز کرنے کیلئے تربیت یافتہ، نیم برہنہ لڑکیوں، یعنی چئیر لیڈرز، کو استعمال کیا گیا جو اچھلتی، کودتی، رقص کرتی، "شائقین" کے "شوق" کی تمام جہتوں کو انگیخت کرتی انہیں کھیل میں مگن رکھتیں.
جی ہاں، رقص میں مہارت اور جنسی کشش انکے لئے لازمی شرط ہے. تب سے اب تک وہاں کے تمام تعلیمی اداروں میں چئیر لیڈرز کا باقاعدہ شعبہ ہوتا ہے جس میں بچیاں اور لڑکیاں فخر سے اپنی جسمانی ساخت اور خوبصورتی کے بل بوتے پر حصہ لیتی ہیں. بلکہ اب تو اس "فن" میں کمال کے مظاہرے کیلئے بین الاقوامی سطح پر مقابلے بھی منعقد کئیے جاتے ہیں.

آج دنیا میں فٹبال، باسکٹبال، بیس بال، ہاکی، اتھلیٹکس کے بعد اب کرکٹ میں بھی انکا رواج عام ہے. دنیائے کرکٹ میں 2007 کے آئی سی سی ٹی 20 ٹورنامنٹ میں پہلی بار چئیر لیڈرز کے استعمال کے بعد سے اب یہ ہر ٹی20 ٹورنامنٹ کا لازمی جزو بن چکی ہیں اور آج پی ایس ایل کے فائنل میں بھی آپکو بور نہیں ہونے دینگی اور "کھیل میں" دلچسپی برقرار رکھیں گی.

نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم نے قیامت کی نشانیوں میں بتایا تھا کہ گانے بجانے والیاں عام ہو جائیں گی. اور پھر انہیں حلال کرنے والوں پر عذاب نازل ہو گا.

کیا ہمارا عملی رویہ بالکل مشرکین مکہ جیسا نہیں؟ شرک اور سود سے لیکر فحاشی تک ان جیسے تمام گناہوں میں لتھڑ کر زبان حال سے ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ لے آؤ ہم پر وہ عذاب جس سے ہمیں ڈراتے رہتے ہو، اگر تم سچے ہو.....!!!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
روایتی انداز اور مدارس سے ہٹ کر جدید ذہن
کو برصغیر میں متاثر کرنے والی دو شخصیات


بھارت میں ڈاکٹر ذاکر نائیک
اور
پاکستان میں غامدی جی

نائیک صاحب نے دین میں موجود جدید ذہن کی بہت سی الجھنیں دور کیں.
غامدی جی نے دین کے مسلمات کو بھی الجھنوں میں تبدیل کر دیا...!!!
نائیک صاحب پر انکی حکومت نے پابندی لگا دی.
غامدی جی کا "بیانیہ" حکومت اپنانے چلی ہے...!!!
نائیک صاحب نے بیشمار "کفار" پر "اتمام حجت" کر کے ان کو مسلمان کیا اور جنت کا امیدوار بنایا.
غامدی جی نے "اتمام حجت" کو ناممکن قرار دے دیا اور بیشمار "کفار" کو "غیر مسلم" کہہ کر بغیر مسلمان کئے ہی جنت کا امیدوار بنا دیا...!!!
نائیک صاحب نے بخاری کے حدیث نمبر تک لوگوں کو یاد کروائے.
غامدی جی نے لوگوں کے دلوں میں بسی بخاری کی احادیث کو بھی کھرچ کر نکال دیا...!!!
نائیک صاحب نے لبرل سیکولر فلسفے کو شدت سے رد کیا.
غامدی جی نے لبرل ازم و سیکولر ازم کو "مشرف بہ اسلام" کر دیا...!!!
نائیک صاحب نے دہشت گردی کا سبب امریکہ اور مغربی حکومتوں کے رویے کو قرار دیا.
غامدی جی نے دہشت گردی کا سبب مدارس کے رویے کو قرار دیا...!!!
نائیک صاحب اسلاف کے فہم پر اپنے آپ کو پرکھتے ہیں.
غامدی جی اپنے فہم پر اسلاف کو پرکھتے ہیں...!!!
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ،
نائیک صاحب گستاخ رسول صل اللہ علیہ و سلم کو واجب القتل قرار دیتے ہیں.
جبکہ غامدی جی توہین رسالت پر سزائے موت کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں...!!!​
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
روایتی انداز اور مدارس سے ہٹ کر جدید ذہن
کو برصغیر میں متاثر کرنے والی دو شخصیات


بھارت میں ڈاکٹر ذاکر نائیک
اور
پاکستان میں غامدی جی

نائیک صاحب نے دین میں موجود جدید ذہن کی بہت سی الجھنیں دور کیں.
غامدی جی نے دین کے مسلمات کو بھی الجھنوں میں تبدیل کر دیا...!!!
نائیک صاحب پر انکی حکومت نے پابندی لگا دی.
غامدی جی کا "بیانیہ" حکومت اپنانے چلی ہے...!!!
نائیک صاحب نے بیشمار "کفار" پر "اتمام حجت" کر کے ان کو مسلمان کیا اور جنت کا امیدوار بنایا.
غامدی جی نے "اتمام حجت" کو ناممکن قرار دے دیا اور بیشمار "کفار" کو "غیر مسلم" کہہ کر بغیر مسلمان کئے ہی جنت کا امیدوار بنا دیا...!!!
نائیک صاحب نے بخاری کے حدیث نمبر تک لوگوں کو یاد کروائے.
غامدی جی نے لوگوں کے دلوں میں بسی بخاری کی احادیث کو بھی کھرچ کر نکال دیا...!!!
نائیک صاحب نے لبرل سیکولر فلسفے کو شدت سے رد کیا.
غامدی جی نے لبرل ازم و سیکولر ازم کو "مشرف بہ اسلام" کر دیا...!!!
نائیک صاحب نے دہشت گردی کا سبب امریکہ اور مغربی حکومتوں کے رویے کو قرار دیا.
غامدی جی نے دہشت گردی کا سبب مدارس کے رویے کو قرار دیا...!!!
نائیک صاحب اسلاف کے فہم پر اپنے آپ کو پرکھتے ہیں.
غامدی جی اپنے فہم پر اسلاف کو پرکھتے ہیں...!!!
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ،
نائیک صاحب گستاخ رسول صل اللہ علیہ و سلم کو واجب القتل قرار دیتے ہیں.
جبکہ غامدی جی توہین رسالت پر سزائے موت کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں...!!!​
غیر متفق ہونے کے باوجود متفق....
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
کیا غیر متفق کے بٹن کو حذف کرنے کی درخواست کر دی جائے۔؟۔۔ ابتسامہ!
نہیں جناب عالی!
بات دارصل یہ ہیکہ میں ڈاکٹر حفظہ اللہ کے طریقہ تبلیغ کو ناپسند کرتا ہوں. بس اور کچھ نہیں
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
توہین رسالت.
وجہ کیا ہے؟

یہود کا تعارف ایک انتہائی بدتمیز اور گستاخ قوم کے طور پر کروایا جائے تو بیجا نہ ہو گا. بلکہ اگر لبرل ازم کا حقیقی مفہوم:
نفس پرستی
اور
"نہی عن المنکر" سے شدید چڑ،
تسلیم کر لیا جائے تو آپ انہیں لبرل ازم کا بانی بھی کہہ سکتے ہیں. یہ بد بخت وہ ہیں کہ:

.. جب خود گناہ پر آمادہ ہوئے تو اسے حلال کرنے کیلئے انبیاء تک کو نہ بخشا اور ان نفوس قدسیہ سے انہی گناہوں کی من گھڑت کہانیاں منسوب کر دیں.

.. انبیاء کو جھوٹا ثابت کرنے اور انکی عزت پر کیچڑ اچھالنے کیلئے ان پر بہتان لگانے سے بھی دریغ نہ کیا.

.. اپنی خواہش نفس کی پرستش کی خاطر آسمانی کتابوں کو بھی بدل ڈالا.

.. انبیاء کے حمایتی اور مددگار فرشتوں، بالخصوص جبریل علیہ السلام سے بھی بغض پالا.

.. سیدہ مریم اور سیدنا عیسی علیہما السلام کو گالی دی. بلکہ یہ سلسلہ آجتک انکی فلموں میں سرعام جاری ہے.

.. انبیاء کی بات کو رد کرنے اور انکی گناہوں سے روکنے کی عادت سے چھٹکارے کیلئے انہیں قتل تک کرنے سے گریز نہ کیا.

الغرض، ان خبثاء نے انبیاء کرام کو عام آدمی کی سطح پر لا کر ان پر تنقید کو روا کر لیا. اور اسی منحوس کلچر کو مغرب میں "آزادی اظہار" کے خوشنما نعرے کے تحت پروان چڑھایا.
اب جب ہمارے صادق المصدوق نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم یہ فرما گئے کہ اس امت میں بھی بنی اسرائیل کے پیروکار پیدا ہونگے جو انکے ہر ہر قدم کی پیروی کرینگے، تو کیسے ممکن تھا کہ مکاری کی ملمع کاری میں لپٹی توہین رسالت کے موجدوں کی پیروی سے اس امت کے کچھ سیاہ نصیب رک رہتے؟

پس انکی تہذیب کے دلدادہ، انکے تربیت یافتہ، انکی فلموں سے موسی علیہ السلام کی کردار کشی اور عیسی علیہ السلام کو گالی اور انکے جرائد اور ویبسائٹس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی تضحیک و تحقیر سیکھنے والے یہاں بھی برساتی مینڈکوں کی طرح امڈ آئے.

رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو "راعنا" اور "سام علیکم" کہنے والے خنازیر کی روحانی اولادیں ہمارے یہاں بھی پیدا ہوئیں.
البتہ جب کعب بن اشرف کی ذریت کے ساتھ سلوک بھی وہی ہوا جو اس گستاخ رسول کے ساتھ ہوا تھا تو یہ چوہے اپنے بلوں میں دبک گئے.
غازی علم دین، عامر چیمہ، کواچی برادران اور ممتاز قادری نے ان بزدلوں پر لرزہ طاری کر دیا. اور آج بھی یہ اپنے صیہونی آقاؤں کے لے پالک بنے زیادہ تر انہی کے علاقوں سے اور یا پھر چھپ چھپ کر انٹرنیٹ پر اپنے غلیظ باطن کا متعفن فضلہ پھینکتے رہتے ہیں.

ہمیں اس بات کا علم ہو یا نہ ہو، ان ملعونوں کو خوب پتہ ہے کہ اس امت کی "نبض" حب رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) ہے جسے یہ "گدھ" مختلف طریقوں سے چھیڑ چھیڑ کر چیک کرتے رہتے ہیں کہ اس جسد میں جان باقی ہے یا بالکل ہی مردار ہو گیا ہے...!!!

اسی لئیے ابلیس نے انہیں کامیابی کا ایک ہی مشورہ دیا تھا کہ "روح محمد اس کے بدن سے نکال دو"...!!!

اب جن کو ایک جج کا ناموس رسالت کا سپاہی بن کر اٹھ کھڑا ہونا، نیندیں حرام کرنا، آنسو بہانا اور جذباتی ہونا برا لگ رہا ہے وہ اپنا روحانی ڈی این اے چیک کروا لیں. اور اگر اس میں" غیرت" کے جینز عنقا پائیں تو سمجھ لیں کہ انکا روحانی شجرہ نصب گستاخانِ یہود سے ملتا ہے...!!!
 
Top