ڈاکٹر صاحب کی تدفین میں بہت سے رقت آمیز مناظر نظر آئے
ڈاکٹر صاحب کے چھوٹے بھائی طاہر صاحب دبئی میں تھے وہ بھی پہنچ گئے۔ ڈاکٹر صاحب سے چھوٹے بھائی ارشد صاحب نے نماز فجر میں ڈاکٹر صاحب کی وفات کی خبر دی تھی۔
ڈاکٹر صاحب کے صاحبزادے عمیر بہت دیر تک قبر میں لٹانے کے بعد اپنے والد کو دیکھتے رہے۔
ڈاکٹر صاحب کے دیگر رشتہ دار بھی رو رہے تھے
یہ تو فطری چیزتھی کہ رشتہ ناطہ تھا اور قرابت داری تھی
لیکن
ڈاکٹر صاحب سے جس جس کو محبت تھی اُن کی آنکھیں واقعی نم دیکھیں ہیں۔
سب سے زیادہ افسردہ پٹھان فیملی کے ایک صاحب تھے۔ اُنہیں آج جس وقت بھی میں نے دیکھا اُن کی آنکھیں برس رہی تھیں۔ بعض اوقات مجھے خیال گزرا کہ یہ اس طرح سے رو رہے ہیں جیسے اِن کے والد ہوں حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
نماز جنازہ پڑھانے کا پروگرام تین دفعہ تبدیل ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کے بہت سے چاہنے والے تھے۔ اور مسجد میں سما نہیں رہے تھے۔ جنازگاہ میں بھی بندے زیادہ دکھائی دیئے۔ بالآخر دار الشفقت (یتیم خانہ) گراؤنڈ کو منتخب کیا گیا۔ اور وہاں نماز جنازہ پڑھائی گئی۔
سبزہ زار میں ڈاکٹر صاحب کا مدفن بنایا گیا تھا۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
یہ پہلا جنازہ تھا جس میں مجھے کوئی غیر شرعی چیز نظر نہیں آئی۔ ڈاڑھی رکھنے والے بہت کم لوگ سڑکوں پر نظر آتے ہیں لیکن آج تو مجھے حیرت ہے کہ ڈاڑھی کے بغیر دو چار ہی نظر آئے ہوں گے بقیہ سب کے سب مؤحد سلفی العقیدہ لوگ نظر آئے۔ اور اتنی تعداد میں نظر آئے کہ مجھے حافظ عبدالمنان نورپوری (گوجرانوالہ) کا جنازہ یاد آگیا۔
اللہ تعالیٰ ڈاکٹرصاحب کو معاف فرما دے۔ آمین