- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
محدثین کا فقہی مسلك
شریعت کی بنیاد وحی ہے ، وحی دو چیزوں کا نام ہے ، قرآن اور سنت ، چونکہ دو نوں کا تعلق خبر سے ہے ، اور خبر دوسرے تک پہنچانے کے لیے ناقلین کی ضرورت ہوتی ہے ، اس لیے قرآن وسنت کی آئندہ نسلوں تک تبلیغ کے لیے ناقلین یعنی راویوں کا ہونا ضروری تھا ، قرآن مجید کے راوی قراء کہلائے ، سنت کے راوی محدثین کہلائے ، قرآن مجید کی روایات ’ قراءات ‘ اور سنت کی روایات ’ احادیث ‘ کہلائیں ۔قرآن وسنت دونوں وحی ہیں ، لیکن پھر بھی ان میں کچھ فروق ہیں جو کتب اصول میں شرح و بسط سے بیان کیے گئے ہیں ، ان فروق کی وجہ سے سنت کی روایات یعنی احادیث کی حفاظت پر زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت تھی ، کیونکہ یہ نسبتا مشکل کام تھا ، اور محدثین نے اس سلسلے میں جو نمایاں جہود سر انجام دیں ، وہ بھی علم القراءات اور قراء کی نسبت زیادہ مشہور اور مہم گردانی گئیں ، حفظ سنت کے فریضے کی ادائیگی کو محدثین نے اس جانفشانی اور تندہی سے سرا نجام دیا کہ وہ اسی کے ساتھ مشہور ہوگئے ، اور بعض لوگوں کو یہاں تک غلط فہمی ہوئی کہ شاید فقہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ، اور اس غلط تاثر کو تقویت چندراویوں کے طرز عمل سے بھی ملی ۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے سنت کی نقل و روایت کو اوڑنا بچھونا بنایا ، اللہ تعالی نے انہیں فہم سنت سے بھی حظ وافر عطا کیا ، خود فن حدیث سے متعلقہ کچھ ایسے مباحث ہیں ، جنہیں وفورِ فہم و فراست کے بغیر سمجھنا امر محال ہے ۔
اور اس کا عملی ثبوت محدثین کی مرتب کردہ کتب حدیث ہیں ، ان مجموعات کو ایک طائرانہ نگاہ دیکھنے سے ہی ان کے مرتبین کی فقہی لیاقت کا اندازہ ہوجاتا ہے ، اور اگر غور و فکر اور تدبر کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ محدثین کا اپنا ایک خاص منہج او رمسلک تھا ، محدثین کے اسی فقہی ذوق کو نمایاں کرنے کے لیے شیخ عبد المجید محمود نے ایک کتاب تصنیف کی ہے بعنوان :
الاتجاهات الفقهية عند أصحاب الحدیث فی القرن الثالث الهجري
تیسری صدی ہجری کے محدثین کے فقہی رجحانات
مصنف کے نزدیک محدثین کے مستقل فقہی رجحانات تھے ، اس دعوے کے ثبوت کے لیے انہوں نے تیسری صدی ہجری کےدس جلیل القدر محدثین کی کتب حدیث سے اس بات کو ثابت کرنے کی سعی کی ہے ، جن کے اسماء گرامی یوں ہیں :
احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ ، ابوبکر ابن ابی شیبہ ، دارمی ،بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ، ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ( رحمہم اللہ جمیعا )تیسری صدی ہجری کے محدثین کے فقہی رجحانات
مصنف کے نزدیک محدثین کے مستقل فقہی رجحانات تھے ، اس دعوے کے ثبوت کے لیے انہوں نے تیسری صدی ہجری کےدس جلیل القدر محدثین کی کتب حدیث سے اس بات کو ثابت کرنے کی سعی کی ہے ، جن کے اسماء گرامی یوں ہیں :
مصنف کے بقول انہوں نے ائمہ کے فقہی اسالیب و مناہج کو سمجھنے کے لیے ان کی کتب احادیث کا بتکرار مطالعہ کیا ہے ، تاکہ مصنف کا موقف اس کی تصنیف سے سمجھنے کی کوشش کی جائے ، اس سلسلے میں انہوں نے ان کتب کی شروحات سے مدد نہ لینے کو ترجیح دی ہے ، تاکہ مصنف کی رائے تلاش کرنے میں شارح کے رجحانات اثر انداز نہ ہوں ، البتہ فقہ محدثین اور معروف مذاہب فقہیہ کے درمیان فروق اور خوبیوں خامیوں کی تلاش کے لیے کتب فقہ اور اس سے متعلقہ علوم فنون کے ذخیرہ کا مطالعہ کیا ہے ۔
کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے ، اصطلاحات وغیرہ کے تعارف کے لیے شروع میں ’’ تمہید مباحث ‘‘ الگ ہیں ، جن میں حدیث اور سنت ، فقہ اور حدیث جیسی اصطلاحات کے درمیان فرق واضح کیا گیا ہے ۔
باب اول : محدثین کا فقہی مکتبہ فکر
فصل اول میں اہل حدیث اور اہل رائے کے درمیان اختلاف اور اس کے اسباب پر بحث کی گئی ہے ،
فصل دوم میں محدثین کی دیگر لوگوں سے مخاصمت اور اس کے اسباب و نتائج بیان کیے گئے ہیں ۔
تیسری فصل میں فقہاء محدثین اور اہل ہدیث کے فقہی مذہب کے متعلق ہے ، جس میں یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ شروع میں محدث اور فقیہ ایک ہی شے کے دو نام تھے ، پھر کچھ حوالہ جات نقل کیے گئے ہیں ، جن سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ محدثین کا اپناایک مستقل فقہی مذہب تھا ۔
چوتھی فصل میں صحابہ کرام کے فقہ میں طرز استدلال کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے ، اور یہ کہ محدثین کس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے طرز عمل سے متاثر ہوئے ۔
باب دوم : محدثین کا اثری رجحان
اس میں تین فصلیں ہیں ، قرآن اور سنت کا باہمی ربط کیا ہے ؟ پہلی فصل میں اس بات کی وضاحت ہے ، دوسری فصل میں اخبار آحاد ، مراسیل و مقاطیع کی حجیت کے متعلق گفتگو کی گئی ہے ۔ فصل سوم میں محدثین کے اس اثری رجحان کے نتائج بیا ن کیے گئے ہیں ۔
باب سوم : اہل ظاہر کی طرف میلان
یہاں بھی تین فصلیں ہیں ، پہلے اہل حدیث اور اہل ظاہر کا کیا تعلق ہے ، اس پر بات کی گئی ہے ، فصل دوم میں ظاہری مذہب کے اصول بیان کیے ہیں ، او رتیسری فصل میں ظاہریت کا دیگر مذاہب کے ساتھ تقابل کیا گیا ہے ۔
باب چہارم : اہل حدیث کا فطری میلان
پہلے تو اس عنوان کی وضاحت کی گئی ہے کہ اس ’’ فطری میلان ‘‘ سے مراد کیا ہے ، پھر یہ بتایا گیا ہے کہ اس میلان کا ان کے طرز استدلال پر کیا فرق پڑا ؟ اور محدثین کا طرز استدلال دیگر لوگون سے کس بنیاد پر مختلف تھا ؟ وغیرہ .
باب پنجم : اہل حدیث اور اہل رائے کے درمیان اختلافی مسائل
پہلی فصل میں امام ابو حنیفہ اور امام ابن ابی شیبہ کے درمیان مختلف فیہ مسائل پر بات کی گئی ہے ۔
دوسری فصل میں امام بخاری اور اہل رائے کے درمیان متنازع مسائل پر گفتگو کی گئی ہے ۔
اور آخر میں پوری کتاب کا خلاصہ اور اس علمی بحث اور جد و جہد سے حاصل ہونے والے نتائج کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔
موقعہ ملا تو اس خلاصے کو اردو زبان میں منتقل کرنے کی کوشش کروں گا . إن شاءاللہ .