• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدث ابن حبان اور قبروں سے فیض

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اس پر راۓ درکار ہے - اس میں کوئی ڈنڈی ماری گئی ہے تو پلیز بتا دیا جا ے تا کہ اس کا رد کیا جا سکے
ابن حبان مردوں کے سنے کے قائل اور نیک و صالحین کی قبور پر جا کر دعا کرتے اور وہ ان کے مطابق قبول بھی ہوتیں

وما حلت بي شدة في وقت مقامي بطوس, فزرت قبر علي بن موسى الرضا صلوات الله على جده وعليه ودعوت الله إزالتها عني إلا أستجيب لي, وزالت عني تلك الشدة, وهذا شيء جربته مرارا, فوجدته كذلك
طوس میں قیام کے وقت جب بھی مجھے کوئی پریشانی لاحق ہوئی ،میں نے (امام) علی بن موسی الرضا صلوات الله على جده وعليه کی قبرکی زیارت کی، اور اللہ سے اس پریشانی کے ازالہ کے لئے دعاء کی ۔تو میری دعاقبول کی گئی،اورمجھ سے وہ پریشانی دورہوگئی۔اوریہ ایسی چیز ہے جس کامیں نے بارہا تجربہ کیا تو اسی طرح پایا

[الثقات لابن حبان، ط دار الفكر: 8/ 456]

قبروں سے فیض حاصل کرنے اور مردوں کے سننے کے ابن حبان قائل تھے

کہا جاتا ہے کہ ابن حبان صالحین کی قبروں کی زیارت کے وقت کودعاء کی قبولیت کاوقت سمجھتے ہوں گے لیکن ایسا کسی حدیث میں نہیں لہذا یہ بدعت ہوئی اور پھر ان کا مردوں کے سننے کا عقیدہ اس بات کو اور الجھا دیتا ہے


ذهبی کتا ب سیر اعلام النبلاء ،ج ٩ ص ٣٤٤ ، میں لکھتے ہیں
وعن ابراهیم الحربی ، قال ۰ قبر معروف ( الکرخی ) التریاق المجرب

اور ابراهیم حربی کہتے هیں کہ معروف (کرخی) کی قبر مجرب تریاق هے


الذھبی اس با ت کی تا ئید کرتے ہیں


يُرِيْدُ إِجَابَةَ دُعَاءِ المُضْطَرِ عِنْدَهُ؛ لأَنَّ البِقَاعَ المُبَارَكَةِ يُسْتَجَابُ عِنْدَهَا الدُّعَاءُ، كَمَا أَنَّ الدُّعَاءَ فِي السَّحَرِ مَرْجُوٌّ، وَدُبُرَ المَكْتُوْبَاتِ، وَفِي المَسَاجِدِ، بَلْ دُعَاءُ المُضْطَرِ مُجَابٌ فِي أَيِّ مَكَانٍ اتَّفَقَ، اللَّهُمَّ إِنِّيْ مُضْطَرٌ إِلَى العَفْوِ، فَاعْفُ عَنِّي

یعنی ابراہیم حربی کی مراد یہ هے کہ معروف کرخی کی قبر کے پاس مضطر آدمی کی دعا قبول هوتی هے ،کیونکہ مبارک مقامات کے پاس دعا قبول هوتی هے ،جیسا کہ سحری کے وقت ،اور فرض نمازوں کے بعد ،اور مساجد میں ،بلکہ مضطر آدمی کی دعا هر جگہ قبول هو تی هے

ہمارے نزدیک مردوں کے سننے کا عقیدہ اور قبروں سے فیض حاصل کرنا گمراہی ہے

اللہ ہم سب کو ہدایت دے


 
Last edited by a moderator:

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اس پر شعيب الأرناؤوط تعلیق میں لکھتے ہیں

هذا الكلام لا يسلم لقائله، إذ كيف يكون قبر أحد من الاموات الصالحين ترياقا ودواءا للاحياء، وليس ثمة نص من كتاب الله يدل على خصوصية الدعاء عند قبر ما من القبور، ولم يأمر به النبي صلى الله عليه وسلم، ولا سنه لامته، ولا فعله أحد من الصحابة والتابعين لهم بإحسان، ولا استحسنه أحد من أئمة المسلمين الذين يقتدى بقولهم، بل ثبت النهي عن قصد قبور الأنبياء والصالحين لاجل الصلاة والدعاء عندها

ایسا کلام قائل کے لئے مناسب نہیں کیونکہ کسی نیک شخص کی قبر کیسے تریاق یا دوا زندوں کے لئے ہو سکتی ہے ؟اور اس پر ایک رتی بھی کتاب الله میں دلیل نہیں کہ کوئی خصوصیت نکلتی ہو قبروں کے پاس دعا کی اور ایسا نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم نہیں کیا اور امت کو کہا اور نہ صحابہ نے نہ التابعين نے ایسا کیا نہ ائمہ مسلمین نے اس کو مستحسن کہا جن کے قول کی اقتدہ کی جاتی ہے، بلکہ دعا یا نماز کے لئے انبیاء والصالحين کی قبروں (کے سفر ) کے قصد کی ممانعت ثابت ہے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ابن حبان مردوں کے سنے کے قائل اور نیک و صالحین کی قبور پر جا کر دعا کرتے اور وہ ان کے مطابق قبول بھی ہوتیں
وما حلت بي شدة في وقت مقامي بطوس, فزرت قبر علي بن موسى الرضا صلوات الله على جده وعليه ودعوت الله إزالتها عني إلا أستجيب لي, وزالت عني تلك الشدة, وهذا شيء جربته مرارا, فوجدته كذلك
طوس میں قیام کے وقت جب بھی مجھے کوئی پریشانی لاحق ہوئی ،میں نے (امام) علی بن موسی الرضا صلوات الله على جده وعليه کی قبرکی زیارت کی، اور اللہ سے اس پریشانی کے ازالہ کے لئے دعاء کی ۔تو میری دعاقبول کی گئی،اورمجھ سے وہ پریشانی دورہوگئی۔اوریہ ایسی چیز ہے جس کامیں نے بارہا تجربہ کیا تو اسی طرح پایا
[الثقات لابن حبان، ط دار الفكر: 8/ 456]

قبروں سے فیض حاصل کرنے اور مردوں کے سننے کے ابن حبان قائل تھے
کہا جاتا ہے کہ ابن حبان صالحین کی قبروں کی زیارت کے وقت کودعاء کی قبولیت کاوقت سمجھتے ہوں گے لیکن ایسا کسی حدیث میں نہیں لہذا یہ بدعت ہوئی اور پھر ان کا مردوں کے سننے کا عقیدہ اس بات کو اور الجھا دیتا ہے
ابن حبان رحمہ اللہ بہت بڑے امام تھے علم حدیث میں ان کی بہت ساری کوششیں و کاوشیں ہیں لیکن عقیدے کے بعض مسائل میں ان سے غلطیاں ہوئی ہیں ۔ لہذا ہم ان کا احترام کرتے ہیں اور ان کی غلطیوں کو قرآن وسنت کے خلاف دلیل بنانے کی بجائے ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔
ہاں ابن حبان نے کام کیا ہے اگر قرآن وسنت اور فعل صحابہ سے اس کی کوئی دلیل یا نظیر ملتی ہے تو پیش فرمادی جائے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ذهبی کتا ب سیر اعلام النبلاء ،ج ٩ ص ٣٤٤ ، میں لکھتے ہیں
وعن ابراهیم الحربی ، قال ۰ قبر معروف ( الکرخی ) التریاق المجرب

اور ابراهیم حربی کہتے هیں کہ معروف (کرخی) کی قبر مجرب تریاق هے


الذھبی اس با ت کی تا ئید کرتے ہیں


يُرِيْدُ إِجَابَةَ دُعَاءِ المُضْطَرِ عِنْدَهُ؛ لأَنَّ البِقَاعَ المُبَارَكَةِ يُسْتَجَابُ عِنْدَهَا الدُّعَاءُ، كَمَا أَنَّ الدُّعَاءَ فِي السَّحَرِ مَرْجُوٌّ، وَدُبُرَ المَكْتُوْبَاتِ، وَفِي المَسَاجِدِ، بَلْ دُعَاءُ المُضْطَرِ مُجَابٌ فِي أَيِّ مَكَانٍ اتَّفَقَ، اللَّهُمَّ إِنِّيْ مُضْطَرٌ إِلَى العَفْوِ، فَاعْفُ عَنِّي

یعنی ابراہیم حربی کی مراد یہ هے کہ معروف کرخی کی قبر کے پاس مضطر آدمی کی دعا قبول هوتی هے ،کیونکہ مبارک مقامات کے پاس دعا قبول هوتی هے ،جیسا کہ سحری کے وقت ،اور فرض نمازوں کے بعد ،اور مساجد میں ،بلکہ مضطر آدمی کی دعا هر جگہ قبول هو تی هے
اس کا یہ بہترین جواب ہے :
اس پر شعيب الأرناؤوط تعلیق میں لکھتے ہیں
هذا الكلام لا يسلم لقائله، إذ كيف يكون قبر أحد من الاموات الصالحين ترياقا ودواءا للاحياء، وليس ثمة نص من كتاب الله يدل على خصوصية الدعاء عند قبر ما من القبور، ولم يأمر به النبي صلى الله عليه وسلم، ولا سنه لامته، ولا فعله أحد من الصحابة والتابعين لهم بإحسان، ولا استحسنه أحد من أئمة المسلمين الذين يقتدى بقولهم، بل ثبت النهي عن قصد قبور الأنبياء والصالحين لاجل الصلاة والدعاء عندها
ایسا کلام قائل کے لئے مناسب نہیں کیونکہ کسی نیک شخص کی قبر کیسے تریاق یا دوا زندوں کے لئے ہو سکتی ہے ؟اور اس پر ایک رتی بھی کتاب الله میں دلیل نہیں کہ کوئی خصوصیت نکلتی ہو قبروں کے پاس دعا کی اور ایسا نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم نہیں کیا اور امت کو کہا اور نہ صحابہ نے نہ التابعين نے ایسا کیا نہ ائمہ مسلمین نے اس کو مستحسن کہا جن کے قول کی اقتدہ کی جاتی ہے، بلکہ دعا یا نماز کے لئے انبیاء والصالحين کی قبروں (کے سفر ) کے قصد کی ممانعت ثابت ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
اڈمن سے گزارش ہے کہ میری پوسٹس کو منظور کرے تا کہ بات کو آگے بڑھایا جا سکے - شکریہ

اس کا یہ بہترین جواب ہے :

@خضر حیات بھائی الله آپ کو جزا ے خیر دے امین

یہاں آپ نے جو جواب دیا وہ صحیح ہے یا @کفایت اللہ بھائی نے جو جواب دیا ہے وہ صحیح ہے


ہمارا طرز عمل ہونا چاہئے کہ ہم اس کو گمراہی کہہ سکیں نہ کہ لیپا پوتی میں لگ جائیں


امام احمد کہتے ہیں بحر الدم (1010) بحوالہ موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله، دار الکتب

وقال أحمد: معروف من الأبدال، وهو مجاب الدعوة


احمد کہتے ہیں معروف ابدال میں سے ہیں اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
ابن حبان رحمہ اللہ بہت بڑے امام تھے علم حدیث میں ان کی بہت ساری کوششیں و کاوشیں ہیں لیکن عقیدے کے بعض مسائل میں ان سے غلطیاں ہوئی ہیں ۔ لہذا ہم ان کا احترام کرتے ہیں اور ان کی غلطیوں کو قرآن وسنت کے خلاف دلیل بنانے کی بجائے ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں ۔
ہاں ابن حبان نے کام کیا ہے اگر قرآن وسنت اور فعل صحابہ سے اس کی کوئی دلیل یا نظیر ملتی ہے تو پیش فرمادی جائے ۔

مردوں کے سننے اور قبروں سے فیض کا عقیدہ اگر کوئی دیوبند کا عالم نقل کرے تو اس کی مغفرت کی بجائے اہل حدیث حضرات اس پر کتاب کیوں لکھ دیتے ہیں؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اڈمن سے گزارش ہے کہ میری پوسٹس کو منظور کرے تا کہ بات کو آگے بڑھایا جا سکے - شکریہ
@خضر حیات بھائی الله آپ کو جزا ے خیر دے امین
یہاں آپ نے جو جواب دیا وہ صحیح ہے یا @کفایت اللہ بھائی نے جو جواب دیا ہے وہ صحیح ہے
ہمارا طرز عمل ہونا چاہئے کہ ہم اس کو گمراہی کہہ سکیں نہ کہ لیپا پوتی میں لگ جائیں
امام احمد کہتے ہیں بحر الدم (1010) بحوالہ موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله، دار الکتب
وقال أحمد: معروف من الأبدال، وهو مجاب الدعوة
احمد کہتے ہیں معروف ابدال میں سے ہیں اور ان کی دعا قبول ہوتی ہے
دونوں جگہ جوابوں میں کوئی تعارض یا تناقض نہیں ہے ۔
کفایت اللہ بھائی مسئلہ کی وضاحت کےساتھ ساتھ یہ بات بیان کی ہے کہ ابن حبان یا ان جیسا کوئی محدث ہمارے لیے قرآن وسنت کے مقابلے میں قابل حجت نہیں ۔
میں نےیہی بات بلا کسی دوسری وضاحت کے عرض کردی ہے ۔
مردوں کے سننے اور قبروں سے فیض کا عقیدہ اگر کوئی دیوبند کا عالم نقل کرے تو اس کی مغفرت کی بجائے اہل حدیث حضرات اس پر کتاب کیوں لکھ دیتے ہیں؟
اہل حدیثوں کو آپ جیسے مجاہیل کے ’’ مشاویر ‘‘ کی ضرورت نہیں ، آپ سے بہتر جانتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔
جو لکھا ہے اس میں غلطی واضح کریں ، آپ کسی کی ڈیوٹی نہیں لگا سکتے کہ فلاں کام کریں یا نہ کریں ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
مردوں کے سننے اور قبروں سے فیض کا عقیدہ اگر کوئی دیوبند کا عالم نقل کرے تو اس کی مغفرت کی بجائے اہل حدیث حضرات اس پر کتاب کیوں لکھ دیتے ہیں؟
متفق -

اہل حدیث حضرات کو اپنے رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے- ورنہ باطل فرقوں اور ان میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا-
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,799
پوائنٹ
1,069
علماء کرام کا مزاق اڑانا اور انکی توہین کرنا ۔

عن كعب بن مالك رضي الله عنه قال : قالرسول الله صلى الله عليه وسلم : “من طلب العلم ليجاري به العلماء أو ليماريبه السفهاء أو يصرف به وجوه الناس إليه أدخله الله النار” رواه الترمذي
(مشكوة – مرقاة ٢٧٨/١)

کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" کوئی بھی شخص اگر اس واسطے علم حاصل کرے کہ علماء کی ہمسری کرے، یا بیوقوفوں سے مناظرے کرے یا لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے، تو (ایسے شخص) کو اللہ آگ میں ڈالے گا-"

[ترمذی نے اسے روایت کیا- الفاظ مشکوة کے ہیں]

کعب بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" جو شخص بھی اگر اس واسطے علم حاصل کرے کہ علماء کی برابری کرے، یا بیوقوفوں سے مناظرے کرے یا لوگوں کی توجہ حاصل کے لئے، تو (ایسے شخص) کو اللہ آگ میں ڈالے گا-"

[شعب الایمان بیہقی ١٦٣٥، صحیح السیوطی]

عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" اللہ کی نظر میں سب سے ذلیل بندہ وہ ہے جسکی کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کے ساتھ (بلا وجہ) تنازعات میں پڑے- (صرف اور صرف اپنے علم اور بحث ؤ دلائل کے فن کے دکھاوے کے واسطے)-

[صحیح مسلم کتاب ٣٣،حدیث ٦٤٤٧]

ابو عمامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"کوئی لوگ ہدایت پانے کے بعد گمراہ نہیں ہوتے مگر وہ جو (بلا وجہ) بحث میں پڑتے ہیں"- پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی،

" مَا ضَرَبُوْهُ لَكَ اِلَّا جَدَلًا ۭ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ"-

" تجھ سے ان کا یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے، بلکہ یہ لوگ ہیں جھگڑالو"

[سورہٴ الزخرف:٥٨]
[سنن ترمذی کتاب التفسیر، # ٣٢٥٣،صحیح]


شیخ سلیمان الرھیلی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو انھوں نے اس بابت کہا:

" گمراہ ہونے کے وجوہات میں سے ایک علماء کی توہین کرنا ہے - یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو ایک انسان کو رلا دیتا ہے- او میرے بھائیوں! یہ عمل بذات خود گمراہ کن ہے اور یہی عمل گمراہی کا سبب بھی بنتی ہے- گمراہی اور اسکے وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نوجوان نسل سنت رسول صلی اللہ وسلم کے علماء کی بے عزتی کرتی ہے؛ اور یہ نوجوان نسل ان علماء کی تضحیک کرتی ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی قرآن ؤ سنت سیکھنے اور انہی بنیادوں سے علم لوگوں کے سکھانے میں لگا دی؛ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی اللہ کی اطاعت میں گزار دی- انکی امانت داری اور سچائی کی گواہی تقوی دار لوگوں کے زبان زد عام ہے اور انہی کے ذمہ علم کی تدریس اور فتوے دینا ہے- لیکن ان سب کے باوجود یہ نوجوان نسل انہی علماء کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے اور انکو گالیاں دیتی ہیں- انکا یہی عمل انکو انسانی شیطانوں کے لئے ایک آسان شکار بنا دیتی ہے اور جسکا نتیجہ گالی گلوچ، شکوک ؤ شبہات اور اپنے رائے ؤ خواہشات کی پیروی کی شکل میں ابھر آتا ہے- اے اللہ کے بندو ! آپکو افسوس ہو گا، جب آپ ایک ایسے نوجوان کو دیکھتے ہو اللہ کی فرمانبرداری کے حوالے سے بالکل غفلت میں ہے؛ وہ فرائض کو ترک کرتا ہے اور وہ ممنوع اعمال کا مرتکب ہوتا ہے؛ لیکن پھر بھی اسکے منہ سے علماء کے لئے گالی نکلتی ہے- وہ کہتا ہے:

" ہمیں ان علماء کی ضرورت نہیں- انکے پاس فلاں فلاں ہے یہ وہ فلاں فلاں کام کرتے ہیں- ہم ان علماء کو سننا چاہتے ہیں جو ہمیں یہ نہ کہیں کہ "یہ چیز حرام ہے"، وہ ہمیں یہ نہ کہیں کہ "یہ چیز فرائض میں سے ہے"،- وہ کہتے ہیں جن اکابر علماء کی آپ بات کر رہے ہو ہمیں انسے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی انکو سننا چاہتے ہیں- انکے بیانات میں تو صرف نصیحت،غصہ اور ڈرانا ہی ہوتا ہے جو کہ ہماری نسل کو ذمہ دار بنانے کے لئے کافی نہیں-"

جب آپ ایک ایسےنوجوان کو دیکھتے ہو،جس میں آپکو اچھائی نظر آئیگی، اسمیں آپکو سنت کی جھلک نظر آئیگی، اسکے عمل میں نیکی نظر آئیگی، لیکن آپکا دل خفا ہوگا اور روئے گا ان سب کے باوجود بھی آپ اس نوجوان کو ان مجمعوں میں دیکھو گے جہاں علماء کی بے عزتی ہوتی ہے انکو گالیاں دی جاتی ہیں، انکو خقیر سمجھا جاتا اور انکا مذاق اڑایا جاتا ہے- میرے بھائیوں! یہ گمراہ عمل گمراہی کے اسباب میں سے ایک سبب ہے- اسکا حل یہ ہے کہ نوجوان نسل میں علماء کی عزت، انکے حقوق، انکے مرتبے، انکے علم وغیرہ کی اہمیت اجاگر کی جائے اور ان مجمعوں سے انکو درس ؤ تدریس اور آگاہی کے زریعے سے بچا جائے جہاں علماء کی تضحیک ہوتی ہے-

شیخ صالح الفوزان نے فرمایا:

" مسلمانوں پر اپنے علماء کا احترام فرض ہے، کیونکہ یہ انبیاء کے وارث ہیں- انکی تضحیک انکی منصب کی تضحیک ہے اور انکے عہدے کی تضحیک اس وراثت اور علم کی تضحیک ہے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں ملا ہے- انکے عہدے، منصب، علم اور ان پر اسلام اور امت کی بہتری کی ذمداری کی وجہ سے مسلمانوں پر انکا احترام فرض ہے- اگر علماء کو قابل اعتبار نہیں سمجھا جائے گا تو پھر کس کو ؟ اگر علماء پر سے لوگ اپنا یقین اٹھا لیں تو پھر امت اپنے مسائل اور بنیادی اصولوں سے آگاہی کے لئے کن کی طرف رجوع کرینگے؟ امت تباہ ہو جائے گی اور ہر طرف انتشار پھیل جایگا-

شیخ، اللہ انکی حفاظت کرے، نے بالکل سچ بولا- اور جو شیخ نے بولا ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نمودار ہو چکا ہے (یعنی تباہی ؤ انتشار)- ہم دیکھتے ہیں کہ کسطرح ہم میں بہتوں نے اکابر علماء کے علم ؤ فہم کو چھوڑ دیا اور ان لوگوں کی رائے کے پیچھے دوڑتے چلے جا رہے ہیں جن کے پاس علم نہیں ہے مگر تھوڑا سا- ہم اللہ سے دعاکرتے ہیں کہ ہمیں نیکی کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، اور حق کو قائم اور ان امور کو کرنے میں، جو ہم پر لازم ہیں، ہماری مدد کریں،


[حوالہ: : http://mtws.posthaven.com/from-the-...or-the-scholars-shaykh-sulaymaan-ar-ruhaylee]
 
Top