• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدث تقی الدین ابن دقید العید

شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
45
چیف جسٹس تقی الدین محمد ابن دقیق العید رحمہ اللہ

625 تا 702ھ

1 نام نسب
ابوالفتح تقی الدین محمد بن علی بن وہب بن مطیع بن ابی طاعہ ابن دقیق المنفلوطی القوصی الثبجی المصری ۔ ”صحابی رسول بہز بن حکیم القشیری کی اولاد سے ہیں“۔ آپ کی والدہ شیخ الصالح تقی الدین مظفر بن عبد اللہ المقترح کی بیٹی تھیں۔
2 دقیق العید کی وجہ تسمیہ
محدث تقی الدین کے والد کے دادا نے ایک عید کے دن نہایت سفید رنگ کی چادر اوڑھ رکھی تھی لوگوں نے جب آپ کو دیکھا تو بے ساختہ یہ کہا کہ شیخ تو آج دقیق العید یہنی عید کا آٹا دکھائی دے رہے ہیں ۔ یہی لقب والد اور خود تقی الدین کا مشہور و معروف ہوا.
3 خاندان
محدث تقی الدین محمدؒ” کے والد ابو الحسن علی بن وہبؒ متفوفی۔ 667ھ علم وعمل عبادت و زہد اور تقویٰ کے خوگر تھے اور انہیں ساری علمی دنیا میں قدر احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور ہر کوئی انہیں عزت و احترام کے ساتھ شیخ کے لقب سے پکارتا تھا“.
محدث تقی الدین محمد بن دقیق العیدؒ ”کی والدہ شیخ فطفر بن عبداللہ بن علی المصری کی دختر نیک اختر تھی وہ اپنے دور میں مصر کے مفتی اعظم کے منصب پر فائز تھے ۔ انہیوں نے فقہ اور اصول فقہ پر بہت سی کتب تصنیف کرنے کا اعزاز حاصل کیا ۔ ان کتب کو قاہرہ اور اسکندریہ کی مذہبی جماعت نے زیور طباعت سے آراستہ کرنے کی سعادت حاصل کی محدث تقی الدین محمد بن دقیق العیدؒ کے نانا نے اسکندریہ میں 612ھ میں وفات پائی“۔ ”محدث تقی الدین محمد بن دقیق العیدؒ ددھیال ننھیال کی طرف سے نجیب الطرفین تھے“.
4 ولادت اور وطن
ابن دقیقؒ کی پیدائش برور ہفتہ 15 شعبان۔ 625ھ بمطابق 22 جولائی۔ 1228ء کو بحیرہ احمر کے ساحل پر ینبع کے قریب سمندری سفر کے دوران ہوئی جب اُن کے والدین قوص سے حجاز حج کی ادائیگی کے لیے مکہ پہنچنے والے تھے ۔ والدین جب مکہ پہنچے تو والد نے سب سے پہلے اپنے نو مولود بیٹے کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر بیت اللّٰہ کا طواف کیا اور یہ دعا کی کہ اللّٰه سبحانہ تعالیٰ اسے عالم باعمل بنائے ۔ محدث تقی الدین محمد بن دقیق العید نے قوص بستی میں پرورش پائی کیونکہ ان کے والد اسی بستی میں رہائش پزیر تھے.
5 ابتدائی تعلیم
تعلیم کی ابتداء قرآن مجید فرقان حمید سے کی پھر حدیث کا علم حاصل کرنے کے لیے دمشق اور اسکندریہ کا سفر اختیار کیا مصر شام اور حجاز کے علماء سے علوم کے سماع کی سعادت حاصل کی.
6 علمی رحلت اور اساتذہ
آپ کی نشو و نما قوص میں ہوئی، جہاں آپ نے مالکیہ اور شافعی علماء سے حدیث کا درس لیا ۔ قرأت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُنہوں نے فقہ مالکی کی تعلیم اپنے والد 1۔ ”شیخ علی بن وہب“ سے اور فقہ شافعی کی تعلیم اپنے والد کے اور اُن کے شاگرد، 2۔ ”بہاء الدین ھبۃ اللہ القفطی“ سے حاصل کی۔ اِس کے بعد قاہرہ چلے گئے اور وہاں، 3۔ ”محمد بن عبدالسلام“، 4۔ ”ابوالحسن بن فقیر“، 5۔ ”ابن الرواج“ سے علم حدیث کی تحصیل کی۔ دمشق میں، 6۔ ”شیخ ابی العباس احمد بن عبدالدائم بن نِعمہ المقدسی“ اور، 7۔ ”ابوالبقاء خالد بن یوسف“ سے سماع حدیث کیا ۔ بعد ازاں اسکندریہ چلے آئے اور یہاں، 8۔ ”شیخ الحافظ عبدالعظیم المنذری۔متوفیٰ 656ھ بمطابق 1258ء“، 9۔ ”محمد بن انجب الصوفی بغدادی“، 10۔ ”ابوعلی الحسن بن محمد التیمی البکری“ اور، 11۔ ”ابوالحسن عبدالوہاب بن حسن الدمشقی“ سے سماع حدیث کا شرف حاصل کیا۔ بعد ازاں مصر، بلاد الشام اور حجاز کے علمائے حدیث سے مزید علم حاصل کیا، 12۔ ”شیخ الاسلام عز بن عبدالسلام۔ متوفیٰ 660ھ“ سے تلمذ شرف حاصل کیا۔ عربی زبان اورفقہ کی تعلیم۔ 13۔ ”شیخ شرف الدین محمد بن ابی الفضل المرسی“ سے حاصل کی۔اپنی والدہ سے بھی سماع حدیث کیا ۔ اِس نتیجے میں اُنہیں علم فقہ اور علم حدیث میں ایسی بصیرت حاصل ہوئی جو اُس زمانے میں بہت کم لوگوں کو حاصل تھی۔
7 تلامذہ
مصر اور قوص میں حدیث کی خدمت بجا لانے کا شرف حاصل کیا آپ نے دینی علوم کو حاصل کرنے اور پھر ان کی نشر و اشاعت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا. اس دوران لوگوں کی اکثریت نے ان سے علمی استفادے کا شرف حاصل کیا نیز آپ نے”دارالحدیث الکاملیہ“میں صدر المدرسین کا عہدہ سنبھالا ۔ جن مشہور علماء نے آپ کے سامنے زانوے تلمذ تہ کے ان میں سے بعض علماء کے اسماۓ گرامی یہ ہیں.
1۔ شیخ عبدالکریم بن عبدالنورؒ حلبی المتوفیٰ۔ 735ھ۔
2۔ حافظ ابوعبداللہ محمد بن احمد بن عثمان الذہبیؒ المتوفیٰ۔ 748ھ۔
3۔ امام ابوالفتح محمد بن محمد سید الناس الیعمریؒ المتوفی۔ 734ھ۔
4۔ الحافظ یوسف بن الزکی عبدالرحمان المزی المتوفی۔ 742ھ۔
8 علمی مقام و مرتبہ
بیشتر اکابر علماء جنہوں نے محدث تقی الدین محمد بن دقیق العیدؒ سے علمی استفادہ کیا انہوں نے اپنے استاذ کی تعریف میں جو باتیں کیں ان کی ایک جھلک قارین اکرام کی خدمت میں پیش ہے اور وہ لوگ جنہوں نے آپ کی وفات کے بعد آپ کی کتب سے استفادہ کیا وہ بھی آپ کی تعریف میں رطب السان دکھائی دیتے ہیں وہ بھی آپ کی علمی فقاہت کی گواہی دیتے ہیں.
محدث تقی الدین محمد بن دقیق العیدؒ کو شرعی علوم میں مہارت تامہ حاصل تھی۔
ادفوی نامی آپ کے شاگرد اپنے استاذ کی تعریف میں کچھ اس طرح خراج تحسین پیش کرتا ہے ”جب تفسیر کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس فن میں میرے محمد نامی استاذ محمود المذہب دکھائی دیتے ہیں جب علم حدیث کا ذکر کیا جاتا ہے تو میرے قشیری نسبت سے مشہور و معروف استاذ نمایا اور ممتاز مقام پر دکھائی دیتے ہیں جب علم فقہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو میرے ممدوح و موصوف ابوالفتح کی کنیت سے مشہور معروف استاذ درجہ اجتہاد پر دکھائی دیتے ہیں“.
محدث تقی الدین محمد بن دقیق العیدؒ کے استاذ محترم اپنے لائق فائق شاگرد کی تعریف کچھ اس انداز سے کرتے ہیں فرماتے ہیں”کہ سر زمین مصر دو شخصیات پر فخر کرتی ہے اسکندریہ میں رہائش پذیر ابن منیر پر اور قوص بستی میں رہائش پذیر علامہ ابن دقیق پر یہ دونوں آسمان علم و ادب کے چمکتے ستارے ہیں“.
حافظ محدث شمس الدین ذہبیؒ محدث تقی الدین محمد بن دقیق العیدؒ کو ان الفاظ خراج تحسین پیش کرتے ہیں فرماتے ہیں” کہ محدث تقی الدین محمد بن دقیق العیدؒ کا شمار اپنے دور کی ذہین و فطین شخصیات میں ہوتا ہے وہ بڑے ہی وسیع العلم تھے انہوں نے کثیر تعداد میں کتابیں تصنیف کرنے کا اعزاز حاصل کیا وہ شب بیداری کا باقاعدگی سے اہتمام کرتے تھے ۔ وہ ہمیشہ علمی مشاغل میں باوقار اور پر سکون رہتے وہ حد درجہ متقی اور پرہیزگار تھے لوگوں کی آنکھوں نے ان جیسا کوئی نہ دیکھا اور انہیں معقولات و منقولات میں مہارت حاصل تھی“۔
ابن کثیر فرماتے ہیں”محدث تقی الدین محمد بن دقیق العیدؒ اپنے دور کے علماء میں ایک ممتاز مقام پر فائز تھے بلکہ علماء میں انہیں جلیل القدر اور عظیم المرتبت سمجھا جاتا تھا سبھی علوم اور خاص طور پر علم حدیث میں انہیں بڑی مہارت حاصل تھی ہر طرف سے طلباء کی اکثریت علمی فیض حاصل کرنے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوتی ۔ ان کے تمام شاگرد اپنے استاذ کے علم ۔ تقویٰ ۔ زہد کے متفقہ طور پر معترف تھے ۔ ان مذکورہ جلیل القدر اور عظیم االمرتبت علماء کی گواہی جنہوں نے اپنی آنکھوں سے محدث تقی الدین محمد بن دقیق العیدؒ کو دیکھا اور ان کے بلند مقام و مرتبے کو دیکھا اس بات کی علامت ہے کہ وہ واقعی علم و ادب کے بہت بلند مقام پر فائز تھے“.
9 مصر میں قیام
محدث ابن دقیقؒ اپنے زمانے کے جید عالم تھے جس کی بنا پر حکمران اور سلاطین بھی اُن کا بے حد احترام کیا کرتے تھے۔ علامہ ابن حجر عسقلانیؒ نے لکھا ہے کہ ایک بار جب وہ سلطان حسام الدین لاچین سے ملنے کے لیے اُس کے پاس گئے تو سلطان تخت سے نیچے اُتر آیا اور مؤدب ہو کر اُن سے نیچے ہو کر بیٹھا۔ مدت تک وہ اپنے آبائی شہر قوص میں فقہ مالکی کے قاضی رہے لیکن جب وہ قاہرہ چلے گئے تو عہدہ قضا سے دستبردار ہو گئے۔ البتہ 695ھ میں انہوں نے شافعی قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول کر لیا۔ اِس دوران میں اُنہوں نے متعدد اصلاحی اِقدامات کیے جس سے مصر میں نفاذِ قانون کا عمل بہتر ہوا۔
10 چیف جسٹس مصر۔ 695 تا 702ھ
محدث تقی الدین محمد بن دقیق العیدؒ طویل مدت تک قوص کی عدالت میں قاضی کے فرائض سر انجام دیتے رہے جب ”ابن بنت الاعز چیف جسٹس“۔ ”سلطان کتبغا المنصوری“ کے دور حکومت 695ھ میں وفات پا گئے تو چیف جسٹس کے عہدے کے لیے محدث تقی الدین محمد بن دقیق العیدؒ کو پیش کش کی گئی ابتداءً انہوں نے اس منصب کو سنبھالنے کے لیے معذرت کی لیکن اصرار کرنے پر وہ اس منصب کو سنبھالنے کے لیے راضی ہو گئے ۔ محدث تقی الدین محمد بن دقیق العیدؒؒ مصر کی عدالت میں شافعی مسلک کے مطابق چیف جسٹس کے عہدے پر بروز ہفتہ 18 جمادی الاولی 695ھ کو فائز ہوئے اور وفات تک اس منصب پر فائز رہے اس طرح محدث تقی الدین محمد بن دقیق العید مسلسل آٹھ سال چیف جسٹس کے عہدے پر جلوہ افزور رہے ۔ درمیان میں کئی مرتبہ کسی بنا پر انہوں نے علیحدگی اختیار کی لیکن انہیں مجبور کر کے اس منصب پر فائز ہونے کے لیے آمادہ کر لیا گیا اور وہ اصرار کرنے پر یہ فریضہ انجام دینے کے لیے راضی ہو گئے ۔ محدث تقی الدین محمد بن دقیق العیدؒ کے حالاتِ زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس منصب کو دلی طور پر پسند نہیں کرتے تھے ۔ ان کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے ایک دفعہ انہوں نے یہ فرمایا کہ ”اللّٰه کی قسم جس کو اللّٰه سبحانہ و تعالیٰ نے عہدہ قضاء میں مبتلا کیا اس کے حق میں کوئی بہتری کا ارادہ نہیں کیا“ ۔ ایک روز علامہ ابن دقیق العید کے پاس اس کے ساتھی آئے انھوں نے دیکھا کہ آپ بڑے ہی غمگین ہیں اور کچھ سوچ رہے ہیں ایک ساتھی نے آپ کے غمزدہ ہونے اور سوچوں میں گم ہونے کا سبب پوچھا تو اسے جواب میں فرمایا ۔”جس شخص کو اللّٰه سبحانہ و تعالیٰ نے قضاء کا منصب سونپنے کا ارادہ کیا اس کے لیے خیر کا ارادہ نہیں کیا“
مشہور کتاب ”طالع السعید“کے مصنف علامہ ابن دقیق العیدؒ کے منصب قضاء پر فائز ہونے کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی عمر کے آخری مرحلے میں اس منصب کو سنبھالا اور اس کے میٹھے اور کڑوے ذائقے کو چکھا ۔ اہل علم کا ان کے بارے موقف یہ ہے کہ اگر یہ منصب قضاء کو قبول نہ کرتے تو ان کے لیے بہت بہتر ہوتا انہیں علم کی خدمت کرنے کے اور زیادہ مواقع میسر آتے بایں صورت یہ اپنے دور میں امام احمد بن حنبل ۔ امام مالک اور امام ثوری کے ہم پلہ شمار کیے جاتے ۔ یہ ہم عصر اور قدیم علماء پر فوقیت حاصل کر لیتے.
علامہ ابن دقیق العیدؒ کے چیف جسٹس مصر بننے سے پہلے عدالت کا ہر جج عدالتی فرائض سر انجام دیتے ہوئے ریشمی جبہ زیب تن کرتا تھا لیکن علامہ ابن دقیق العیدؒ نے ریشمی جبہ پہننے سے انکار کر دیا تو ان کے لیے اون کا جبہ تیار کیا گیا دوران عدالت اونی جبہ زیب تن کرنا ضروری قرار دیا گیا۔
علامہ ابن دقیق العیدؒ اپنے ماتحت قاضوں کو گاہے بگاہے پند و نصائح پر مشتمل خطوط لکھتے رہتے تھے اور انہیں اس بات کی تلقین کیا کرتے تھے کہ ”ہمارے نازک کندھوں پر بڑا بھاری بوجھ ہے اس کے لیے اللّٰه سبحانہ و تعالیٰ کی پکڑ کے خوف کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ عدل و انصاف سے ہر فیصلہ کیا کریں یہ بہت بھاری ذمہ داری ہے جو ہمارے کاندھوں پر ڈال دی گئی ہے عدالت کا معاملہ بڑا عظیم ہے ہماری ہمتیں کمزور و ناتواں ہیں حالات بڑے گھمبیر ہیں مجھے امن ۔ قرار اور راحت دکھائی نہیں دیتے“.
11 حق کے لیے سخت مزاجی
علامہ ابن دقیق العیدؒ حق کے معاملے میں بڑے سخت مزاج تھے ۔ اگر ان کی عدالت میں حکومت کے کسی کارندے کا کوئی معاملہ آٹا تو اس کی خوب اچھی طرح چھان بین کرتے اور اس کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جاتی ۔ اگر فیصلہ سناتے وقت آپ کو اس کارندے کے حق میں فیصلہ دینے کے لیے مجبور کیا جاتا تو آپ اپنے منصب سے الگ ہو جاتے لیکن آپ کی منت و سماجت کرکے منصب قضاء سنبھالنے کے لیے امادہ کیا جاتا.
ایک دفعہ یہ ہوا کہ سلطان قلاوون نے 699ھ میں تاتاریوں سے نبرآزما ہونے کے لیے شام کی طرف پیش قدمی کا فیصلہ کیا تو اس نے حکومت کے جنرل اکاؤٹنٹ کے نائب کو طلب کیا تاکہ وہ علماء سے یہ فتویٰ حاصل کرے کہ اس صورت میں فوج کے اخراجات کے لیے رعایا سے ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے ۔ اس سلسلے میں جب علامہ ابن دقیق العیدؒ سے اس کے جواز میں فتویٰ طلب کیا گیا تو انہوں نے جواز کا فتویٰ دینے سے صاف انکار کردیا حکومت کے نمائندوں نے کہا علامہ ابن عبدالسلامؒ نے ایسے موقع پر رعایا سے ٹیکس وصول کرنے کے حق میں فتویٰ دیا ہے علامہ ابن دقیق العیدؒ نے کہا کہ ان کے دور میں کامیاب بادشاہ ”قطز“ کی حکومت تھی جب علامہ ابن عبدالسلام سے فتویٰ طلب کیا گیا تو تمام صوبہ جات کے امراء کو بلایا گیا جتنا ان کی ملکیت میں سونا ۔ چاندی اور ان کی بیگمات اور اولاد کے پاس زیورات تھے سب ایک جگہ جمع کیے گئے اور سبھی امراء سے حلف لیا گیا کہ اس کے علاوہ ان کی ملکیت میں اور کچھ نہیں ہے تو اس کے بعد علامہ ابن عبدالسلامؒ نے فتویٰ دیا کہ رعایا کے ہر شخص سے ایک دینار افواج کے لیے وصول کیا جا سکتا ہے لیکن اب ہمارے دور میں سبھی امراء کے پاس وافر مقدار میں سونا ۔ چاندی ۔ ہیرے ۔ جواہرات موجود ہیں اب تو صورتحال یہ ہے کہ وہ استنجاء کرنے کے لیے لوتے بھی چاندی کے استمال کرتے ہیں حکمرانوں کی بیگمات کی جوتیاں سونے چاندی ہیرے جواہرات سے مرصع ہوتی ہیں حکومت کے خزانے میں بہت کچھ ہے اب رعایا سے ٹیکس وصول کرنے کی بجائے حکومتی خزانے سے افواج کے اخراجات پورے کیے جائیں یہ کہہ کر علامہ ابن دقیق العیدؒ حکومتی نمائندوں کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے.
12 عقیدہ و مسلک
علامہ تقی الدین ابن دقیقؒ سلف صالحین کے مذہب کے ساتھ وابستہ تھے اور وہ آیات کی تاویل کے قائل نہ تھے وہ اس سے ہمیشہ پہلوتہی کرتے تھے ۔ علامہ تقی الدین ابن دقیقؒ ابتداً اپنے والد کے زیر اثر مالکی المذہب تھے لیکن بعد ازاں اُنہوں نے فقہ شافعی کی ہمنوائی اختیار کرلی اور اِس میں مجتہدانہ مقام حاصل کیا۔ پھر امام ابن حزمؒ اور محدث سیوطیؒ کی طرح المجتهد المطلق. ہو گئے۔
شیخ فلانیؒ اپنی کتاب ”ایقاظ الھمم“۔ ص 99 پر لکھتے ہیں کہ علامہ محقق تقی الدین ابن دقیقؒ نے ان مسائل کو ایک ضخیم جلد کے اندر جمع کر دیا ہے جن میں ائمہ اربعہ کا انفرادی و اجتماعی مذہب صحیح حدیث کے خلاف ہے ۔ اس کی ابتداء میں آپ فرماتے ہیں کہ ”ان مسائل کو ائمہ مجتہدیں کی طرف منسوب کرنا حرام ہے ۔ اور فقہاء مقلدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان مسائل کے متعلق تحقیق کریں تاکہ وہ ائمہ اکرام کی طرف ان کی نسبت کر کے ان پر بہتان نہ لگائیں“۔ ”حجیت الحدیث البانی“۔اس سے معلوم ہوتا ہے آپ محقق تھے مقلد نہ تھے.
13 وفات اور تدفین
بروز جمعہ11 صفر 702ھ بمطابق 5 اکتوبر 1302ء کو 77 سال کی عمر میں محدث تقی الدین ابن دقیق العیدؒ کا انتقال قاہرہ میں ہوا ۔ اُن کے جنازہ میں عوام و خواص کی کثیر تعداد شریک ہوئی جن میں مصری امراء اور اعیانِ دولت، خصوصاً نائب السلطنت بھی شامل تھے ۔ ہفتہ کے دن تدفین قرافۃ الصغریٰ میں اُن کے استاد عز بن عبدالسلام کے پہلو میں کی گئی۔
14 کیٹلاگ
1 حدیث
1۔”الالمام فی الاحادیث الاحکام“۔ تعداد احادیث 1610۔ یہ کتاب ایسی احادیث کے "ضبط" پر مشتمل ہے جو احکام سے متعلق ہیں ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اِس کتاب کو کتاب الاسلام قرار دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ: اِس جیسی کتاب نہیں لکھی گئی ۔ اِس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر متاخر علمائے حدیث نے اِس کی شروح لکھی ہیں۔ پہلی شرح خود مصنف ابن دقیق نے لکھی ہے جس کا نام الانام شرح الالمام تھا۔ علامہ ابن حجر عسقلانی کے بقول اِس شرح کی 20 جلدیں تھیں۔ یہ شرح اب ناپید ہو چکی ہے اس کتاب کا اردو ترجمہ محمود احمد غضنفر نے ضیاء الاسلام کے نام سے کیا ہے ۔ نعمانی کتبخانہ لاہور نے طبع کیا ہے۔
2۔ ”الاحکام الاحکام شرح عمدۃ الاحکام“ یہ کتاب امام تقی الدین عبدالغنی بن عبدالواحد المقدسی۔ متوفیٰ۔ 600ھ۔ کی تصنیف ”عمدۃ الاحکام عن سید الانام من احادیث النبی علیہ السلام“ کی شرح ہے۔ ابن دقیق العید نے یہ کتاب اپنے ایک شاگرد عماد الدین اسماعیل بن محمد بن اثیر الحلبی کو اِملاء کروائی تھی۔ عماد الدین الحلبی نے اِس کو مرتب کرکے اِس کا نام احکام الاحکام فی شرح احادیث سید الانام رکھا۔ امام شمس الدین سخاوی متوفیٰ۔ 902ھ۔ نے اس کا حاشیہ بھی لکھا ہے۔ یہ کتاب پہلی بار قاہرہ سے 1372ھ بمطابق 1953ء میں اور بیروت سے 1981ء تا 1982ء اور 1987ء میں شائع ہوئی تھی۔
3۔”شرح اربعين النوویہ“امام نووی نے جو الاربعین النوویہ کے عنوان سے جو الاحادیث کا مجموعہ مرتب کیا ہے، اُس کی شرح بہت سے علما نے کی ہے۔ ابن دقیق العید نے بھی الاربعین النوویہ کی شرح لکھی ہے۔
4۔”اَلاِقْتَراح فی بیان الاِصطلاح“ یہ کتاب علم حدیث کی اصطلاحات کے بیان پر مشتمل ہے ۔ اِس میں ابن دقیق نے محدثین، راویانِ حدیث کے طبقات ، کیفیت و سماع و روایت اور احادیث متفق علیہ کی تعریف پر عمدہ انداز میں بحث کی ہے۔ یہ پہلی بار بیروت سے 1406ھ بمطابق 1988ء میں شائع ہوئی تھی۔ براکلمان نے اِس کتاب کے قلمی نسخوں کے متعلق لکھا ہے۔
5۔”نُبْذۃُ فی علوم الحدیث“ اِس کتاب کا ایک قلمی مخطوطہ برطانیہ کے کتب خانہ میں موجود ہے۔
6۔ رجال الحدیث پر اُنہوں نے ابو شجاع احمد بن حسن بن احمد اصفہانی کی التقریب کی شرح بعنوان ’’تحفۃ اللبیب فی شرح التقریب‘‘ لکھی۔ اِس کا ایک قلمی مخطوطہ برلن میں موجود ہے جبکہ عکسی نسخہ قاہرہ میں موجود ہے۔
2 فقہ
علم فقہ پر اُن کی دستیاب شدہ کتب یہ ہیں:
7۔ ”شرح مختصر ابن حاجب“: یہ کتاب فقہ مالکیہ سے متعلق فقہی کتاب ہے۔
8۔ ”مقدمہ المطرزی فی اُصول الفقہ“: اِس کا تذکرہ علامہ ابن حجر عسقلانیؒ نے الدرر الکامنہ میں کیا ہے۔
9۔ علم فقہ پر ایک مکتوب جو اُنہوں نے اپنے نائب قاضی اخمیم کے نام لکھا تھا۔ جعفر بن ثعلب الادفوی کی الطالع السعید میں یہ صفحہ نمبر597 تا 599 پر شائع ہوچکا ہے۔
3 شعر و ادب
ابن دقیق العید کو شعر و ادب سے بھی دلچسپی رہی۔ اُن کی شاعری کے موضوعات وصف، دوستوں سے فراق کی کیفیت اور نعت نبوی (بالخصوص علی صاحبھا التحیۃ والسلام) پر مشتمل ہے ۔ کچھ قصائد قلمی صورت میں بغداد، عراق کے ایک کتب خانہ میں موجود ہیں۔
15 حوالہ جات
1۔ سير أعلام النبلاء ۔ الحافظ للذهبيؒ۔
2۔ ابن كثير - البداية والنهاية - تحقيق عبد الله عبد المحسن التركي - هجر للطباعة والنشر -القاهرة - 1418 هـ / 1998م.
3۔ ضیاء الاسلام ۔ محمود احمد غضنفر۔
4۔ تذکرة الحفاظ ۔ شمس الدین الذھبیؒ مترجم محمد اسحاقؒ.
5۔ الأعلام خیر الدین للزركلي ۔ ادرالعلم للملایین بروت۔
6۔ المستطرفہ ۔ علامہ محمد بن جعفر کتانیؒ۔
7۔ تاریخ حدیث و محدثین۔ پروفیسر محمد ابوھو، ازہریؒ ۔ پروفیسر حریریؒ.
8۔ معجم المولفین ۔ عمر رضا کحالہ.
9۔ شذرات الذهب في أخبار من ذهب: أبو الفتح عبد الحي بن العماد الحنبلي ـ دار إحياء التراث العربي ـ بيروت۔
10۔حجیت الحدیث ۔ محدث العصر محمد ناصر الدین البانیؒ۔
11۔ طبقات الشافعیہ الکبریٰ، تاج الدین السبکی۔
12۔ فہرس التمہیدی، صفحہ 321۔ مطبوعہ قاہرہ، مصر۔
13۔ الطالع السعید، جعفر بن ثعلب الادفوی مطبوعہ قاہرہ ، مصر،1966ء۔
14۔ المعجم المختص، شمس الدین الذہبیؒ۔
15۔ الدرر الکامنہ، ابن حجر عسقلانی۔
16۔ مقدمہ شرح الالمام باحادیث الاحکام۔
17۔ الوافی بالوفیات، صلاح الدین الصفدی۔
18۔ تکملہ براکلمان: جلد 2، صفحہ 66۔
19۔ الدیباج، ابن فرحون المالکی۔
20۔ تاریخ اہل حدیث ۔ سید بدیع الدین شاہ راشدیؒ۔
 
شمولیت
اپریل 05، 2020
پیغامات
95
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
45
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔
1۔ ”دستاویز تذکرةالمحدثین“
2۔ ”تذکرہ علمائے اسلام عرب و عجم ، قدیم و جدید“
از ملک سکندر حیات نسوآنہ۔

ان کتب کا لنک محدث فورم پر موجود ہے۔
 
Top