السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیوخ محترم اس روایت کی تحقیق درکار ہے۔
من قال: جزى الله عنا محمدا صلى الله عليه وسلم بما هو أهله، أتعب سبعين كاتبا ألف صباح
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من قال جزى الله عنا محمدا بما هو أهله أتعب سبعين كاتبا ألف صباح (الطبراني في الأوسط رقم ٢٣٥)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص یہ دعا کرے ” جزى الله عنا محمدا بما هو أهله” (اللہ جلّ شانہ جزا دے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ہم لوگوں کی طرف سے جس بدلے کے وہ مستحق ہیں)، تو اس کا ثواب ستر (۷۰) فرشتوں کو ایک ہزار دن تک مشقت میں ڈالے گا۔ (طبرانی)
یہ حدیث دو سندوں سے وارد ہے :
۱۔
هَانِئ بْن الْمُتَوَكِّلِ قَالَ : حدثنا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ به .
تخریج :
رواه الطبراني في "المعجم الأوسط" (235) ، وفي "المعجم الكبير" (11509) ، وأبو نُعيم في "الحِلية" (3/206) ، وإسماعيل الأصبهاني في "الترغيب والترهيب" (2/331) ، والخِلَعي في "الفوائد المنتقاة" (2/153) ، والخطيب في "تاريخه" (9/295) .
سند کا درجہ :
اس کی سند میں ہانئ بن متوکل پر امام بن حبان نے جر ح کرتے ہوئے کہا کہ :یہ کثرت سے منکر روایات بیان کرتا ہے، اس لئے قابل ترک ہے ۔[ المجروحین 2/446 رقم1171 ]
ابو حاتم رازی سے ہانئ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو کہا : میں نے اس کو پایا ہے ، لیکن اس سے کوئی روایت نہیں لکھی ۔[ الجرح والتعدیل 9/ 102]
حافظ ذہبی نے [ میزان الاعتدال 4/291 ] میں ہانئ کےترجمہ میں اس کی منکر روایات میں زیر بحث روایت کو شمار کیا ہے ۔علامہ البانی نے [ السلسلۃ الضعيفۃ 3/ 192 ]میں : ضعيف جداکہا.
تو یہ سند ہانئ بن متوکل کی وجہ سے ضعیف ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری سند سے :
۲۔ رِشْدِين بن سَعْد ، عَن مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ به .
تخریج :
أخرجه محمد بن خلف وكيع في "أخبار القضاة" (3/273) ، وقوام السنة في "الترغيب والترهيب" (2/331)
.
سند کا درجہ :
رشدین بن سعد بہت سارے ائمہ حدیث کے نزدیک ضعیف ہے ، ابن معین ،ابو زرعہ ، ابو حاتم ، نسائی ، جوزجانی ،ابن عدی وغیرہم کی جروحات ہیں ۔[ تهذيب الكمال فی أسماء الرجال 9/191 ]۔
بہرحال رشدین کی وجہ سے یہ سند سخت ضعیف ہے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
لیکن اس روایت میں وارد نبی اکرم ﷺ کیلئے دعا کی جاسکتی ہے کیونکہ صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ :
عن أسامة بن زيد رضي الله عنه أنه قال: قال رسول الله صلَّى الله عليه وسلَّم: «مَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ مَعْرُوفٌ، فَقَالَ لِفَاعِلِهِ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا، فَقَدْ أَبْلَغَ فِي الثَّنَاءِ» [رواه الترمذي 2035].
رواه الترمذي والنسائي في "السنن الكبرى" (6/53) وصححه الألباني في صحيح الترمذي
ترجمہ : ترجمہ : سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:' جس شحص کے ساتھ کوئی بھلائی کی گئی اور اس نے بھلائی کر نے والے سے 'جزاک اللہ خیراً' (اللہ تعالیٰ تم کو بہتربدلادے)کہا، اس نے اس کی پوری پوری تعریف کردی “
وروى أحمد وأبو داود والنَّسائي وابن حبَّان والحاكم عن ابن عمر رضي الله عنهما أنَّ النَّبيَّ صلَّى الله عليه وسلَّم قال: «مَنْ اسْتَعَاذَ بِاللهِ فَأَعِيذُوهُ، وَمَنْ سَأَلَكُمْ بِاللهِ فَأَعْطُوهُ، وَمَنْ دَعَاكُمْ فَأَجِيبُوهُ، وَمَنْ أَتَى إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُوهُ فَادْعُوا لَهُ حَتَّى تَعْلَمُوا أَنْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ».
ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو شخص اللہ کے واسطے سے پناہ مانگے اس کو امان دو ۔ اور جو شخص اللہ کے نام سے سوال کرے اس کو دو ۔ اور جو تمہاری دعوت کرے اس کی دعوت قبول کرو ۔ اور جو تمہارے ساتھ احسان کرے اس کا بدلہ دو ۔ اگر بدلہ دینے کے لیے کوئی چیز نہ پاؤ تو اس کے حق میں دعا کرو یہاں تک کہ تم سمجھ لو کہ اس ( کے احسان ) کا بدلہ دے دیا ہے ۔ “
(مسند امام احمدؒ ،سنن ابوداود ،سنن نسائی ،مستدرک حاکم ،صحیح ابن حبان )
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار احسانات کا تقاضا یہ ہے کہ :آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جزائے خیر کی دعا کی جائے ۔
واللہ اعلم