عمر اثری
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 29، 2015
- پیغامات
- 4,404
- ری ایکشن اسکور
- 1,137
- پوائنٹ
- 412
محض کتب وکیسٹوں سے علمِ دین حاصل کرنا
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا علماء کے بجائے صرف کتب سے علمِ دین حاصل کرنا جائز ہے خصوصاً جبکہ علماء کی قلت کے باعث ان کے ہاتھوں علم حاصل کرنا دشوار ہو۔ اور آپ کی کسی قائل کے اس قول کے بارے میں کیا رائے ہے: ’’من كان شيخه كتابه فخطؤه أكثر من صوابه‘‘ (جس کا شیخ اس کی کتاب ہو تو اس کی غلطیاں اس کے صواب (صحیح باتوں) سے زیادہ ہوتی ہیں)؟
جواب شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
بلاشبہ علم تو علماء کرام کے پاس سے اور کتب سے ہی حاصل کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ظاہر ہے کسی عالم کی کتاب خود اسی عالم کے ہی قائم مقام ہے۔ گویا کہ وہ اپنی کتاب کے ذریعہ سے آپ سے بات کررہا ہوتا ہے۔اگر علماء سے براہ راست علم حاصل کرنے میں عذر درپیش ہوں تو کتب سے علم حاصل کرلینا چاہیے۔
لیکن علماء کرام سے علم حاصل کرنا کتب کے ذریعہ علم حاصل کرنے کی بنسبت اقرب ہوتا ہے۔ کیونکہ جو کتب کے ذریعہ حاصل کررہا ہوتا ہے اسے زیادہ مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اور بہت عظیم جہد ومحنت درکار ہوتی ہے۔اور اس محنت کے باوجود بھی اس پر بعض امور مخفی رہ سکتے ہیں جیسے وہ شرعی قواعد وضوابط جو کہ اہل علم وضع کرتے ہیں۔ لازم ہے کہ بقدر امکان کتب کے ساتھ ساتھ اس کا مرجع اہل علم میں سے بھی ہوں۔
البتہ جو کہتا ہے کہ: ’’من كان شيخه كتابه فخطؤه أكثر من صوابه‘‘ (جس کی دلیل اس کی کتاب ہو تو اس کی غلطیاں اس کے صواب سے زیادہ ہوتی ہیں) تو یہ نہ مطلق طور پر صحیح ہے اور نہ ہی مطلق طور پر فاسد۔
اگر انسان ہر ملنے والی کتاب سے علم حاصل کرتا ہے تو بلاشبہ اس کی غلطیاں بہت ہوں گی۔لیکن اگر کوئی کتب سے تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں ثقاہت، امانت وعلم میں معروف علماء کی کتب پر اعتماد کرتا ہے ، تو ایسے کی غلطیاں زیادہ نہیں ہوتی، بلکہ وہ اکثر باتوں میں صحیح ہوتا ہے۔
(الصحوة الإسلامية: ضوابط وتوجيهاتسوال: 86، ص 150-151)
ایک اور موقع پر فرماتے ہیں فرماتے ہیں:
اے بھائیوں علم کے حصول کے دو طریقے ہیں:
1- ایسی کتب سے حاصل کرنا جو موثوقہ ہوں جنہیں ایسے قابل اعتماد علماء کرام نے تالیف فرمایا ہو جن کے علم وامانت پر اعتماد کیا جاتا ہے۔
2- کسی ایسے معلم (استاد) سے علم حاصل کرنا جو علم ودیانت میں ثقہ وقابل اعتماد ہو۔
اور یہ طریقہ یعنی جو دوسرا طریقہ ہے غلطیوں سے زیادہ محفوظ ہے، اور تحصیل علم کے تعلق سے زیادہ تیز تر اور پختہ ہے۔ کیونکہ جوپہلا طریقہ ہے یعنی محض کتب سے علم حاصل کرنا، اس سے کبھی کبھار طالبعلم گمراہ ہوجاتا ہے اور اسے خبر بھی نہیں ہوتی، یا تو سوء فہم یا قلت علم یا کسی اور وجہ سے ۔ اور اس لیے بھی کہ دوسرے طریقے میں طالبعلم اور عالم کے مابین مناقشہ ہوتا ہے، اخذ ورد ہوتا ہےجس کی وجہ سے یعنی مناقشے کی وجہ سے ایک طالبعلم پر فہم، تحقیق، صحیح اقوال کے دفاع اور ضعیف اقوال کے رد کی کیفیت کے بڑے دروازے کھلتے ہیں۔
او راگر کوئی طالبعلم ان دونوں طریقوں کو یکجا کردے کتب سے بھی علم حاصل کرے او رمعلمین سے بھی تو یہ زیادہ اکمل اور مکمل ہے۔
(شیخ کی ویب سائٹ سے لیا گیا خطبہ بعنوان: الحث علي طلب العلم الشرعي ومتى يكون فرض عين ومتى يكون فرض كفاية)
کتاب العلم کے دروس میں سوال وجواب کے تحت آپ سے سوال ہوا: بعض طالبعلم اپنے دروس اور تحصیل علم کے سلسلے میں علماء کی کیسٹیں سننے پر اکتفاء کرتے ہیں ، کیا یہ تحصیل علم کے لیے کافی ہیں؟ کیاوہ طالبعلم شمار کیا جائے گا؟ کیا اس کا اثر اس کے اعتقاد پر پڑسکتا ہے؟
جواب: بلاشبہ یہ کیسٹیں اس کے لیے کافی ہیں اگر اس کے لیے اہل علم کے پاس حاضر ہونا ممکن نہ ہو ورنہ علماء کرام کے پاس حاضر ہونا افضل واحسن ہے اور فہم ومناقشہ کے زیادہ قریب ہے، لیکن اگر اس کے لیے حاضر ہونا ممکن نہ ہو تو یہ کافی ہوں گی اس کے لیے.
{آجکل علماء کرام کے براہ راست (لائیو) دروس اور کلاسس بھی مدنظر رکھنی چاہیے۔ جن میں سوالات تک پوچھنے کے انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے مواقع دیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ ریڈیو ٹی وی پروگرام نور علی الدرب میں علماء کرام سے براہ راست فون وغیرہ کرکے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)}
سوال: اگر وہ اسی پر اقتصار کرتے ہيں تو کیا اس صورت میں وہ طالبعلم کہلائیں گے؟
جواب: ہم یہ کہیں گے کہ : ہاں ممکن ہے اگر انسان بہت زیادہ انتہک محنت کرے۔ جیسا کہ یہ ممکن ہے انسان کے لیے کہ وہ کتابوں سے علم حاصل کرکرکے عالم بن جائے لیکن کتب وکیسٹوں سے علم حاصل کرنے اور براہ راست علماء کرام سے علم حاصل کرنے میں فرق ہے۔ علماء کرام سے براہ راست علم حاصل کرنا تحصیل علم کا زیادہ اقرب طریقہ ہے، کیونکہ یہ سہل طریقہ ہے جس میں آپ کے لیے مناقشہ کرنا ممکن ہے برخلاف سننے والا یا پڑھنے والے کے، کیونکہ اسے علم کے تمام اطراف کو جمع کرنے اور ان کا حصول کرنے کے لیے بہت زیادہ محنت ومشقت کی ضرورت پڑتی ہے۔
البتہ سائل کا یہ کہنا: کیا محض کیسٹیں سننے پر اکتفاء کرنا اس کے اعتقاد پر اثر انداز ہوسکتا ہے؟ تو اس کا جواب ہے کہ:
ہاں اس کے عقیدے پر اثر انداز ہوسکتا ہے اگر وہ اہل بدعت کی کیسٹیں سنیں اور اس کی پیروی کرنے لگیں۔ لیکن اگر وہ صرف قابل اعتماد وثقہ علماء کرام کی کیسٹیں ہی سنتے ہيں، تو یہ ان کے عقیدے پر اثر انداز نہیں ہوگا، بلکہ ان کو ایمان، رسوخ اور صحیح عقیدے کی اتباع میں اور بڑھا دے گا۔
یہ سائل کہتا ہے: ہم نے کل یہ ذکر کیا تھا کہ جو تحصیل علم کے سلسلے میں کتب پر کلی اعتماد کرتا ہے تو صواب سے زیادہ اس کی خطاء ہوتی ہیں۔ مگر آج اسلامی ممالک میں ایسے علماء کرام نہیں پائے جاتے کہ جن کی طرف لوگ اپنے دینی امور میں رجوع کریں تو نوجوانوں کی ایک جماعت نے لوگوں کی تعلیم وتوجیہ کا بیڑا اٹھایا ایسے نوجوان کہ جنہوں نے صرف کتابوں سے علم حاصل کیا ہے پس ان نوجوانوں پر کیا واجب ہے؟
جواب: ان پر واجب ہے کہ وہ صواب بات جاننے کے لیے ضرور کوشش ومحنت کریں۔ لیکن اس کا یہ معنی نہیں کہ کسی انسان کہ لیے یہ بالکل بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ مشایخ کے بنا عالم یا مجتہد نہیں بن سکتا۔ ایسے بھی علماء گزرے ہیں کہ وہ علم کی بلندیوں کو پہنچے حالانکہ انہوں نے مشایخ سے علم حاصل نہیں کیا۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ ایسا قلیل وشاذ ونادر ہی ہوتا ہے۔
(من شرح الشيخ إبن عثيمين لحلية طالب العلم)
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ اصول ثلاثہ کی شرح ص 27 میں فرماتے ہیں:
پھر شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کا یہ فرمانا کہ ان تین مسائل یعنی اللہ تعالی کی معرفت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت اور دین اسلام کی معرفت یعنی علم حاصل کرنا واجب ہے۔ یہاں تعلم (علم حاصل کرنے) سے مراد علماء کرام سے علم حاصل کرنا اسے حفظ کرنا، اس کا فہم وادراک حاصل کرنا ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ محض پڑھائی یا جس طرح نام دیا جاتا ہے ’’آزادانہ مطالعہ‘‘ (Self-studies) کیا جائے یہ تعلم نہیں بلکہ تعلم (علم حاصل کرنا) یہ ہے کہ: علماء کرام سے حاصل کیا جائے اس کے حفظ، فہم اور مکمل ادراک کےساتھ، یہ ہے صحیح معنوں میں علم حاصل کرنا، جبکہ صرف خود کتاب پڑھنا اور مطالعہ کرنا اگرچہ مطلوب تو ہے مگر تعلم کے لئے کافی نہیں، اس میں فائدہ بھی ہے مگر یہ کفایت نہیں کرتا اور اس پر اقتصار کرنا کافی نہیں۔
کتابوں کا تلمذ یا شاگردی اختیار کرنا جائز نہیں جیسا کہ لوگوں کی موجودہ حالت ہے، کیونکہ کتابوں کا تلمذ اختیار کرنا بہت خطرناک ہے جس سے بہت مفاسد پیدا ہوتے ہیں اور یہ تعالم تو جہل سے زیادہ نقصان دہ ہے، کیونکہ جاہل جانتا ہے کہ وہ جاہل ہے لہذا وہ اپنی حد پر رک جاتاہے، لیکن المتعالم (دعویدار علم) سمجھتا ہے کہ وہ عالم ہے تو وہ اللہ تعالی کے حلال کردہ کو حرام اور حرام کردہ کو حلال کربیٹھتاہے۔ اور اللہ تعالی کے بارے میں بغیر علم کے بولتا اور کلام کرتا ہے لہذا یہ مسئلہ بہت خطرناک ہے۔
چناچہ علم کتابوں سے براہ راست حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ کتابیں تو وسیلہ ہیں، جبکہ حقیقی معنوں میں علم تو علماء کرام سے حاصل ہوتا ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہتا ہے، اور کتابیں تو علم حاصل کرنے کے وسائل میں سے ہیں۔
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
۔۔۔ یہ علم علماء کرام سے حاصل کرنے سے آتا ہے فقط کتاب پڑھنے سے نہیں بلکہ علماء سے حاصل کرنے سے آتا ہے۔ ہاں البتہ کتب پڑھنا فقط معاون ومددگار ضرور ہے لیکن کلی اعتماد ان پر نہیں کیا جاتا۔
(عنوان الدرس كتاب صفة الصلاة- العلامة صالح بن فوزان الفوزان-5-محرم-1434)
لنک: http://tawheedekhaalis.com/محض-کتب-وکیسٹوں-سے-علمِ-دین-حاصل-کرنا؟/