• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمد بن عمرو بن علقمہ بن وقاص اللیثی

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
أقوال الجرح والتعديل
موثقین


1 - امام شعبہ بن حجاج (المتوفی 160) رحمہ اللہ اپنی شددت وانتقاد کے باوجود فرماتے ہیں: محمد بن عمرو أحب إلي من يحيى بن سعيد الأنصاري في الحديث ترجمہ: ”محمد بن عمرو مجھے یحیی بن سعید الانصاری سے حدیث میں زیادہ محبوب ہیں۔“ (التمهيد لابن عبد البر: 13/47)
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ اس قول کے تحت فرماتے ہیں: «حسبك بهذا ويحيى بن سعيد أحد الأئمة الجلة» ترجمہ: ”تمہارے لئے یہ قول ہی کافی ہے (کیونکہ) یحیی بن سعید (الانصاری) بہت بڑے اور جلیل القدر ائمہ میں سے ہیں (اور محمد بن عمرو کا ان سے بہتر ہونا بہت بڑی بات ہے)۔“
اس کے علاوہ امام شعبہ نے محمد بن عمرو سے روایات بھی لیں ہیں اور امام شعبہ اپنے نزدیک صرف ثقہ سے ہی روایت لیتے ہیں الا یہ کہ کسی خاص شخص پر ان کی جرح ثابت ہو جائے۔

2 - امام یحیی بن سعید القطان (المتوفی 198) رحمہ اللہ سے سہیل بن ابی صالح اور محمد بن عمرو کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: مُحَمَّد بن عَمْرو أعلى منه ترجمہ: ”محمد بن عمرو سہیل سے بہتر ہیں“۔ جبکہ دونوں ثقہ ہیں۔ اس کے علاوہ امام قطان نے محمد بن عمرو سے کئی روایتیں بھی لی ہیں اور امام قطان اپنے نزدیک صرف ثقہ سے ہی روایت لیتے ہیں۔(سنن الترمذي: 6/237) (الجرح والتعديل لابن ابي حاتم: 8/31)

3 - امام یحیی بن معین (المتوفی 233) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مُحَمد بن عَجلاَن أَحبُّ إِليَ مِن مُحَمد بن عَمرو، ومُحَمد بن عَمرو أَحبُّ إِليَ مِن مُحَمد بن إِسحَاق ترجمہ: ”محمد بن عجلان مجھے محمد بن عمرو سے زیادہ محبوب ہیں اور محمد بن عمرو مجھے محمد بن اسحاق سے زیادہ محبوب ہیں۔“(تاريخ ابن معين رواية الدوري: 3/226)

* امام یحیی بن معین نے ایک دوسری جگہ فرمایا: مُحَمّد بن عَمْرو ثِقَة روى عَنهُ يحيى بن سعيد الْقطَّان وَغَيره ترجمہ: ”محمد بن عمرو ثقہ ہیں، یحیی بن سعید القطان وغیرہ ان سے روایت کرتے ہیں۔“(من كلام أبي زكريا يحيي بن معين، رواية ابن طهمان: ص 34)

* امام ابن ابی خیثمہ روایت کرتے ہیں کہ امام یحیی بن معین سے محمد بن عمرو کے بارے میں پوچھا گیا، تو فرمایا: ثقة (تاريخ ابن أبي خيثمة، السفر الثالث: 2/123)

4 - امام علی بن عبد اللہ المدینی (المتوفی 234) سے محمد بن عمرو کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: كَانَ ثقه وَكَانَ يحيى بن سعيد يُضعفهُ بعض الضعْف ترجمہ: ”وہ ثقہ تھے، اور یحیی بن سعید (القطان) بعض ضعف سے انہیں موصوف کیا کرتے تھے۔“(سؤالات ابن ابي شيبة لابن المديني: ص 94 ت 94)

5 - امام ابو حاتم الرازی (المتوفی 277) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: صالح الحديث يكتب حديثه وهو شيخ ترجمہ: ”اس کی حدیث صالح ہے، اس کی حدیث لکھی جاتی ہے اور وہ شیخ ہے۔“(الجرح والتعديل لابن ابي حاتم: 8/31)
اس قول سے امام ابو حاتم کی مراد یہاں محمد بن عمرو کا کم از کم حسن الحدیث ہونا ہے اور اس کی تقویت ان کے درج ذیل قول سے ہوتی ہے۔
* محمد بن عمرو سے روایت کی تصحیح کرتے ہوئے امام ابو حاتم فرماتے ہیں: عنده عن محمد بن عمرو بن علقمة أحاديث صحاح ترجمہ: ”اس کے پاس محمد بن عمرو بن علقمہ سے صحیح احادیث موجود ہیں۔“(الجرح والتعديل لابن ابي حاتم: 4/379)
نوٹ: امام ابو حاتم کا شمار متشدد ناقدین میں ہونے کے باوجود ان کا اتنا کہنا ہی کافی ہے۔

6 - امام ابن عدی الجرجانی (المتوفی 365) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ولمحمد بن عمرو بن علقمة حديث صالح وقد حدث عنه جماعة من الثقات كل واحد منهم ينفرد عنه بنسخة ويغرب بعضهم على بعض وروى عنه مالك غير حديث في الموطإ وغيره وأرجو أنه لا بأس به ترجمہ: ”محمد بن عمرو بن علقمہ کے پاس صالح (اچھی) حدیث ہے، اور ان سے ثقہ محدثین کی ایک جماعت نے روایت بیان کی ہے جن میں سے ہر ایک ان سے کسی نہ کسی نسخے میں منفرد ہے اور انہوں نے ایک دوسرے پر انفراد کیا ہے۔ امام مالک نے بھی ان سے موطا میں ایک روایت لی ہے، اور میرے خیال سے ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔“(الكامل لابن عدي: 7/458)
نوٹ: لا باس بہ سے امام ابن عدی کی مراد راوی کا کم سے کم حسن الحدیث ہونا ہوتا ہے۔

7 - امام نسائی (المتوفی 303) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ليس به بأس ترجمہ: ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ایک دوسری جگہ فرمایا: ثقة (تهذيب الكمال للمزي: 26/217)(تهذيب التهذيب لابن حجر: 9/376)

8 - امام حاکم فرماتے ہیں کہ امام عبد اللہ بن المبارک (المتوفی 181) رحمہ اللہ محمد بن عمرو کے بارے میں فرماتے ہیں: لم يكن به بأس ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔(تهذيب التهذيب: 9/377)

9 - امام ترمذی (المتوفی 279) رحمہ اللہنے اپنی سنن میں محمد بن عمرو کی کئی روایات کی تصحیح کرتے ہوئے فرمایا: هذا حديث حسن صحيح

10 - امام ابن خزیمہ (المتوفی 311) رحمہ اللہنے محمد بن عمرو کی احادیث کو اپنی صحیح میں بطور حجت نقل کیا ہے۔

11 - امام ابن حبان (المتوفی 354) رحمہ اللہنے محمد بن عمرو کو اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا اور فرمایا: وكان يخطئ وہ غلطی کرتے تھے۔(الثقات لابن حبان: 7/377)

* امام ابن حبان نے ایک دوسری جگہ فرمایا: من جلة أهل المدينة ومتقنيهم ترجمہ: ”وہ اہل مدینہ کے جلیل القدر اور متقن لوگوں میں سے تھے۔“(مشاهير علماء الأمصار لابن حبان: 1/213)
اس کے علاوہ امام ابن حبان نے اپنی صحیح میں بھی ان سے روایات لی ہیں۔

12 - امام حاکم (المتوفی 405) رحمہ اللہنے محمد بن عمرو کی کئی روایات کی تصحیح فرمائی ہے اور ایک جگہ پر آپ نے فرمایا: هذا حديث صحيح وقد احتج مسلم بمحمد بن عمرو ترجمہ: یہ حدیث صحیح ہے، اور امام مسلم نے محمد بن عمرو سے حجت پکڑی ہے۔(مستدرك الحاكم: 1/106 ح 136)

13 - امام ابو عبد اللہ ابن مندہ (المتوفی 395) رحمہ اللہمحمد بن عمرو کی ایک روایت کے متعلق فرماتے ہیں: هذا إسناد حسن (التوحيد لابن مندة: 1/252 ح 107)

14 - امام ابن عبد البر (المتوفی 463) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: محمد بن عمرو ثقة محدث روى عنه الأئمة ووثقوه ولا مقال فيه إلا كما ذكرنا أنه يخالف في أحاديث وأنه لا يجري مجرى الزهري وشبهه وكان شعبة مع تعسفه وانتقاده الرجال يثني عليه ترجمہ: ”محمد بن عمرو ثقہ محدث ہیں۔ ائمہ نے ان سے روایت لی ہے اور ان کی توثیق کی ہے، اور ان میں کوئی مقال نہیں ہے سوائے اس کے جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ وہ بعض احادیث میں مخالفت کرتے ہیں اور ان کا حکم زہری اور ان جیسے (کبار حفاظ) کا نہیں ہے۔ امام شعبہ رجال پر اپنے تعسف اور انتقاد کے باوجود ان کی تعریف کیا کرتے تھے۔“(التمهيد لابن عبد البر: 13/47)

15 - امام ذھبی (المتوفی 748) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الإمام، المحدث، الصدوق.... وحديثه في عداد الحسن ترجمہ: وہ امام، محدث اور سچے انسان تھے۔۔۔۔۔ اور ان کی حدیث حسن درجے کی ہے۔(سير أعلام النبلاء 6/136)
* ایک دوسری جگہ امام ذہبی نے فرمایا: حسن الحديث (ديوان الضعفاء: 1/368)
اسی طرح آپ نے انہیں «من تكلم فيه وهو موثق» (# 307) میں بھی ذکر کیا ہے۔

16 - حافظ ابن حجر العسقلانی (المتوفی 852) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: صدوق له أوهام ترجمہ: ”سچے ہیں، اور ان کی غلطیاں بھی ہیں۔“(تقريب التهذيب لابن حجر: ص 884)
نوٹ: ابن حجر کی مراد یہ ہے کہ وہ حسن الحدیث ہیں۔

17 - امام ابو العرب القیروانی (المتوفی 333) رحمہ اللہ اپنی کتاب الجرح والتعدیل میں فرماتے ہیں: فأما محمد بن عمرو بن علقمة فهو ثقة، كذا قالوا. ترجمہ: ”محمد بن عمرو بن علقمہ ثقہ ہیں، انہوں (محدثین) نے ایسا ہی کہا ہے۔“ (الإكمال للمغلطائي: 10/302)

18 - امام ابو حفص ابن شاہین (المتوفی 385)نے محمد بن عمرو کو اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا اور فرمایا: محمد بن عمرو ثفة روى عنه يحيى بن سعيد القطان قاله بن معين (الثقات لابن شاهين: 1/201 ت 1207)

جارحین:


1 - علی بن المدینی کہتے ہیں: میں نے یحیی بن سعید القطان سے محمد بن عمرو بن علقمہ کے بارے میں دریافت کیا توآپ نے کہا: تريد العفو أو تشدد؟ ترجمہ: ”کیا ان کے بارے میں عفو ودرگزر پر مبنی رائے چاہتے ہو یا سخت بات؟“ قلت: لا، بل أشدد ترجمہ: ”کہا، نہیں سخت بات چاہتا ہوں۔“ تو فرمایا: ليس هو بمن تريد ترجمہ: ”وہ اس معیار کے نہیں جو تمہیں مطلوب ہے۔“ قال يحيى: سألت مالك بن أنس عن محمد بن عمرو، فقال فيه نحو ما قلت ترجمہ: ”یحیی نے مزید فرمایا: میں نے مالک بن انس سے محمد بن عمرو کے بارے میں مجھے تو انہوں نے بھی مجھے ایسا ہی کہا تھا جیسا میں نے تمہیں کہا ہے۔“(سنن الترمذي: 6/237) (الكامل لابن عدي: 7/457)

نوٹ: اس قول سے پتہ چلتا ہے کہ اگر امام قطان یا امام مالک عفو والا قول بتاتے تو انہیں ثقہ یا قابلِ قبول بتاتے۔ اور اس سخت قول میں بھی انہوں نے کوئی قادح جرح نہیں کی ہے۔ بلکہ محض ان کی اعلیٰ درجے کی توثیق سے نفی کی ہے، جبکہ خود امام قطان اور امام مالک ان کی احادیث لیا کرتے تھے۔ اور پھر علی المدینی خود بھی انہیں ثقہ کہتے ہیں۔ لہٰذا یہ قول توثیق کے خلاف نہیں ہے۔ امام ذہبی نے بھی اس سے یہی سمجھا ہے، امام ذہبی اس قول کے تحت فرماتے ہیں: «قلت: صدق يحيى بن سعيد ليس هو مثل يحيى بن سعيد الأنصاري وحديثه صالح» ترجمہ: ”میں کہتا ہوں کہ یحیی بن سعید نے سچ کہا ہے، محمد بن عمرو یقینا یحیی بن سعید الانصاری جیسے نہیں ہیں لیکن ان کی حدیث صالح ہے۔“ (تاریخ الاسلام: 3/973)

* ایک دوسری جگہ امام ابن عدی امام ابن القطان سے نقل کرتے ہیں کہ: حدثنا علي بن إسحاق بن رداء، أخبرنا محمد بن يزيد المستملي، قال: حدثنا إسحاق بن حكيم، قال: قال يحيى القطان وأما محمد بن عمرو فرجل صالح ليس بأحفظ الناس للحديث وأما يحيى بن سيعد فكان يحفظ ويدلس ترجمہ: ”یحیی القطان نے فرمایا: جہاں تک محمد بن عمرو کی بات ہے تو وہ صالح شخص ہے لیکن حدیث کا سب سے بڑا حافظ نہیں ہے، اور یحیی بن سعید (الانصاری) حافظ تھے اور تدلیس بھی کرتے تھے۔“(الكامل لابن عدي: 7/456)

نوٹ: سب سے پہلے تو یہ سند سخت ضعیف ہے کیونکہ محمد بن یزید المستملی کو امام ابن عدی ہی نے جھوٹا اور حدیثین گھڑنے والا بتایا ہے۔ اور اس کے ساتھ اسکے شیخ اسحاق بن حکیم کو بھی حافظ ابن حجر نے مجھول الحال قرار دیا ہے۔ لہٰذا یہ قول امام یحیی القطان سے ثابت نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس میں صرف اعلیٰ درجے کا حافظ ہونے کی نفی کی گئی ہے جو کہ توثیق کے بالکل مخالف نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ محمد بن عمرو امام زہری اور یحیی الانصاری جیسے جبل الحفظ نہیں تھے لیکن ضعیف الحفظ بھی نہیں تھے۔

2 - امام مروزی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل (المتوفی 241) رحمہ اللہ سے محمد بن عمرو کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: قد روى عنه يحيى، وربما رفع أحاديث يوقفها غيره، وهذا من قبله، قال: وقدم على الأعمش فلم يكرمه ترجمہ: ”ان سے یحیی (القطان) روایت کرتے ہیں، اور کبھی کبھار وہ ایسی حدیث کو مرفوع بیان کر دیتے ہیں جسے باقی لوگ موقوف بیان کرتے ہیں، اور یہ ان کی (کمزوری) کی وجہ سے ہے۔ آپ اعمش کے ہاں پہنچے تو انہوں نے ان کی تکریم نہیں کی۔“(العلل ومعرفة الرجال لأحمد، رواية المروزي: 1/62-63)

نوٹ: اس قول سے تضعیف لازم نہیں ہوتی۔ اس سے ہمیں صرف یہ علم ہوتا ہے کہ محمد بن عمرو باقی صحیح الحدیث راویوں سے درجے میں نیچے تھے، یعنی حسن الحدیث تھے۔ اس لئے جب وہ کسی ثقہ راوی کی مخالفت کریں گے تو قول اس ثقہ راوی کا ہی لیا جائے گا۔

3 - امام یعقوب بن شیبۃ (المتوفی 262) رحمہ اللہ اپنی مسند میں فرماتے ہیں: هو وسط وإلى الضعف ما هو ترجمہ: وہ درمیانے درجے کے راوی ہیں اور ضعف سے زیادہ قریب ہیں۔(الإكمال للمغلطائي: 10/301) (تهذيب التهذيب: 9/377)
نوٹ: وسط سے مراد حسن الحدیث ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ جرح سے زیادہ توثیق معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔

4 - امام محمد بن سعد کاتب الواقدی (المتوفی 230) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: كان كثير الحديث يستضعف ترجمہ: ”وہ کثیر الحدیث تھے، انہیں ضعیف کہا جاتا ہے۔“(طبقات الكبري لابن سعد: 5/433)

نوٹ: امام ابن سعد اپنا حکم لگانے کی بجائے یہاں محض دوسروں کے حکم کو نقل کر رہے ہیں۔ اور واضح توثیق کے خلاف یہ قابلِ قبول نہیں ہے۔

5 - امام ابو احمد الحاکم الکبیر (المتوفی 378) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ليس بالحافظ عندهم ترجمہ: ”ان کے نزدیک وہ بڑے حافظ نہیں تھے۔“(الأسامي والكني لأبي أحمد الحاكم: 3/295)

نوٹ: امام ابو احمد الحاکم یا کوئی اور جب اس طرح کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد ان کی یہ ہوتی ہے کہ باقی کبار حفاظ کے مقابلے میں ان کا حافظہ اتنا مضبوط نہیں تھا اگرچہ وہ ثقہ ہی کیوں نہ ہو، لہٰذا یہ قول توثیق کے مخالف نہیں ہے۔ (دیکھیں لسان المحدثین: 4/357)

6 - امام ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی (المتوفی 259) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ليس بقوي الحديث ترجمہ: ”وہ حدیث میں قوی نہیں تھے۔“(أحوال الرجال للجوزجاني: 1/243)
نوٹ: امام جوزجانی کی جرح کبار محدثین کی توثیق کے مقابلے میں قابلِ قبول نہیں ہے۔

خلاصۃ التحقیق:
محمد بن عمرو بن علقمہ اللیثی قولِ راجح میں صدوق حسن الحدیث ہیں، لہٰذا جب تک وہ کسی ثقہ راوی کی مخالفت نہ کریں یا کسی حدیث میں ان کی غلطی ثابت نہ ہو جائے ان کی عام حدیث حسن درجے کی ہو گی۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
خلاصۃ التحقیق:
محمد بن عمرو بن علقمہ اللیثی قولِ راجح میں صدوق حسن الحدیث ہیں، لہٰذا جب تک وہ کسی ثقہ راوی کی مخالفت نہ کریں یا کسی حدیث میں ان کی غلطی ثابت نہ ہو جائے ان کی عام حدیث حسن درجے کی ہو گی۔
ما شاء اللہ :
بہت مفید مضمون ہے ، جو محنت سے مرتب کیا گیا ہے ،
جزاکم اللہ تعالی خیراً
 
شمولیت
دسمبر 17، 2016
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
48
حافظ ابن حجر العسقلانی (المتوفی 852) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:صدوق له أوهام ترجمہ: ”سچے ہیں، اور ان کی غلطیاں بھی ہیں۔“(تقريب التهذيب لابن حجر: ص 884)
نوٹ: ابن حجر کی مراد یہ ہے کہ وہ حسن الحدیث ہیں۔

میں نے پڑھا تھا شیخ البانی رحمہ اللہ سے کسی نے سؤال کیا کہ جسے حافظ صدوق لہ اوہام کہے دیں اس سے حجت نہیں پکڑی جائے گی تو شیخ نے کہا
ای نعم(سلسلہ الہدی والنور شرط ٣٦٧)

براہ کرم شیخ اس پر رہنمائی فرمائیں
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
حافظ ابن حجر العسقلانی (المتوفی 852) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:صدوق له أوهام ترجمہ: ”سچے ہیں، اور ان کی غلطیاں بھی ہیں۔“(تقريب التهذيب لابن حجر: ص 884)
نوٹ: ابن حجر کی مراد یہ ہے کہ وہ حسن الحدیث ہیں۔

میں نے پڑھا تھا شیخ البانی رحمہ اللہ سے کسی نے سؤال کیا کہ جسے حافظ صدوق لہ اوہام کہے دیں اس سے حجت نہیں پکڑی جائے گی تو شیخ نے کہا
ای نعم(سلسلہ الہدی والنور شرط ٣٦٧)

براہ کرم شیخ اس پر رہنمائی فرمائیں
جی بھائی کسی راوی کی روایت تب تک ضعیف نہیں ہوتی جب تک اس کی غلطیاں اس کی روایات میں غالب نہ ہوں۔ غلطی تو ثقہ راوی بھی کرتے ہیں اس لئے صرف چند اوہام کی وجہ سے راوی ضعیف نہیں ہو جاتا۔
امام المنذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ومنهم الصدوق في روايته، الورع في دينه، الثبت الذي يهم أحيانا، وقد قبله الجهابذة النقاد، فهذا يحتج بحديثه أيضا." اور ان میں وہ راوی بھی ہیں جو روایت میں صدوق ہیں اور دین میں پرہیز گار ہیں، ثبت ہیں اور بعض اوقات غلطیاں کرتے ہیں، تو ان کی روایت کو نقاد جہابذہ نے قبول کیا ہے اور ان سے حجت بھی لی جاتی ہے"۔
(جواب الحافظ أبى محمد عبد العظيم المنذري المصري عن أسئلة فى الجرح والتعديل: ص ٤٩)
دوسری بات یہ کہ خود حافظ ابن حجر کے نزدیک بھی یہ کلمہ راوی کی تضعیف نہیں ہے۔ فی الحال وقت نہ ہونے کی وجہ سے صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں:
الحسن بن خلف الواسطی کے متعلق حافظ ابن حجر تقریب میں فرماتے ہیں: "صدوق له أوهام
اور دوسری جگہ فتح الباری میں اسی راوی کے متعلق فرماتے ہیں:
"الحسن بن خلف هو الواسطي ثقة من صغار شيوخ البخاري"
تیسری بات یہ کہ اگر ابن حجر کے نزدیک یہ کلمہ تضعیف کے لئے بھی ہوتا تو ان کا یہ قول دیگر محدثین کے مقابلے میں نہ قابلِ قبول ہو گا۔
واللہ اعلم۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں نے پڑھا تھا شیخ البانی رحمہ اللہ سے کسی نے سؤال کیا کہ جسے حافظ صدوق لہ اوہام کہے دیں اس سے حجت نہیں پکڑی جائے گی تو شیخ نے کہا
ای نعم(سلسلہ الہدی والنور شرط ٣٦٧)
@رضا میاں بھائی! سائل کا سوال یہاں در حقیقت شیخ البانی رحمہ اللہ کے بیان کا ہے! اس کی توضیح یا اس کے نقص کا بیان مطلوب ہے!

کیونکہ ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالہ سے تو وہ یہ نوٹ لکھتے ہیں کہ:
نوٹ: ابن حجر کی مراد یہ ہے کہ وہ حسن الحدیث ہیں۔
 
Last edited:

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

@رضا میاں بھائی! سائل کا سوال یہاں در حقیقت شیخ البانی رحمہ اللہ کے بیان کا ہے! اس کی توضیح یا اس کے نقص کا بیان مطلوب ہے!

کیونکہ ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالہ سے تو وہ یہ نوٹ لکھتے ہیں کہ:
شیخ البانی کے بیان کی توضیح اسی میں ہو جاتی ہے۔ اور در حقیقت یہ لائن جو آپ نے بھائی کی طرف منسوب کی ہے:
نوٹ: ابن حجر کی مراد یہ ہے کہ وہ حسن الحدیث ہیں۔
وہ دراصل میری ہے اور اصل مضمون میں موجود ہے۔ یہ بھائی نے نہیں کہا۔ اس لئے انہوں نے اسی کی وضاحت طلب کی ہے۔ :)
 
Top