• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ سمجھنے والے کافر کیوں نہیں؟

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم

قرآن مجید میں ہے:
لَّقَدْ كَفَرَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓا۟ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلْمَسِيحُ ٱبْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ ٱللَّهِ شَيْـًٔا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ ٱلْمَسِيحَ ٱبْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُۥ وَمَن فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًۭا ۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ ۚ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌۭ ﴿17﴾

ترجمہ: جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ عیسیٰ بن مریم اللہ ہیں وہ بےشک کافر ہیں (ان سے) کہہ دو کہ اگر اللہ عیسیٰ بن مریم کو اور ان کی والدہ کو اور جتنے لوگ زمین میں ہیں سب کو ہلاک کرنا چاہے تو اس کے آگے کس کی پیش چل سکتی ہے؟ اور آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے سب پر اللہ ہی کی بادشاہی ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے (سورۃ المائدہ،آیت 17)
اس آیت میں حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کہنے والوں کو کافر کہا گیا ہے،تو کیا حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کہنے والے کافر ہو سکتے ہیں تو محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کہنے والے کافر کیوں نہیں ہو سکتے؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
وعلیکم السلام
ایک صورت یہ ہے کسی کی طرف کفر کی نسبت کرنا جبکہ وہ کفریہ قول یا فعل کا مرتکب ہو تو ایسا کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے اسے اصطلاحا بیان کفر کہیں گے یعنی کسی کے قولی یا فعلی کفر کا بیان۔ اس آیت مبارکہ میں بھی در اصل کفر کی نسبت کی گئی ہے۔
دوسری صورت کسی کو کافر قرار دینے کی ہے یعنی کسی کی تکفیر کرنا، یہ صرف اہل علم کے لیے جائز ہے جبکہ شرائط پوری ہو رہی ہوں اور موانع موجود نہ ہوں۔ کسی کو کافر قرار دینے میں احتیاط کا پہلو اس لیے ملحوظ رکھا گیا ہے کہ امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر جسم کا ایک عضو گل سٹر جائے اور اس میں تندرستی یا صحت کی کوئی امید باقی نہ رہے تو اس کو کاٹ دینے میں ہی عافیت ہے لیکن جسم کے کسی ایسے عضو کو کاٹ دینا کہ جس کی صحت اور تندرستی کی امید تھی، خود اس جسم کے ساتھ کس قدر بڑا ظلم ہو گا؟ اس کا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ تو یہی معاملہ تکفیر کا بھی ہے۔ یہ راسخون فی العلم کی ایک جماعت کے لیے لائق ہے۔عوام الناس کا یہ مقام نہیں ہے۔ البتہ کتاب وسنت میں جن اعمال واقوال کو کفریہ یا شرکیہ بیان کیا گیا ہے تو ان اعمال کے مرتکبین کی طرف کفر و شرک کی نسبت کرنے میں کئی حرج نہیں ہے۔ البتہ کافر اور مشرک قرار دینا ایک ذمہ داری ہے اور یہ اہل علم کی ایک جماعت کا حق ہے۔ اگر راسخون فی العلم اہل علم کی جماعت کسی کو فعل یا قول کے مرتکب کو کافر یا مشرک قرار دیتی ہے تو ان کے بی ہاف پر آپ بھی مطلقا ایسی بات کر سکتے ہیں۔
دوسری
 
Top