• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فیچرز محمد نعیم شہزاد

شمولیت
اپریل 17، 2021
پیغامات
4
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
28
تبدیلی کیسے آتی ہے؟؟؟
محمد نعیم شہزاد


UrduDesigner-1644926978221.png

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا شعر ہے

نہیں نومید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ابتدائے آفرینش سے حق و باطل کی معرکہ آرائی جاری ہے۔ دونوں گروہ اپنا زور آزما رہے ہیں مگر جیت تو حق کی ہی ہو گی۔ ہمارے لیے یہ دنیا ایک امتحان گاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم کس گروہ کے ساتھ کھڑے ہیں، کیا ہم حق کے معاون ہیں یا باطل کے پھیلاؤ کا باعث بن رہے ہیں۔

بہت سے لوگ شکوہ کناں نظر آتے ہیں۔ زمانہ خراب ہے، حالات پہلے سے نہیں رہے، شر غالب آ گیا ہے اور نیکی کا تو اب زمانہ ہی نہیں رہا، یہ اور اس طرح کے بعض دوسرے جملے زبان زد عام ہیں۔
ان باتوں سے اتفاق کر بھی لیا جائے تو کیا ہم بری الذمہ قرار پا جائیں گے؟
کیا ہم محض شکوہ، شکایت کے ہی مکلف ہیں؟
اصلاح احوال اور مخلوق خدا کی خیر خواہی کیونکر ممکن ہے؟
یہ ہر ذی شعور کی ذمہ داری ہے کہ وہ شکوہ شکایت چھوڑے اور عملی اقدامات کرے۔ بقول اقبال

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
آپ بارش کا پہلا قطرہ بنیں تو صحرا میں جل تھل ہو جائے۔ مایوسیوں کی تاریکی میں آپ امید کی پہلی کرن بن کر دیکھیں کہ اس نور کی تابانی کہاں تک پہنچتی ہے۔ آپ ایک بیج کی مثل بنیں جس سے ایک شاخ اگتی ہے اس پر کونپلیں پھوٹتی ہیں اور ہر طرف سبزہ اور رنگ بکھر جاتے
ہیں۔

ہاں آپ، صرف آپ ہی اس تبدیلی کا موجب بن سکتے ہیں۔
مگر عمل شرط ہے تبدیلی کی گواہی آپ خود دیں گے۔ میں خود ان سب نتائج کا عملی مشاہدہ کر چکا ہوں ۔ پیشے کے اعتبار سے میں ایک استاد ہوں اور میرا مضمون انگریزی زبان و ادب ہے۔ اساتذہ اپنے طلبہ کو کس طرح متاثر کرتے ہیں، اس حوالے سے کیا جاتا ہے کہ ایک استاد کوئی مضمون بھی پڑھاتا ہو اس کا کردار اور سوچ طلبہ پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ لہٰذا ایک اسلامی اقدار کا حامل استاد میتھ، انگلش یا سائنس پڑھائے بچوں پر اس کا اثر ضرور آئے گا اور ایک غیر اسلامی اقدار کا حامل استاد خواہ اسلامیات پڑھائے وہ طلبہ میں غیر اسلامی اقدار ہی پروان چڑھائے گا۔ اس کا مشاہدہ میں نے کیا ہے۔ میرے ایک دوست جو قرآن کے استاد ہیں انھوں نے میرے ایک طالب علم، جو تین سال تک مجھ سے پڑھتا رہا، کا ذکر کرتے ہوئے بتا کہ وہ عالم دین بن چکا ہے اور مفتی بننے کے لیے تخصص کر رہا ہے۔ قاری صاحب نے ایک ایسا جملہ بولا کہ سن کر یقین ہی نہ آیا اور ابے انتہا خوشی ہوئی ۔ قاری صاحب بتا رہے تھے کہ وہ طالب علم میری وجہ سے عالم دین نہیں بنا حالانکہ میں اسے قرآن پڑھاتا تھا اور آپ اس طالب علم کو انگریزی اور دوسرے مضامین پڑھاتے تھے مگر آپ کی وجہ سے وہ طالب علم دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہو گیا۔ فللہ الحمد۔

گزشتہ دنوں کلاس میں بورڈ پر لکھتے ہوئے بورڈ کے بارڈر پر نظر گئی تو معلوم ہوا کہ یہ کافی خراب ہو چکا ہے۔ طلبہ سے پوچھا کہ کون اس کو درست کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ جمعرات کا دن تھا۔ ایک طالب علم نے کہا سر امتحان آنے والے ہیں اور امتحان کے بعد ہمارا کمرہ جماعت تبدیل ہو جانا ہے تو پھر ہم کیوں اس کمرے کا بورڈ ٹھیک کریں۔ اگلے روز جمعہ کو سبق شروع کرنے سے پہلے میں نے اسی واقعہ کی بابت طلبہ کو یاد دلایا اور پوچھا کہ آپ اس بورڈ کو ٹھیک کرنے پر کیوں آمادہ نہ تھے۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا اس لیے کہ عنقریب یہ کلاس ہماری نہیں ہو گی اور ہم دوسری کسی کلاس میں منتقل ہو جائیں گے ۔ میں نے اسی بات پر طلبہ کو کچھ نصیحت کر دی کہ یہ دنیا جہاں ہم رہ رہے ہیں ہمارا یہاں قیام بھی تو غیر مستقل ہے۔ پھر اس کے لیے کیوں ہم اتنا پریشان ہوتے ہیں اور محنت کرتے ہیں ۔ ہماری محنت، کوشش کا اصل مرکز اور محور تو آخرت کی زندگی ہونی چاہیے۔ دنیا کی زندگی تو ایسے گزارنی چاہیے جیسے اجنبی یا مسافر ہیں۔ اس کے بعد ایمان، نیت اور اعمال صالح پر کچھ باتیں بتائیں اور اس کے بعد اپنے سبق میں مشغول ہو گئے۔

اگلے جمعہ طلبہ کو ترغیب دی کہ نیکی کی بات سیکھانے والے کو اس پر عمل کرنے والوں کے برابر ثواب ملتا ہے۔ تو کیا آپ میں سے کوئی یہاں طلبہ کو نیکی کی بات بتانا چاہے گا؟ اس پر ایک طالب علم نے ہاتھ کھڑا کر کے اظہار کیا کہ وہ ایسا پسند کرے گا۔
اس طالب علم کو دعوت دی گئی تو اس نے زیادتی کرنے والے سے برابر کا بدلہ لینے یا اس کو معاف کر دینے پر بات کی۔ طالب علم نے دو جملے بولے اور اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ میں نے اسی عنوان پر دو، تین منٹ گفتگو کی اور کہا کہ آج ہم نے جتنی باتیں سیکھی ہیں ان سب کے اجر میں وہ طالب بھی شریک ہو گیا ہے جس نے یہ بات شروع کی تھی اور میرے اور عمل کرنے والے کے اجر میں بھی کوئی کمی نہ ہو گی۔ اس پر ایک اور طالب علم نے اجازت چاہی کہ سر آپ روز صبح نیکی کی. ات کا موقع دیں اور کل میں نیکی کی بات سکھاؤں گا۔ طلبہ کا یہ ذوق و شوق دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔ یہ وہی طلبہ تھے جو ہمیشہ سب کے سامنے آ کر بات کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے اب ان کے دل میں لگن تھی کہ وہ جلد سے جلد نیکی کا پیغام پھیلا کر اجر کے مستحق بن جائیں۔

یہ اکیسویں صدی ہے۔ وہی زمانہ ہے جسے ہم بہت برا گردانتے ہیں ۔ جن طلبہ کی مثال بیان کی گئی ہے وہ بھی اسی دور کے بچے ہیں۔ اللہ نے ان کو توفیق دی اور وہ شیطان کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔ ہم سب کے لیے ان باتوں میں یہی سبق پنہاں ہے کہ حالات کو الزام دینے کی بجائے میدان عمل میں اتریں ۔ اللہ سے توفیق مانگیں اور رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر حق کی تلقین کرتے رہیں تاکہ ہم خسارے سے بچ جائیں۔
UrduDesigner-1644926978221.png
 
Top