ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
ایک موقع پر شیخ محمد مسجد نبوی میں موجود تھے۔لوگ استغاثہ و استعانت کی صداؤں میں گم تھے اورعجیب و غریب حرکتیں کررہے تھے۔ اسی لمحے تدریس حدیث کے جلیل القدر معلم محمد حیات سندی جو شیخ محمد کے اتالیق بھی تھے، وہاں آگئے۔ شیخ نے جاہلانہ حرکتیں کرنے والوں کی طرف اُنگشت نمائی کی اور پوچھا: ان لوگوں کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے؟ موصوف نے معاً سورہ اعراف کی یہ آیت پڑھی:
مذہبی حالت کے علاوہ عرب کی سیاسی اور سماجی حالت بھی خراب تھی۔ عثمانی ترکوں کی حکمرانی کا سکہ چل رہا تھا، نجد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ خانہ جنگی عام تھی۔ فقر وفاقہ مسلط تھا۔ ترکوں کے زیر اہتمام مصر سے رقوم آتی تھیں اورمزاروں کے مجاوروں اورمتولّیوں میں بانٹی جاتی تھیں۔ لوگوں کی گزر بسر مزاروں ، قبروں اور آستانوں کی مجاوری ، گداگری اور لوٹ کھسوٹ پر موقوف تھی۔ یہ حالات دیکھا کر شیخ کا حساس دل تڑپ اٹھا اور وہ لا إله إلا الله محمد رسول الله کی دعوت کا پرچم لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کی دعوت کا خلاصہ یہ ہے :﴿ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِيْهِ وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾الاعراف139
’’یہ لوگ جس کام میں لگے ہوئے ہیں، وہ باطل ہے اور نیست و نابود ہوکر رہے گا۔‘‘