- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
درود شریف کے فضائل و ثمرات
تحریر : شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستیٔ اقدس پر درود پیغمبرِ اسلام سے اظہارِ محبت کا بے مثال و منفرد انداز ہے، تو بے پناہ فوائد و ثمرات سے مسلمان کا دامن بھی بھر دیتا ہے۔ آئیے شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی ابن قیم الجوزی رحمہ اللہ کے بیان کردہ کچھ ثمرات جلیلہ پڑھیے:
➊ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری حاصل ہوتی ہے۔
➋ اللہ عزوجل کے ساتھ درود میں موافقت حاصل ہوتی ہے۔ وہ بات الگ ہے کہ ہمارے اور اللہ تعالیٰ کا درود مختلف معانی و مطالب رکھتا ہے۔ کیوں کہ ہمارے درود کا معنیٰ دعا اور سوال ہے اور اللہ تعالیٰ کے درود سے مراد ثنا و شرف بیان کرنا ہے۔
➌ درود پڑھنے میں فرشتوں کے عمل کے ساتھ مطابقت نصیب ہوتی ہے۔
➍ ایک مرتبہ درود پڑھنے والے کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے دس رحمتیں عطا کی جاتی ہیں۔
➎ ایک بار درود پڑھنے سے دس درجات بلند ہو جاتے ہیں۔
➏ ایک دفعہ درود پڑھنے سے نامہ اعمال میں دس نیکیاں لکھ جاتی ہیں۔
➐ ایک مرتبہ درود پڑھنے سے دس گناہ مٹا دیے جاتے ہیں۔
➑ درود سے آغاز کرنے سے دعا شرف قبولیت حاصل کرتی ہے۔
➒ درود پڑھنے سے روز قیامت شفاعت رسول کی سعادت نصیب ہو گی۔
➓ درود گناہوں کی مغفرت کا باعث ہے۔
⓫ درود انسان کے غم و الم کا مداوا بن جاتا ہے۔
⓬ درود پڑھنے والا روز قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب تر ہو گا۔
⓭ تنگ دست کے لیے درود صدقہ کے قائم مقام ہے۔
⓮ درود انسانی ضروریات پوری ہونے کا بہترین ذریعہ ہے۔
⓯ درود پڑھنے والوں کو رحمت الٰہی اور فرشتوں کی دعا نصیب ہوتی ہے۔
⓰ درود تزکیہ نفس کا باعث ہے۔
⓱ موت سے پہلے بندہ کو بشارت جنت مل جانے کا سبب ہے۔
⓲ قیامت کی ہولناکیوں سے نجات مل جاتی ہے۔
⓳ مجلس درود سے پاکیزہ ہو جاتی ہے اور روز قیامت ایسی محفل باعث حسرت نہیں ہو گی۔
⓴ درود شریف سے فقر و فاقہ ختم ہو جاتا ہے۔
(21) درود شریف پڑھنے والے کو بخل سے نجات مل جاتی ہے۔
(22) درود پڑھنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا سے بندہ محفوظ ہو جاتا ہے۔
(23) درود بندے کو جنت کا راہی بناتاہے۔
(24) اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور نبی کریم پر درود سے شروع کی جانے والی کلام پایہ تکمیل تک پہنچتی ہے۔
(25) درود خواں کی ذات خاص اور عمل و عمر و دیگر اسباب و مصالح میں برکت کا باعث ہے۔کیوں کہ درود خواں کی دعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور ان کی آل پر برکت فرمائے۔ یہ دعا بہرحال مستجاب ہے اور جنس کے موافق جزا دی جاتی ہے۔
(26) درود اللہ تعالیٰ کی رحمت پانے کا ذریعہ ہے۔ کیوں کہ صلوٰۃ کا معنیٰ یا تو رحمت ہے۔ یا رحمت صلوٰۃ کے لوازم و موجبات میں سے ہے، بہرحال اس سے رحمت الٰہیہ درود خواں پر نازل ہوتی ہے۔
درود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے دوام و اضافے کا سبب ہے۔ یہ صفت مراتب ایمان میں سے ایک مرتبہ ہے جس کے بغیر ایمان کامل و اکمل نہیں ہوتا۔ کیوں کہ انسان جس قدر زیادہ محبوب کا ذکر کرے، محبوب اور اس کی خوبیوں کو یاد رکھے گا اور ان مضامین کو جو محبت بھڑکا دینے والے ہیں پیش نظر رکھے گا، اسی قدر اس کی محبت بڑھے گی اور شوق کامل ہو گا۔ حتیٰ کہ تمام دل پر چھا جائے گا۔ لیکن جب ذکر چھوڑ دے اور اس کے محاسن کو دل میں جگہ نہ دے تب محبت کم ہو جائے گی۔
جس طرح آنکھ کی ٹھنڈک محبوب کا دیدار ہے، اسی طرح دل کی تسکین اس کی اور اس کے محاسن کی یاد ہے۔ جب یہ صفت دل میں جگہ پکڑ لیتی ہے تو زبان خود بہ خود مدح اور ثنا میں جاری ہو جاتی ہے اور محبوب کی تعریف و محامد برابر بیان کیا کرتی ہے اور اس صفت میں کمی و بیشی اصل محبت کی کمی بیشی کے موافق ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ حس و مشاہدہ اس پر شاہد ہے۔
درود خوانی انسان کی ہدایت اور حیات قلب کا سبب ہے۔ کیوں کہ جس قدر زیادہ درود پڑھے گا اور ذکر مبارک اس کی زبان پر آئے گا۔ اسی قدر محبت بھی دل پر غالب آ جائے گی۔ یہاں تک کہ دل میں کوئی شے ایسی باقی نہ رہ جائے گی جو آپ کے اوامر کا معارضہ کرے یا آپ کی تعلیم پر شک ہونے دے۔ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور تعلیمات اس کے دل پر روشن تحریر کے ساتھ لکھی جاتی ہیں اور جس قدر وہ آپ کے احوال میں غور کرتا ہے۔ اتنا ہی گویا لوح دل کی اس تحریر کو پڑھتا رہتا اور اس سے ہمیشہ ہدایت و فلاح اور انواع علوم کا اقتباس کرتا رہتا ہے۔ اب جس قدر اس کی بصیرت بڑھتی اور قوت معرفت زیادہ ہوتی جاتی ہے، اسی قدر زیادہ درود شریف کو بڑھاتا رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اہل علم و عارفین سنت و ہدایت نبوی اور متبعین احکام کی درود خوانی اور ہے، جب کہ عام لوگوں (جو سنت سے سرتابی کرنا اور شور مچانا ہی جانتے ہیں) کی درود خوانی اور قسم کی ہے۔ کیوں کہ ان کو جس قدر زیادہ تعلیم نبوی کی معرفت حاصل ہوتی جائے گی، اسی قدر ان کی محبت بھی بڑھتی جائے گی۔ اور اسی قدر ان پر درود شریف کی حقیقت جو اللہ تعالیٰ کا مطلوب ہے کھلتی جائے گی۔ اور اس حقیقت کا عرفان ہوتا جائے گا۔
یہی حال ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کے ذکر کا کہ جس قدر زیادہ بندوں کو عرفان ہو گا اور جس قدر زیادہ اس میں اطاعت اور محبت کا مادہ ہو گا۔ اسی قدر اس کے ذکر کو غافلین کے ذکر سے امتیاز حاصل ہو گا۔ یہ ایک ایسا امر ہے جو مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے صرف خبر سے نہیں۔ دیکھیے، ایک تو وہ شخص ہے جو جوش محبت سے محبوب کی صفات کا ذکر اور اس کی ثناء و تمجید کرتا ہے جس کے دل پر محبت قبضہ کئے ہوئے ہے اور ایک وہ ہے جو صرف قرائن سے ذکر کرتا ہے یا ایسے لفظ بولتا ہے جن کے معنی وہ نہیں جانتا۔ وہ تعریف کرتا ہے مگر زبان کے ساتھ دل موافقت نہیں رکھتا۔ ان دونوں میں جو تفاوت ہو سکتا ہے،وہ ظاہر ہے۔ ٹھیک وہی فرق ہو گا جو اجرت پر رونے والی اور پسر مردہ پر رونے والی میں فرق ہوتا ہے۔
الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی یاد اور اللہ تعالیٰ کی حمد، اس نعمت پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارا سردار بنایا اور آپ کی رسالت سے جملہ مخلوقات پر احسان عظیم فرمایا، یہ وجود کی زندگی اور دل کی حیات ہے۔
درود خوانی ایسی سعادت ہے کہ درود خواں کا نام و ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں کیا جاتا ہے اور اہل ایمان کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا سعادت ہو سکتی ہے کہ اس دربار عالی میں اس کا نام لیا جائے؟
درود پڑھنا حقوق رسول میں شامل ہے۔ وہ بات الگ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کے مقابلے میں یہ انتہائی کم ہے اور اس نعمت کی شکر گزاری میں شمار ہوتا ہے جو بعثت نبوی سے ہمیں ملی ہے۔ گو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق و استحقاق اس قدر ہیں کہ ان پر کوئی شخص علم و قدرت اور ارادہ سے احاطہ نہیں کر سکتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ کرم ہے کہ بندوں کی جانب سے اس تھوری سی شکر گزاری اور ادائے حق پر خوشنودی کا اظہار فرما دیا ہے۔
درود کا پڑھنا ذکر الٰہی اور شکر ربانی اور اس نعمت و احسان کی معرفت کا ضامن ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے بندوں پر فرمایا ہے۔ پس درود خواں کے درود میں اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اور التجا بھی کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی جزا عطا فرمائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کے اسما و صفات کی پہچان کرائی۔ نیز اللہ تعالیٰ کی مرضیات و خوشنودی کے طریق بتلائے اور لوگوں کو خبردار کیا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچنے اور سامنے حاضر ہونے کے بعد ہمارے ساتھ کیا کچھ معاملہ ہو گا۔ تو گویا درود تمام ایمان پر حاوی ہے اور اسی میں وجود رب کا، جسے درود خواں پکار رہا ہے، اقرار بھی شامل ہے اور علم و سمع، قدرت و ارادہ اور دیگر صفات و کلام و ارسال رسول کی شہادت و تسلیم بھی ہے اور اسی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا ان سب امور کی علم و تصدیق کا ضامن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا مظہر ہے۔
➊ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری حاصل ہوتی ہے۔
➋ اللہ عزوجل کے ساتھ درود میں موافقت حاصل ہوتی ہے۔ وہ بات الگ ہے کہ ہمارے اور اللہ تعالیٰ کا درود مختلف معانی و مطالب رکھتا ہے۔ کیوں کہ ہمارے درود کا معنیٰ دعا اور سوال ہے اور اللہ تعالیٰ کے درود سے مراد ثنا و شرف بیان کرنا ہے۔
➌ درود پڑھنے میں فرشتوں کے عمل کے ساتھ مطابقت نصیب ہوتی ہے۔
➍ ایک مرتبہ درود پڑھنے والے کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے دس رحمتیں عطا کی جاتی ہیں۔
➎ ایک بار درود پڑھنے سے دس درجات بلند ہو جاتے ہیں۔
➏ ایک دفعہ درود پڑھنے سے نامہ اعمال میں دس نیکیاں لکھ جاتی ہیں۔
➐ ایک مرتبہ درود پڑھنے سے دس گناہ مٹا دیے جاتے ہیں۔
➑ درود سے آغاز کرنے سے دعا شرف قبولیت حاصل کرتی ہے۔
➒ درود پڑھنے سے روز قیامت شفاعت رسول کی سعادت نصیب ہو گی۔
➓ درود گناہوں کی مغفرت کا باعث ہے۔
⓫ درود انسان کے غم و الم کا مداوا بن جاتا ہے۔
⓬ درود پڑھنے والا روز قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب تر ہو گا۔
⓭ تنگ دست کے لیے درود صدقہ کے قائم مقام ہے۔
⓮ درود انسانی ضروریات پوری ہونے کا بہترین ذریعہ ہے۔
⓯ درود پڑھنے والوں کو رحمت الٰہی اور فرشتوں کی دعا نصیب ہوتی ہے۔
⓰ درود تزکیہ نفس کا باعث ہے۔
⓱ موت سے پہلے بندہ کو بشارت جنت مل جانے کا سبب ہے۔
⓲ قیامت کی ہولناکیوں سے نجات مل جاتی ہے۔
⓳ مجلس درود سے پاکیزہ ہو جاتی ہے اور روز قیامت ایسی محفل باعث حسرت نہیں ہو گی۔
⓴ درود شریف سے فقر و فاقہ ختم ہو جاتا ہے۔
(21) درود شریف پڑھنے والے کو بخل سے نجات مل جاتی ہے۔
(22) درود پڑھنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا سے بندہ محفوظ ہو جاتا ہے۔
(23) درود بندے کو جنت کا راہی بناتاہے۔
(24) اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور نبی کریم پر درود سے شروع کی جانے والی کلام پایہ تکمیل تک پہنچتی ہے۔
(25) درود خواں کی ذات خاص اور عمل و عمر و دیگر اسباب و مصالح میں برکت کا باعث ہے۔کیوں کہ درود خواں کی دعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور ان کی آل پر برکت فرمائے۔ یہ دعا بہرحال مستجاب ہے اور جنس کے موافق جزا دی جاتی ہے۔
(26) درود اللہ تعالیٰ کی رحمت پانے کا ذریعہ ہے۔ کیوں کہ صلوٰۃ کا معنیٰ یا تو رحمت ہے۔ یا رحمت صلوٰۃ کے لوازم و موجبات میں سے ہے، بہرحال اس سے رحمت الٰہیہ درود خواں پر نازل ہوتی ہے۔
درود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے دوام و اضافے کا سبب ہے۔ یہ صفت مراتب ایمان میں سے ایک مرتبہ ہے جس کے بغیر ایمان کامل و اکمل نہیں ہوتا۔ کیوں کہ انسان جس قدر زیادہ محبوب کا ذکر کرے، محبوب اور اس کی خوبیوں کو یاد رکھے گا اور ان مضامین کو جو محبت بھڑکا دینے والے ہیں پیش نظر رکھے گا، اسی قدر اس کی محبت بڑھے گی اور شوق کامل ہو گا۔ حتیٰ کہ تمام دل پر چھا جائے گا۔ لیکن جب ذکر چھوڑ دے اور اس کے محاسن کو دل میں جگہ نہ دے تب محبت کم ہو جائے گی۔
جس طرح آنکھ کی ٹھنڈک محبوب کا دیدار ہے، اسی طرح دل کی تسکین اس کی اور اس کے محاسن کی یاد ہے۔ جب یہ صفت دل میں جگہ پکڑ لیتی ہے تو زبان خود بہ خود مدح اور ثنا میں جاری ہو جاتی ہے اور محبوب کی تعریف و محامد برابر بیان کیا کرتی ہے اور اس صفت میں کمی و بیشی اصل محبت کی کمی بیشی کے موافق ہوا کرتی ہے۔ چنانچہ حس و مشاہدہ اس پر شاہد ہے۔
درود خوانی انسان کی ہدایت اور حیات قلب کا سبب ہے۔ کیوں کہ جس قدر زیادہ درود پڑھے گا اور ذکر مبارک اس کی زبان پر آئے گا۔ اسی قدر محبت بھی دل پر غالب آ جائے گی۔ یہاں تک کہ دل میں کوئی شے ایسی باقی نہ رہ جائے گی جو آپ کے اوامر کا معارضہ کرے یا آپ کی تعلیم پر شک ہونے دے۔ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور تعلیمات اس کے دل پر روشن تحریر کے ساتھ لکھی جاتی ہیں اور جس قدر وہ آپ کے احوال میں غور کرتا ہے۔ اتنا ہی گویا لوح دل کی اس تحریر کو پڑھتا رہتا اور اس سے ہمیشہ ہدایت و فلاح اور انواع علوم کا اقتباس کرتا رہتا ہے۔ اب جس قدر اس کی بصیرت بڑھتی اور قوت معرفت زیادہ ہوتی جاتی ہے، اسی قدر زیادہ درود شریف کو بڑھاتا رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اہل علم و عارفین سنت و ہدایت نبوی اور متبعین احکام کی درود خوانی اور ہے، جب کہ عام لوگوں (جو سنت سے سرتابی کرنا اور شور مچانا ہی جانتے ہیں) کی درود خوانی اور قسم کی ہے۔ کیوں کہ ان کو جس قدر زیادہ تعلیم نبوی کی معرفت حاصل ہوتی جائے گی، اسی قدر ان کی محبت بھی بڑھتی جائے گی۔ اور اسی قدر ان پر درود شریف کی حقیقت جو اللہ تعالیٰ کا مطلوب ہے کھلتی جائے گی۔ اور اس حقیقت کا عرفان ہوتا جائے گا۔
یہی حال ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کے ذکر کا کہ جس قدر زیادہ بندوں کو عرفان ہو گا اور جس قدر زیادہ اس میں اطاعت اور محبت کا مادہ ہو گا۔ اسی قدر اس کے ذکر کو غافلین کے ذکر سے امتیاز حاصل ہو گا۔ یہ ایک ایسا امر ہے جو مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے صرف خبر سے نہیں۔ دیکھیے، ایک تو وہ شخص ہے جو جوش محبت سے محبوب کی صفات کا ذکر اور اس کی ثناء و تمجید کرتا ہے جس کے دل پر محبت قبضہ کئے ہوئے ہے اور ایک وہ ہے جو صرف قرائن سے ذکر کرتا ہے یا ایسے لفظ بولتا ہے جن کے معنی وہ نہیں جانتا۔ وہ تعریف کرتا ہے مگر زبان کے ساتھ دل موافقت نہیں رکھتا۔ ان دونوں میں جو تفاوت ہو سکتا ہے،وہ ظاہر ہے۔ ٹھیک وہی فرق ہو گا جو اجرت پر رونے والی اور پسر مردہ پر رونے والی میں فرق ہوتا ہے۔
الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی یاد اور اللہ تعالیٰ کی حمد، اس نعمت پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارا سردار بنایا اور آپ کی رسالت سے جملہ مخلوقات پر احسان عظیم فرمایا، یہ وجود کی زندگی اور دل کی حیات ہے۔
درود خوانی ایسی سعادت ہے کہ درود خواں کا نام و ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں کیا جاتا ہے اور اہل ایمان کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا سعادت ہو سکتی ہے کہ اس دربار عالی میں اس کا نام لیا جائے؟
درود پڑھنا حقوق رسول میں شامل ہے۔ وہ بات الگ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کے مقابلے میں یہ انتہائی کم ہے اور اس نعمت کی شکر گزاری میں شمار ہوتا ہے جو بعثت نبوی سے ہمیں ملی ہے۔ گو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق و استحقاق اس قدر ہیں کہ ان پر کوئی شخص علم و قدرت اور ارادہ سے احاطہ نہیں کر سکتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ کرم ہے کہ بندوں کی جانب سے اس تھوری سی شکر گزاری اور ادائے حق پر خوشنودی کا اظہار فرما دیا ہے۔
درود کا پڑھنا ذکر الٰہی اور شکر ربانی اور اس نعمت و احسان کی معرفت کا ضامن ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے بندوں پر فرمایا ہے۔ پس درود خواں کے درود میں اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اور التجا بھی کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی جزا عطا فرمائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کے اسما و صفات کی پہچان کرائی۔ نیز اللہ تعالیٰ کی مرضیات و خوشنودی کے طریق بتلائے اور لوگوں کو خبردار کیا کہ اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچنے اور سامنے حاضر ہونے کے بعد ہمارے ساتھ کیا کچھ معاملہ ہو گا۔ تو گویا درود تمام ایمان پر حاوی ہے اور اسی میں وجود رب کا، جسے درود خواں پکار رہا ہے، اقرار بھی شامل ہے اور علم و سمع، قدرت و ارادہ اور دیگر صفات و کلام و ارسال رسول کی شہادت و تسلیم بھی ہے اور اسی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا ان سب امور کی علم و تصدیق کا ضامن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا مظہر ہے۔