مخَصِّصَات منفصلہ:
منفصل مُخَصِّص کی تعریف پیچھے گزر چکی ہے ۔ اس کی بھی چند اقسام ہیں ، ان میں سے چند ایک کو ہم یہاں ذکر کرر ہے ہیں۔
1
کتاب وسنت کی کسی نص کے ذریعے تخصیص کرنا۔ اس کی درج ذیل صورتیں ہیں:
1۔ یا تو کوئی آیت ہی کسی دوسری آیت کے عموم کی تخصیص کردیتی ہے، جیسا کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے :
﴿ وَالْمُطَلَّقَاتُ يتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلاثَةَ قُرُوءٍ ﴾ [البقرة:228] طلاق یافتہ عورتیں اپنے نفسوں کے ساتھ تین حیض تک انتظار کریں (یعنی عدت گزاریں)۔ان طلاق یافتہ عورتوں میں سے حمل والیوں کی تخصیص اس آیت کے ذریعے کی گئی ہے:
﴿ وَأُوْلاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ﴾ [الطلاق:4] اور حمل والیوں کی عدت کی مدت ان کے وضع حمل تک ہے۔
اسی طرح ان طلاق یافتہ عورتوں میں سے ان عورتوں کی بھی تخصیص کی گئی ہے جن کو چھونے سے پہلے ہی طلاق تھمادی گئی۔ یہ تخصیص اللہ رب العزت کے اس فرمان کے ذریعے کی گئی ہے:
﴿ يا أَيهَا الَّذِينَ آمَنُوا إذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيهِنَّ مِن عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ﴾ [الأحزاب:49] اے مومنو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے پہلے (ہی) طلاق دے دو تو ان پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں ہے جسے تم شمار کرو۔
2۔ یا پھر حدیث کے ذریعے آیت کے عموم کی تخصیص کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ حُرِّمَتْ عَلَيكُمُ الْمَيتَةُ ﴾ [المائدة:3] تم پر مردار حرام کردیا گیا ہے۔
اس مردار میں سے مچھلی اور مکڑی (ٹڈی دَل) کی تخصیص نبی کریمﷺ کی اس حدیث کے ذریعے کی گئی ہے:
«أحلت لنا ميتتان ودمان أما الميتتان: فالجراد والحوت» ہمارے لیے دو طرح کے مردار اور دو طرح کے خون حلال کیے گئے ہیں۔ جو مردار ہیں وہ تو مکڑی اور مچھلی ہیں۔
اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا یہ فرمان گرامی:
﴿ وَيسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يطْهُرْنَ ﴾ [البقرة:222] وہ آپﷺ سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں۔ آپﷺ فرمادیجئے کہ وہ ایک تکلیف اور اذیت ہے تو تم حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ، ان کے قریب نہ جاؤ۔
اس کی تخصیص اس روایت سے کی گئی ہے جو عائشہ و ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ اپنی کسی بیوی کو ازار باندھنے کا حکم دیتے تھے ،تو اس طرح اس سے حیض کی حالت میں جسم سے جسم ملاتے تھے۔
3۔ یا پھرحدیث کے عموم کی تخصیص کوئی آیت کرتی ہے۔ مثال کے طور پر آپﷺ کا فرمان گرامی ہے:
«ما أبين من حي فهو ميت» زندہ میں سے جو چیز بھی جدا کرلی جائے تو وہ مردار ہے۔
نبی کریمﷺ کے اس فرمان کی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعے تخصیص کی گئی ہے:
﴿ وَمِنْ أَصْوَافِهَا وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَا أَثَاثًا وَمَتَاعًا إلَى حِينٍ ﴾ [النحل:80] اور ان کی اون اور روؤں اور بالوں سے بھی اس نے بہت سے سامان اور ایک وقت مقرره تک کے لیے فائده کی چیزیں بنائیں۔
اسی طرح نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:
«إذا التقى المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار» جب دو مسلمان اسلحہ لے کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آجائیں تو قاتل اور مقتول دونوں آگ میں جائیں گے۔
نبی کریمﷺ کے اس فرمان کی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعے تخصیص کی گئی ہے:
﴿ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إلَى أَمْرِ اللَّهِ ﴾ [الحجرات:9] تو تم باغی گروہ سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ رب العالمین کے حکم کی طرف لوٹ آئیں۔
4۔ یا پھر ایک حدیث دوسری حدیث کے عموم کی تخصیص کرتی ہے۔ مثال کے طور پر نبیﷺ کا فرمان گرامی ہے:
«فيما سقت السماء العشر» جس کھیتی کو بارش سیراب کرے ، اس میں عشر ہے۔
مذکورہ بالا فرمان کی اس فرمان کے ذریعے تخصیص کی گئی ہے:
«ليس فيما دون خمسة أوسق صدقة» پانچ وسق سے کم کھیتی کی پیداوار میں زکاۃ نہیں ہے۔
2
اجماع کے ذریعے تخصیص کرنا۔ مثال کےطور پر اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:
﴿ يوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيينِ ﴾ [النساء:11] اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتے ہیں ۔ ایک مذکر کےلیے دو مؤنثوں کے حصہ کے برابر ہے۔
تو یہاں پر اجماع کے ذریعے غلام کے بیٹے کی تخصیص کی گئی ہے ۔ اسی طرح دھوکے والی بیع سے روکنے والی احادیث کے عموم سے اجماع کے ذریعے مضاربت کے جواز کی تخصیص کی گئی ہے۔
3 قیاس کے ذریعے تخصیص کرنا۔ مثال کے طور پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
﴿ الزَّانِيةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ﴾ [النور:2] زانی مردو عورت میں سے ہر ایک دو سو (۱۰۰)سو (۱۰۰)کوڑے مارو۔
تو زانیہ عورت کے عموم سے لونڈی کی تخصیص نص کے ذریعے کی گئی ہے اور وہ نص اللہ تبارک وتعالیٰ کا درج ذیل فرمان ہے:
﴿ فَإنْ أَتَينَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ﴾ [النساء:25] تو اگر یہ کنیزیں زنا کا ارتکاب کرلیں تو ان پر آزاد عورتوں کی سزا میں سے نصف سزا ہے۔
رہا غلام کو زانی کے عموم سے نکالنا تو ایسا غلام کو لونڈی پر قیاس کرکے کیا گیا ہے کیونکہ ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
4 حس کے ذریعے تخصیص کرنا۔ اس کی مثالوں میں سے ایک رب ذوالجلال والاکرام کا یہ فرمان ہے:
﴿ يجْبَى إلَيهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَيءٍ ﴾ [القصص:57] اس (مکہ) کی طرف تمام چیزوں کے پھل کِھچے چلے آتے ہیں۔
اسی طرح ملکہ سبا کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی اسی قاعدے کی مثال ہے:
﴿ وَأُوتِيتْ مِن كُلِّ شَيءٍ ﴾ [النمل:23] اسے ہر چیز دی گئی ہے۔
تو بلاشبہ مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ نہ تو مکہ (اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کریں) میں ہر طرح کےمختلف انواع واقسام کے پھل لائے جاتے ہیں اور نہ ہی بلقیس کو ہر چیز دی گئی تھی۔
5 عقل کے ذریعے تخصیص کرنا۔ اس کی مثالوں میں سے ایک اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان مبارک ہے:
﴿ اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيءٍ ﴾ [الزمر:62] اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے۔
تو بلاشبہ عقل اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ رب ذوالجلال والاکرام کی ذات اپنی صفات کے ساتھ غیر مخلوق ہے اگرچہ
’کُلْ‘ کا لفظ اسے بھی شامل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے:
﴿ كُلُّ شَيءٍ هَالِكٌ إلاَّ وَجْهَهُ ﴾ [القصص:88] تیرے رب کی ذات کے علاوہ ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے۔
ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر