محمد عاصم حفیظ
مبتدی
- شمولیت
- اپریل 13، 2011
- پیغامات
- 25
- ری ایکشن اسکور
- 142
- پوائنٹ
- 0
6
آج کے ترقی یافتہ دور میں میڈیا کی اہمیت مسلم ہے ۔ مختلف قسم کے ذرائع ابلاغ نے ٹیکنالوجی کے سہارے اس وسیع و عریض کرہ ارض کو ایک گلوبل ویلج میں بدل کے رکھ دیا ہے ۔ میڈیا نے انسان کو ہر ہر لمحے باخبر رکھنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے ۔ آج کے دور کا اہم ترین مسئلہ معلومات کی قلت نہیں بلکہ بے پناہ معلومات کے سمندر نے انسانوں کو فکری پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ آج کے میڈیا کا سب سے بڑا استعمال ذہن سازی اور مخصو ص مقاصد کے لئے کیا جانیوالاپروپیگنڈا ہے ۔میڈیا کے شوروغل نے سچ اور جھوٹ کی پہچان مشکل بنا دی ہے ۔ مباحثوں ، خبروں اور دلکش پروگراموں کے ذریعے فکر ، سوچ اور ذہن کو مسخر کیا جاتا ہے ۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی بھرپور یلغارکی بدولت آج ہمیں پاکستان کے اسلامی معاشرے میں فحاشی و عریانی ، رقص و سروراور سب سے بڑھ کر لادینی جیسی لعنتوں کا سامنا ہے ۔ ہندووانہ رسومات عام ہو رہی ہیں جبکہ ہماری ثقافتی روایات روبہ زوال ہیں ۔ میڈیا کے منفی کردار نے ہی آج پاکستانی نوجوانوں کو مغربی تہذیب کا دلدادہ بنایا ہے ۔ بوڑھوں کے نصیب سے مساجد اور عبادات کی لگن چھینی ہے ۔ بچوں کو ہندووانہ رسم و رواج سے آشنا کرایا ہے جبکہ حکمرانوں کو روشن خیالی کا درس دیا ہے ۔ آج کے دور میں میڈیا سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں ہے ۔ میڈیا سے آگاہی کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ اگر ہم معاشرتی ترقی کی منزل پانا چاہتے ہیں تو میڈیا سے ہمقدم ہوتے ہوئے اس بے قابو جن سے دوستی کرنا ہوگی ۔ میڈیا کو اپنی معاشرت و روایات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے کردار و عمل سے آگاہی کے لئے نصاب تعلیم میں ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔ کس طرح میڈیا معاشروں کو بدلتا ہے ، پروپیگنڈا کے رائج طریقیوں اور دوسرے اصول و ضوابط کا علم ہی لوگوں کو اس کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے ۔
دوسرے بہت سے مضامین کی طرح ذرائع ابلاغ کے بارے میں بنیاد ی علم کو بھی مدارس دینیہ کے نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ یہی وہ طبقہ ہے کہ جس نے صرف اور صرف رضائے الہی کی خاطر خود کو دین کی خدمت کے لئے وقف کر رکھا ہے ۔ دین حنیف کی اشاعت اور معاشرے میں اسلامی روایات کے فروغ کے لئے ہی صرف پاکستان میں ہی لاکھوں بچے دینی مدارس کا رخ کرتے ہیں۔ آج کے دور میں دینی تعلیم کی طرف راغب ہونا کوئی آسان بات نہیں ۔ حکومتوں کے سفاک رویے اور مخالفانہ پروپیگنڈے کی بھرمار کے باوجود آج بھی ایسے افراد کی کمی نہیں کہ جو دنیاوی عیش و
عشرت کو ٹھکرا کر منبر و محراب کے وارث بننے ہر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ دینی مدارس کا رخ کرنیوالوں کا مقصد اللہ تعالی کی خوشنودی کی خاطر اپنی صلاحیتوںکو وقف کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایسے مخلص اور بے لوث طبقے کو ابلاغیات کے جدید اصول و ضوابط سے آگاہی حاصل ہو کہ جن کو استعمال کرکے دعوت دین کے کام کو مزید مو¿ثر بنایا جا سکے ۔ ابلاغ کا علم دعوت دین کے لئے انتہائی مفید ثابت ہو سکتا ہے اور دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہونیوالے طلبہ میڈیاکے بارے میں جان پہچان ہونے کی وجہ سے معاشرے میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ میڈیا کی یلغار ہی وہ سب سے بڑا چیلنج ہے کہ جس نے معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح مدارس دینیہ کے طلبہ و طالبات کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔ آج کے بچے کمسنی سے ہی گھنٹوں الیکڑانک میڈیا سے مستفید ہوتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ میڈیا کے استعمال کا بھرپور شعور رکھتے ہیں ۔ تفریح کے نام پر ہماری نسلوں کو بدلا جا رہا ہے ۔ اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کی واحد صورت ان معصوم ذہنوں کو تفریح کے نام پر ہونیوالے پروپیگنڈے سے آگاہ کرنا ہے ۔ نصاب میں میڈیا سے متعلقہ مضمون شامل نصاب ہونے کی صورت میں یہ طلبہ خود کو مغربی و ہندو ثقافت کی یلغار سے بہتر طریقے سے محفوظ کر سکیں گے اور غیر ملکی پروپیگنڈے اور دھوکے کی سازش کے بارے میں کم از کم آگاہی ضرور حاصل کر لیں گے ۔
ہر امتحان کی تیاری سے ہی کامیابی ممکن ہوتی ہے ۔ کسی بھی مشینری یا ٹیکنالوجی کا استعمال جانے بغیر اسے مصرف میں لانا ہمیشہ خطرناک نتائج کا باعث بنتا ہے ۔ میڈیا بھی ایک ٹیکنالوجی کی مانند ہے کہ جسے استعمال کرنے سے پہلے اس کی بنیادی باتوں کا علم ہونا ضروری ہے´ ۔ میڈیا کے بہتر استعمال کے لئے ماہرین سے رائے طلب کی جائے کہ جو عام لوگوں کو میڈیا کا بہتر طریقے سے استعمال سیکھائیں ۔ مثالوں اور حقائق کے ذریعے پروپیگنڈے سے بچنے کا ہنر عام کیا جائے ۔ اسی طرح مدارس کے اساتذہ کے لئے ورکشاپس اور سیمینارز کا اہتمام کیا جانا چاہیے کہ جہاں انہیں ذرائع ابلاغ کے چیلنج سے آگاہ کیا جائے ۔ جی ہاں ہمیں اپنا معاشرہ بچانے کے لئے یہ سب کرنا ہوگا
۔ میڈیا کو برائی کی جڑ قرار دینے کی باتیں تو بہت ہو چکیں ، اب ہمیں چاہیے کہ اس ٹیکنالوجی کو دعوت دین کے لئے استعمال کرنے کی تدبیر کریں ۔ اگر مدارس کے طلبہ اور دینی شعور رکھنے والے افراد پیشہ ورانہ طریقے سے میڈیا کو دینی تبلیغ کرنے کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیں تو یقینا فحاشی و عریانی اور کفر و الحاد کی یلغار کو کسی حد تک روکا جا سکتا ہے اور اگر ہماری ہمت جواب نہ دے تو معاشرتی تباہی پھیلاتے اس میڈیا کو اسلامی ثقافت و روایات کا امین بھی بنایا جا سکتا ہے ۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو بتانا ہوگا کہ کیسے تفریح اور غیر جانبداری کی آڑ میں گمراہی پیھلائی جاتی ہے ۔ ان غیر ملکی چینلز کے اصل کردار اور مقاصد سے آگاہ کرنا ہو گا کہ جو مخصوص ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں اور ہمارے معاشرے پر اثرانداز ہو رہے ہیں ۔
کس کس طرح پوشیدہ پیغام معاشروں کے بدلنے میں کردار ادا کرتے ہیں ۔ ابلاغ عامہ کے مختلف نظریات اور اس شعبے میں ہونیوالی تحقیق آسان الفاظ میں سب کو بتانے کی ضرورت ہے ۔ یہ سب اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے لوگ صرف معصوم صارف ہی بن کر نہ رہ جائیں اوریہ بھی کہ غیر لوگ ان کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال نہ کر سکیں ۔ میڈیا کے مندرجات کو سمجھنے والے ہی مخالف پروپیگنڈے سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ اور اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ کفار و سیکولر ذہنوں سے مقابلے کے لیے ہمارے ہر اول دستے یعنی مدارس دینیہ کے طلبہ کو یہ ہنر سیکھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا سے استفادہ ہرگز بری چیز نہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے ہوشمندی سے کام ضرور لینا چاہیے تاکہ آپ کو دھوکہ نہ دیا جا سکے۔ہمیں اپنے معاشرے کو اتحاد و یکجہتی کے رشتے میں پرونے او ر اسلامی روایات کے فروغ کے لئے میڈیا کی مدد چاہیے ۔ اسی لئے میڈیا کے علم کو شامل نصاب کرنا ضرور ہے ۔ ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں ہمیں اب کمیونٹی جرنلزم کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔چھوٹے پیمانے پر ہونیوالی یہ صحافت ہی وہ اصل طاقت ہے کہ جو معاشرتی تبدیلی لاتی ہے ۔ کیبل کے پھیلاو¿ کے باعث شہروں کے ٹی وی چینلز سامنے آ رہے ہیں جبکہ ایف ایم ریڈیوز بھی کمیونٹی جرنلزم کی ہی مثال ہیں ۔
اس مقصد کے لئے باشعور افراد کی ضرورت ہے کہ جو بہتر طریقے سے اپنی کمیونٹی کی نمائندگی کر سکیں ۔ چھوٹے پیمانے پر ہونیوالی اس صحافت کا مواد بھی عام شہری ہی فراہم کرتے ہیں ۔ اگر ہمارے طلبہ مدارس میں میڈیا کے استعمال سے آگاہ ہونگے تو ان کے لئے یہ سب کرنا آسان ہوگا ۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد بلکہ دوران تعلیم ہی یہ طلبہ اس قابل ہو جائیں گے کہ میڈیا کو اسلامی نہج پر چلانے کے لئے اپنا حصہ ڈال سکیں۔ کسی بھی عالمی یا ملکی مسئلہ پر اسلامی نقطہ نظر کو واضح کر سکیں گے ۔ پرنٹ ، کمیونٹی ، براڈ کاسٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اپنی رائے دینے کے قابل ہو جائیں گے ۔
اسی طرح ابلاغ عامہ کے ماہرین کو بڑے مدارس میں بھرتی کرنی ضروت ہے تاکہ طلبہ و طالبات میں حالات حاضرہ کے بارے میں شعور بیدار ہو ۔ کسی بھی اہم ملکی یا غیر ملکی مسئلہ پر یہ لوگ طلبہ کو معلومات فراہم کریں ۔ میڈیا کے مندرجات اور ان کے اثرات سے آگاہ کریں ۔ طلبہ کو ملکی مسائل پر لکھنے اور اپنے رائے دینے کا ہنر سیکھائیں ۔ صرف اسی طرح طلبہ کو قومی و عالمی معاملات سے آگاہ رکھا جا سکتا ہے کہ جو ان میں یقینا بہتر تبدیلیاں پید اکرے گا
مدارس میں میڈیا کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلبہ و طالبات سب سے زیادہ سوشل میڈیا کو استعمال کر سکتے ہیں جو کہ انتہائی سستا اور تیز ترین ذریعہ ہے ۔سوشل میڈیا ذرائع ابلاغ کی ایک نئی قسم ہے ۔ موبائل اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی کی بدولت پیغام رسانی انتہائی آسان ہو چکی ہے اور دنیا بھر میں ہونیوالے کسی بھی واقعے کی خبر سیکنڈز کے اندر آپ تک پہنچ جاتی ہے ۔ ذرائع ابلاغ کی ان نئی اقسام نے معاشرے میں اثرات ، اور معلومات کی فراہمی کے حوالے سے پرنٹ ،
الیکٹرانک اور براڈکاسٹ میڈیا کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ موبائل فون اب ہر شخص کی ضرورت بنتا جا رہا ہے ۔ یہ ہر وقت آپکے ساتھ ہوتا ہے اور اسی لئے تیز ترین رسائی کا ذریعہ بھی ہے ۔ ٹی وی یا ریڈیو تو تب ہی ابلاغ کا کام کر سکیں گے کہ جب آپ اس جگہ جہاں یہ آلات موجود ہوں جائیں اور چلا کر اہتمام سے دیکھیں یا سماعت کریں ، اسی طرح اخبار سے مستفید ہونے کے لئے بھی اس کو خریدنے اور بغور پڑھنے کا مرحلہ آتا ہے ۔ سوشل میڈیا کا دائرہ کار اس حوالے سے کافی وسیع ہے ۔ یہ تو ہر وقت آپ کے ہاتھ میں موجود موبائل فون کے ذریعے معلومات فراہم کرتا ہے جبکہ انٹرنیٹ کی سہولت بھی اب زیادہ تر موبائل فونز پر موجود ہے۔ سوشل میڈیا معلومات کی فراہمی میں دیگر ذرائع ابلاغ سے سبقت رکھتا ہے۔ جبکہ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اسے اپنی پسند کے مطابق استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے میڈیا کی تعلیم سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔ یہ ایک انتہائی طاقتور ہتھیار ہے کہ جیسے نادان ہاتھوں میں نہیں دیا جا سکتا ۔ نوجوانوں میں اس حوالے سے شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی بنائی ہوئی ویڈیو یا تصویر کہاں تک پہنچ سکتی ہے اور اس کے ذریعے کیا کیا مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔ موبائل فون کے ذریعے ویڈیو بنا کر بلیک میل کیا جاتا ہے ۔ اس لئے اگر بچوں کو موبائل ویڈیو کے اثرات سے آگاہ نہ کیا گیا تو مستقبل میں تباہ کن نتائج نکل سکتے ہیں ۔مذاق مذاق میں بنائی گئی ویڈیو کسی کی زندگی بھی لے سکتی ہے یا پھر کسی عزت دار گھرانے کو بدنام کیا جا سکتا ہے۔ اکثر اوقات شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں موبائل کیمرہ کا کثرت سے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ نوجوانوں کو اس بارے میں آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ یہ سب کس طرح ان کی زندگی کو متاثر کر سکتا ہے ۔ اور یہ سب یقینا تب ہی ممکن ہے کہ جب تعلیمی اداروں میں ان موضوعات کو زیر بحث لایا جائے ۔ مدارس کے طلبہ بھی میڈیا کی اس صورت کو استعمال میں لا سکتے ہیں ۔ ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ ویڈیو کلپس کی کیا اہمیت ہے اور ان سے کیا کیا تبلیغی و دینی مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔ خوبصورت تلاوت ، نظم ، رنگ ٹونز ، نصیحت آموز موبائل کلپس کو عام کرنے سے معاشرے میں مثبت اثرات مرتب کئے جا سکتے ہیں ۔ اسی طرح اچھے مطالعے اور بولنے کی صلاحیت رکھنے والے طلبہ کو چاہیے کہ وہ الیکٹرانک میڈیا اور براڈ کاسٹ میڈیا کی طرف توجہ دیں ۔ آجکل تقریبا تمام بڑے شہروں میں مقامی ایف ایم ریڈیو سٹیشینز موجود ہیں ۔ ان کے پروگرامز مقامی طور پر ہی تیار ہوتے ہیں ۔ مدارس کے طلبہ ایف ایم ریڈیو کے لئے پروگرام تیار کر سکتے ہیں جو کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد سنے گی ۔ اسی طرح سی ڈی چینلز کو بھی دعوتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ مدارس کے اندر ہونیوالے مباحثوں اور اہم مسائل پر علمائے کرام کی تقاریر کو سوشل میڈیا کے ذریعے عام کرنا چاہیے تاکہ معاشرے کے دیگر طبقات کو علم ہو سکے کہ دینی طلبہ کے اندر کس قدر صلاحیت موجود ہے۔ ویب سائٹس پر فورم ، بلاگس ، سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس غرض بے شمار سہولیات موجود ہیں کہ جن کو استعمال کرکے دعوت
دین کو بڑے پیمانے پر لوگوں میں پھیلایا جا سکتا ہے ۔ ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب طلبہ کو یہ سب سیکھایا جائے ۔ پرنٹ میڈیا میں تودینی مدارس کے طلبہ کے لئے بے شمار مواقع موجود ہیں ۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ مواد کو مکمل پیشہ ورانہ طریقے سے تیار کیا جائے ۔ دینی رسائل ۔ اخبارات کے دینی ایڈیشنز ، کالم ، ایڈیٹر کے نام خط کی صورت میں دینی طلبہ اپنی تحریریں شائع کرا سکتے ہیں ۔ اسی طرح اگر مدارس میں میڈیا کی تعلیم دی جائے تو دینی رسائل کے لئے بھی اچھا مواد مل سکے گا اور روایتی طرز سے ہٹ کر ایسا مواد سامنے آئے گا کہ جو معاشرے کی بڑی تعداد کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو گا۔
اگرملک کے ایسے بڑے دینی مدارس کہ جہاںسینکڑوں طلبہ زیر تعلیم ہیں ۔ ان میں سے ہر مدرسہ سال صرف چار سے پانچ ایسے نوجوان سامنے لا سکے کہ جو میڈیا کا کافی حد تک علم رکھتے ہوں ۔ انہیں اپنی بات کہنے کا ہنر آتاہو ، وہ میڈیا پر آکر اپنا موقف بے دھڑک بیان کر سکیں تو یقینا ہمارے معاشرے میں میڈیا کی تباہ کاریوں میں کمی لائی جا سکتی ہے ۔
حاصل کلام یہ کہ آج جب ہم دیکھتے ہیں کہ غیر ملکی میڈیا ہماری معاشرتی ، سماجی اور دینی اقدار کو آہستہ آہستہ ختم کر رہا ہے تو ان حالات میں ہمیں آنیوالے چیلنجز کا بھرپور اتدارک کرنا چاہیے اور ان کے خاتمہ کے لیے کوششیں تیز کر دینی چاہیے۔ نوجوان نسل کو آج فلموں ، ڈراموں ، اشتہارات ، خبروں ، انٹرنیٹ حالات حاضرہ کے پروگرامز وغیرہ کے ذریعے ہونیوالے پروپیگنڈے سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا بہترین حل ابلاغ عامہ کے علم کو شامل نصاب کر دینا ہے ۔ تاکہ ہم اپنی روایات کی حفاظت کر سکیں ۔ تاکہ ہماری خودمختاری پر آنچ نہ آنے پائے، ہمارے ملک میں اسلامی ثقافت و روایات کا بول بالا ہو اور ہم ایک باعزت و باوقار قوم کے طور پر کردار ادا کر سکیں ۔۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں میڈیا کی اہمیت مسلم ہے ۔ مختلف قسم کے ذرائع ابلاغ نے ٹیکنالوجی کے سہارے اس وسیع و عریض کرہ ارض کو ایک گلوبل ویلج میں بدل کے رکھ دیا ہے ۔ میڈیا نے انسان کو ہر ہر لمحے باخبر رکھنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے ۔ آج کے دور کا اہم ترین مسئلہ معلومات کی قلت نہیں بلکہ بے پناہ معلومات کے سمندر نے انسانوں کو فکری پریشانیوں میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ آج کے میڈیا کا سب سے بڑا استعمال ذہن سازی اور مخصو ص مقاصد کے لئے کیا جانیوالاپروپیگنڈا ہے ۔میڈیا کے شوروغل نے سچ اور جھوٹ کی پہچان مشکل بنا دی ہے ۔ مباحثوں ، خبروں اور دلکش پروگراموں کے ذریعے فکر ، سوچ اور ذہن کو مسخر کیا جاتا ہے ۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی بھرپور یلغارکی بدولت آج ہمیں پاکستان کے اسلامی معاشرے میں فحاشی و عریانی ، رقص و سروراور سب سے بڑھ کر لادینی جیسی لعنتوں کا سامنا ہے ۔ ہندووانہ رسومات عام ہو رہی ہیں جبکہ ہماری ثقافتی روایات روبہ زوال ہیں ۔ میڈیا کے منفی کردار نے ہی آج پاکستانی نوجوانوں کو مغربی تہذیب کا دلدادہ بنایا ہے ۔ بوڑھوں کے نصیب سے مساجد اور عبادات کی لگن چھینی ہے ۔ بچوں کو ہندووانہ رسم و رواج سے آشنا کرایا ہے جبکہ حکمرانوں کو روشن خیالی کا درس دیا ہے ۔ آج کے دور میں میڈیا سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں ہے ۔ میڈیا سے آگاہی کی آج سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ اگر ہم معاشرتی ترقی کی منزل پانا چاہتے ہیں تو میڈیا سے ہمقدم ہوتے ہوئے اس بے قابو جن سے دوستی کرنا ہوگی ۔ میڈیا کو اپنی معاشرت و روایات سے ہم آہنگ کرنے کے لئے بھرپور تیاری کی ضرورت ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے کردار و عمل سے آگاہی کے لئے نصاب تعلیم میں ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔ کس طرح میڈیا معاشروں کو بدلتا ہے ، پروپیگنڈا کے رائج طریقیوں اور دوسرے اصول و ضوابط کا علم ہی لوگوں کو اس کے اثرات سے محفوظ رکھ سکتا ہے ۔
دوسرے بہت سے مضامین کی طرح ذرائع ابلاغ کے بارے میں بنیاد ی علم کو بھی مدارس دینیہ کے نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ یہی وہ طبقہ ہے کہ جس نے صرف اور صرف رضائے الہی کی خاطر خود کو دین کی خدمت کے لئے وقف کر رکھا ہے ۔ دین حنیف کی اشاعت اور معاشرے میں اسلامی روایات کے فروغ کے لئے ہی صرف پاکستان میں ہی لاکھوں بچے دینی مدارس کا رخ کرتے ہیں۔ آج کے دور میں دینی تعلیم کی طرف راغب ہونا کوئی آسان بات نہیں ۔ حکومتوں کے سفاک رویے اور مخالفانہ پروپیگنڈے کی بھرمار کے باوجود آج بھی ایسے افراد کی کمی نہیں کہ جو دنیاوی عیش و
عشرت کو ٹھکرا کر منبر و محراب کے وارث بننے ہر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ دینی مدارس کا رخ کرنیوالوں کا مقصد اللہ تعالی کی خوشنودی کی خاطر اپنی صلاحیتوںکو وقف کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایسے مخلص اور بے لوث طبقے کو ابلاغیات کے جدید اصول و ضوابط سے آگاہی حاصل ہو کہ جن کو استعمال کرکے دعوت دین کے کام کو مزید مو¿ثر بنایا جا سکے ۔ ابلاغ کا علم دعوت دین کے لئے انتہائی مفید ثابت ہو سکتا ہے اور دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہونیوالے طلبہ میڈیاکے بارے میں جان پہچان ہونے کی وجہ سے معاشرے میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ میڈیا کی یلغار ہی وہ سب سے بڑا چیلنج ہے کہ جس نے معاشرے کے دیگر طبقات کی طرح مدارس دینیہ کے طلبہ و طالبات کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔ آج کے بچے کمسنی سے ہی گھنٹوں الیکڑانک میڈیا سے مستفید ہوتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ میڈیا کے استعمال کا بھرپور شعور رکھتے ہیں ۔ تفریح کے نام پر ہماری نسلوں کو بدلا جا رہا ہے ۔ اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کی واحد صورت ان معصوم ذہنوں کو تفریح کے نام پر ہونیوالے پروپیگنڈے سے آگاہ کرنا ہے ۔ نصاب میں میڈیا سے متعلقہ مضمون شامل نصاب ہونے کی صورت میں یہ طلبہ خود کو مغربی و ہندو ثقافت کی یلغار سے بہتر طریقے سے محفوظ کر سکیں گے اور غیر ملکی پروپیگنڈے اور دھوکے کی سازش کے بارے میں کم از کم آگاہی ضرور حاصل کر لیں گے ۔
ہر امتحان کی تیاری سے ہی کامیابی ممکن ہوتی ہے ۔ کسی بھی مشینری یا ٹیکنالوجی کا استعمال جانے بغیر اسے مصرف میں لانا ہمیشہ خطرناک نتائج کا باعث بنتا ہے ۔ میڈیا بھی ایک ٹیکنالوجی کی مانند ہے کہ جسے استعمال کرنے سے پہلے اس کی بنیادی باتوں کا علم ہونا ضروری ہے´ ۔ میڈیا کے بہتر استعمال کے لئے ماہرین سے رائے طلب کی جائے کہ جو عام لوگوں کو میڈیا کا بہتر طریقے سے استعمال سیکھائیں ۔ مثالوں اور حقائق کے ذریعے پروپیگنڈے سے بچنے کا ہنر عام کیا جائے ۔ اسی طرح مدارس کے اساتذہ کے لئے ورکشاپس اور سیمینارز کا اہتمام کیا جانا چاہیے کہ جہاں انہیں ذرائع ابلاغ کے چیلنج سے آگاہ کیا جائے ۔ جی ہاں ہمیں اپنا معاشرہ بچانے کے لئے یہ سب کرنا ہوگا
۔ میڈیا کو برائی کی جڑ قرار دینے کی باتیں تو بہت ہو چکیں ، اب ہمیں چاہیے کہ اس ٹیکنالوجی کو دعوت دین کے لئے استعمال کرنے کی تدبیر کریں ۔ اگر مدارس کے طلبہ اور دینی شعور رکھنے والے افراد پیشہ ورانہ طریقے سے میڈیا کو دینی تبلیغ کرنے کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیں تو یقینا فحاشی و عریانی اور کفر و الحاد کی یلغار کو کسی حد تک روکا جا سکتا ہے اور اگر ہماری ہمت جواب نہ دے تو معاشرتی تباہی پھیلاتے اس میڈیا کو اسلامی ثقافت و روایات کا امین بھی بنایا جا سکتا ہے ۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو بتانا ہوگا کہ کیسے تفریح اور غیر جانبداری کی آڑ میں گمراہی پیھلائی جاتی ہے ۔ ان غیر ملکی چینلز کے اصل کردار اور مقاصد سے آگاہ کرنا ہو گا کہ جو مخصوص ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف ہیں اور ہمارے معاشرے پر اثرانداز ہو رہے ہیں ۔
کس کس طرح پوشیدہ پیغام معاشروں کے بدلنے میں کردار ادا کرتے ہیں ۔ ابلاغ عامہ کے مختلف نظریات اور اس شعبے میں ہونیوالی تحقیق آسان الفاظ میں سب کو بتانے کی ضرورت ہے ۔ یہ سب اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے لوگ صرف معصوم صارف ہی بن کر نہ رہ جائیں اوریہ بھی کہ غیر لوگ ان کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال نہ کر سکیں ۔ میڈیا کے مندرجات کو سمجھنے والے ہی مخالف پروپیگنڈے سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔ اور اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ کفار و سیکولر ذہنوں سے مقابلے کے لیے ہمارے ہر اول دستے یعنی مدارس دینیہ کے طلبہ کو یہ ہنر سیکھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ملکی اور غیر ملکی میڈیا سے استفادہ ہرگز بری چیز نہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے ہوشمندی سے کام ضرور لینا چاہیے تاکہ آپ کو دھوکہ نہ دیا جا سکے۔ہمیں اپنے معاشرے کو اتحاد و یکجہتی کے رشتے میں پرونے او ر اسلامی روایات کے فروغ کے لئے میڈیا کی مدد چاہیے ۔ اسی لئے میڈیا کے علم کو شامل نصاب کرنا ضرور ہے ۔ ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں ہمیں اب کمیونٹی جرنلزم کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔چھوٹے پیمانے پر ہونیوالی یہ صحافت ہی وہ اصل طاقت ہے کہ جو معاشرتی تبدیلی لاتی ہے ۔ کیبل کے پھیلاو¿ کے باعث شہروں کے ٹی وی چینلز سامنے آ رہے ہیں جبکہ ایف ایم ریڈیوز بھی کمیونٹی جرنلزم کی ہی مثال ہیں ۔
اس مقصد کے لئے باشعور افراد کی ضرورت ہے کہ جو بہتر طریقے سے اپنی کمیونٹی کی نمائندگی کر سکیں ۔ چھوٹے پیمانے پر ہونیوالی اس صحافت کا مواد بھی عام شہری ہی فراہم کرتے ہیں ۔ اگر ہمارے طلبہ مدارس میں میڈیا کے استعمال سے آگاہ ہونگے تو ان کے لئے یہ سب کرنا آسان ہوگا ۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد بلکہ دوران تعلیم ہی یہ طلبہ اس قابل ہو جائیں گے کہ میڈیا کو اسلامی نہج پر چلانے کے لئے اپنا حصہ ڈال سکیں۔ کسی بھی عالمی یا ملکی مسئلہ پر اسلامی نقطہ نظر کو واضح کر سکیں گے ۔ پرنٹ ، کمیونٹی ، براڈ کاسٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اپنی رائے دینے کے قابل ہو جائیں گے ۔
اسی طرح ابلاغ عامہ کے ماہرین کو بڑے مدارس میں بھرتی کرنی ضروت ہے تاکہ طلبہ و طالبات میں حالات حاضرہ کے بارے میں شعور بیدار ہو ۔ کسی بھی اہم ملکی یا غیر ملکی مسئلہ پر یہ لوگ طلبہ کو معلومات فراہم کریں ۔ میڈیا کے مندرجات اور ان کے اثرات سے آگاہ کریں ۔ طلبہ کو ملکی مسائل پر لکھنے اور اپنے رائے دینے کا ہنر سیکھائیں ۔ صرف اسی طرح طلبہ کو قومی و عالمی معاملات سے آگاہ رکھا جا سکتا ہے کہ جو ان میں یقینا بہتر تبدیلیاں پید اکرے گا
مدارس میں میڈیا کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلبہ و طالبات سب سے زیادہ سوشل میڈیا کو استعمال کر سکتے ہیں جو کہ انتہائی سستا اور تیز ترین ذریعہ ہے ۔سوشل میڈیا ذرائع ابلاغ کی ایک نئی قسم ہے ۔ موبائل اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی میں تیز رفتار ترقی کی بدولت پیغام رسانی انتہائی آسان ہو چکی ہے اور دنیا بھر میں ہونیوالے کسی بھی واقعے کی خبر سیکنڈز کے اندر آپ تک پہنچ جاتی ہے ۔ ذرائع ابلاغ کی ان نئی اقسام نے معاشرے میں اثرات ، اور معلومات کی فراہمی کے حوالے سے پرنٹ ،
الیکٹرانک اور براڈکاسٹ میڈیا کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ موبائل فون اب ہر شخص کی ضرورت بنتا جا رہا ہے ۔ یہ ہر وقت آپکے ساتھ ہوتا ہے اور اسی لئے تیز ترین رسائی کا ذریعہ بھی ہے ۔ ٹی وی یا ریڈیو تو تب ہی ابلاغ کا کام کر سکیں گے کہ جب آپ اس جگہ جہاں یہ آلات موجود ہوں جائیں اور چلا کر اہتمام سے دیکھیں یا سماعت کریں ، اسی طرح اخبار سے مستفید ہونے کے لئے بھی اس کو خریدنے اور بغور پڑھنے کا مرحلہ آتا ہے ۔ سوشل میڈیا کا دائرہ کار اس حوالے سے کافی وسیع ہے ۔ یہ تو ہر وقت آپ کے ہاتھ میں موجود موبائل فون کے ذریعے معلومات فراہم کرتا ہے جبکہ انٹرنیٹ کی سہولت بھی اب زیادہ تر موبائل فونز پر موجود ہے۔ سوشل میڈیا معلومات کی فراہمی میں دیگر ذرائع ابلاغ سے سبقت رکھتا ہے۔ جبکہ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اسے اپنی پسند کے مطابق استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے میڈیا کی تعلیم سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔ یہ ایک انتہائی طاقتور ہتھیار ہے کہ جیسے نادان ہاتھوں میں نہیں دیا جا سکتا ۔ نوجوانوں میں اس حوالے سے شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی بنائی ہوئی ویڈیو یا تصویر کہاں تک پہنچ سکتی ہے اور اس کے ذریعے کیا کیا مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔ موبائل فون کے ذریعے ویڈیو بنا کر بلیک میل کیا جاتا ہے ۔ اس لئے اگر بچوں کو موبائل ویڈیو کے اثرات سے آگاہ نہ کیا گیا تو مستقبل میں تباہ کن نتائج نکل سکتے ہیں ۔مذاق مذاق میں بنائی گئی ویڈیو کسی کی زندگی بھی لے سکتی ہے یا پھر کسی عزت دار گھرانے کو بدنام کیا جا سکتا ہے۔ اکثر اوقات شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں موبائل کیمرہ کا کثرت سے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ نوجوانوں کو اس بارے میں آگاہی دینے کی ضرورت ہے کہ یہ سب کس طرح ان کی زندگی کو متاثر کر سکتا ہے ۔ اور یہ سب یقینا تب ہی ممکن ہے کہ جب تعلیمی اداروں میں ان موضوعات کو زیر بحث لایا جائے ۔ مدارس کے طلبہ بھی میڈیا کی اس صورت کو استعمال میں لا سکتے ہیں ۔ ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ ویڈیو کلپس کی کیا اہمیت ہے اور ان سے کیا کیا تبلیغی و دینی مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں ۔ خوبصورت تلاوت ، نظم ، رنگ ٹونز ، نصیحت آموز موبائل کلپس کو عام کرنے سے معاشرے میں مثبت اثرات مرتب کئے جا سکتے ہیں ۔ اسی طرح اچھے مطالعے اور بولنے کی صلاحیت رکھنے والے طلبہ کو چاہیے کہ وہ الیکٹرانک میڈیا اور براڈ کاسٹ میڈیا کی طرف توجہ دیں ۔ آجکل تقریبا تمام بڑے شہروں میں مقامی ایف ایم ریڈیو سٹیشینز موجود ہیں ۔ ان کے پروگرامز مقامی طور پر ہی تیار ہوتے ہیں ۔ مدارس کے طلبہ ایف ایم ریڈیو کے لئے پروگرام تیار کر سکتے ہیں جو کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد سنے گی ۔ اسی طرح سی ڈی چینلز کو بھی دعوتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ مدارس کے اندر ہونیوالے مباحثوں اور اہم مسائل پر علمائے کرام کی تقاریر کو سوشل میڈیا کے ذریعے عام کرنا چاہیے تاکہ معاشرے کے دیگر طبقات کو علم ہو سکے کہ دینی طلبہ کے اندر کس قدر صلاحیت موجود ہے۔ ویب سائٹس پر فورم ، بلاگس ، سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس غرض بے شمار سہولیات موجود ہیں کہ جن کو استعمال کرکے دعوت
دین کو بڑے پیمانے پر لوگوں میں پھیلایا جا سکتا ہے ۔ ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب طلبہ کو یہ سب سیکھایا جائے ۔ پرنٹ میڈیا میں تودینی مدارس کے طلبہ کے لئے بے شمار مواقع موجود ہیں ۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ مواد کو مکمل پیشہ ورانہ طریقے سے تیار کیا جائے ۔ دینی رسائل ۔ اخبارات کے دینی ایڈیشنز ، کالم ، ایڈیٹر کے نام خط کی صورت میں دینی طلبہ اپنی تحریریں شائع کرا سکتے ہیں ۔ اسی طرح اگر مدارس میں میڈیا کی تعلیم دی جائے تو دینی رسائل کے لئے بھی اچھا مواد مل سکے گا اور روایتی طرز سے ہٹ کر ایسا مواد سامنے آئے گا کہ جو معاشرے کی بڑی تعداد کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو گا۔
اگرملک کے ایسے بڑے دینی مدارس کہ جہاںسینکڑوں طلبہ زیر تعلیم ہیں ۔ ان میں سے ہر مدرسہ سال صرف چار سے پانچ ایسے نوجوان سامنے لا سکے کہ جو میڈیا کا کافی حد تک علم رکھتے ہوں ۔ انہیں اپنی بات کہنے کا ہنر آتاہو ، وہ میڈیا پر آکر اپنا موقف بے دھڑک بیان کر سکیں تو یقینا ہمارے معاشرے میں میڈیا کی تباہ کاریوں میں کمی لائی جا سکتی ہے ۔
حاصل کلام یہ کہ آج جب ہم دیکھتے ہیں کہ غیر ملکی میڈیا ہماری معاشرتی ، سماجی اور دینی اقدار کو آہستہ آہستہ ختم کر رہا ہے تو ان حالات میں ہمیں آنیوالے چیلنجز کا بھرپور اتدارک کرنا چاہیے اور ان کے خاتمہ کے لیے کوششیں تیز کر دینی چاہیے۔ نوجوان نسل کو آج فلموں ، ڈراموں ، اشتہارات ، خبروں ، انٹرنیٹ حالات حاضرہ کے پروگرامز وغیرہ کے ذریعے ہونیوالے پروپیگنڈے سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کا بہترین حل ابلاغ عامہ کے علم کو شامل نصاب کر دینا ہے ۔ تاکہ ہم اپنی روایات کی حفاظت کر سکیں ۔ تاکہ ہماری خودمختاری پر آنچ نہ آنے پائے، ہمارے ملک میں اسلامی ثقافت و روایات کا بول بالا ہو اور ہم ایک باعزت و باوقار قوم کے طور پر کردار ادا کر سکیں ۔۔