• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدارس کو مصرف زکاۃ ”فی سبیل اللہ“ میں شامل کرنا ”منہج سلف“ کے خلاف ہے

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
594
ری ایکشن اسکور
188
پوائنٹ
77
مدارس کو مصرف زکاۃ ”فی سبیل اللہ“ میں شامل کرنا ”منہج سلف“ کے خلاف ہے (1)

از قلم: کفایت اللہ سنابلی

فریق مخالف (دو نمبر منہجی کلیم الدین یوسف) نے ”فی سبیل اللہ“ کے مصرف کے بارے میں علماء کے اقوال نقل کرکے پہلے گول مول بات کرنے کی کوشش کی تھی ۔

لیکن انہیں اندازہ ہوگیا کہ یہ بات چلنے والی نہیں ہے اس لئے موصوف نے یہ تسلیم کیا ہے کہ مدارس زکاۃ کے مصرف ”فی سبیل اللہ“ میں نہیں آتے ۔

یہ سب تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ موصوف کو یہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کی ”فی سبیل اللہ“ میں مدارس کو شامل کرنا یہ ”منہج سلف“ کے خلاف ہے۔

جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
صرف الزكاة إلى هذه المواضع إنما يتفرع من تعميم معنى سبيل الله في سبل الخير وهذا التفسير تفسير محدث لا يعرفه السلف الصالح
ان جگہوں (دعوت ، مساجد ، مدارس ، اسپتالوں) میں زکاۃ صرف کرنے کی بات اس وجہ سے کی جاتی ہے کیونکہ سبیل اللہ کو عام کرکے اس میں ہر کارخیر کو شامل کردیا گیا ہے، اور یہ تفسیر بعد کی ایجاد کردہ ہے سلف صالحین اس سے واقف نہ تھے
...

علامہ البانی رحمہ اللہ ایک دوسرے درس میں فرماتے ہیں:
نحن ندّعي الانتماء للسلف الصالح وهذا لأمر هام أعتقد أن كل من تبيّنه لا يسعه إلا أن يكون سلفي المشرب والمذهب ، ننتمي للسلف الصالح لأنهم هم الجيل الأول الذين تلقّوا الإسلام كتاباً وسنة من النبي صلى الله عليه وسلم لفظاً ومعنىً ثم هم الذين طبّقوه وجعلوه لهم مسلكاً ومنهجاً في حياتهم . هؤلاء لا نعلم عنهم أنهم توسّعوا في تفسير (( في سبيل الله )) ذلك التوسع“ .
ہم منہج سلف صالحین سے چمٹنے کا دعوی کرتے ہیں ، اس کا ایک اہم تقاضا ہے ، میں سمجھتاہوں کہ جو شخص بھی منہج سلف کا دعوی کرے اسے خود سلفی المشرب والمذہب ہونا چاہے ، ہم منہج سلف صالحین سے اپنا تعلق ظاہر کرتے ہیں کیونکہ سلف وہ پہلی پیڑھی ہیں جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست کتاب وسنت لفظاً ومعنىً سیکھا ہے ، پھر انہوں نے ہی سب سے پہلے اس پر عمل کیا ہے اور اپنی زندگی میں اسے ہی اپنا مسلک اور منہج بنایا ہے ، ان کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے (( في سبيل الله )) میں اتنی وسعت دی ہے ہو۔

یادرہے کہ موصوف نے ”فی سبیل اللہ“ سے مراد میں جو تیسرا قول (جس کی بناپر مدارس بھی شامل ہوتے ہیں) پیش کیا ہے ۔ وہ سلف کا قول نہیں موصوف نے آگے چل کر اتنا خود لکھا ہے کہ:
(((صاحب مرعاۃ عبید اللہ مباکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: تیسرے قول پر نہ قرآن مجید سے کوئی دلیل ہے، نہ ہی کسی صحیح حدیث سے حتی کہ ضعیف حدیث سے بھی اس کی دلیل نہیں ملتی، اور نہ ہی اجماع وقیاس سے دلیل موجود ہے، بل کہ یہ قول صحیح حدیث کے مخالف ہے، نیز اس عموم کے قائل سلف میں سے کوئی بھی نہیں، البتہ قفال نے اپنی تفسیر میں بعض مجہول فقہا سے، اور قاضی عیاض نے بعض غیر معروف علما سے نقل کیا ہے کہ فی سبیل اللہ سے مراد خیر وبھلائی کے تمام راستے ہیں۔ )))

یہاں موصوف نے علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کے الفاظ سے ایک اہم لفظ چھوڑ دیا ہے اور وہ ”صحابی“ کا لفظ ہے یعنی کسی صحابی سے مطلب اصل سلف سے بھی یہ لفظ ثابت نہیں ہے۔

ملاحظہ ہو علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کے الفاظ:
وأما القول الثالث: فهو أبعد الأقوال لأنه لا دليل عليه لا من كتاب ولا من سنة صحيحة أو سقيمة ولا من إجماع، ولا من رأى صحابي ولا من قياس صحيح أو فاسد، بل هو مخالف للحديث الصحيح الثابت، وهو حديث أبي سعيد. ولم يذهب إلى هذا التعميم أحد من السلف إلا ما حكى القفال في تفسيره عن بعض الفقهاء المجاهيل، والقاضي عياض عن بعض العلماء الغير المعروفين“ [مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 6/ 241]
ترجمہ:
اور جہاں تک تیسرے قول کی بات ہے تو وہ تمام اقوال میں سب سے بعید قول ہے کیونکہ اس پر نہ تو قرآن سے دلیل ہے ، نہ صحیح یا ضعیف حدیث سے دلیل ہے ، نہ اجماع سے دلیل ہے ، نہ کسی صحابی کے قول سے دلیل ہے ، نہ قیاس صحیح نہ قیاس فاسد سے دلیل ہے بلکہ یہ ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کی صحیح اور ثابت حدیث کے خلاف ہے ، اور سلف میں سے کسی ایک نے بھی فی سبیل اللہ کو اس طرح عام نہیں مانا ہے ، لے دے کر صرف اتنی سی بات ہے کہ قفال نے بعض مجہول فقہاء اور قاضی عیاض نے بعض غیر معروف علماء سے اسے نقل کیا ہے
[مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 6/ 241]

معلوم ہوا کہ متاخرین سلف کی طرح اصل سلف یعنی صحابہ میں بھی کوئی اس تیسرے قول کا قائل نہیں ہے۔ اور قفال اور قاضی عیاض نے جن متاخرین سلف سے نقل کیا ہے وہ بھی مجہول ونامعلوم لوگ ہیں ۔

مطلب اظہر من الشمس ہے کہ یہ قول ”منہج سلف“ کے خلاف ہے ۔ لہٰذا جو لوگ ہر بات میں منہج سلف پر گامزن رہنے کا دعوی کرتے ہیں اور اس یتیم قول کو گلے لگائے پھرتے ہیں انہیں کم ازکم یہ اعتراف کرلینا چاہئے کہ اس مسئلہ میں وہ ”منہج سلف“ پر چلنے سے قاصر ہیں۔

(جاری ہے ۔۔۔۔)

✿ ✿ ✿​
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
594
ری ایکشن اسکور
188
پوائنٹ
77
مدارس کو مصرف زکاۃ ”فی سبیل اللہ“ میں شامل کرنا ”منہج سلف“ کے خلاف ہے (2)

از قلم: کفایت اللہ سنابلی

فریق مخالف نے یہ درد ناک اعتراف کرنے کے بعد کہ ”فی سبیل اللہ“ میں مدارس شامل نہیں ہے ۔
آگے یہ خامہ فرسائی کی ہے کہ:
(((تاہم شرعی علم کے حصول کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فی سبیل اللہ سے تعبیر کیا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ((من خرج فی طلب العلم فہو فی سبیل اللہ)).
امام ترمذی نے اپنی جامع میں اس روایت کو ذکر کیا ہے، اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الترغیب (1/ 146) میں اسے حسن قرار دیا ہے، شیخ البانی رحمہ اللہ نے پہلے ضعیفہ (5/ 55) میں اسے ضعیف قرار دیا تھا لیکن بعد میں اسے حسن قرار دیا ہے جیسا کہ تراجعات البانی (ص: 143) میں وضاحت موجود ہے. )))

جوابا عرض ہے کہ:
اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیں تب بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس روایت میں مذکور ”فی سبیل اللہ“ آیت مصارف زکاۃ میں مذکور ”فی سبیل اللہ“ کے معنی میں ہے۔ اور یہ بات فریق مخالف کو بھی تسلیم ہے۔ پھر بھی نہ جانے کیوں یہ ساری خامہ فرسائی کررہے ہیں ۔ شاید ایسے ہی موقع پر کہا گیا ہے کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ۔ لیکن یہاں تو تنکا بھی نصیب نہیں بس نظر کا دھوکہ ہی دھوکہ ہے کیوں یہ روایت ہی ضعیف و مردود ہے تفصیل ملاحظہ ہو:

◈ مذکورہ روایت ضعیف ومردود ہے :
امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279) نے کہا:
حدثنا نصر بن علي، قال: حدثنا خالد بن يزيد العتكي، عن أبي جعفر الرازي، عن الربيع بن أنس، عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من خرج في طلب العلم فهو في سبيل الله حتى يرجع» : «هذا حديث حسن غريب ورواه بعضهم فلم يرفعه» [سنن الترمذي ت شاكر (5/ 29) رقم 2647]
.
اس کی سند میں کئی علتیں ہیں:
❀ ① پہلی علت: ”خالد بن يزيد العتكي“ کا ضعف
اس کی سند میں موجود ”خالد بن يزيد العتكي“ ضعیف ہے۔
امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264): نے ”لا بأس به“ کہا ہے [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 3/ 361]
لیکن:
● امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے کہا:
لا يتابع على كثير من حديثه
اس کی اکثر حدیثوں پر متابعت نہیں کی جاتی ہے“ [الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 2/ 233]

● امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے کہا:
يروي عن أبي جعفر الرازي ضعف
یہ ابو جعفر رازی سے روایت کرتا ہے اور ضعیف قرار دیا گیا ہے“ [المغني في الضعفاء للذهبي، ت نور: 1/ 207]

● حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
صدوق يهم
یہ سچا ہے اور وہم کا شکار ہوتا ہے“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم1692 ]

● تحرير التقريب كي مؤلفين (دكتور بشار عواد اور شعيب ارنؤوط):
ضعيف يعتبر به
یہ ضعیف ہے اور( متابعات وشواہد میں) قابل التفات ہے“ [تحرير التقريب: رقم1692]

❀ ② دوسری علت: أبو جعفر الرازي کی ربیع سے روایت:
ابو جعفر الرازی جب ربیع بن انس سے روایت کرے تو وہ روایت ضعیف ہوتی ہے ، چنانچہ:

● امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264) نے کہا:
شيخ يهم كثيرا
یہ شیخ ہے اور بہت زیادہ وہم کا شکار ہوتا ہے“ [ الضعفاء لابي زرعه الرازي: 2/ 443]

● امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے کہا:
كان ممن ينفرد بالمناكير عن المشاهير لا يعجبني الاحتجاج بخبره إلا فيما وافق الثقات
یہ مشہور لوگوں سے منکر روایات کے بیان میں منفرد ہوتا ہے اس کی حدیث سے حجت پکڑنا مجھے پسند نہیں الا یہ کہ ثقہ رواۃ سے اس کی تائید مل جائے
[المجروحين لابن حبان: 2/ 120]

● امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفى354)نے یہ بھی فرمایا:
والناس يتقون حديثه ما كان من رواية أبي جعفر عنه لأن فيها اضطراب كثير
محدثین نے ربیع بن انس سے ابو جعفر کی روایات سے اجتناب کرتے ہیں کیونکہ ان میں بہت اضطراب ہوتا ہے۔
[الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 4/ 228]

❀ ③ تیسری علت:
بعض رواۃ نے اسے مرفوع بیان ہی نہیں کیا ہے جیساکہ اس روایت کی تخریج کرنے بعد خود امام ترمذی رحمہ اللہ نے وضاحت فرمائی چنانچہ کہا:
ورواه بعضهم فلم يرفعه
اور بعض دوسرے رواۃ نے جب اسے بیان کیا تو اسے مرفوع نہیں بیان کیا“ [سنن الترمذي ت شاكر (5/ 29) رقم 2647]

ان تین علتوں کے سبب یہ روایت ضعیف ومردود ہے اور ایسی روایت سے استدلال ”منہج سلف“ کے خلاف ہے۔

اب رہی بات یہ کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا تھا لیکن بعد میں اسے حسن قرار دیا ۔

تو عرض ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الترغیب میں بھی اس کی سند کو ضعیف ہی قرار دیا ہے البتہ صحیح الترغیب میں موجود اس سے ماقبل والی حدیث کو اس کے معنی میں مان کر اسے ”حسن لغیرہ“ کہہ دیا ہے ۔

چنانچہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں:
حسن لغيره ... الذي في الترمذي (2649): حسن غريب ، وكذا في تحفة المزي . لكن فيه (أبو جعفر الرازي)؛ وهو سيئ الحفظ، لكن يشهد له حديث أبي هريرة الذي قبله، إلا أن يقال: إن هذا خاص بالمسجد النبوي. وهو بعيد. والله أعلم
یہ روایت حسن لغیرہ ہے ، سنن ترمذی (2649) میں حسن غريب ہے اور ایسے ہی تحفۃ الاشراف میں ہے ، لیکن اس کی سند میں (أبو جعفر الرازي) ہے اور یہ برے حافظہ والا ہے ، لیکن ماقبل میں جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے وہ اس کے لئے (معنوی ) شاہد ہے الا یہ کہ یہ کہا جائے کہ ماقبل کہ حدیث مسجد نبوی کے ساتھ خاص ہے اور یہ بعید ہے واللہ اعلم۔
[صحيح الترغيب والترهيب 1/ 146 ]

معلوم ہوا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ماقبل والی حدیث کے سہارے اس روایت کی تضعیف سے رجوع کیا ہے۔

لیکن سچائی یہ ہے کہ ماقبل والی حدیث اس سے بھی گئی گزری بلکہ منکر ہے امام دارقطنی جیسے ماہر علل نے بھی اس پر نقد کیا ہے اور وہ شاہد بننے کے قابل ہی نہیں ، علامہ البانی رحمہ اللہ کی اس کی علت پر آگاہی ہوجاتی تو علامہ البانی رحمہ اللہ بھی اسے شاہد نہ بناتے کیونکہ اس درجہ کی منکر روایت علامہ البانی رحمہ اللہ کے اصول سے بھی شہادت کے باب میں مفید نہیں ہے ، مزید یہ کہ اس کا معنی اور سیاق بھی کئی لحاظ سے الگ ہے جیساکہ ہم آگے اس کی تفصیل پیش کریں گے ان شاء اللہ

« جاری ہے ... »

✿ ✿ ✿ ✿​
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
594
ری ایکشن اسکور
188
پوائنٹ
77
مدارس کو مصرف زکاۃ ”فی سبیل اللہ“ میں شامل کرنا ”منہج سلف“ کے خلاف ہے (3)

از قلم: کفایت اللہ سنابلی

پچھلی قسط میں ثابت کیا جاچکا ہے کہ سنن ترمذی کی وہ حدیث ضعیف ومردود ہے ، جس میں طلب علم کی راہ میں نکلنے والے کو ”فی سبیل اللہ“ کہا گیا ہے۔

علامہ البانی رحمہ اللہ بھی اسے اپنی اکثر کتب میں ضعیف ہی کہتے تھے لیکن صحیح الترغیب میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ماقبل میں موجود ایک دوسری حدیث کو شاہد مان کو ”حسن لغیرہ“ قرار دیا ہے۔

لیکن یہ دوسری روایت مردود ہے ۔ تفصیل ملاحظہ ہو:

امام ابن ماجة رحمه الله (المتوفى273) نے کہا:
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن حميد بن صخر، عن المقبري، عن أبي هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من جاء مسجدي هذا، لم يأته إلا لخير يتعلمه أو يعلمه، فهو بمنزلة المجاهد في سبيل الله، ومن جاء لغير ذلك، فهو بمنزلة الرجل ينظر إلى متاع غيره»“
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: « جو شخص میری اس مسجد میں صرف خیر (علم دین) سیکھنے یا سکھانے کے لیے آئے تو وہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کے درجہ میں ہے، اور جو اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے آئے تو وہ اس شخص کے درجہ میں ہے جس کی نظر دوسروں کی متاع پر لگی ہوتی ہے »“
[سنن ابن ماجه (1/ 82) رقم 227]

اس حدیث کی سند بظاہر صحیح معلوم ہوتی ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح جان کر ہی ترمذی والی روایت کے لئے اسے شاہد بنایا ۔

لیکن علل کے ماہر امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس میں موجود علت کی نشاندہی کردی ہے ۔ کماسیاتی۔

شعیب الأرنؤوط اور ان کی ٹیم نے امام دارقطنی رحمہ اللہ کے نقد کو سامنے رکھتے ہوئے اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے:
«حديث ضعيف» ، ”یہ حدیث ضعیف ہے“ دیکھئے :[سنن ابن ماجه (1/ 154 ت الأرنؤوط)]

اس کی سند میں ”حميد بن صخر“ ہے۔ یہ ”حميد بن زياد أبي صخر“ ہے۔ بعض ائمہ نے دونوں کو الگ الگ مانا ہے اور اکثر نے ایک ہی مانا ہے لیکن بہرصورت اس پر جرح موجود ہے۔ یہ گرچہ ثقہ ہے لیکن بعض ائمہ ناقدین نے اس پر کلام کیا ہے اس لئے یہ مختلف فیہ ہے :

⟐ امام ابن شاهين رحمه الله (المتوفى385) نے اسے مختلف فیہ رواۃ میں ذکر کیا ہے ۔
دیکھیں: [المختلف فيهم للحافظ ابن شاهين: ص: 28]

⟐ امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے کہا:
مختلف فيه
یہ مختلف فیہ ہے“ [الكاشف للذهبي ت عوامة: 1/ 353]

● امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233) نے اس کی توثیق کی ہے لیکن ساتھ ہی تضعیف بھی کی ہے چنانچہ کہا:
ضعيف“ ”یہ ضعیف ہے“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 3/ 222 وإسناده صحيح]

● امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے اسے : ”ليس به بأس“ کہا لیکن دوسری جگہ اس کی تضعیف بھی کی ہے۔
چنانچہ حمدان بن علي الوراق کہتے ہیں:
سئل أحمد بن حنبل عن حميد بن صخر، فقال: ضعيف
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ”حميد بن صخر“ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہیں نے کہا: یہ ضعیف ہے۔[الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 2/ 82 وإسناده صحيح]

● امام نسائي رحمه الله (المتوفى303) نے کہا:
ليس بالقوي“ ”یہ القوی نہیں ہے“ [الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 33]
دوسری جگہ امام نسائی نے اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ دیکھیں: [الكامل لابن عدي طبعة الرشد: 3/ 401]

● امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322) نے ضعفاء میں ذکر ہے۔
دیکھیں: [الضعفاء الكبير للعقيلي: 1/ 270]

● امام ابن شاهين رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:۔
صاحب علم بالتفسير، وليس له حديث كثير. ولعل يحيى وقف من روايته على شيء أوجب هذا القول فيه
یہ تفسیر کا علم رکھتے تھے لیکن ان کے پاس حدیث بہت زیادہ نہیں ہے ، اور امام یحیی ان کی روایات میں بعض پر واقفيت كے بعد یہ بات (تضعیف والی) کہی ہے۔"
[المختلف فيهم ص: 28]

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ”حميد بن صخر“ پر ائمہ فن نے جرح بھی کر رکھی ہے اس لئے ایسا متکلم فیہ راوی اگر اپنے سے اوثق کے خلاف روایت کرے گا تو اس کی روایت مردود قرار پائے گی ۔

اور یہاں یہی صورت حال ہے چنانچہ ”حميد بن صخر“ سے کئی گنا ثقہ راوی ”عبيد الله بن عمر“ ہیں جو کہ صحیحین سمیت کتب ستہ کے رجال میں سے ہیں اور بالاتفاق ”ثقہ وثبت“ ہیں۔
ہماری معلومات کے مطابق کسی ایک بھی محدث نے ان پر کوئی جرح نہیں کی ہے۔

چنانچہ:
● امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230) نے کہا:
وكان ثقة كثير الحديث حجة
یہ ثقہ اور بہت زیادہ احادیث والے اور حجت ہیں“ [الطبقات لابن سعد ت عبد القادر: 5/ 435]

● امام عجلى رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
مدني ثقة ثبت
یہ مدنی ، ثقہ اور ثبت ہیں“ [معرفة الثقات للعجلي: 2/ 112]

● امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354) نے کہا:
وكان من سادات أهل المدينة وأشراف قريش فضلا وعلما وعبادة وشرفا وحفظا وإتقانا
یہ اہل مدینہ کے سادات اور قریش کے اشراف میں سے تھے ، فضل وعلم ، عبادت وشرف اور حفظ واتقان کے اعتبار سے
[الثقات لابن حبان ط االعثمانية: 7/ 149]

● امام أبو يعلى الخليلي رحمه الله (المتوفى446) نے کہا:
حافظ , متقن , ثقة , متفق عليه , مخرج في الصحيحين , روى عنه الأئمة الكبار
یہ حافظ ، متقن ، ثقہ ہیں ان پر سب کا اتفاق ہے ، صحیحین میں ان کی احادیث ہیں اور کبار ائمہ ان کے شاگرد ہیں
[الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي: 1/ 293]

● امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے کہا::
المدني الفقيه الثبت
آپ مدنی فقیہ اور ثبت ہیں“ [الكاشف للذهبي ت عوامة: 1/ 685]
دوسری جگہ فرمایا:
الإمام، المجود، الحافظ“ ، ”آپ امام ، مجود اور حافظ ہیں
[سير أعلام النبلاء ط الرسالة 6/ 304]

● حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
ثقة ثبت قدمه أحمد بن صالح على مالك في نافع
یہ ثقہ وثبت ہیں اور امام احمد بن صالح المصرى نے نافع سے روایت کرنے میں ان کو امام مالک پر بھی فوقیت دی ہے۔“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم4324]

غرض یہ کہ ”عبيد الله بن عمر“ بہت بڑے ثقہ راوی حافظ ، متقن ، فقیہ اور امام الائمہ ہیں۔

اور انہوں اسی روایت کو ”سعید المقبری“ سے روایت کیا تو اس میں تابعی کعب الاحبار کا قول نقل کیا چنانچہ:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
حدثنا ابن نمير ، عن عبيد الله بن عمر ، عن سعيد بن أبي سعيد ، عن عمر بن أبي بكر ، عن أبيه ، عن كعب الأحبار ، قال : أجد في كتاب الله : ما من عبد مؤمن يغدو إلى المسجد ويروح ، لا يغدو ، ويروح إلا ليتعلم خيرا ، أو يعلمه ، أو يذكر الله ، أو يذكر به إلا مثله في كتاب الله كمثل المجاهد في سبيل الله.
کعب الاحبار تابعی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں کہ میں اللہ کی کتاب (تورات) میں پاتا ہوں کہ: جو بندہ صبح وشام مسجد جائے خیر سیکھنے یا سکھانے یا ذکر وذکار کی خاطر تو اللہ کی کتاب (تورات ) میں اس کی مثال مجاہد فی سبیل اللہ سے بیان کی گئی ہے“ [مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 13/ 319 ]

معلوم ہوا کہ یہ کعب الاحبار کی بیان کردہ ایک اسرائیلی روایت ہے جسے ”حميد بن صخر“ نے مرفوع حدیث بنادیا ۔
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365): نے اس کی اسی روایت کو ”الكامل في ضعفاء الرجال“ میں ذکر کیا ہے۔
اور آپ اس کتاب میں اکثر راوی کی منکر روایات کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ دیکھیں: [الكامل لابن عدي طبعة الرشد: 3/ 402]

نیز علل کے ماہر امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ”حميد بن صخر“ کی روایت پر نقد کرتے ہوئے اسے ثقہ وثبت ”عبيد الله بن عمر“ کے خلاف بتلا اور عبید اللہ بن عمر کی روایت کو درست قرار دیا۔

چنانچہ علل دارقطني رحمه الله (المتوفى385)کے الفاظ ہیں:
«وسئل عن حديث المقبري، عن أبي هريرة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌من ‌جاء ‌مسجدي ‌هذا، لم يأته إلا لخير يتعلمه، أو يعلمه، فهو بمنزلة المجاهد في سبيل الله.فقال: اختلف فيه على سعيد المقبري، فرواه أبو صخرة حميد بن زياد، عن سعيد المقبري، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.وخالفه عبيد الله بن عمر فرواه عن سعيد المقبري، عن عمر بن أبي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث، عن كعب الأحبار قوله.ورواه ابن عجلان، عن سعيد المقبري، عن أبي بكر بن عبد الرحمن، عن كعب الأحبار قوله، وقول عبيد الله بن عمر أشبه بالصواب»
ترجمہ:
امام دارقطنی سے حدیث ( المقبري، عن أبي هريرة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌من ‌جاء ‌مسجدي ‌هذا، لم يأته إلا لخير يتعلمه، أو يعلمه، فهو بمنزلة المجاهد في سبيل الله) کے بارے میں پوچھا گیا تو امام دارقطنی نے فرمایا: اس حدیث کو سعید المقبری سے روایت کرنے والوں میں اختلاف واقع ہوا ہے چانچہ ابو صخرہ حمید بن زیاد نے اسے (عن سعيد المقبري، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم) کی سند سے بیان کیا ہے ، اور اس کے برخلاف عبیداللہ بن عمر نے اسے (عن سعيد المقبري، عن عمر بن أبي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث، عن كعب الأحبار ) کی سند سے اسے کعب الاحبار کے قول کے طور پر بیان کیا ہے۔ اور ابن عجلان نے اسے (عن سعيد المقبري، عن أبي بكر بن عبد الرحمن، عن كعب الأحبار) کی سند سےکعب الاحبار کے قول کے طور پر بیان کیا ہے۔ لیکن ”عبید اللہ بن عمر“ کی روایت ہی قرین صواب ہے
[علل الدارقطني = العلل الواردة في الأحاديث النبوية (10/ 380)]

اب اس مخالفت پر اتنے بڑے ماہر امام کی طرف سے محاکمہ سامنے آجانے کے بعد کوئی بد منہج ہی ہوگا جو اس اسرائیلی روایت کو حدیث رسول سمجھنے کی جسارت کرے۔

«جاری ہے ...»

✿ ✿ ✿ ✿​
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
594
ری ایکشن اسکور
188
پوائنٹ
77
مدارس کو مصرف زکاۃ ”فی سبیل اللہ“ میں شامل کرنا ”منہج سلف“ کے خلاف ہے (4)

از قلم: کفایت اللہ سنابلی

ہمارے مہربان بار بار یہ صفائی دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ بھائی ”فی سبیل اللہ“ کے مصرف میں زکاۃ کو شامل نہیں کیا ہے بلکہ طلاب علم کو ”فقراء ومساکین“ میں شامل مان کر انہیں زکاۃ دینے کی بات کہی گئی ہے۔

عرض ہے کہ:
پھر جمعیت میں زکاۃ جائز کیسے ہوگئی اس کی وضاحت کون کرے گا؟؟ اس کی بھی وضاحت کریں تاکہ پتہ چلے کہ آپ نے جب دعوہ سینٹر کو ہر اعتبار سے زکاۃ سے باہر کردیا ہے تو آخر کس اعتبار سے جمعیت زکاۃ کے مصرف میں شامل ہوگی ؟؟
اور پریشان نہ ہوں ”فقراء ومساکین“ کے مصرف پر آگے تفصیل سے گفتگوہوگی مثلا یہ کہ:

  • فقراء ومساکین کے نام پر وصولی گئی زکاۃ سے تعمیراتی کام کرنے کا کیا حکم ہے؟
  • فقراء ومساکین کے نام سے وصولی گئی زکاۃ سے اپنا ذاتی گھر ، بنگلہ اور گاڑی لینے کا کیا حکم ہے؟
  • فقراء ومساکین کے نام سے وصولی گئی زکاۃ سے ابن بطوطہ کی طرح دنیا جہاں کے چکر لگانا کہاں تک درست ہے ؟
  • فقراء ومساکین کے نام سے وصولی گئی زکاۃ کے بل پر اپنے بال بچوں کی شادیوں اور نجی تقریبات میں اہل ثروت کا مقابلہ کرنا کہاں تک درست ہے ؟
  • فقراء ومساکین کے نام سے وصولی گئی زکاۃ پر وکالت کے حیلے سے خود ہی قابض ہوجانا اور اس میں من مانی تصرفات سے شرط ”تملیک“ کی دھجیاں بکھیرنا کہاں تک درست ہے؟

غور کریں کہ رمضان میں «صدقہ الفطر » کو اگر متفق علیہ مصرف ”فقراء ومساکین“ ہی میں دیا جائے لیکن صرف نقدی کی شکل کو جائز ٹہرادیا جائے جو کہ سلف سے بھی ثابت ہے ۔تو مدعیانِ منہج پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے یہ منہج کی تلوار لے کر ایسا کہنے والے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اسے سنت کے مخالفین اور اہل تقلید کی صف میں کھڑا کرکے ہی دم لیتے ہیں ۔

تو غور فرمائیں کہ جو شخص «فرض زکاۃ» جو کہ اسلام کا ایک رکن بھی ہے اس کا منصوص ”مصرف“ ہی بدل دے اور اگر ”مصرف“ میں دے تو مال بھی بدل دے اور اہل سبت کی طرح حیلہ بازی کرتے ہوئے تملیک کی ساری شرطیں پامال کرڈالے ! اور اس پر قرآن ، حدیث ، اجماع ، قیاس اور سلف سے ثبوت کا کوئی نام ونشان تک نہ ہو تو انصاف سے بتائیے کہ ایسے شخص کو اس کی منہجی اوقات بتانا ضروری ہے یا نہیں؟؟؟

فریق مخالف نے یہ تو تسلیم کرلیا کہ ”فی سبیل اللہ“ میں مدارس نہیں آتے ، لیکن اتنا کہہ کر جان نہیں چھوٹنے والی ، یہ فتوی بھی تو دینا پڑے گا کہ ”فی سبیل اللہ“ میں مدارس کو شامل کرنا ”منہج سلف“ کے خلاف ہے جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے فتوی دیا ہے۔

علاوہ بریں فریق مخالف نے یہ دردناک اعتراف کرنے کے بعد کہ ”فی سبیل اللہ“ میں مدارس نہیں آتے ، اس پر بات ختم نہیں کی بلکہ اس مردہ استدلال میں روح پھونکنے کے لئے ایک مردود روایت کا سہارا لیا کہ حدیث میں طالب علم کے لئے ”فی سبیل اللہ“ وارد ہے۔ اور پھر آگے چل نا نا ہمارا یہ مطلب نہیں کہہ کر لگی سے گھاس کھلانے کی کوشش کی ہے۔

ظاہر ہے کہ ہمارے سامنے یہ کج منہجی نہیں چلے گی اور ہم اس مردود روایت اور اس سے مردہ استدلال دونوں کی حقیقت عیاں کرکے رہیں گے۔

بہرحال گذارش ہے کہ صبرکریں اور اطمئنان رکھیں ہر بات کا جواب آئے گا ۔ فی الحال پیش کردہ روایت کی تضعیف پر بات چل رہی تو سابقہ قسط میں یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ ابن ماجہ کی جس حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے ترمذی کی حدیث کے لئے شاہد بنایا تھا وہ دراصل کعب الاحبار کی بیان کردہ اسرائیلی روایت ہے جسے راوی نے غلطی سے مرفوع حدیث بنادیا جیساکہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کے کلام کی روشنی میں یہ واضح کیا جا چکا ہے۔ یعنی اس راویت میں غلطی ثابت ہوچکی ہے۔

اب جب یہ بات ثابت ومتحقق ہوچکی کہ اس میں غلطی ہے اور اس کا اصل متن اسرائیلی روایت ہے تو پھر ترمذی کی روایت منکر یا شاذ ٹہری اور منکر یا شاذ روایت ”حسن لغیرہ“ کے باب میں بھی قابل قبول نہیں ہے۔ جیساکہ اس پر ائمہ فن کی تصریحات موجود ہیں مثلا:

● امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) نے کہا:
الحديث عن الضعفاء قد يحتاج اليه في وقت ، والمنكر ابدا منكر۔“
ضعیف رواۃ سے روايت کی کسی وقت ضرورت پڑ سکتی ہے ، لیکن ”منکر“ روایت ہمیشہ ”منکر“ ہی رہے گی۔
[علل أحمد رواية المروذي وغيره: ص: 163]

● امام ابن الصلاح رحمه الله (المتوفى643) نے کہا:
ومن ذلك ضعف لا يزول بنحو ذلك، لقوة الضعف وتقاعد هذا الجابر عن جبره ومقاومته. وذلك كالضعف الذي ينشأ من كون الراوي متهما بالكذب، أو كون الحديث شاذا۔“
کچھ ضعف ایسا ہوتا ہے جس کا ازالہ نہیں ہوسکتا کیونکہ ضعف شدید اور ناقابل تلافی وتدارک ہوتاہے جیسے وہ ضعف جو راوی کے متہم بالکذب ہونے کے سبب یا حدیث کے شاذ ہونے کے سبب پیدا ہوتاہے۔
[مقدمة ابن الصلاح، ت عتر: ص: 34 نیز دیکھیں :نصب المجانيق للالبانی ص40 ]

● حافظ زين الدين العراقي رحمه الله (المتوفى806) نے کہا:
وإن يكن لكذب أو شذا ... أو قوي الضعف فلم يجبر ذا۔“
اگر حدیث کے اندر ضعف راوی کے کذب یا شذوذ یا سخت ضعف کے سبب ہو تو یہ اس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ “ [ألفية العراقي ص: 98]

● بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ بھی اسی اصول پر کاربند تھے اور اس کی جگہ جگہ وضاحت کرتے تھے چنانچہ ایک مقام پرعلامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وما ثبت خطأه فلا يعقل أن يقوى به رواية أخرى في معناها فثبت أن الشاذ والمنكر مما لا يعتد به ولا يستشهد به بل إن وجوده وعدمه سواء۔“
جس روایت کا غلط ہونا ثابت ہوگیا تو اس سے اسی معنی کی دوسری روایت کو تقویت دینا غیرمعقول بات ہے ، معلوم ہوا کہ شاذ اور منکر روایت کا کوئی شمار نہیں ہے اور اس سے استشہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اس کا وجود اور عدم وجود دونوں برابر ہے“ [صلاة التراويح - الألباني ص: 66 ]

ملاحظہ فرمائیں یہ خود علامہ البانی رحمہ اللہ کا اصول ہے ۔
اب اگر علامہ البانی رحمہ اللہ اس بات سے واقف ہوجاتے کہ ترمذی کی روایت میں ایسی ہی بات ہے یعنی وہ مبنی بر غلط ہے تو سوچئے کہ کیا ایک پل کے لئے بھی علامہ البانی رحمہ اللہ اس روایت کو ابن ماجہ کی روایت کے لئے شاہد بناتے ؟ ہر گز نہیں ! کیونکہ یہ محدثین کا منہج ہے ہی نہیں ، یہ تو بدترین اہل بدعت کا منہج ہے کہ مطلب برا ری کے لئے ہر طرح کے کوڑ کباڑ کو اکٹھا کرکے سر پر لاد لو ۔

”جاری ہے ...“

✿ ✿ ✿ ✿​
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
594
ری ایکشن اسکور
188
پوائنٹ
77
مدارس کو مصرف زکاۃ ”فی سبیل اللہ“ میں شامل کرنا ”منہج سلف“ کے خلاف ہے (5)

از قلم: کفایت اللہ سنابلی

اس قسط میں ہم فریق مخالف موصوف کی تحریر سے ایک ”صریح جھوٹ“ دکھائیں گے۔
اس کے بعد ان کے اردو ترجمہ کا نوٹس لیں گے جو یا تو ”خیانت“ پر مبنی ہے یا پھر ”عربی عبارت نہ سمجھ پانے کا نتیجہ“ ہے۔

صریح جھوٹ:-
موصوف نے علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کی کتاب مرعاۃ سے ایک اقتباس کا ترجمہ کیا جس پر ہم نے گرفت کی تو آں جناب نے بڑھی ڈھٹائی سے صاف جھوٹ بولتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ:
(((ایک جگہ موصوف نے لکھا کہ میں نے مولانا عبید اللہ مبارک پوری رحمہ اللہ کے کلام میں صحابہ کا لفظ چھوڑ دیا ہے، حالانکہ کے میں نے ترجمہ میں سلف کا ذکر کیا ہے جو کہ علامہ عبید اللہ رحمہ اللہ کے کلام میں موجود نہیں ہے، کیا سلف میں صحابی بدرجہ اولی داخل نہیں، بلکہ صحابہ کرام کو اس اصطلاح میں دخول اولی حاصل نہیں؟ )))

عرض ہے کہ:
حضرت اتنا صریح جھوٹ نہ بولیں علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کی عربی عبارت میں ”سلف“ کا لفظ صاف طور سے موجود ہے، اس پوسٹ کے ساتھ مرعاۃ کے متعلقہ صفحات کا نیز موصوف کی پوسٹ کا عکس موجود ہے قارئیں ملاحظہ فرمائیں اور موصوف کے صریح جھوٹ کی داد دیں۔

IMG-20240508-WA0002.jpg

IMG-20240508-WA0001.jpg


خیانت یا عربی عبارت سمجھنے سے قاصر
موصوف نے علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کی کتاب ”مرعاۃ المصابیح“ سے ایک اقتباس کا ترجمہ کیا تھا جس میں ایک اہم لفظ ”صحابي“ كو چهوڑ ديا؛ میں نے پہلی قسط میں اس پر تنبیہ کی اور اس لفظ کو ترجمہ ميں ذكر کرنے اور نہ کرنے کا جو فرق تھا وہ واضح کیا ۔

اب اس پر موصوف نے ایک تو صریح جھوٹ بولا جس کی وضاحت اوپر ہوچکی ہے ۔ اس کے ساتھ آں جناب نے ترجمہ میں ”صحابی“ کو نظر انداز کرنے پر جو صفائی پیش کی ہے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ :
  • یا تو موصوف نے خیانت سے کام لیا ہے۔
  • یا موصوف یہاں پر عربی عبارت سمجھنے سے قاصر ہے۔

سب سے پہلے علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کی عربی عبارت دیکھئے:
وأما القول الثالث: فهو أبعد الأقوال لأنه لا دليل عليه لا من كتاب ولا من سنة صحيحة أو سقيمة ولا من إجماع، ولا من رأى صحابي ولا من قياس صحيح أو فاسد، بل هو مخالف للحديث الصحيح الثابت، وهو حديث أبي سعيد. ولم يذهب إلى هذا التعميم أحد من السلف إلا ما حكى القفال في تفسيره عن بعض الفقهاء المجاهيل، والقاضي عياض عن بعض العلماء الغير المعروفين“ [مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 6/ 240 - 241]

ترجمہ از سنابلی:
اور جہاں تک تیسرے قول کی بات ہے تو وہ تمام اقوال میں سب سے بعید قول ہے کیونکہ اس پر نہ تو قرآن سے دلیل ہے ، نہ صحیح یا ضعیف حدیث سے دلیل ہے ، نہ اجماع سے دلیل ہے ، نہ کسی صحابی کے قول سے دلیل ہے ، نہ قیاس صحیح نہ قیاس فاسد سے دلیل ہے بلکہ یہ ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کی صحیح اور ثابت حدیث کے خلاف ہے ، اور سلف میں سے کسی ایک نے بھی فی سبیل اللہ کو اس طرح عام نہیں مانا ہے ، لے دے کر صرف اتنی سی بات ہے کہ قفال نے بعض مجہول فقہاء اور قاضی عیاض نے بعض غیر معروف علماء سے اسے نقل کیا ہے۔
[مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 6/ 240 - 241]

فریق مخالف نے اسی عبارت کا ترجمہ کیا تو لفظ صحابی کو ترجمہ میں چھوڑ دیا ذیل میں فریق مخالف کا ترجمہ نقل کر رہا ہوں اور جس مقام پر ”صحابی“ کا لفظ چھوڑا گیا ہے وہاں قوسین میں چند نقطوں یعنی (.....) کی علامت شامل کررہا ہوں

ملاحظہ فرمائیں فریق مخالف کا ترجمہ :
(((صاحب مرعاۃ عبید اللہ مباکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: تیسرے قول پر نہ قرآن مجید سے کوئی دلیل ہے، نہ ہی کسی صحیح حدیث سے حتی کہ ضعیف حدیث سے بھی اس کی دلیل نہیں ملتی، اور نہ ہی اجماع (.....)وقیاس سے دلیل موجود ہے، بل کہ یہ قول صحیح حدیث کے مخالف ہے، نیز اس عموم کے قائل سلف میں سے کوئی بھی نہیں، البتہ قفال نے اپنی تفسیر میں بعض مجہول فقہا سے، اور قاضی عیاض نے بعض غیر معروف علما سے نقل کیا ہے کہ فی سبیل اللہ سے مراد خیر وبھلائی کے تمام راستے ہیں۔ )))

قارئیں کرام ! آپ صاف دیکھ سکتے ہیں کہ فریق مخالف نے ”صحابی“ کا لفظ چھوڑ دیا ہے ۔اس پر میں نے گرفت کرتے ہوئے کہا کہ:
”یہاں موصوف نے علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کے الفاظ سے ایک اہم لفظ چھوڑ دیا ہے اور وہ ”صحابی“ کا لفظ ہے یعنی کسی ”صحابی“ سے مطلب ”اصل سلف“ سے بھی یہ لفظ ثابت نہیں ہے۔
معلوم ہوا کہ متاخرین سلف کی طرح ”اصل سلف“ یعنی ”صحابہ“ میں بھی کوئی اس تیسرے قول کا قائل نہیں ہے۔ اور قفال اور قاضی عیاض نے جن متاخرین سلف سے نقل کیا ہے وہ بھی مجہول ونامعلوم لوگ ہیں ۔
مطلب اظہر من الشمس ہے کہ یہ قول ”منہج سلف“ کے خلاف ہے“ ۔ (دیکھیں ہماری تحریر قسط نبمر 1)

اب اس پر موصوف نے یہ جواب دیا:
((( ایک جگہ موصوف نے لکھا کہ میں نے مولانا عبید اللہ مبارک پوری رحمہ اللہ کے کلام میں صحابہ کا لفظ چھوڑ دیا ہے، حالانکہ کے میں نے ترجمہ میں سلف کا ذکر کیا ہے جو کہ علامہ عبید اللہ رحمہ اللہ کے کلام میں موجود نہیں ہے، کیا سلف میں صحابی بدرجہ اولی داخل نہیں، بلکہ صحابہ کرام کو اس اصطلاح میں دخول اولی حاصل نہیں؟ )))

عرض ہے کہ:
یہاں موصوف نے ایک تو صریح کذب بیان کی کہ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کی عبارت میں ”سلف“ کا لفظ موجود نہیں ہے ۔

جبکہ سچائی یہ ہے کہ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کے کلام میں لفظ ”سلف“ موجود بھی ہے اور اس مقام کا ترجمہ کرتے ہوئے موصوف نے اس کا ذکر بھی کیا ہے۔

دراصل علامہ مبارکفوری رحمہ اللہ کے کلام میں ”سلف“ سے مراد صحابہ نہیں بلکہ متاخرین سلف ہیں ۔ یہ بات عبارت کے سیاق سے صاف ظاہر ہے لغت کا کوئی بھی ماہر شخص تعصب سے بالاتر ہوکر اس عبارت کو غور سے پڑھے گا تو وہ یقینا ہماری تائید کرے گا۔

علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کی عبارت کے اخیر میں موجود لفظ ”سلف“ میں اگر صحابہ بھی مراد ہوتے تو علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ شروع میں صحابہ کا ذکر نہ کرتے ۔ لہٰذا فریق مخالف نے یا تو پرخیانت ہوشیاری سے کام لیا ہے اور یا پھر عبارت فہمی میں مار کھا گئے ۔

ترجمہ میں صحابی کے عدم ذکر پر ”اصل عربی عبارت“ اور ”ترجمہ“ کا فرق:

◈ صاحب مرعاۃ کی عربی عبارت سے لفظ ”صحابی“ کا بھی ترجمہ میں ذکر کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ”فی سبل اللہ“ کے معنی کو اصل سلف یعنی صحابہ میں سے بھی کسی نے عام نہیں کیا ہے۔ بالفاظ دیگر ”فی سبل اللہ“ ہر کار خیر کے لئے عام نہ ماننے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اتفاق واجماع ہے۔

◈ لیکن صاحب مرعاۃ کی عربی عبارت سے لفظ ”صحابی“ کا ترجمہ گول کرجائیں اور آگے چل کے صاحب مرعاۃ نے جو متاخرین کے لئے ”سلف“ کا لفظ استعمال کیا اور ان ميں مجہول علماء کے اختلاف کا ذکر کیا ہے صرف اسی کا ذکر کیا جائے تو اس سے یہ مفہوم نکل سکتا ہے کہ اس میں صحابہ بھی شامل ہیں جیساکہ فریق مخالف نے صاحب مرعاۃ کے شروع حصہ سے صحابی کے لفظ کو گول کرکے آگے جو لفظ سلف کا ذکر كيا اس میں صحابہ کو بدرجہ اولی شامل کرنے کی کوشش کی ہے چنانچہ فریق مخالف نے لکھا:
((( کیا سلف میں صحابی بدرجہ اولی داخل نہیں، بلکہ صحابہ کرام کو اس اصطلاح میں دخول اولی حاصل نہیں؟ )))

ملاحظہ فرمایا آپ نے :
کس قدر ڈھٹائی ہے کہ مؤلف نے جس مقام پر سلف سے صرف متاخرین سلف کو مراد لیا اسی مقام کا ترجمہ کرتے ہوئے موصوف سلف کے لفظ میں صحابہ کو بھی شامل کررہے ہیں۔ سبحان اللہ !

ارے بھائی جب آپ مان ہی رہے ہو کی فی ”سبیل اللہ“ میں عام کار خیر شامل نہیں ہیں تو یہ بھی مان لو نا کہ یہ عام کار خیر کو شامل کرنے والی تفسیر اصل سلف یعنی صحابہ سے بھی ثابت نہیں ہے۔

ترجمہ میں گول مول حرکت کرنے کی کیا ضرورت ہے ! دوسروں کو بات بات پر منہج سلف کا مخالف باور کراتے ہوئے ذرا بھی حیا نہیں آتی تو اس مسئلہ میں بھی مخالفین کو صاف صاف منہج سلف سے ہٹا ہوا بتلانے میں کون سی زمین پھٹ رہی ہے اور کون سا آسمان شق ہو رہا ہے ؟؟؟

«جاری ہے۔۔۔»

✿ ✿ ✿ ✿​
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
594
ری ایکشن اسکور
188
پوائنٹ
77
مدارس کو مصرف زکاۃ ”فی سبیل اللہ“ میں شامل کرنا ”منہج سلف“ کے خلاف ہے (6)

از قلم: کفایت اللہ سنابلی

فریق مخالف کی پیش کردہ اس مردود روایت کی حقیقت بیان کی جاچکی ہے جس میں طالب علم کے لئے ”فی سبیل اللہ“ کے الفاظ آئے تھے ۔

موصوف نے آگے چل کر گرچہ یہ لکھا کی ”فی سبیل اللہ“ میں مدارس نہیں آتے ۔ لیکن اس سے پہلے موصوف نے اس مردود روایت کا سہارا لے کر اس مردہ استدلال کو تقویت پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

چنانچہ موصوف کے الفاظ ہیں:
(((طلبہ علم کے اندر مزید دو ایسے اسباب پائے جاتے ہیں جو انہیں زکات کا مستحق بناتے ہیں، ایک تفرغ تام اور دوسرا طلب علم کو شریعت نے فی سبیل اللہ سے تعبیر کیا ہے)))

غور سے پڑھیں:
موصوف طلبہ علم کے مستحقین زکاۃ ہونے کے لئے دوسرا ”سبب“ یہ بتارہے ہیں کہ ”طلب علم کو شریعت نے فی سبیل اللہ سے تعبیر کیا ہے“ آگے چل کر موصوف نے اس استدلال سے دامن جھاڑ لیا ہے یہ دراصل دو کشتی میں سوار ہونے کی کوشش ہے۔

بہرحال چونکہ موصوف نے شروع میں یہ استدلال بھی کیا تھا اور اس کی خاطر مذکورہ مردود روایت پیش کی تھی اس لئے اس روایت کی حقیقت واضح کردی گئی ہے۔
.
◈ ”مصلحت عامہ“
موصوف نے یہ تو کہہ دیا کہ ”فی سبیل اللہ“ میں مدارس نہیں آتے لیکن پھر ”مصلحت عامہ“ کی سب ہیڈنگ لگاکر کیا لکھتے ہیں اس پر بھی غور کریں ۔
موصوف لکھتے ہیں:
(((مصلحت عامہ : ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کو عام طور پر حکومت سے تعاون نہیں ملتا، اگر یہ مدارس بند ہو گئے تو شرعی منافع معطل ہو جائیں گے، بے دینی کو رواج ملے گا، جہالت کی بالادستی ہوگی، تشکیک، انکار اور استخاف کا رویہ عام ہوگا، حامیان کتاب وسنت کی قلت ہوگی، عوام الناس کی دینی ضرورت کی تکمیل میں تقصیر واقع ہوگی، یہ اور اس نوعیت کی دیگر مصلحتوں کی بنیاد پر مدراس اسلامیہ نسبتا زکات کے زیادہ اہل ہیں۔ کیونکہ دین کی حفاظت ضروریات خمسہ میں سے ہے، اور سب جانتے ہیں کہ مدارس اسلامیہ ہند عوام الناس کے تعاون سے ہی چلتا ہے، چاہے وہ تعاون عام تبرعات کے نام پر ہو یا صدقات و عطیات کے نام پر، یا پھر زکات کے نام پر )))

عرض ہے کہ:
① اولا:
غور فرمائیں کہ کیا یہاں گھما پھرا کر مدارس کو واپس سے( فی سبیل اللہ) میں شامل نہیں کردیا گیا ۔
”فی سبیل اللہ“ سے متعلق جو تیسرا قول ہے کہ ہر کار خیر اس میں شامل ہے تو ذرا بتلائیں مصلحت کے اس اصول سے کیا یہی بات نہیں کہی جارہی ہے۔
بس فرق یہ ہے کہ اسے بہت ضروی کار خیر بتلاکر زکاۃ کا مستحق بتلایا جارہاہے ؛ پھر آج مصلحت کے نام پر دینی مدارس کو ہر طرح کی زکاۃ کا مستحق بنایا گیا کل مصلحت کے نام پر کسی اور جگہ کو بنادیا جائے گا۔

② ثانیا:
اگر لفاظی کریں کہ نہیں مصلحت کی بات کرکے بھی آپ نے اسے ”فی سبیل اللہ“ میں شامل نہیں کیا ہے ۔
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے ایک نواں مصرف اپنی طرف سے بنالیا ہے اور وہ ہے ایسے دینی کام جن کا مصلحتا جاری رکھنا ضروری ہو۔
پھر یہ تو ”فی سبیل اللہ“ کے مصرف کو عام کرنے والوں سے بھی بڑی بات ہے کہ مصلحت کے نام پر آپ نے ایک خود ساختہ مصرف کا اضافہ کردیا ۔

③ ثالثا:
یہاں مصلحت کے نام پر فرض زکاۃ میں اس چیز کو جائز قرار دیا جا رہا ہے جسے فطرہ میں ناجائز قرار دیا ۔
یعنی زکاۃ الفطر میں زکاۃ غریب ہی کو دی جائے لیکن مصلحت کو دیکھتے ہوئے طعام کی جگہ نقد دے دیا تو یہ حرام ہوگا ۔
لیکن فرض زکاۃ میں مصلحت کو دیکھتے ہوئے اس کا مصرف ہی بدل دیا جائے تو جائز ہے ! سبحان اللہ !
زکاۃ الفطر میں کہا جاتا ہے کہ بعد میں غریبوں کے یہ حالات ہوں گے ۔ اللہ کو اس کا علم بھی پہلے سے ہے۔
تو یہی بات فرض زکاۃ میں بھی کہی جاسکتی ہے کہ بعد میں مدارس بنیں گے اللہ تعالی کو اس کا علم بھی پہلے سے ہے۔
اس کے باجود بھی اللہ نے زکاۃ کا مصرف مدارس کو نہیں بتایا ہے اس لئے زکاۃ کے مال میں مدارس کے لئے گنجائش نہیں ہے۔

یہاں پر ”فی سبیل اللہ“ سے متعلق ہماری بات ختم ہوتی ہے۔
ہم نے اچھی طرح سے واضح کردیا ہے کہ ”فی سبیل اللہ“ میں مدارس کو کسی بھی طرح سے اور کسی بھی نام سے شامل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
اس پرادلہ اربعہ میں سے کوئی دلیل نہیں ہے ۔
اور سب سے اہم بات یہ کہ یہ موقف منہج سلف کے خلاف ہے ۔
اس لئے جن مدارس میں فرض زکاۃ مدارس کے لئے لی جاتی ہے وہ اس مسئلہ میں منہج سلف سے ہٹے ہوئے ہیں جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا ہے۔

✿ مصرف ”غرباء ومساکین“ اور مدارس ۔
اب رہی بات یہ کہ مدارس میں ”غرباء ومساکین“ ہیں اس لئے مدارس کو زکاۃ دے سکتے ہیں تاکہ یہ ان پر خرچ کریں ۔
تو اب یہاں پر کئی سوالات کھڑے ہوتے ہیں مثلا:

فقیر و غریب کی ملکیت کا مسئلہ:
اگر غرباء ومساکین کے لئے زکاۃ وصولی جارہی ہے تو پھر سلف میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ غرباء و مساکین کو یہ مال دے کر انہیں اس کا مالک بنانا ضروری ہے۔
اور اب سوال یہ ہے کہ کیا مدارس میں واقعی فقراء ومساکین کے نام سے وصولی گئی زکاۃ کو فقیر ومسکین طلباء کو دے کر انہیں اس کا مالک بنادیا جاتا ہے۔
ارے مالک بنانا تو دور کی بات ایسے مال کا ایک حصہ تعمیراتی کام اور مدارس کے دیگر اخراجات میں لگ جاتا ہے۔
اور اگر فقیر ومسکین کو دیا بھی جاتا ہے تو اس میں مان مانی تصرف کرکے دیا جاتاہے۔
اب سوال یہ ہے کہ فطرہ اگر غریب کو دینا ہو تو اس میں فطرہ دینے والا کوئی تصرف نہیں کرسکتا عین طعام ہی غریب کو دینا ضروری ہے ۔
تو پھر فرض زکاۃ میں کیا ہر طرح کا تصرف اہل مدارس کے لئے جائز ہوگا ؟ اگر ہاں تو کس دلیل کی بنیاد پر؟
رہا وکالت کا حیلہ تو اس پر بات آگے ہوگی لیکن کیا فطرہ میں بھی یہ وکالت کا حیلہ چل سکتا ہے؟ اور کس حد تک چل سکتا ہے؟

”جاری ہے۔۔۔“

✿ ✿ ✿ ✿​
 
Top