ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 594
- ری ایکشن اسکور
- 188
- پوائنٹ
- 77
مدارس کو مصرف زکاۃ ”فی سبیل اللہ“ میں شامل کرنا ”منہج سلف“ کے خلاف ہے (1)
از قلم: کفایت اللہ سنابلی
فریق مخالف (دو نمبر منہجی کلیم الدین یوسف) نے ”فی سبیل اللہ“ کے مصرف کے بارے میں علماء کے اقوال نقل کرکے پہلے گول مول بات کرنے کی کوشش کی تھی ۔
لیکن انہیں اندازہ ہوگیا کہ یہ بات چلنے والی نہیں ہے اس لئے موصوف نے یہ تسلیم کیا ہے کہ مدارس زکاۃ کے مصرف ”فی سبیل اللہ“ میں نہیں آتے ۔
یہ سب تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ موصوف کو یہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کی ”فی سبیل اللہ“ میں مدارس کو شامل کرنا یہ ”منہج سلف“ کے خلاف ہے۔
جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
”صرف الزكاة إلى هذه المواضع إنما يتفرع من تعميم معنى سبيل الله في سبل الخير وهذا التفسير تفسير محدث لا يعرفه السلف الصالح“
”ان جگہوں (دعوت ، مساجد ، مدارس ، اسپتالوں) میں زکاۃ صرف کرنے کی بات اس وجہ سے کی جاتی ہے کیونکہ سبیل اللہ کو عام کرکے اس میں ہر کارخیر کو شامل کردیا گیا ہے، اور یہ تفسیر بعد کی ایجاد کردہ ہے سلف صالحین اس سے واقف نہ تھے“
...
علامہ البانی رحمہ اللہ ایک دوسرے درس میں فرماتے ہیں:
”نحن ندّعي الانتماء للسلف الصالح وهذا لأمر هام أعتقد أن كل من تبيّنه لا يسعه إلا أن يكون سلفي المشرب والمذهب ، ننتمي للسلف الصالح لأنهم هم الجيل الأول الذين تلقّوا الإسلام كتاباً وسنة من النبي صلى الله عليه وسلم لفظاً ومعنىً ثم هم الذين طبّقوه وجعلوه لهم مسلكاً ومنهجاً في حياتهم . هؤلاء لا نعلم عنهم أنهم توسّعوا في تفسير (( في سبيل الله )) ذلك التوسع“ .
”ہم منہج سلف صالحین سے چمٹنے کا دعوی کرتے ہیں ، اس کا ایک اہم تقاضا ہے ، میں سمجھتاہوں کہ جو شخص بھی منہج سلف کا دعوی کرے اسے خود سلفی المشرب والمذہب ہونا چاہے ، ہم منہج سلف صالحین سے اپنا تعلق ظاہر کرتے ہیں کیونکہ سلف وہ پہلی پیڑھی ہیں جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست کتاب وسنت لفظاً ومعنىً سیکھا ہے ، پھر انہوں نے ہی سب سے پہلے اس پر عمل کیا ہے اور اپنی زندگی میں اسے ہی اپنا مسلک اور منہج بنایا ہے ، ان کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے (( في سبيل الله )) میں اتنی وسعت دی ہے ہو۔“
هل يجوز بناء المساجد والإنفاق على الدُّعاة وغير ذلك من أموال الزكاة ؟
السائل : هل يجوز بناء المساجد في بلاد الكفر من أموال الزكاة ؟ وكذلك هل يجوز بناء المساجد في البلاد الإسلامية الفقيرة إذا تعذَّر وجود حكومة قادرة على بناء هذا من أموال الزكاة ؟ والشق الآخر من السؤال - ...
www.al-albany.com
یادرہے کہ موصوف نے ”فی سبیل اللہ“ سے مراد میں جو تیسرا قول (جس کی بناپر مدارس بھی شامل ہوتے ہیں) پیش کیا ہے ۔ وہ سلف کا قول نہیں موصوف نے آگے چل کر اتنا خود لکھا ہے کہ:
(((صاحب مرعاۃ عبید اللہ مباکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: تیسرے قول پر نہ قرآن مجید سے کوئی دلیل ہے، نہ ہی کسی صحیح حدیث سے حتی کہ ضعیف حدیث سے بھی اس کی دلیل نہیں ملتی، اور نہ ہی اجماع وقیاس سے دلیل موجود ہے، بل کہ یہ قول صحیح حدیث کے مخالف ہے، نیز اس عموم کے قائل سلف میں سے کوئی بھی نہیں، البتہ قفال نے اپنی تفسیر میں بعض مجہول فقہا سے، اور قاضی عیاض نے بعض غیر معروف علما سے نقل کیا ہے کہ فی سبیل اللہ سے مراد خیر وبھلائی کے تمام راستے ہیں۔ )))
یہاں موصوف نے علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کے الفاظ سے ایک اہم لفظ چھوڑ دیا ہے اور وہ ”صحابی“ کا لفظ ہے یعنی کسی صحابی سے مطلب اصل سلف سے بھی یہ لفظ ثابت نہیں ہے۔
ملاحظہ ہو علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کے الفاظ:
”وأما القول الثالث: فهو أبعد الأقوال لأنه لا دليل عليه لا من كتاب ولا من سنة صحيحة أو سقيمة ولا من إجماع، ولا من رأى صحابي ولا من قياس صحيح أو فاسد، بل هو مخالف للحديث الصحيح الثابت، وهو حديث أبي سعيد. ولم يذهب إلى هذا التعميم أحد من السلف إلا ما حكى القفال في تفسيره عن بعض الفقهاء المجاهيل، والقاضي عياض عن بعض العلماء الغير المعروفين“ [مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 6/ 241]
ترجمہ:
”اور جہاں تک تیسرے قول کی بات ہے تو وہ تمام اقوال میں سب سے بعید قول ہے کیونکہ اس پر نہ تو قرآن سے دلیل ہے ، نہ صحیح یا ضعیف حدیث سے دلیل ہے ، نہ اجماع سے دلیل ہے ، نہ کسی صحابی کے قول سے دلیل ہے ، نہ قیاس صحیح نہ قیاس فاسد سے دلیل ہے بلکہ یہ ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ کی صحیح اور ثابت حدیث کے خلاف ہے ، اور سلف میں سے کسی ایک نے بھی فی سبیل اللہ کو اس طرح عام نہیں مانا ہے ، لے دے کر صرف اتنی سی بات ہے کہ قفال نے بعض مجہول فقہاء اور قاضی عیاض نے بعض غیر معروف علماء سے اسے نقل کیا ہے“
[مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 6/ 241]
معلوم ہوا کہ متاخرین سلف کی طرح اصل سلف یعنی صحابہ میں بھی کوئی اس تیسرے قول کا قائل نہیں ہے۔ اور قفال اور قاضی عیاض نے جن متاخرین سلف سے نقل کیا ہے وہ بھی مجہول ونامعلوم لوگ ہیں ۔
مطلب اظہر من الشمس ہے کہ یہ قول ”منہج سلف“ کے خلاف ہے ۔ لہٰذا جو لوگ ہر بات میں منہج سلف پر گامزن رہنے کا دعوی کرتے ہیں اور اس یتیم قول کو گلے لگائے پھرتے ہیں انہیں کم ازکم یہ اعتراف کرلینا چاہئے کہ اس مسئلہ میں وہ ”منہج سلف“ پر چلنے سے قاصر ہیں۔
(جاری ہے ۔۔۔۔)
✿ ✿ ✿
Last edited: