• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مدخلی فرقہ ایمان کے ضوابط و شروحات میں غالی مرجئہ

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
مدخلی فرقہ ایمان کے ضوابط و شروحات میں غالی مرجئہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آج کے دور میں سلفی منہج کے سب سے بڑے دشمن مدخلیوں کو جب مرجئہ کہا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم مرجیہ نہیں، مرجیہ تو صرف احناف ہیں کہ ہم تو عمل کو اصل اور مرکب ایمان میں شامل ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور ایمان کا گھٹنا بڑھنا بھی مانتے ہیں۔

جبکہ یہ مرجئہ مدخلی (جو ارجائی دلائل سے مشرکین اور طواغیت کا دفاع کرتے ہیں) بالکل نہیں جانتے کہ ایمان میں جس اہلسنہ کے اصول (یعنی عمل کا ایمان میں شامل ہونا) کو مانا ہے۔ وہ اس اصول کی تطبیق اور ایمان کی شروحات میں اس اصول کا خلاف کر دیتے ہیں۔

مثلاً ایک طرف یہ اہلسنت کے ایمان کی تعریف اور اصولوں کو مانتے ہیں کہ ایمان اعتقاد، قول اور عمل کا نام ہے اور کمال ایمان اعمال صالحہ سے ایمان بڑھتا اور اس کے منافی سے اعمال گھٹتا ہے اور ایمان و توحید ایمان کا اصل اثبات ہیں اور اس کے منافی شرکیہ وکفریہ تینوں صورتوں کفریہ اعتقاد، کفریہ قول اور کفریہ عمل سے بھی ایمان خارج ہو جاتا ہے اور وہ شخص کافر ومرتد ہو جاتا ہے۔

لیکن دوسری طرف یہ ان اہلسنہ کے اصول ایمان کا اپنے ارجائی دلائل سے اس کی شروحات میں خلاف کر دیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہم مانتے ہیں کہ غیر اسلامی شرکیہ قوانین کو نافذ کرنے اور اسے حکم اور قانون ٹھرانا اصل ایمان کے منافی کفر وشرک ہے۔ لیکن یہ ارجاء کی شروحات اپناتے ہوئے کہیں گے لیکن یہ شرک وکفر کرنے والا کافر ومرتد نہیں کیونکہ وہ صرف عمل میں یہ کفر کر رہا ہے اور دل و اعتقاد میں وہ اللّٰہ کے تمام احکام وقوانین اور حلال وحرام پر اعتقاداً ایمان لاتا ہے اور اللہ کی شریعت کو دل میں غیر اسلامی قوانین سے بہتر سمجھتا ہے۔ اس لیے یہ گناہ گار و ظالم ہے لیکن کافر نہیں۔!!!

نیز، یہ مرجیہ اہلسنہ کا یہ اصول تسلیم کریں گے کہ مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنا اصل ایمان کے منافی اور صریحاً کفر ہے، لیکن اس اصول کی شرح میں ارجائی دلیل اپنائیں گے اور کہیں گے کہ

صرف اپنے نفس اور دنیا کی خاطر عمل سے مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کرنے سے کوئی کافر نہیں ہوگا جبکہ وہ دل میں اسے گناہ سمجھتا ہو اور دل میں اسلام اور مسلمانوں کو حق پر سمجھتا ہو اور ان کی فتح چاہتا ہو۔ ان مرجیہ کے نزدیک یہ کفر اسی صورت میں ہوگا جب کوئی دل اور اعتقاد سے مسلمانوں کے خلاف کافروں کی مدد کو جائز اور حلال سمجھتا ہو اور دل سے کفار کوحق پر اور ان کی فتح چاہتاہو۔!!!

یعنی یہ مداخلہ اصول ایمان کے ضوابط و شروحات میں غالی مرجیہ کی طرح صرف دل سے اصل ایمان و کفر کے قائل ہیں۔ پھر یہ مدخلی دعویٰ کریں گے کہ ہم مرجیہ نہیں ہم بھی اہلسنت کی طرح (صرف) تعریف میں عمل کو ایمان میں شامل سمجھتے ہیں۔

سلف صالحین نے ایسے ارجائی دلائل سے مرتد حکمرانوں اور اہل کفر کا دفاع کرنے والوں کو بھی مرجیہ قرار دیا یے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

"دوسری انتہاء پر مرجئہ اور اس قسم کے دوسرے لوگ ہیں جو حکمرانوں کی اطاعت مطلق کے مسلک پر چلتے ہیں چاہے وہ نیکوکار (ایمان و توحید والے) نہ بھی ہوں... انہوں نے یہ سمجھا ہے کہ ایمان مجرد تصدیق اور دل کے علم کا نام ہے، انہوں نے دل کے اعمال کو ایمان میں شمار نہیں کیا ان کا گمان ہے کہ انسان اپنے دل (اعتقاد) سے مومن ہو سکتا ہے، خخواہ اپنے عمل سے) اللّٰہ اور اس کے رسول کو گالیاں ہی کیوں نہ دیتا ہو، خواہ اللّٰہ تعالٰی اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اللّٰہ کے دوستوں سے عداوت و دشمنی رکھتا ہو، خواہ انبیاء کو قتل کرتا ہو، مساجد کو مسمار کرتا ہو، قرآن کی بے حرمتی کرتا ہو کافروں کا انتہائی اکرام و احترام کرتا ہو اور اہل ایمان کو رسوا اور ان کی اہانت کرتا ہو، کہتے ہیں یہ سارے اعمال گناہ تو ہیں مگر اس ایمان کے منافی (خارج کرنے والے) نہیں جو دل میں ہے۔"

[مجموع الفتاویٰ: ۱۸۸-۷/۲۸-۵۰۸]

امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

"ان (مرجئہ) کی بات کی بنیاد ہی غلط ہے جو اہل اسلام کے اجماع سے خارج ہے اور وہ یہ کہ وہ کہتے ہیں ایمان صرف دل کی تصدیق کا نام ہے اگرچہ (عمل سے) کفر کا اعلان ہو۔"

[کتاب الفصل: ٣-٢٤٢]


مرجیہ کہتے ہیں کہ جو اسلام یا اس کے کسی بنیادی حکم کا انکار کر دے تو وہ شخص کافر ہوگا لیکن اس کے منافی محض عمل سے کافر نہیں ہوگا۔ سلف صالحین نے مرجیہ کے اس شبہ کا رد کیا ہے۔

امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

"جو (مرجئہ) کہتے ہیں کہ کفر صرف (دل سے اسلام کی) تکذیب اور انکار (کی صورت میں ہوتا) ہے۔ تو پھر اس باب (حکم المرتد) کا کیا مطلب ہے جو ہر مذہب کے علماء نے باندھا ہے اور مرتد ایسا مسلمان ہوتا ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد کافر ہو جاتا ہے۔ حتی کہ علماء نے کئی اعمال بتائے ہیں جن کا (اعتقاد کے بغیر) محض ہنسی مزاق میں کرنے سے آدمی مرتد ہو جاتا ہے۔"

[کشف الشبھات: ۳۲]

امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

"ایمان کے حصے دو قسموں پر ہیں قولی اور فعلی، اس طرح کفر کے حصے دو قسموں پر ہیں قولی اور فعلی… ان دونوں میں سے ایک حصہ زائل ہونے سے ایمان زائل ہو جاتا ہے۔ "

[کتاب الصلوۃ]


شخ ابو محمد مرجیہ کے رد میں کہ جو کہتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ کفر کے لیے اعتقاد سے خلاف شرط ہے اور محض عمل سے کوئی کافر نہیں ہوگا ابن قدامہ المقدسی کا یہ حوالہ نقل کرتے ہیں۔

ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

"جادو سیکھنا اور سکھانا حرام ہے ہم نہیں جانتے کہ اس میں اہل ععلم اہلسنت) کا اختلاف ہو ہمارے ساتھی کہتے ہیں جادوگر جادو سیکھنے اور کرنے (کے عمل) سے کافر ہو جاتا ہے چاہے (دل سے) اس کو حرام سمجھے یا حلال۔"

[المغنی: ۸-۵۱]

مرجیہ کہتے ہیں کہ صرف جو کفر کو کفر جان کر ارتکاب کرے گا تو پھر ہی کافر ہوگا۔ سلف صالحین نے مرجیہ کے اس شبہ کا بھی رد کیا ہے۔

شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ اس آیت "لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ" کے تحت رقم طراز ہیں :

’’اس میں دلیل ہے کہ انہوں نے اس فعل کو کفر سمجھ کر نہیں کیا تھا۔ بلکہ ان کا گمان تھا کہ یہ کفر نہیں ہے۔پس واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ، اس کی آیات اور اِس کے رسول کے ساتھ استہزا کرنا کفر ہے۔ اس سے بندہ اپنے ایمان کے بعد کافر ہو جاتا ہے۔ اس میں یہ دلیل ہے کہ ان کے پاس ضعیف ایمان تھا۔ پس انھوں نے وہ حرام کام کیا جس کے بارے میں وہ جانتے تھے کہ وہ حرام ہے لیکن انھوں نے اسے کفر نہیں سمجھا تھا، حالانکہ وہ کفر تھا جس کے ساتھ وہ کافر ہو گئے۔ بے شک انھوں نے اس کے جواز کا عقیدہ بھی نہیں رکھا تھا۔‘‘

[مجموع الفتاویٰ]

نیز شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

"جس نے (عمل سے) کچھ ایسا کہا یا کیا جو کفر ہے تو اس سے وہ کافر ہوا، اگرچہ وہ کافر ہونے کا قصد نہ بھی کرے کیونکہ کوئی بھی کفر کا ارادہ نہیں کرتا۔"

[الصارم المسلول: ۱۷۸]


امام ابنِ حجر ابنِ ہبیرۃ سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا :

’’اس میں یہ بھی ہے کہ بعض مسلمان دین سے خارج ہونے کا ارادہ کیے بغیر اور دینِ اسلام پر کسی اور دین کو اختیار کیے بغیر بھی (محض اپنے کفریہ عقائد و اعمال ہی کی بنا پر) دین سے خارج ہو جاتے ہیں۔‘‘

[فتح الباري: ۱۲-۳۰۱]

امام ابنِ جریر طبری خوارج کے متعلق احادیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

’’اس میں اس شخص کے قول پر رد ہے جو کہتا ہے کہ اہلِ قبلہ میں سے کوئی بھی دائرہ اسلام سے نکلنے کے حکم کا استحقاق رکھنے کے بعد بھی اس سے خارج نہیں ہوگا مگر یہ کہ وہ جان بوجھ کر اپنے قصد اور ارادے کے ساتھ اسلام سے خارج ہو۔‘‘

[تہذیب الآثار]

امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

"اس میں اختلاف نہیں کہ توحید لازماً دل، زبان اور عمل کے ذریعے سے ہوگی، اور اگر ان میں سے کوئی چیز کم ہوئی تو آدمی مسلمان نہیں۔ اور اگر توحید کو جان کر (یعنی اعتقاد رکھ کر) اس پر عمل نہ کرے وہ سرکش کافر ہے فرعون اور ابلیس اور ان جیسے دیگر کافروں کی طرح اور اس میں بہت سے لوگ غلطی کر جاتے ہیں۔"

[کشف الشبھات: ۲۸]

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

"جو عمل سے پھر گیا اس نے ایمان کی نفی کی قرآن و سنت میں اس شخص کے ایمان کی نفی کی گئی ہےجو شخص دلی طور پر توحید سے واقف ہو مگر مخالفت و دشمنی کی بنا پر وہ کبھی مومن نہیں کہلا سکتا جبکہ جہمیہ(و مرجیہ) کے نزدیک اگر دل میں علم ہو تو وہ کامل مومن ہے۔"

[فتاویٰ ابن تیمیہ]

ارشاد باری تعالٰی ہے :

إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَى
.
بیشک جو لوگ اس کے بعد کہ ان پر ہدایت ظاہر ہوگئی اپنی پیٹھوں کے بل پلٹ گئے۔

[سورۃ محمد: ۲۵]

امام ابن حزم اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں :

"اللّٰہ نے انہیں کافر قرار دیا بعد اس کے کہ انہیں حق کا علم ہوچکا تھا اور ہدایت واضح ہوچکی تھی صرف ان کے اس قول کی بنا پر جو انہوں نے کفار کو کہاتھا انہیں کافر کہا گیا ہے اور اللّٰہ نے ہمیں بتا دیا ہے کہ وہ ان کے دلوں کے راز جانتا ہے اور اللّٰہ نے یہ نہیں کہا کہ یہ انکار یا تصدیق ہے بلکہ صحیح تو یہ ہے کہ ان کے باطن میں تصدیق ہے کیونکہ ہدایت ان پر واضح ہوچکی ہے اور جس پر ہدایت واضح ہو جائے تو اس کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ دل سے انکار کر سکے۔"

[کتاب الدرہ فیما یجب اعتقاد: ۳۲۹۰]

اس لیے اللّٰہ تعالٰی نے کفر و ارتداد کے احکام کو ظاہری اعمال کا مکلف بنایا ہے نہ کہ اعتقادی اور باطنی۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

إِنِّي لَمْ أُومَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ ، وَلَا أَشُقَّ بُطُونَهُمْ
"مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں کو کریدوں اور یہ کہ ان کے پیٹ پھاڑ کر دیکھوں۔"

[صحیح بخاری: ٤٣٥١]


حضرت عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا :

إن ناسا كانوا يُؤْخَذُونَ بالوحي في عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وإن الوحي قد انقطع، وإنما نأخذكم الآن بما ظهر لنا من أعمالكم، فمن أظهر لنا خيرًا أَمَّنَّاهُ وقَرَّبْنَاهُ، وليس لنا من سريرته شيء، الله يحاسبه في سريرته، ومن أظهر لنا سوءًا لم نأمنه ولم نصدقه وإن قال: إن سريرته حسنة

"رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں لوگوں کا مواخزہ وحی کے ذریعے ہو جاتا تھا لیکن اب وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا اب تو ہم ظاہری اعمال پر مواخزہ کریں گے جس آدمی کے ہمارے سامنے اچھے اعمال ظاہر ہوں گے تو ہم اس کو امن دیں گے اور ہمیں اس کے پوشیدہ اعمال کا کچھ واسطہ نہیں اس کے پوشیدہ اعمال کا محاسبہ اس سے اللّٰہ کرے گا اور جو ہمارے سامنے ظاہراً برے اعمال کرے گا تو ہم اسے نہ امن دیں گے اور نہ اس کی بات مانیں گے اگرچہ وہ کہے کہ اس کی باطنی کیفیت اچھی ہے۔"

[رواه البخاري]
 
Top