نبی تو تہجد کے وقت تراویح پڑھتے تھے اور اہل حدیث عشاء کے ساتھ ہی اسے متصلا پڑھتے ہیں، تو یہ بھی ایک نیا کام ہی ہو گیا۔
1۔ نیا کام تو تب ہوتا جب اہل حدیث قیام الیل یا تراویح کی نماز تہجد کے وقت کے علاوہ پڑھتے۔ اس پر حنفی ہوں یا اہل حدیث کسی کا کوئی اختلاف نہیں کہ تہجد کا وقت عشاء کے بعد سے لے کر فجر تک ہے اور اہل حدیث اسی وقت کے اندر تراویح کے قائل و فائل ہیں۔
2۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان میں قیام اللیل (تروایح) شروع رات میں یہاں تک کے تہائی رات ہی گزری، اسی طرح آدھی رات تک اور پھر آخر رات تک ثابت ہے۔ دیکھئے سنن ابو داود:حدیث1375
3۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عشاء کے فورا بعد قیام اللیل کی پہلی چار رکعتیں اور پھر سو کر اٹھنے کے بعد بقیہ پانچ رکعتیں پڑھنا ثابت ہے۔ دیکھئے صحیح بخاری: حدیث117، ابو داود:حدیث1357
ان روایات سے بالکل ثابت ہوتا ہے کہ قیام اللیل، تراویح یا تہجد کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے شروع ہو جاتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے شروع، درمیان اور آخر میں نماز ثابت ہے۔
نبی نے تین دن تراویح پڑھائی تھی، اور ہم تیس کے تیس دن پڑھاتے ہیں۔
1۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن جماعت کے ساتھ نماز تراویح پڑھ کر اس کی مشروعیت ثابت کر دی اور اسے ہرگز منسوخ نہیں کیا بلکہ صرف اس لئے چھوڑ دیا کہ کہیں فرض نہ ہو جائے۔ نیز فرمایا:
"جب کوئی شخص امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے اور اس کے فارغ ہونے تک اس کے ساتھ رہتا ہے تو اس کے لئے پوری رات کا قیام شمار کی جاتا ہے۔"
(سنن ابو داود:حدیث1375)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ قولی حدیث بھی جماعت کے ساتھ قیام کو ثابت کرتی ہے اور اس سے منع کی یا اس فضیلت کو حاصل کرنے سے روکنے کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ لہٰذا جماعت کے ساتھ قیام افضل ہے۔ جو ایک رات قیام کرے گا وہ ایک رات کی فضیلت پائے گا جو تیس رات کرے گا وہ تیس کی فضیلت پائے گا۔ نیز صحابہ کرام کے عمل اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عمل کی تائید سے بھی امام کے ساتھ قیام ثابت ہے۔ چنانچہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی ایک رات لوگوں کو مسجد میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز ادا کرتے دیکھا اور اس کو صحیح قرار دیا نیز نا پسند نہ کیا۔ دیکھئے معرفۃ السنن والآثار للبیہقی: حدیث 1363
شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
"۔۔۔۔جو اعتراض کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تین دن جماعت کرائی ہے، اس لئے اہل حدیث بھی تین دن پڑھیں، یہ اعتراض غلط ہے، قولی، فعلی اور تقریری ہر (طرح کی) صحیح حدیث حجت ہے۔"
(تعداد رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ:ص71)
یاد رہے کہ سینا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں گیارہ رکعات مع وتر با جماعت پڑھانے کا حکم دیا تھا اور یہ بات بھی دلیل ہے کہ با جماعت گیارہ رکعتیں پڑھنا چاہئیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی اقتداء و اطاعت کا حکم دے رکھا ہے۔ دیکھئے سنن ترمذی: حدیث3662
لہٰذا سیدنا عمر فاروق کے گیارہ رکعات والے حکم کی پیروی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی پیروی میں داخل ہے کیونکہ سیدنا عمر فاروق کے اس حکم کے خلاف ایک بھی مرفوع صحیح حدیث موجود نہیں۔ والحمدللہ۔