- شمولیت
- ستمبر 26، 2011
- پیغامات
- 2,767
- ری ایکشن اسکور
- 5,410
- پوائنٹ
- 562
دھماکہ ہو چکا تھا، حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر میوہسپتال منتقل ہو چکے تھے۔ میں عیادت کے لئے ان کے بھائی شکور الٰہی رحمہ اللہ کے ہمراہ حاضر ہوا۔ حضرت علامہ نے موٹی موٹی خوبصورت آنکھیں کھولیں۔ مجھے اور ساتھ کھڑے احباب پر نظر ڈالی اور ایک ہی لفظ ادا فرمایا۔ ''دعا'' اور پھر درد اور نقاہت کے باعث آنکھیں دوبارہ بند ہو گئیں۔میں پرنم آنکھوں کے ساتھ پلٹ آیا اور ساری راہ ذہن میں یادوں کی فلم چلتی رہی۔ میں جب لاہور میں پڑھا کرتا تھا تو علامہ صاحب میرے محبوب خطیب تھے۔ میں اندرون لاہور چینیاں والی مسجد میں ان کا خطبہ جمعہ سننے کے لئے اگلی صف میں ان کے سامنے جا بیٹھتا تھا۔ جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو متعدد مرتبہ حضرت علامہ کے ساتھ تقریر کا بھی موقع ملا۔۔۔ ان تقاریر کے بعد علامہ صاحب کی محبت و شفقت اور توجہ حاصل ہوئی۔ علامہ صاحب نے اب مجھے اپنی مجلس شوریٰ کا ممبر بنا لیا۔ مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا تو اس میں بھی مجھے بلا لیا۔ میری عمر کے نوجوان ''یوتھ فورس'' میں تھے مگر حضرت علامہ کی یہ شفقت تھی کہ مجھے جماعت کے اجلاسوں میں بٹھانا شروع کر دیا۔
میں نے ایک یتیم بچے کی سفارش کی تو علامہ صاحب نے اس کے لئے ماہانہ وظیفہ لگا دیا۔ شاہ کوٹ میں ہائی سکول نمبر 1میں عربی کا استاد بن کر گیا تو وہاں بلدیہ کے چیئرمین چوہدری محمد ارشد ساہی کے ساتھ مل کر جلسہ رکھ دیا۔ شاہ کوٹ کی تاریخ میں بلدیہ چوک میں اہل توحید کا یہ پہلا جلسہ عام تھا۔ اس دور کی ویڈیو نیٹ پر دیکھی جا سکتی ہے۔ آغاز میں تقریر میں نے کی۔ کسی نے توجہ دلائی کہ بات مختصر کریں، حضرت علامہ نے اسے روک دیا اور فرمایا! امیر حمزہ کو مت روکیں اور مجھے فرمایا، اپنی بات جاری رکھیں۔۔۔ ان کی اس حوصلہ افزائی نے ان کی محبت کا نقش دل میں اور گہرا کر دیا اور پھر نعروں کی گونج میں حضرت علامہ کو میں نے خطاب کی دعوت دی۔ اس دعوتی خطاب اور اس کے اثرات کو یاد کر کے آج بھی مسحور ہو جاتا ہوں۔۔۔
یہ بات بھی دماغ میں گردش کر رہی تھی کہ لارنس روڈ پر جو کوٹھی حضرت علامہ نے خریدی تھی، وہاں جمعیت اہلحدیث کا دفتر قائم کر دیا تھا۔۔۔ شاہ کوٹ کی بلدیہ کے اس وقت کے ممبر مہر عبدالغفار صاحب نے مجھے عجب واقعہ سنایا۔ کہنے لگے! حمزہ صاحب۔۔۔ ہم لاہور گئے، چیئرمین ارشد ساہی صاحب اور باقی ممبران ہمراہ تھے۔ ہم نے سوچا کہ حضرت علامہ سے مل کر چلتے ہیں چنانچہ ہم مرکز اہل حدیث لارنس روڈ پر حضرت علامہ کے پاس حاضر ہو گئے۔ آپ پروگراموں کی بھرمار کی وجہ سے تھکے ہوئے تھے۔ کرسی پر بیٹھے تھے اور جسمانی آرام کی خاطر اپنی ٹانگیں میز پر دراز کئے ٹیک لگائے ہوئے تھے، ہم نے مصافحہ کیا اور بیٹھ گئے۔ اب ہمارا تعارف ہونے لگا وہ سنتے رہے اور پھر اچانک انہوں نے ٹانگیں نیچے کر لیں۔ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے! حمزہ صاحب کا کیا حال ہے؟ مہر عبدالغفار صاحب بتلا رہے تھے کہ ہم حضرت علامہ صاحب کے اس رویے پر بڑے خوش ہوئے کہ حضرت علامہ نے ہمارے دنیاوی مرتبے اور مالداری وغیرہ کو کوئی اہمیت نہ دی۔ مہمان نوازی کا حق تو ادا کیا مگر احترام اور محبت کا غائبانہ سلوک جو حمزہ صاحب! آپ کے ساتھ کیا، اس نے ہماری آنکھیں کھول دیں کہ علامہ صاحب کی نگاہوں میں اہل علم کی قدر کس قدر ہے؟ علامہ صاحب کے اس رویے نے ہمارے دلوں میں علامہ صاحب کے مقام و مرتبے کو اور بھی بڑھا دیا۔۔۔ الغرض! یہ ساری باتیں ذہن میں فلم کی طرح چل رہی تھیں۔۔۔ اور پھر یہ کہ علامہ صاحب نے کوٹھی کے ملبے کو صاف کر کے وہاں مجلس شوریٰ کا اجلاس بلایا تھا۔ میں بھی ممبر کی حیثیت سے اس میں شامل ہوا تھا اور یہ مژدہ سنا تھا کہ اب یہاں ایک بڑا مرکز بنے گا۔ اور یہ بات کہ ''باران توحید'' نامی کتاب جسے میں نے اپنے ہاتھ سے کتابت کر کے شائع کروایا تھا، اس کا نسخہ حضرت علامہ صاحب کے گھر میں شادمان کالونی میں پیش کیا تھا اور گزارش کی تھی کہ اس پر مقدمہ تحریر فرما دیں۔۔۔ انہوں نے کتاب رکھ لی، لکھنے کا وعدہ کر لیا۔۔۔ اس روز ان کی طبیعت کافی خراب تھی، بخار بھی تھا اور نزلہ بھی۔۔۔ میں نے حضرت علامہ کو دبانا شروع کر دیا، وہ روکتے رہے مگر میں نے تھوڑا سا دبا کر سعادت حاصل کر ہی لی۔ یہ سارے مناظر میرے سامنے تھے، آنکھوں میں نمی اور تیرگی تھی اور پھر!
اس دن تو میں پھوٹ پھوٹ کر رویا، جب ننکانہ میں ریڈیو پر میں نے خبر سنی کہ حضرت علامہ ریاض کے شاہی ہسپتال میں وفات پا گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کتنے ہی تیس مارچ گزر گئے، یادیں آج بھی ذہن میں تازہ ہیں۔۔۔ سوچتا ہوں انہیں دنیا کے مختلف ملکوں کے سربراہوں کی طرف سے علاج کی پیشکشیں موجود تھیں، طیارے بھیجنے کی درخواستیں تھیں مگر علامہ صاحب سعودی عرب میں گئے، مدینہ منورہ میں وہ پڑھے تھے، مدینہ یونیورسٹی کے وہ طالب علم تھے، زخمی لاہور میں ہوئے مگر پہنچ مدینہ میں گئے، میرے سامنے شاہ مدینہ کا فرمان آ گیا ہے، میرے حضورﷺنے فرمایا: ''جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی روح کسی خطے میں قبض کرنا چاہتے ہیں تو اس علاقے میں اس بندے کی کوئی ضرورت پیدا کر دیتے ہیں۔ (مسند احمد)۔۔۔جی ہاں! اللہ نے اپنے بندے احسان الٰہی ظہیر کے علاج کی ضرورت سعودیہ میں پیدا کر دی۔ ادھر وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے اور جہاز ان کے جسد خاکی کو لے کر مدینہ منورہ کی فضاؤں میں داخل ہو گیا۔ حضرت علامہ میرے حضورﷺ کی مسجد میں پہنچ گئے۔ وہاں حرمِ مدنی میں ان کا جنازہ ہوا۔ ''بقیع الغرقد'' میں وہ مدفون ہوئے۔۔۔ میں جب ان کے وہاں دفن ہونے کے کئی سال بعد مدینہ منورہ میں گیا تو مدینہ یونیورسٹی بھی گیا، وہاں اس وقت جو طلباء زیر تعلیم تھے وہ مجھے بقیع میں لے گئے۔ مولانا افضل صاحب نے مجھے بتلایا کہ یہ قبر حضرت امام مالک رحمہ اللہ کی ہے اور ان کے ساتھ یہ قبر حضرت علامہ شہید رحمہ اللہ کی ہے۔اللہ جس کو مقام عطا فرمائے، جس کو اپنی رحمت کا سائبان عطا فرمائے، وہ بڑا رحیم و کریم ہے۔ علامہ صاحب پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوا۔۔۔ اس قبرستان میں جگہ ملی جہاں دس ہزار صحابہ مدفون ہیں۔ مومنوں کی مائیں، حضورﷺ کی بیٹیاں، اہل بیت اور تابعین اور پھر صلحاء و شہداء کا تو کوئی شمار نہیں۔ وہاں جگہ ملی تو امام مدینہ کے پڑوس میں، مؤطا جو حدیث کی اولین کتاب ہے اس کے لکھنے والے حضرت امام مالک کے پڑوس میں۔ (سبحان اللہ)
حضورﷺ کے فرمان کے مطابق مدینہ منورہ میں مرنے کی خواہش و کوشش کرو جو یہاں فوت ہو گیا، میں اس کی سفارش کروں گا۔۔۔ (مسند احمد، ابن حبان) اللہ اللہ! جب قیامت کا دن ہو گا تو حضورﷺ نے فرمایا، سب سے پہلے میری قبر کھلے گی، میرے ساتھ ابوبکرؓ اور عمرؓ اٹھیں گے۔ پھر میں بقیع میں آؤں گا اور یہاں مدفون لوگ میرے ساتھ اٹھیں گے۔۔۔ حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر کی قسمت کے کیا کہنے کہ وہ قیامت کے دن اٹھیں گے تو حضورﷺ کے صحابہ، تابعین اور ابرار کے ساتھ اٹھیں گے۔
قارئین کرام! آیئے۔۔۔! ہم بھی دعا کریں، اے مولا کریم جی! مدینے میں موت اور بقیع میں مدفن عطا فرما دیجئے۔۔۔ اور اگر ایسا قسمت میں نہ ہو تو حوض کوثر پر اپنے پیارے رسولﷺ کے مبارک ہاتھوں سے جام ضرور پلا دیجئے اور جنت میں اپنے نبی کریمﷺ کے قافلے کے ہمراہ داخل فرما دیجئے۔ حضرت علامہ کے ہونہار فرزند ابتسام الٰہی ظہیر حفظہ اللہ کو مزید توفیق عطا فرما دیجئے کہ ہمارے شہید قائد کا مرکز کتاب و سنت کی خوشبو سے صدا مہکتا رہے۔ اللہ نے انہیں بھی علامہ ابن علامہ بنا دیا ہے اپنے والد گرامی کے ساتھ میری نسبتوں اور قربتوں کو دیکھ کر عزت کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں گھر میں میری اور قاری محمد یعقوب شیخ کی دعوت بھی کی۔ دعا ہے اللہ ان کی عزتوں میں اضافہ فرمائے اور اپنے دین کا کام لے۔ (آمین)
میں نے ایک یتیم بچے کی سفارش کی تو علامہ صاحب نے اس کے لئے ماہانہ وظیفہ لگا دیا۔ شاہ کوٹ میں ہائی سکول نمبر 1میں عربی کا استاد بن کر گیا تو وہاں بلدیہ کے چیئرمین چوہدری محمد ارشد ساہی کے ساتھ مل کر جلسہ رکھ دیا۔ شاہ کوٹ کی تاریخ میں بلدیہ چوک میں اہل توحید کا یہ پہلا جلسہ عام تھا۔ اس دور کی ویڈیو نیٹ پر دیکھی جا سکتی ہے۔ آغاز میں تقریر میں نے کی۔ کسی نے توجہ دلائی کہ بات مختصر کریں، حضرت علامہ نے اسے روک دیا اور فرمایا! امیر حمزہ کو مت روکیں اور مجھے فرمایا، اپنی بات جاری رکھیں۔۔۔ ان کی اس حوصلہ افزائی نے ان کی محبت کا نقش دل میں اور گہرا کر دیا اور پھر نعروں کی گونج میں حضرت علامہ کو میں نے خطاب کی دعوت دی۔ اس دعوتی خطاب اور اس کے اثرات کو یاد کر کے آج بھی مسحور ہو جاتا ہوں۔۔۔
یہ بات بھی دماغ میں گردش کر رہی تھی کہ لارنس روڈ پر جو کوٹھی حضرت علامہ نے خریدی تھی، وہاں جمعیت اہلحدیث کا دفتر قائم کر دیا تھا۔۔۔ شاہ کوٹ کی بلدیہ کے اس وقت کے ممبر مہر عبدالغفار صاحب نے مجھے عجب واقعہ سنایا۔ کہنے لگے! حمزہ صاحب۔۔۔ ہم لاہور گئے، چیئرمین ارشد ساہی صاحب اور باقی ممبران ہمراہ تھے۔ ہم نے سوچا کہ حضرت علامہ سے مل کر چلتے ہیں چنانچہ ہم مرکز اہل حدیث لارنس روڈ پر حضرت علامہ کے پاس حاضر ہو گئے۔ آپ پروگراموں کی بھرمار کی وجہ سے تھکے ہوئے تھے۔ کرسی پر بیٹھے تھے اور جسمانی آرام کی خاطر اپنی ٹانگیں میز پر دراز کئے ٹیک لگائے ہوئے تھے، ہم نے مصافحہ کیا اور بیٹھ گئے۔ اب ہمارا تعارف ہونے لگا وہ سنتے رہے اور پھر اچانک انہوں نے ٹانگیں نیچے کر لیں۔ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے! حمزہ صاحب کا کیا حال ہے؟ مہر عبدالغفار صاحب بتلا رہے تھے کہ ہم حضرت علامہ صاحب کے اس رویے پر بڑے خوش ہوئے کہ حضرت علامہ نے ہمارے دنیاوی مرتبے اور مالداری وغیرہ کو کوئی اہمیت نہ دی۔ مہمان نوازی کا حق تو ادا کیا مگر احترام اور محبت کا غائبانہ سلوک جو حمزہ صاحب! آپ کے ساتھ کیا، اس نے ہماری آنکھیں کھول دیں کہ علامہ صاحب کی نگاہوں میں اہل علم کی قدر کس قدر ہے؟ علامہ صاحب کے اس رویے نے ہمارے دلوں میں علامہ صاحب کے مقام و مرتبے کو اور بھی بڑھا دیا۔۔۔ الغرض! یہ ساری باتیں ذہن میں فلم کی طرح چل رہی تھیں۔۔۔ اور پھر یہ کہ علامہ صاحب نے کوٹھی کے ملبے کو صاف کر کے وہاں مجلس شوریٰ کا اجلاس بلایا تھا۔ میں بھی ممبر کی حیثیت سے اس میں شامل ہوا تھا اور یہ مژدہ سنا تھا کہ اب یہاں ایک بڑا مرکز بنے گا۔ اور یہ بات کہ ''باران توحید'' نامی کتاب جسے میں نے اپنے ہاتھ سے کتابت کر کے شائع کروایا تھا، اس کا نسخہ حضرت علامہ صاحب کے گھر میں شادمان کالونی میں پیش کیا تھا اور گزارش کی تھی کہ اس پر مقدمہ تحریر فرما دیں۔۔۔ انہوں نے کتاب رکھ لی، لکھنے کا وعدہ کر لیا۔۔۔ اس روز ان کی طبیعت کافی خراب تھی، بخار بھی تھا اور نزلہ بھی۔۔۔ میں نے حضرت علامہ کو دبانا شروع کر دیا، وہ روکتے رہے مگر میں نے تھوڑا سا دبا کر سعادت حاصل کر ہی لی۔ یہ سارے مناظر میرے سامنے تھے، آنکھوں میں نمی اور تیرگی تھی اور پھر!
اس دن تو میں پھوٹ پھوٹ کر رویا، جب ننکانہ میں ریڈیو پر میں نے خبر سنی کہ حضرت علامہ ریاض کے شاہی ہسپتال میں وفات پا گئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کتنے ہی تیس مارچ گزر گئے، یادیں آج بھی ذہن میں تازہ ہیں۔۔۔ سوچتا ہوں انہیں دنیا کے مختلف ملکوں کے سربراہوں کی طرف سے علاج کی پیشکشیں موجود تھیں، طیارے بھیجنے کی درخواستیں تھیں مگر علامہ صاحب سعودی عرب میں گئے، مدینہ منورہ میں وہ پڑھے تھے، مدینہ یونیورسٹی کے وہ طالب علم تھے، زخمی لاہور میں ہوئے مگر پہنچ مدینہ میں گئے، میرے سامنے شاہ مدینہ کا فرمان آ گیا ہے، میرے حضورﷺنے فرمایا: ''جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی روح کسی خطے میں قبض کرنا چاہتے ہیں تو اس علاقے میں اس بندے کی کوئی ضرورت پیدا کر دیتے ہیں۔ (مسند احمد)۔۔۔جی ہاں! اللہ نے اپنے بندے احسان الٰہی ظہیر کے علاج کی ضرورت سعودیہ میں پیدا کر دی۔ ادھر وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے اور جہاز ان کے جسد خاکی کو لے کر مدینہ منورہ کی فضاؤں میں داخل ہو گیا۔ حضرت علامہ میرے حضورﷺ کی مسجد میں پہنچ گئے۔ وہاں حرمِ مدنی میں ان کا جنازہ ہوا۔ ''بقیع الغرقد'' میں وہ مدفون ہوئے۔۔۔ میں جب ان کے وہاں دفن ہونے کے کئی سال بعد مدینہ منورہ میں گیا تو مدینہ یونیورسٹی بھی گیا، وہاں اس وقت جو طلباء زیر تعلیم تھے وہ مجھے بقیع میں لے گئے۔ مولانا افضل صاحب نے مجھے بتلایا کہ یہ قبر حضرت امام مالک رحمہ اللہ کی ہے اور ان کے ساتھ یہ قبر حضرت علامہ شہید رحمہ اللہ کی ہے۔اللہ جس کو مقام عطا فرمائے، جس کو اپنی رحمت کا سائبان عطا فرمائے، وہ بڑا رحیم و کریم ہے۔ علامہ صاحب پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوا۔۔۔ اس قبرستان میں جگہ ملی جہاں دس ہزار صحابہ مدفون ہیں۔ مومنوں کی مائیں، حضورﷺ کی بیٹیاں، اہل بیت اور تابعین اور پھر صلحاء و شہداء کا تو کوئی شمار نہیں۔ وہاں جگہ ملی تو امام مدینہ کے پڑوس میں، مؤطا جو حدیث کی اولین کتاب ہے اس کے لکھنے والے حضرت امام مالک کے پڑوس میں۔ (سبحان اللہ)
حضورﷺ کے فرمان کے مطابق مدینہ منورہ میں مرنے کی خواہش و کوشش کرو جو یہاں فوت ہو گیا، میں اس کی سفارش کروں گا۔۔۔ (مسند احمد، ابن حبان) اللہ اللہ! جب قیامت کا دن ہو گا تو حضورﷺ نے فرمایا، سب سے پہلے میری قبر کھلے گی، میرے ساتھ ابوبکرؓ اور عمرؓ اٹھیں گے۔ پھر میں بقیع میں آؤں گا اور یہاں مدفون لوگ میرے ساتھ اٹھیں گے۔۔۔ حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر کی قسمت کے کیا کہنے کہ وہ قیامت کے دن اٹھیں گے تو حضورﷺ کے صحابہ، تابعین اور ابرار کے ساتھ اٹھیں گے۔
قارئین کرام! آیئے۔۔۔! ہم بھی دعا کریں، اے مولا کریم جی! مدینے میں موت اور بقیع میں مدفن عطا فرما دیجئے۔۔۔ اور اگر ایسا قسمت میں نہ ہو تو حوض کوثر پر اپنے پیارے رسولﷺ کے مبارک ہاتھوں سے جام ضرور پلا دیجئے اور جنت میں اپنے نبی کریمﷺ کے قافلے کے ہمراہ داخل فرما دیجئے۔ حضرت علامہ کے ہونہار فرزند ابتسام الٰہی ظہیر حفظہ اللہ کو مزید توفیق عطا فرما دیجئے کہ ہمارے شہید قائد کا مرکز کتاب و سنت کی خوشبو سے صدا مہکتا رہے۔ اللہ نے انہیں بھی علامہ ابن علامہ بنا دیا ہے اپنے والد گرامی کے ساتھ میری نسبتوں اور قربتوں کو دیکھ کر عزت کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں گھر میں میری اور قاری محمد یعقوب شیخ کی دعوت بھی کی۔ دعا ہے اللہ ان کی عزتوں میں اضافہ فرمائے اور اپنے دین کا کام لے۔ (آمین)