جادوگر کے متعلق صحیح حکم کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب
الحمدللہ
جادو کی تمام قسمیں تمام شریعتوں میں حرام ہیں اور اسکے کرنے اور سیکھنے کی حرمت پر اجماع ہے۔
اور یہ جسے رسل لے کر مبعوث ہوئے اسکے خلاف اور جسکی بنا پر کتابیں نازل کی گئیں اسکے معارض ہے۔
اور اکثر اہل علم کا یہ قول ہے کہ جادوگر کافر ہے اور حاکم پر اسے قتل کرنا واجب ہے۔
فرمان ربانی ہے۔
"سلیمان (علیہ السلام) نے تو کفر نہیں کیا لیکن شیطانوں نے کفر کیا تھا وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے"
ارشاد باری تعالی ہے:
"وہ دونوں کسی بھی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں تو کفر نہ کر"
یعنی جادو کے عمل سے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ کفر ہے۔
اور اکثر فقہاء شافعیہ کا یہ قول ہے کہ اگر یہ اعتقاد رکھے کہ جادو حرام ہے تو اسےکافر نہیں کہا جائے گا اور اگر اس کا یہ عقیدہ ہو کہ یہ حلال ہے تو اسے کافر کہا جائے گا اور یا پھر اسکا عقیدہ بابل والوں کی طرح ہو کہ سات ستاروں کا تقرب حاصل کرنا تو وہ کافر ہے۔
تو اس قول میں نظر ہے۔ اور یہ شرط لگانے کی کوئی دلیل نہیں ملتی۔
اور صحیح یہی ہے کہ جادوگر اسکی حرمت کا عقیدہ رکھے یا نہ رکھے صرف وہ جادو کرنے کی بناء پر ہی کافر ہوجائے گا دلائل سے یہی ظاہر ہے اور اسکی مخالفت میں کوئی دلیل نہیں ملتی۔
تو اگر کسی شخص سے جادو کرنا ثابت ہو جائے تو اسے وجوبا قتل کیا جائے گا تو یہی بات صحابہ کرام کی ایک جماعت سے ثابت ہے لیکن لوگوں میں سے کسی ایک کےلئے یہ جائز نہیں کہ وہ حاکم یا اسکے نائب کے حکم کے بغیر حدود کا نفاذ کرے۔ کیونکہ حکام کے بغیر حدود کا نفاذ فتنہ وفساد کا باعث اور امن میں خرابی کا باعث بنتا ہے اور اس سے حاکم کا رعب اور دبدبہ اور ہیبت ختم ہو جاتی ہے۔ .
مفتی : الشیخ سلیمان العلوان
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔
اور علامہ الشنقیطی رحمہ اللہ اپنی بے مثال تفسیر ’’ أضواء البيان ‘‘ میں فرماتے ہیں :
اختلف العلماء فيمن يتعلم السحر ويستعمله فقال بعضهم: إنه يكفر بذلك، وهو قول جمهور العلماء منهم مالك، وأبو حنيفة وأصحاب أحمد، وغيرهم. وعن أحمد ما يقتضي عدم كفره. وعن الشافعي أنه إذا تعلم السحر قيل له صف لنا سحرك. فإن وصف ما يستوجب الكفر مثل سحر أهل بابل من التقرب للكواكب، وأنها تفعل ما يطلب منها فهو كافر، وإن كان لا يوجب الكفر فإن اعتقد إباحته فهو كافر، وإلا فلا. وأقوال أهل العلم في ذلك كثيرة معروفة.
قال مقيده - عفا الله عنه وغفر له -: التحقيق في هذه المسألة هو التفصيل. فإن كان السحر مما يعظم فيه غير الله كالكواكب، والجن، وغير ذلك مما يؤدي إلى الكفر فهو كفر بلا نزاع، ومن هذا النوع سحر هاروت وماروت المذكور في سورة «البقرة» فإنه كفر بلا نزاع. كما دل عليه قوله تعالى: وما كفر سليمان ولكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر [2 102] ، وقوله تعالى: وما يعلمان من أحد حتى يقولا إنما نحن فتنة فلا تكفر [2 102] ، وقوله: ولقد علموا لمن اشتراه ما له في الآخرة من خلاق [2 102] ، وقوله تعالى: ولا يفلح الساحر حيث أتى [20 69] كما تقدم إيضاحه. وإن كان السحر لا يقتضي الكفر كالاستعانة بخواص بعض الأشياء من دهانات وغيرها فهو حرام حرمة شديدة ولكنه لا يبلغ بصاحبه الكفر. هذا هو التحقيق إن شاء الله تعالى في هذه المسألة التي اختلف فيها العلماء.