علاوہ ازيں علامه آية الله شريعت سنغلجلى سيد ابو الفضل آية الله العظمى البرقعى الاستاذ على الاكبر حكمى زاده علامه دكتور على شريعتى علامه نعمة الله صالحى نجف آبادى الاستاذ حيدر على بن اسماعيل قلمداران السيد مصطفى الطبطبائى،علامه احمد كسروىiسيد حسن الموسوى الكربلائى النجفىاور سيد قاضى نياز حسين نقوىk وغير ہ جليل القدر شيعہ علما كى كوششيں بهى خراجِ تحسين كے لائق ہيں- يہ حضرات نہ صرف اپنے مذہب كے مصلحين ہيں بلكہ شيعہ،سنى اتحاد اور مفاہمت ميں بهى ان كا كام سنہرى حروف سے لكهے جانے كے قابل ہے-
شيعہ ميں ’زيديہ ‘ فرقہ ايسا ہے جو كہ واقعتا ايك معتدل اور متوازن فرقہ ہے اور اس وقت اس فرقے كے ايك كروڑ سے زائد پيروكار دنيا بهر ميں موجود ہيں- ايران ميں اكثر پڑها لكها طبقہ شيعہ كے اسى گروہ سے تعلق ركهتا ہے-
1 اس كے برعكس پاكستان ميں انتہا پسندوں كا رويہ يہ ہے كہ پاكستان ميں اہل سنت كے علما كى كئى ايسى كتابوں پر پابندى لگوائى جن ميں واقعہ كربلا،شہادتِ حسين يا صحابہ كرام كے بارے ميں شيعى عقائد كو بيان كياگيا تها- جن ميں بالكل بے ضرر اور معتدل عظيم خطيب پاكستان حضرت مولانا حافظ محمد اسماعيل روپڑى (م١٩٦٢ء) كى كتاب ’شہيد ِكربلا‘ پر سب سے پہلے بيورو كريسى نے پابندى لگائى- علاوہ ازيں ان كتب ميں علامہ احسان الٰہى ظہير كى كتاب ’شيعہ اور تشيع‘اور ’شيعہ اور اہل بيت‘بهى شامل ہيں- حتىٰ كہ مولانا عبد العزيزمحدث دہلوى كى كتاب ’تحفہ اثنا عشريہ ‘كو پاكستان كى تمام پبلك لائبريريز سے غائب كروا ديا گيا-بہت بڑے ايرانى شيعہ عالم اور فقيہ ہيں- ان كے علم كے بارے ميں يہ قول شيعہ ميں بڑا معروف ہے
أنسٰى من قبله وأتعب من بعده (يعنى اپنے سے پہلے لوگوں كو بہلوا ديا اور اپنے بعد والوں كو عاجز كر ديا)
حالانكہ ان كى اصلاحى كوششوں كے جواب ميں ايك متعصب شيعہ نے ان كے بيٹے كو نجف اشرف ميں حضرت على كے مقبرہ كے احاطہ ميں مغرب اورعشا كے درميان دورانِ نماز بے دردى سے ذبح كر ديا تها-
2١٩٣٠ء ميں ’نجف اشرف ‘ ميں پيدا ہوئے- وہيں سے ’اجتہاد‘ كے موضوع پر فقہ اسلامى ميں ايم اے كى ڈگرى حاصل كى- ١٩٥٥ء ميں طہران يونيورسٹى سے اسلامى قانون ميں ڈاكٹريٹ كى ڈگرى حاصل كى …
گزشتہ حاشيہ: ١٩٥٩ء ميں پيرس يونيورسٹى سے فلسفہ ميں پى ايچ ڈى كيا-١٩٦٠ء سے ١٩٦٢ء تك بغداد يونيورسٹى ميں اقتصادِ اسلامى كے پروفيسر رہے -١٩٦٨ء سے ١٩٧٨ء تك بغداد يونيورسٹى ميں فلسفہ كے پروفيسر رہے-١٩٧٣ء تا ١٩٧٤ء ہالہ يونيورسٹى جرمنى اور طرابلس يونيورسٹى ليبيا ميں وزٹنگ پروفيسر كى حيثيت سے كام كيا- ١٩٧٥ء تا ١٩٧٦ء ہارورڈ يونيورسٹى امريكہ ميں ريسرچ سكالر كى حيثيت سے كام كيا-١٩٧٨ء ميں لاس اينجلس يونيورسٹى ميں بهى وزٹنگ پروفيسر رہے -شيعہ كے عقائد و رسومات كى تصحيح پر كئى كتب لكهيں جن ميں سے معروف كتاب الشيعة والتصحيح ہے جس كا اُردوترجمہ ’اصلاحِ شيعہ ‘ كے نام سے شائع ہوا- اُردو ترجمے پر پبلشر كا نام نہيں ہے جس كى بنيادى وجہ بهى شيعہ كا تعصب، انتہا پسندى اور دهمكى آميز رويہ ہے جس كى وجہ سے اوّلاً تو كسى عالم كو حق بات كہنے كى جرات ہى نہيں ہوتى اور اگر كوئى اس جرات كا مظاہرہ كرتا بهى ہے تواسے انتہا پسندى كے ڈر سے پبلشر كا نام دينے كى ہمت نہيں ہوتى- حال ہى ميں ’احمد الكاتب‘ كے ايك عربى مقالے كا ترجمہ ’شيعہ افكار ولايت سے لے كر شورىٰ تك‘ لندن سے شائع ہوا ہے جس ميں اُنہوں نے شيعہ كے بارہويں امام، مہدى منتظر كى پيدائش كا تاريخى حقائق كى روشنى ميں انكار كيا ہے كيونكہ پاكستان ميں اس كى اشاعت كى گنجائش نہيں تهى -
بہت بڑے ايرانى شيعہ عالم اور فقيہ تهے- ١٩٤٣ء ميں وفات پائى -شيعہ عقائد و نظريات ميں اصلاح كى تحريك اُنہوں نے ہى شروع كى تهى اور شيعہ كى اصلاح كے ليے كئى كتب اور مقالات لكهے جن ميں الاسلام والرجعة ايك معروف كتاب ہے جس ميں اُنہوں نے شيعہ كے تصورِ امامت اور بارہويں
اللہ تعالىٰ ہميں انتہاپسندى كا شكار ہونے سے بچائے اورباہمى فروعى، فقہى اوراجتہادى اختلافات
ميں روا دارى كى توفيق عنايت فرمائے- آمين!