• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مذہبى انتہا پسندى اور اس كے عملى مظاہر

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
نقطہ نظر
مذہبى انتہا پسندى اور اس كے عملى مظاہر

ابو الحسن علوى​

اسلام ايك معتدل و متوازن دين ہے جو ميانہ روى كو پسند كرتاجبكہ غلو اور انتہا پسندى كے خلاف ہے- قرآن و سنت ميں جابجا ايسى تعليمات موجود ہيں جو اعتدال و توازن كاسبق ديتى ہيں- مثلاً ’انفاق‘ كے بارے ميں ارشادِ بارى تعالىٰ ہے :
﴿وَالَّذِيْنَ اِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا﴾
”اور اللہ كے بندے جب خرچ كرتے ہيں تو اِسراف نہيں كرتے اور نہ ہى بخل سے كام ليتے ہيں اور ميانہ روى اختيار كرتے ہيں - “ (الفرقان: ٦٧)
اسى طرح ايك جگہ ارشاد ہے :
﴿وَاقْصِدْ فِىْ مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ اِنَّ اَنْكَرَ الاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِير﴾ (لقمان: ١٩)
”اور تو اپنى چال ميں ميانہ روى اختيار كر اور اپنى آواز كو پست ركہ،بے شك سب آوازوں سے برى آواز گدہے كى آواز ہے -“
﴿وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْها كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا﴾ (الاسراء: ٢٩)
”اور نہ تو اپنا ہاتھ اپنى گردن سے باندہے ركہ(يعنى بخل كر)اور نہ تو اس كو بالكل ہى كهول دے (يعنى اسراف كركے)پس تو (بعدميں )ملامت زدہ،تهكا ہارا بيٹها رہ جائے گا-“
﴿وَلَا تَجْهرْ بِصَلَاتِكَ وَ لَا تُخَافِتْ بِها وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيْلًا﴾
”اور نہ آپ اپنى(قراء ت) كو نماز ميں بلند كريں اور نہ اس كو پست كريں اور اس دونوں كا درميانى راستہ تلاش كريں -“ (الاسراء: ١١٠)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
كتاب وسنت ميں غلو كى ممانعت
جس طرح قرآن و سنت ميں اعتدال و ميانہ روى كى تعليمات موجود ہيں، اس كے ساتھ ساتھ انتہا پسندى اور’غلو‘ سے منع بهى كيا گيا ہے- قرآن ميں دو مقامات ايسے ہيں جہاں باقاعدہ’غلو‘ يعنى انتہا پسندى كا نام لے كر اس سے روكا كيا گيا ہے-ارشادِ بارى تعالىٰ ہے :
﴿يَاَهلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوْا فِىْ دِيْنِكُمْ وَلَا تَقُوْلُوا عَلَى الله اِلَّا الْحَقَّ﴾
”اے اہل كتاب !تم اپنے دين ميں غلو نہ كرواور اللہ كے بارے ميں سواے حق بات كے كچھ نہ كہو-“ (النساء:١٧١)
ايك اور جگہ ارشاد ہے :
﴿قُلْ يَاَهلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوْا فِىْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ﴾ (المائدة :٧٧)
”اے نبىﷺكہہ ديجيے: اے اہل كتاب!تم اپنے دين ميں ناحق غلو نہ كرو-“
اسى طرح احاديث ِمباركہ ميں بهى كسى بهى معاملے ميں،چاہے وہ نيكى كا ہى كيوں نہ ہو، انتہا پسندى كے بالمقابل اعتدال و توازن كواختيار كرنے كى ہدايت كى گئى ہے-صحيح مسلم ميں ہے :
عن أنس أن نفرا من أصحاب النبي ﷺ سألوا أزواج النبي عن عمله في السر. فقال بعضهم: لا أتزوج النساء وقال بعضهم لا آكل اللحم وقال بعضهم: لا أنام على فراش فحمد الله وأثنى عليه فقال: ما بال أقوام قالوا: كذا وكذا لكني أصلي وأنام وأصوم وأفطر وأتزوَّج النساء فمن رغب عن سنتي فليس مني (صحيح مسلم:١٤٠١)
”حضرت انس سے روايت ہے كہ صحابہ  كى ايك جماعت نے آپ كى بعض ازواج سے آپكے گهر كے معمولات كے بارے ميں پوچها- پهر ان صحابہ ميں سے ايك نے كہا:ميں زندگى بهرشادى نہيں كروں گا- دوسرے نے كہا:ميں كبهى گوشت نہيں كهاوٴں گا- تيسرے نے كہا:ميں كبهى بستر پر نہيں سووٴں گا-(آپ كو جب اس كى خبر ہوئى تو آپ خطبہ دينے كے ليے كهڑے ہوئے)پس آپ نے اللہ كى تعريف بيان كى اور كہا: لوگوں كو كيا ہو گيا ہے، وہ ايسى باتيں كر رہے ہيں جبكہ ميں (اللہ كا رسول1)نماز بهى پڑهتا ہوں اور سوتا بهى ہوں اور ميں(نفلى) روزہ بهى ركهتا ہوں اوركبهى نہيں ركهتا اور ميں نے عورتوں سے شادياں بهى كى ہيں پس جس نے ميرى سنت سے اعراض كيا ،اس كا مجھ سے كوئى تعلق نہيں ہے -“
حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روايت ہے كہ اللہ كے رسولﷺ نے فرمايا:
هلك المُتنطِّعون قالها ثلاثا (صحيح مسلم : ٢٦٧٠)
’ متنطعون ہلاك ہوگئے، متنطعون ہلاك ہو گئے، متنطعون ہلاك ہو گئے -“
امام نووى متنطعونكى شرح كرتے ہوئے فرماتے ہيں:
المتعمقون الغالون المجاوزون الحدود فى أقوالهم و أفعالهم
”وہ لوگ جو اپنے اقوال و افعال ميں حد سے بڑهنے اور غلو كرنے والے ہيں-“ (شرح صحيح مسلم:٤٨٢٣)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
مذہبى انتہاپسندى كى تاريخ
انتہا پسندى كى تاريخ اتنى ہى پرانى ہے جتنى حضرت انسان كى عمر ہے- چنانچہ قرآن نے قديم آسمانى مذاہب يہود و نصارىٰ ميں پائے جانے والے ’غلو‘ كى نہ صرف نشاندہى كى بلكہ اس سے سختى سے منع بهى فرمايا-اس ممانعت كى وجہ يہ ہے كہ جب بهى كوئى قوم اللہ كے ديے ہوئے دين ميں ’غلو‘ كا شكار ہوتى ہے تو اس دين كا بيڑ ہ غرق كر ديتى ہے -مثلاً ہم ديكهتے ہيں كہ يہود نے حضرت عيسىٰ كى دشمنى ميں ’غلو‘ كرتے ہوئے اُنہيں ولد الزنا،جادوگر اور واجب القتل قرار ديا اور اپنے گمان ميں ان كو قتل بهى كر ديا، معاذ اللہ- دوسرى طرف حضرت عيسىٰ كى محبت ميں عيسائيوں نے ان كو خدا كا بيٹا قرار ديتے ہوئے اُلوہيت كے درجے پر فائز كر ديا جبكہ اسلام نے ان دونوں مذاہب كے برعكس حضرت عيسىٰ  كى ذات كے بارے ميں ايك معتدل موقف پيش كيا ہے جو سورئہ مريم كى ابتدائى آيات ميں موجود ہے -
سابقہ آسمانى مذاہب كى طرح اُمت ِمسلمہ بهى ’غلو‘ اور انتہا پسندى كا شكار ہوئى- رسالت مآب1كے دور ميں ہى بعض اشخاص كى طرف سے جب نيكى ميں ’غلو‘ كا مظاہرہ كيا گيا تو آپ نے اس كو سخت ناپسند كيا اور اس سے روكاجيسا كہ تين اصحاب كا واقعہ اوپر ہم بيان كر چكے ہيں- علاوہ ازيں آپ نے اپنى پيش گوئيوں ميں مسلمانوں ميں آئندہ بعض متشدد،متعصب اور انتہا پسند گروہوں كى نشاندہى كى اور ان كى بعض صفات بهى بيان كيں-آپ كى پيش گوئيوں كے عين مطابق خلافت ِراشدہ ميں ہى ايك ايسا گروہ پيدا ہو چكا تها جو حضرت على اور حضرت امير معاويہ كى باہمى لڑائيوں كى وجہ سے ان دونوں حضرات صحابہ اور ان كے ساتهيوں كو كافر قرار دے كر واجب القتل سمجهتا تها جيسا كہ ايك روايت ميں ہے كہ حضرت يسير بن عمرو نے سہل بن حنيفسے سوا ل كيا كہ كيا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے خوارج كے بارے ميں كچھ سنا ہے؟
تو اُنہوں نے جواب ديا:
سمعته يقول وأهوٰى بيده قبل العراق يخرج منه قوم يقروٴون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الإسلام مروق السهم من الرمية
”ميں نے آپ كو كہتے ہوئے سنا، اس حال ميں كہ آپ نے عراق كى طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ كيا كہ اس سے ايك قوم نكلے گى جو قرآن كى تلاوت كريں گے ليكن وہ ان كے حلق سے نيچے نہيں اُترے گا- وہ اسلام سے اتنى تيزى سے نكل جائيں گے جس طرح كمان سے تير نكلتا ہے -“ (صحيح بخارى:٦٩٣٤)
خوارج كى نيكى،خلوص، تقوىٰ اورللّٰہيت ميں كسى كو كلام نہيں- تاريخى روايات ميں ملتا ہے كہ يہ لوگ بہت كثرت سے قرآن كى تلاوت كيا كرتے تهے جيسا كہ اللہ كے رسول ﷺ نے بہى ان كى اس صفت كى طرف اشارہ كيا ہے- اس گروہ كے تقوىٰ كا اندازہ ان كے اس عقيدے سے لگا يا جا سكتا ہے جس كے مطابق يہ گناہ كبيرہ كے مرتكب كو كافر قرار ديتے ہيں- بهلا وہ شخص جس كا يہ عقيدہ ہو كہ گناہ كبيرہ كے ارتكاب سے ايك شخص دائرئہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، كيا وہ كبهى گناہ كبيرہ كا مرتكب ہو گا؟ لہٰذا خوارج جن كى نيكى اورشريعت پر عمل پيرا ہونے كا يہ عالم ہو، ان كو حضر ت سہل بن حنيف نے آپ كى اس حديث كا مصداق قرار ديا ہے- اسلئے جس گروہ يا جماعت ميں نيكى ،خلوص،تقوىٰ اور شريعت پر عمل پير اہونے كا جذبہ توہو ليكن قرآن وسنت كا علم ناقص ہو تو ايساگروہ اور جماعت عموماً دين ميں ’غلو‘ كا شكار ہو جاتى ہے-
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
شيعہ سنى انتہا پسندى كے عملى مظاہر
ٹهوس تاريخى تجزيے پر علمى اختلاف كرنااورتحقيق ميں آزادى كى روش اختيار كرنا ايك معاشرے كے شعورى ارتقا اورروحانى ترقى كے ليے از بس ضرورى ہے- جہاں علمى اختلاف كو تعصب كا رنگ دے كر كفر كے فتوے لگائے جائيں اور معاملہ قتل و غارت تك پہنچ جائے، اسى طرح آزادىٴ اظہار اور حريت ِفكر كو مختلف حربوں سے دبا دياجا ئے تو ايسا معاشرہ افتراق وانتشاركا نمونہ بن جاتا ہے- اس ليے ہم يہ سمجهتے ہيں كہ شيعہ و سنى مكالمہ ہو يا بريلوى،ديوبندى اور اہل حديث كے درميان بحث و مباحثہ،اسے صرف علمى مباحثہ و مكالمہ تك ہى محدودرہنا چاہيے اور اس كى بنياد پر تشدد كى كوئى پاليسى اختيار كرنايا اپنى اجتہادى آرا كو دوسروں پر جبراً ٹهونسنااسلامى تعليمات كے منافى ہے جو پورے اسلامى معاشرے كے ليے شديد نقصان دہ ہے-
ليكن حاليہ دنوں كچھ خبريں،بعض اخبارات ميں نظر سے گزريں تو ان كو پڑھ كر افسو س ہوا- تفصيلات كے مطابق جناب جاويد احمد غامدى صاحب كے ساتھ جامعہ حفصہ والے قضيہ كے تناظر ميں ’معروف و منكر‘كے موضوع پر ايك علمى مذاكرہ جيو ٹى وى پر ’غامدى‘ نامى پروگرام ميں پيش ہوا جس ميں جامعہ حفصہ پر گفتگو كے دوران سيدناحسين  كا يزيد كے خلاف خروج كا مسئلہ بهى زير بحث آ گيا- مذاكرہ ميں شريك بعض حضرات نے سيدنا حسين كے خروج كے حوالے سے يہ موقف پيش كيا كہ سيدنا حضر ت حسين كا يزيدكے خلاف خروج تو بر حق تها ليكن دنياوى طور پر بظاہر يہ خروج نتيجہ خيز ثابت نہ ہو سكا- مذاكرے ميں اگرچہ سيدنا حضرت حسين كے خروج كے برحق يا ناحق ہونے كى بحث نہيں ہو رہى تهى بلكہ اصل بحث صرف واقعاتى تهى كہ حضرت حسين  كے اس خروج كے ليے كوفہ اور اہل كوفہ كے حالات سازگار تهے يا نہيں؟ تو اس پر شركاے مذكراہ ميں سے ايك صاحبنے كہا كہ كوفہ اور اہل كوفہ كے حالات اس وقت سازگار نہيں تهے- چنانچہ سيدناحسين سے اس معاملے ميں تدبيرى عجلت ہوئى كہ اُنہوں نے كوفہ كے حالات كو سازگار سمجها- بعد ميں اس موقف كى مزيد وضاحت مع معذرت جيو ٹى وى نے انہى دنوں ان صاحب كى طرف سے بهى نشر كى، جو يہ تهى كہ
”ميں سيدنا حسين  كو نوجوانانِ جنت كا سردار مانتا ہوں اور ان كى ادنىٰ توہين وتحقير كو موجب ِ كفر وضلالت سمجهتا ہوں- پروگرام ميں ميرى گفتگو سے جو مغالطہ پيدا ہوا ، اس سلسلے ميں ميرا مقصود صرف اتنا تها كہ شہادتِ حسين كا باعث دراصل وہ لوگ بنے جو اُنہيں كوفہ بلانا چاہتے تهے- يہ سارے لوگ درحقيقت قابل اعتماد نہ تهے، ورنہ سيدنا حسين كا اِقدام بالكل برحق تها اور ان كى شہادت ايك مظلومانہ شہادت ہے …
قتل حسين اصل ميں مرگِ يزيد ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر كربلا كے بعد!
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اس كے باوجود بعض جذباتى شيعہ حضرات كى طرف سے جس ردّ عمل كا مظاہرہ ہوا، وہ واقعتا قابل تعجب بهى ہے اور قابل افسوس بهى-ہم اس پر كوئى تبصرہ كرنے سے پہلے اس ردعمل كى چند جهلكياں قارئين كے سامنے پيش كر تے ہيں:
نجى ٹى وى پر امام حسين  كى توہين كے خلاف جامعة المنتظر اور آئى ايس او كا مظاہرہ :
”جيو ٹى وى كے پروگرام ’غامدى‘ ميں نواسہٴ رسول 1 حضرت امام حسين كى شان ميں گستاخانہ كلمات استعمال كرنے پر جامعة المنتظركے اساتذہ اور اماميہ سٹوڈنٹ آرگنائزيشن سے تعلق ركهنے والے مظاہرين نے جناب جاويد غامدى اور جيو ٹى وى كے خلاف مظاہرہ كيا- اُنہوں نے جيو ٹى وى اور جناب جاويد غامدى كے خلاف شديد نعرے بازى كى اور كہا كہ جيو ٹى وى استعمارى ايجنٹ نہ بنے- مظاہرين نے كہا كہ جاويد غامدى امريكہ كا ايجنٹ ہے- اُنہوں نے كہا كہ پروگرام نشر ہونے سے تين روز قبل ريكارڈ كيا گيا تها اور سنسر وغيرہ كے مراحل كے بعد عمداً نشر كيا گياجس سے مذكورہ چينل كى بد نيتى واضح ہوتى ہے- اُنہوں نے حكومت سے مطالبہ كيا كہ وہ اس ناقابل معافى جرم كے ارتكاب پر ذمہ داران كے خلاف سخت كاروائى كرے-“(روزنامہ ’ايكسپريس‘:٣٠/اپريل ٢٠٠٧ء،ص٨)
جعفريہ الائنس كے تحت جيو ٹى وى كے خلاف ہونے والى احتجاجى ريلى كے شركا نے لوئر مال احتجاجاً بند كر دى-يزيديت، جيو ٹى وى اور غامدى وغيرہ كے خلاف شديد نعرے بازى كى گئى- جيو ٹى وى پر عارضى پابند ى اور غامدى پروگرام كو فورى بند كرنے اورمتہم صاحب سميت ’جيو‘ كے سركردہ ذمہ داروں كے خلاف مقدمہ چلا كر پهانسى كى سزا دينے كا مطالبہ كيا- اُنہوں نے مطالبہ كيا كہ جيو چينل اس بيان كى ترديد كرے اور غامدى كے خلاف قانونى كاروائى كى جائے- (روزنامہ ايكسپريس:٢/مئى ٢٠٠٧ء،ص١)
علاوہ ازيں جيو ٹى وى اور جناب جاويد احمد غامدى كوٹيلى فون كالز كے ذريعے قتل وغير ہ كى دهمكياں بهى دى گئى مثلاًجاويد احمد غامدى صاحب كے بيٹے جناب معاذ احسن غامدى كو مظفر حسين نامى ايك شخص نے ايك ٹيلى فون كال ميں كہا :
”ميرا نام مظفر حسين ہے اور ميں فخر سے جہنم ميں جاؤں گا كيونكہ ميں اس شخص كو قتل كروں گا جس نے نواسہٴ رسول كى توہين كى ہے -“
ان مظاہروں ميں مذكورہ بالا موقف (جس ميں غامدى صاحب كا ’معروف ومنكر‘ كے بارے ميں موقف بهى شامل ہے) كے خلاف ايسا ردِ عمل شيعہ حضرات كى انتہا پسندى ہے، كيونكہ اگر مسئلہ صرف يہ ہے كہ بعض حضرات تاريخى تجزيے ميں سيدنا حضرت حسين  كو شرعى طور پر بر حق قرار دينے كے باوجود تدبيرى حيثيت سے معصوم نہيں مانتے، جيسا كہ شيعہ كا اپنے ١٢/ائمہ كے بارے ميں عقيدہ ہے تو تدبيرى رويوں ميں عدمِ عصمت كا عقيدہ (انبيا كے علاوہ) تمام صحابہ كرام رضوان الله عليهم اجمعين كے بارے ميں تو بريلوى،ديوبندى اور اہل حديث سب مسالك كا ہے- اس كا مطلب يہ ہے كہ مذكورہ بالا مظاہرہ كرنے والے شيعہ حضرات پاكستان كى ٨٢ فيصد سنى اكثريت كے ليے حكومت سے پهانسى كا مطالبہ كر رہے ہيں-
ايك طرف تو يہ شيعہ حضرات كا يہ مطالبہ ہے تودوسرى طرف خود شيعہ علما كى ايسى سينكڑوں كتب، تقارير ا ور سى ڈيز بهى موجود ہيں جن ميں اكابر حضرات صحابہ  پر طعن كيا جاتا ہے :
ايك دفعہ مجهے معروف شيعہ واعظ علامہ طالب جوہرى كى براہ راست تقرير سننے كا موقعہ ملا جس ميں صحابہ كرام كو برا بهلا كہا گيا تها جو كہ اہل سنت كے عقيدے كے سرا سر خلاف ہے-اس پر ايسے شيعہ حضرات سے يہ سوال ہے كہ كيا اس موقعہ پر اگلے دن اہل سنت كے كسى مدرسے كے پانچ چہ سو طلبا كو اكٹها كر كے كوئى مظاہرہ كر دينا چاہيے تها جس ميں يہ مطالبہ ہوتا كہ علامہ طالب جوہرى شاتم صحابہہے اور اس كو سر عام پهانسى دى جائے ؟
جبكہ حقيقت تو يہ ہے كہ خود شيعہ علما و فقہا ميں سے ايسے لوگ موجود ہيں جو عصمت ِامام كے قائل نہيں ہيں-معروف ايرانى شيعہ فقيہ اور عالم دين علامہ موسى ا لموسوى لكهتے ہيں :
”ليكن عصمت درحقيقت امام كے حق ميں نقص كے سوا كچھ نہيں- اس ميں كوئى مدح نہيں ہے كيوں كہ شيعى مفہوم كے مطابق عصمت كا معنى يہ ہے كہ ائمہ اپنى ولادت سے لے كر وفات تك اللہ تعالىٰ كے ارادے سے اس كى كسى نافرمانى كے مرتكب نہيں ہوتے- اس كا مطلب يہ ہے كہ ان ميں خير كو شر پر فضيلت و ترجيح دينے كا ارادہ مفقود تها- ميں نہيں جانتا كہ جب كوئى شخص ايسے ارادے كى بدولت جو اس كى ذات سے خارج ہے، برائى كرنے پر قادرہى نہيں ہے ’كونسى قابل فخر عصمت ‘ہے؟ ہاں اگر عصمت كا يہ مطلب ہو كہ ائمہ گناہ كرنے پر قادرہونے كے باوجود عالى نفسى،اخلاق ميں قوى ملكہ اور ركاوٹ كى بنا پرہر گز نافرمانى نہيں كرتے تو يہ بات معقول اور عقل و منطق سے مطابقت ركهتى ہے ليكن اس صورت ميں ہم يہ نہيں كہہ سكتے كہ يہ قوتِ نفس معدودے چند اشخاص كے ساتھ خاص ہے يا صرف ہمارے ائمہ كے ساتھ خاص ہے بلكہ يہ ايسى صفت ہے كہ جس كے ساتھ ہر انسان متصف ہو سكتا ہے بشرطيكہ حدوداللہ كى پابندى كرے،اس كے اَوامر كى فرمانبردارى كرے اور اس كے نواہى سے باز رہے-“ (’اصلاحِ شيعہ‘ ترجمہ الشيعة والتصحيح:ص١٤٥،١٤٦)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
معاذ احسن غامدى صاحب كو بعض شيعہ حضرات كى طرف سے جو قتل كى دهمكياں مليں،يہ بهى مناسب طرزِ عمل نہيں- ہمارے خيال ميں اس سے ايك نئى سپاہ صحابہ تو جنم لے سكتى ہے ليكن كوئى افہام وتفہيم ممكن نہيں-ظاہر ہے كہ غامدى صاحب كا بهى ايك ادارہ اور ان كے سامعين كا ايك حلقہ ہے- مذاكرے ميں شريك دوسرے حضرات سنى مكتب ِفكر سے تعلق ركهتے ہيں اور ضرور ان كا كسى نہ كسى سنى مدرسے سے تعلق بهى ہو گا، ان كے پيچهے ايك بڑى سياسى مذہبى جماعت اسلامى اور اہل سنت كا پورا مسلك ہے تو اس قسم كے پيغامات كا نتيجہ سواے دو گروہوں اور جماعتوں ميں كشيدگى بڑهانے كے اور كچھ نہيں نكلے گا- ماضى ميں ہم ديكهتے رہے ہيں كہ يہى انتہا پسندى تهى جس نے خود شيعہ اور اہل سنت كو بہت سے جليل القدر اكابر علما سے محروم كر ديا-
ياد رہے كہ شيعہ كو اس ملك ميں اپنے مذہب پر عمل اور اس كى تبليغ واشاعت كى ہر طرح اجازت ہے- ہمارے ملك ميں فوج ہو يا پوليس،ہر دومحكموں ميں بڑى بڑى پوسٹوں پر زيادہ تر شيعہ حضرات موجود ہيں-پرنٹ ميڈيا ہو يا اليكٹرانك ميڈيا،اس پر بهى شيعہ چهائے ہوئے ہيں بلكہ اليكٹرونك ميڈيا خصوصاً فلم انڈسٹرى كا تقريباً ٨٠ فيصد كردار شيعہ كے پاس ہى ہے-
’شيعہ انفلوئنس‘ كى صورتحال تو يہاں تك ہے كہ رمضان كے مہينے ميں پى ٹى وى پر ڈرامے چلتے رہيں گے ليكن محرم شروع ہوتے ہى سواے شيعہ علما كى تقارير و مجالس عزاكے سب كچھ ٹى وى سے غائب ہو جاتاہے-يومِ عاشورا پرحكومت كى طرف سے ايك كى بجائے دو چهٹياں ہوتى ہيں- حكومت ِپاكستان كى طرف سے زكوٰة كى كٹوتى سے شيعہ حضرات مستثنىٰ ہيں-ہم شيعہ كو دى جانے والى ان تمام مراعات كے خلاف تونہيں ليكن ہم يہ كہتے ہيں كہ جب شيعہ علما ايك ’اقليت‘ ہونے كے باوجود پاكستان ميں اپنے عقائد كے اظہار كے ليے اس قدرمواقع، ذرائع اور وسائل سے مستفيد ہورہے ہيں اوروہ ان كو بهرپور طريقے سے استعمال بهى كرتے ہيں تو پهر ان كى طرف سے اہل سنت پر ا پنے عقائد كے اظہار كے ليے اتنى سختى كيوں …؟
ايكسپريس اخبار نے تين دن شيعہ حضرات كے حاليہ مظاہروں كى خبر شائع كى- ايك دن آخرى صفحہ پر جبكہ دو دن پہلے صفحہ پر، اور اس پر بهى مستزاد يہ كہ ايك مظاہرے ميں شركت كى جو تصوير مذكورہ اخبار نے شائع كى، اس ميں پندرہ بيس سے زائد افراد موجود نہيں تهے ليكن خبر ميں سينكڑوں افراد كے مظاہرے كى بات كر كے اس مسئلے كوبلا وجہ اُچهالنے كى كوشش كى گئى- ايك روزنامہ اخبار نے اس چهوٹے سے مسئلے كو جس طرح بڑها چڑها كر پيش كيا اور اس كو كوريج دى، اس سے بهى بخوبى معلوم ہوجاتا ہے كہ پرنٹ ميڈيا پر شيعہ كا كتنا كنٹرول ہے ؟
جيو ٹى وى كو مختلف شيعہ حضرات كى طرف سے مسلسل ٹيلى فون كروائے گئے اور دهمكياں دى گئيں جس پر جناب غامدى صاحب اورديگر حضرات كے معذرتى بيانات بهى جيو نے نشر كيے ليكن ان معذرتى بيانات كے نشرہونے كے دو روز بعد بهى سيالكوٹ ميں شيعہ حضرات كى طرف سے ايك مظاہرہ ہوا جو قابل افسوس امرہے- اسى قسم كا واقعہ كچھ عرصہ پہلے روزنامہ’ دن ‘كے ساتھ بهى ہوا كہ ايك عرب عالم كے ترجمہ شدہ كالم ميں ’شيعہ قاتلانِ حسين‘ كے الفاظ شائع ہو گئے جس پر جامعہ منتظر ميں ايك ميٹنگ كے دوران يہ فيصلہ ہوا كہ روزنامہ’دن‘ كے دفتر پر مسلح ہو كر حملہ كيا جائے اور اس كو آگ لگا دى جائے- بعد ازاں روزنامہ’دن ‘ نے اس ايڈيٹر (جس كى غفلت سے يہ جملہ شائع ہوگيا تها)كو فارغ كر كے شيعہ انتہا پسندوں سے جان چهڑائى-
يہ بهى امر واقعہ ہے كہ جن حضرات نے يہ مظاہرے كيے ہيں، ان ميں ايك دو ہى بمشكل ايسے ہوں گے جنہوں نے ’غامدى‘ پروگرام بهى ديكهاہو گا-بقيہ سارے تو اپنے واعظين كى اندہى تقليد ميں مظاہرہ كرنے كے ليے اكٹهے ہو گئے تهے- ہم يہ كہتے ہيں كہ تشدد كسى مسئلے كا حل نہيں ہوتا- اگر شيعہ حضرات يہ سمجهتے تهے كہ ٹى وى پروگرام ميں كوئى غلط بات نشر ہو گئى ہے تو وہ اس كى علمى ترديد كرتے، تاريخى حقائق كى روشنى ميں جناب جاويد احمد غامدى صاحب كى سرپرستى ميں نشر ہونے والے موقف كا جواب ديتے جس سے مثبت انداز ميں ايك علمى و فكرى تحقيق آگے بڑهتى جس كا فائدہ ہر دو فريق كو ہوتا-پاكستان كى ماضى كى تاريخ اس بات پر گواہ ہے كہ تشدد اور انتہاپسندى كے نتائج سواے دہشت گردى كے كچھ نہيں رہے-ہم شيعہ كے ساتھ ساتھ اہل سنت حضرات سے بهى يہ درخواست كرتے ہيں كہ اختلافات ميں وہ بهى اعتدال و ميانہ روى كى روش اختيار كريں او ر ايك دوسرے پر كفر كے فتوے لگانے اور اظہارِ رائے پر قتل وغارت كى دهمكياں دينے كى بجائے ايك علمى و فكرى مكالمے كى فضا قائم كريں-
يہاں يہ امر مناسب معلوم ہوتا ہے كہ ہم بعض معتدل و متوازن شيعہ علما اور جماعتوں كو خراجِ تحسين پيش كريں جنہوں نے اپنے مذہب ميں اصلاح اور مذہبى شدت پسندى كے خاتمہ كے ليے بہت سى قربانياں ديں-ان شيعہ علما ميں معروف ايرانى عالم الامام الاكبر سيد ابو الحسن الموسوى الاصفہانى اور اُن كے پوتے ڈاكٹر موسىٰ الموسوى كى كوششيں خاص طور پر قابل تعريف ہيں -
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
علاوہ ازيں علامه آية الله شريعت سنغلجلى سيد ابو الفضل آية الله العظمى البرقعى الاستاذ على الاكبر حكمى زاده علامه دكتور على شريعتى علامه نعمة الله صالحى نجف آبادى الاستاذ حيدر على بن اسماعيل قلمداران السيد مصطفى الطبطبائى،علامه احمد كسروىiسيد حسن الموسوى الكربلائى النجفىاور سيد قاضى نياز حسين نقوىk وغير ہ جليل القدر شيعہ علما كى كوششيں بهى خراجِ تحسين كے لائق ہيں- يہ حضرات نہ صرف اپنے مذہب كے مصلحين ہيں بلكہ شيعہ،سنى اتحاد اور مفاہمت ميں بهى ان كا كام سنہرى حروف سے لكهے جانے كے قابل ہے-
شيعہ ميں ’زيديہ ‘ فرقہ ايسا ہے جو كہ واقعتا ايك معتدل اور متوازن فرقہ ہے اور اس وقت اس فرقے كے ايك كروڑ سے زائد پيروكار دنيا بهر ميں موجود ہيں- ايران ميں اكثر پڑها لكها طبقہ شيعہ كے اسى گروہ سے تعلق ركهتا ہے-
1 اس كے برعكس پاكستان ميں انتہا پسندوں كا رويہ يہ ہے كہ پاكستان ميں اہل سنت كے علما كى كئى ايسى كتابوں پر پابندى لگوائى جن ميں واقعہ كربلا،شہادتِ حسين يا صحابہ كرام كے بارے ميں شيعى عقائد كو بيان كياگيا تها- جن ميں بالكل بے ضرر اور معتدل عظيم خطيب پاكستان حضرت مولانا حافظ محمد اسماعيل روپڑى (م١٩٦٢ء) كى كتاب ’شہيد ِكربلا‘ پر سب سے پہلے بيورو كريسى نے پابندى لگائى- علاوہ ازيں ان كتب ميں علامہ احسان الٰہى ظہير كى كتاب ’شيعہ اور تشيع‘اور ’شيعہ اور اہل بيت‘بهى شامل ہيں- حتىٰ كہ مولانا عبد العزيزمحدث دہلوى كى كتاب ’تحفہ اثنا عشريہ ‘كو پاكستان كى تمام پبلك لائبريريز سے غائب كروا ديا گيا-بہت بڑے ايرانى شيعہ عالم اور فقيہ ہيں- ان كے علم كے بارے ميں يہ قول شيعہ ميں بڑا معروف ہے
أنسٰى من قبله وأتعب من بعده (يعنى اپنے سے پہلے لوگوں كو بہلوا ديا اور اپنے بعد والوں كو عاجز كر ديا)
حالانكہ ان كى اصلاحى كوششوں كے جواب ميں ايك متعصب شيعہ نے ان كے بيٹے كو نجف اشرف ميں حضرت على كے مقبرہ كے احاطہ ميں مغرب اورعشا كے درميان دورانِ نماز بے دردى سے ذبح كر ديا تها-
2١٩٣٠ء ميں ’نجف اشرف ‘ ميں پيدا ہوئے- وہيں سے ’اجتہاد‘ كے موضوع پر فقہ اسلامى ميں ايم اے كى ڈگرى حاصل كى- ١٩٥٥ء ميں طہران يونيورسٹى سے اسلامى قانون ميں ڈاكٹريٹ كى ڈگرى حاصل كى …
گزشتہ حاشيہ: ١٩٥٩ء ميں پيرس يونيورسٹى سے فلسفہ ميں پى ايچ ڈى كيا-١٩٦٠ء سے ١٩٦٢ء تك بغداد يونيورسٹى ميں اقتصادِ اسلامى كے پروفيسر رہے -١٩٦٨ء سے ١٩٧٨ء تك بغداد يونيورسٹى ميں فلسفہ كے پروفيسر رہے-١٩٧٣ء تا ١٩٧٤ء ہالہ يونيورسٹى جرمنى اور طرابلس يونيورسٹى ليبيا ميں وزٹنگ پروفيسر كى حيثيت سے كام كيا- ١٩٧٥ء تا ١٩٧٦ء ہارورڈ يونيورسٹى امريكہ ميں ريسرچ سكالر كى حيثيت سے كام كيا-١٩٧٨ء ميں لاس اينجلس يونيورسٹى ميں بهى وزٹنگ پروفيسر رہے -شيعہ كے عقائد و رسومات كى تصحيح پر كئى كتب لكهيں جن ميں سے معروف كتاب الشيعة والتصحيح ہے جس كا اُردوترجمہ ’اصلاحِ شيعہ ‘ كے نام سے شائع ہوا- اُردو ترجمے پر پبلشر كا نام نہيں ہے جس كى بنيادى وجہ بهى شيعہ كا تعصب، انتہا پسندى اور دهمكى آميز رويہ ہے جس كى وجہ سے اوّلاً تو كسى عالم كو حق بات كہنے كى جرات ہى نہيں ہوتى اور اگر كوئى اس جرات كا مظاہرہ كرتا بهى ہے تواسے انتہا پسندى كے ڈر سے پبلشر كا نام دينے كى ہمت نہيں ہوتى- حال ہى ميں ’احمد الكاتب‘ كے ايك عربى مقالے كا ترجمہ ’شيعہ افكار ولايت سے لے كر شورىٰ تك‘ لندن سے شائع ہوا ہے جس ميں اُنہوں نے شيعہ كے بارہويں امام، مہدى منتظر كى پيدائش كا تاريخى حقائق كى روشنى ميں انكار كيا ہے كيونكہ پاكستان ميں اس كى اشاعت كى گنجائش نہيں تهى -
بہت بڑے ايرانى شيعہ عالم اور فقيہ تهے- ١٩٤٣ء ميں وفات پائى -شيعہ عقائد و نظريات ميں اصلاح كى تحريك اُنہوں نے ہى شروع كى تهى اور شيعہ كى اصلاح كے ليے كئى كتب اور مقالات لكهے جن ميں الاسلام والرجعة ايك معروف كتاب ہے جس ميں اُنہوں نے شيعہ كے تصورِ امامت اور بارہويں
اللہ تعالىٰ ہميں انتہاپسندى كا شكار ہونے سے بچائے اورباہمى فروعى، فقہى اوراجتہادى اختلافات
ميں روا دارى كى توفيق عنايت فرمائے- آمين!
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا ابوالحسن علوی بھائی

جزاک اللہ خیرا عبدالرشید بھائی
 
Top