فرید بن مسعود
مبتدی
- شمولیت
- مارچ 26، 2014
- پیغامات
- 1
- ری ایکشن اسکور
- 2
- پوائنٹ
- 17
آج دنیا بھر میں مسلمان جن مصائب اور آفات کا شکار ہیں ان کا سب سے بڑا سبب آپس کا تفرقہ اور خانہ جنگی ہے۔ ورنہ عددی کثرت اور مادی اسباب و وسائل کے اعتبارسے مسلمانوں کو سابقہ ادوار میں ایسی طاقت حاصل نہ تھی جیسی آج حاصل ہے۔ اگر آج امتِ مسلمہ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ امت کے بجائے ایک منتشر ہجوم نظر آتی ہے، جس میں دور دور تک کسی اتحاد کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ وہ بات بھی پرانی ہے کہ جب اس امت میں سیاسی، نسبی، نسلی، لسانی، وطنی اور طبقاتی تفرقہ تھا۔ آج اس امت میں جو تفرقہ سب سے زیادہ اور سب سے خطرناک ہے وہ دینِ اسلام کے نام پر ہے، جس میں ایک فرقہ اپنے مخالف فرقے پر سب و شتم، دشمنی، یہاں تک کہ قتل و غارت گری سے بھی گریز نہیں کرتا۔
ایک طرف تو اس خانہ جنگی کے ذریعے امت میں تباہی پھیل رہی ہے تو دوسری جانب ہر دوسری قوم ہم مسلمانوں کو اپنے اندر جذب کرکے ہمارے وجود کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ غیر اخلاقی ثقافت اور معاشرت کی ہر طرف سے یلغار ہے۔ اپنی ہی حکومتوں کی جانب سے اسلام کے نام لیوا افراد پر عرصہِ حیات تنگ کیا جارہا ہے اور ملحدانہ اقدامات کے ذریعے عقائد کو متزلزل کیا جارہا ہے۔ مغربی تعلیم و تہذیب کے ذریعے مادہ پرستی کا دور دورہ ہے۔ سالانہ عیسائی ،قادیانی، اور ہندو مشنریز کے ذریعے سینکڑوںمرتد ہورہے ہیں۔ دورِ جدید کے فتنہ پرور لبرل، لیفٹسٹ اور سیکولر ذہن کے حامل افراد، عوام میں بڑے پیمانے پر دین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ مارِ آستین گروہ جیسے منکرینِ حدیث وغیرہ، اسلام کی جڑیں کھودنے میں مصروف ہیں۔
میڈیا، این جی اوز، جدید تعلیمی نظام، بیوروکریٹس دراصل سرمایہ دارانہ اقدار و ادارتی صف بندی کے قیام و استحکام کے لئے شب و روز محنت کررہے ہیں۔ ان مصیبتوں سے بچی کچی عوام میں سے بھی ایک بڑی تعداد بے حیائی اور فحاشی کے طوفان میں بہہ جاتی ہے۔ ان دین بیزارطبقات کی کوششوں کے ذریعے ایک روائتی اسلامی معاشرے کے بجائے ایک عالمی دجالی اور سرمایہ دارانہ معاشرہ وجود میں لایا جارہا ہے۔
------------------
اسلام وہ دین ہے جو عدل و مساوات کا ایک انقلابی پیغام لے کر اٹھا۔ )خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ( (سورۃ النساء: ۱)ترجمہ:"اس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا" ،کے ذریعے اسلامی مساوات ِ باہمی کو عام کیا تو )اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَة( (سورۃ الحجرات: ۱۰)ترجمہ:"بےشک مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں"کہہ کر تمیزِ بندہ و آقا کے سارے بت توڑ دیے۔ یہاں تک کہ خطبہِ حجۃ الوداع کے موقعے پر ))لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلَّا بِالتَّقْوَى((1 ترجمہ:"کوئی فضیلت نہیں کسی عربی کے لئے کسی عجمی پر، نہ کسی عجمی کے لئے کسی عربی پر، نہ کسی گورے کو کسی کالے پر نہ ہی کالے کو گورے پر سوائے تقوٰی کے"،کے انقلابی نعرے سے ہر قسم کی عصبیتیں ختم کردیں۔ یہی وہ حقیقت تھی جسے دینِ اسلام نے پیش کیا اور اس جاہلی درجہ بندی کا دروازہ بند کیا جس میں اپنی شناخت کو کسی سعی و عمل کے ذریعے نہیں مٹایا جاسکتا یعنی کوئی کالا گورا نہیں بن سکتا، نہ ہی کوئی عجمی عربی بن سکتا ۔ یہ مساوات صرف نعروں کی حد تک ہی نہیں تھا بلکہ ایچ- جی-ویلز(H.G.Wells)2 اپنی شہرہِ آفاق کتاب (A Short History of the World) میں اعتراف کرتا ہے:
"Although the sermons of human freedom, fraternity and equality were said before also, and we find a lot of them in Jesus of Nazareth, but it must be admitted that it was Muhammad who for the first time in history established a society based on these principles."
ترجمہ:"اگرچہ انسانی اخوت ،مساوات اورحریت کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کیے گئے ہیں اور ایسے وعظ مسیحِ ناصریؑ کے ہا ں بھی ملتے ہیں ۔لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محمد (ﷺ)ہی تھے ،جنہوں نے تاریخ انسانی میں پہلی بار ان اصولوں پر ایک معاشرہ قائم فرمایا"
لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ )وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ( (الشورٰی: ۱۴)ترجمہ:"اور انہوں نے تفرقہ پیدا نہیں کیا مگراس کے بعد کہ ان کے پاس علم آگیا تھا، آپس کی ضد کی وجہ سے" کے مصداق لوگوں میں تفرقہ پیدا ہوا۔ مفسر امام ابو العالیہؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں "بغیا علیٰ الدنیا و ملکھا و زخرفھا و زینتھا و سلطانھا"۔ترجمہ: حبِ دنیا، اقتدار کی چاہ، اس کی زیب و زینت اور سلطنت کی محبت پیدا ہوئی تو تفرقہ ظاہر ہوا۔
-----------------
1 :بیہقی، شعبُ الایمان،فصل ومما یجب حفظاللسان۔۔۔، عن جابر بن عبداللہ
2: H. G. Wells (21 September 1866 – 13 August 1946) English author, historian, teacher, and journalist.
آج بھی جب کوئی تفرقہ پیدا ہوتا ہے تو دنیاوی حرص، اپنی بڑائی یا انا اور اپنی ایک الگ پہچان و شہرت کے لئے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناتا ہے۔ یعنی آج بھی اس تفرقے کی ایک بڑی وجہ یہی "بغیاً" یعنی ضد ہے ۔
تفرقے کا دوسرا سبب "غلو" یعنی حد سے آگے بڑھ جانا ہے۔ اللہ تعالٰی نے قران حکیم میں فرمایا ہے) لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ( (سورۃ النساء:177)ترجمہ:"دین میں غلو نہ کرو"۔ اصل میں موجودہ دور میں جو غلو تفرقہ بازی کا سبب ہے وہ غیر شعوری ہے اور غلو کرنے والے اسے دین کی خدمت سمجھتے ہوئے کرتے ہیں، جبکہ وہ دین کا نقصان کر رہے ہوتے ہیں۔ فروعی اور اجتہادی امور میں تعصب برتنا اور اپنی اختیار کردہ رائے کے علاوہ دوسری رائے کے حاملین کو مخطی یعنی اجتہادی غلطی کرنے والا ہی نہیں بلکہ باطل اور گنہگار قرار دینا اور ان سے ایسا رویہ رکھنا کہ جیسا اہل باطل سے رکھا جاتا ہے، آج کے دور میں غلو کی واضح مثالیں ہیں۔ بعض لوگ تو غلو میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اپنے مسلک کی دعوت اس طرح دیتے ہیں کہ جیسے کسی غیر مسلم کو اسلام کی دعوت دی جاتی ہے۔ اکثر یہ غلو علماءِ سوء میں پایا جاتا ہے جو بغیر اہلیت و تدبر کے دوسروں پر فتوٰے جڑتےہیں اور اس طرح سلفِ صالحین کےمنہج سے انحراف کرتے ہیں۔ نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے ((أَنَا زَعِیمٌ بِبَیْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَآئَ وَإِن کَانَ مُحِقًّا1)) ترجمہ: میں اس شخص کو پہلے جنت کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دے۔ کیا ہم نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان کو ان فروعی معاملات میں تفرقے سے بچنے کا ذریعہ نہیں بنا سکتے؟ یہ ایک غور طلب سوال ہے۔
تفرقے کا تیسرا اور سب سے اہم سبب قرآن سے دوری ہے۔ بقولِ اقبال:
؎ خوار از مہجورئِ قرآں شدی
شکوہ سنج ِگردشِ دوراں شدی2
قرآن وہ واحد شے ہے جس پر مسلمانوں کے علاوہ غیرمسلموں کا بھی اتفاق ہے کہ یہ وہی کتاب ہے جوحضرت محمد ﷺ نے اپنی امت کو دی۔ مسلمانوں کا ایمان ایک قدم اور آگے ہے کہ یہ وہی کتاب ہے جو اللہ نے جبرائیلؑ کے ذریعے حضرت محمد ﷺ کو عطا فرمائی۔ مگر آج مسلمانوں کا حال ہے کہ ) إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ( (سورۃ بنی اسرئیل:9)ترجمہ:"بےشک یہ قرآن ہدایت دیتا ہے اس راہ کی طرف جو بالکل سیدھی ہے" کے باوجود ہم نے اس ہدایت
----------
1:سنن ابی داود، فی حسن الاخلاق، عن ابی امامۃ
2:ترجمہ: مسلمان خوار ہے قرآن کو چھعڑنے کی وجہ سے، اور شکوہ کرتے ہیں گردشِ زمانہ کا
-----------------
کے سرچشمے کو چھوڑ رکھا ہے۔ وہ" حبل اللہ1" جسے تھام کر تفرقے سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ہم نے اسے پسِ پشت ڈالا ہوا ہے۔ وعظ ہو یا خطاب وہاں بھی قرآن کا کوئی ذکر نہیں، کوئی اصلاحی درس ہو تو وہاں بھی) فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ( (سورۃ ق:45)ترجمہ:"پس تزکیر کیجئے اس قرآن کے ذریعے"کے حکم پر عمل نہیں اور عموماً بیانات اور دروس میں قرآن کے علاوہ دیگرغیر منصوص کتب سے تذکیر کرائی جاتی ہے۔ وہ قرآن جو دلوں کو جوڑنے کے لئے نازل ہوا تھا وہ آج دوسروں کے خلاف گواہیاں دینے کے لئے کام آتا ہے۔ وہ کتاب جس پر عمل کرنے کی وجہ سے یہ قرآن بروزِ قیامت ہماری شفاعت کرتا، آج ہم )وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا( (سورۃ الفرقان:30)ترجمہ:"اور کہیں گے رسول، اے رب! میری قوم نے اس قرآن کو پسِ پشت ڈال دیا"کے مطابق اپنے آپ کو نبی ﷺ کی بددعا کامستحق بنا رہے ہیں ۔
اختلافِ رائے ایک فطری اور طبعی امر ہے جس کو نہ مٹایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو مٹانا اسلام کا منشاء ہے۔ قرآن میں بھی اللہ نے فرمایا ہے) وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ( (سورۃ ھود:118)ترجمہ:"اگر آپ کا رب چاہتا تو بنا دیتا لوگوں کو ایک ہی امت، مگر وہ اختلاف میں ہی رہیں گے"۔کا مل اتفاقِ رائے صرف دو صورتوں میں ممکن ہے، یا تو ان لوگوں میں کوئی سوجھ بوجھ والا شخص ہی نہ ہو یا پھر اس مجمعے میں تمام انسان ایسے ضمیر فروش اور خائن ہوں کہ ایک بات کو غلط جانتے ہوئے بھی غلط نہ کہیں اور) إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا( (سورۃ النساء:58)ترجمہ: بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں(مشوروں) کو لوٹادو ان کے اہل کی طرف"۔ پر بھی عمل نہ کریں۔ اسلام چونکہ فطری دین ہے اس لئے اس نے فطری جذبے کو دبایا نہیں ہے بلکہ صحیح رخ دیا ہے۔ اسلام میں شورائیت کا نظام قائم کیا گیا تاکہ مختلف آراء کی موجودگی میں بصیرت کے ساتھ فیصلہ کیا جاسکے۔
نبی اکرم ﷺ کے دورِ مبارک میں بھی انتظامی اور تجرباتی معاملات میں اختلاف کیا گیا۔ نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کے دور میں پیش آمدہ نئے دینی امور ، اجتہادی مسائل اور تعارض ِ آیات و احادیث کے فہم میں اختلاف ہوا۔ یہاں تک کہ روز مرہ کے اعمال جیسے نماز و روزہ کے فروعی و جزئی امور پر بھی اختلافات ہوئے اور ان مباحث کا ذکر بھی ملتا ہے۔پھر یہ اختلاف تابعین اور تبع تابعین میں بھی جاری رہا۔ یہاں تک کہ بعض امورمیں تو حلال حرام تک میں اختلاف ہوا۔ مگر قابلِ تقلید بات یہ ہے کہ یہ اختلاف مخالفت میں نہ بدلا۔ نہ کسی شخص یا گروہ نے مخالفین کو باطل کہا نہ سب و شتم کا نشانہ بنایا۔ بلکہ تمام ایک دوسرے کے تنوع علم سے فائدہ اٹھاتے تھے۔
-----------------
1: ) وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا((سورۃ آلِ عمران:103)ترجمہ:"اور تم سب آپس میں چمٹ جاوْ اللہ کی رسی سے اور تفرقے میں نہ پڑو"۔
حافظ ابنِ عبد البر قرطبیؒ "جامع بیان العلم" میں لکھتے ہیں:" ما برح أولو الفتوى يفتون فيحل هذا ويحرم هذا فلا يرى المحرم أن المحل هلك لتحليله ولا يرى المحل أن المحرم هلك لتحريمه 1" ترجمہ:"اہلِ افتاء فتوٰی دیتے رہے، ایک اس کو حلال قرار دیتا اور ایک حرام، مگر نہ حرام کہنے والا حلال کہنے والے کو غلط کہتا، نہ ہی حلال کہنے والا حرام کہنے والے کو غلط کہتا"۔
اسی طرح امام ابو حنیفؒہ فرماتے ہیں: " أحد القولين خطأ والمأثم فيه موضوع2"۔ترجمہ:"دو اقوال میں سے ایک خطاء پر مبنی ہے، اور اس کا گناہ کرنے والا معاف ہے"۔
اور امام مالکؒ فرماتے ہیں: "المراء و الجدال فی العلم یذھب بنور العلم من قلب العبد، و قیل لہ رجل لہ علم بالسنۃ فھو یجادل عنھا؟ قال ولٰکن لیخبر بالسنۃ فان قبل منہ والاسکت3۔"ترجمہ:"علم میں جھگڑا بندے کے دل سے علم کا نور لے جاتا ہے، پوچھا گیا کہ وہ شخص جسے سنت کا علم ہو کیا وہ اس کے حق میں نہ جھگڑے؟، کہا کہ اس کو باخبر کردے، اگر قبول کرلے تو ٹھیک ورنہ خاموش ہوجائے"۔
اسی قسم کے اقوال امام احمد بن حنبلؒ اور امام شافعیؒ سے بھی منقول ہیں۔ تو خلاصہ یہ کہ اجتہاد میں ہمیشہ ایک رائے صحیح اور غلط بھی ہوتی ہے مگر غلط رائے کے حاملین کو باطل نہیں کہا جائے گا کیونکہ وہ بھی پوری محنت کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں اور حدیث (متفق علیہ) کے مطابق دونوں کے لئے اجر ہے۔
یہاں ایک ایسے شخص کے لئے جو علومِ دینیہ، اصولِ اجتہاد اور اسبابِ اختلاف سے ناواقف ہو اس بات کو سمجھنا مشکل ہوجائے گا کہ دو متضاد باتیں بیک وقت صحیح کیسے ہوسکتی ہیں؟ مگر اصل معاملہ یہ ہے کہ وہ محکم حلال و حرام جو نصوص میں ذکر ہوئے ہیں ان میں تو کسی قسم کا اختلاف نہیں ہوا اور نہ ہی ایسا جائز ہے۔ اور نہ ہی اس معاملے میں کوئی رواداری برتی جاتی ہے کیونکہ حق واضح ہے۔رہی دوسری بات کہ وہ امور جو کہ نصوص میں وارد نہیں ہوئے تو اس بارے میں ایک عالم مجتہد آثار و تعامل پر غور و خوض کرکے ایک نتیجے پر پہنچتا ہے، جبکہ دوسرا عالم اتنی ہی محنت، اور انہی اصول کے نتیجے میں مختلف رائے تک پہنچتا ہے۔ اب چاہے یہ دونوں نتائج بظاہر متعارض ہی کیوں نہ ہوں دونوں کو اپنی رائے پر عمل کرنے کا حق ہے اور دونوں ہی ثواب کے حقدار ہونگے۔
وہ عام آدمی جو اس اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ بہرحال ان میں سے کسی ایک کی تقلید کرے گا۔ مگر اسے اس بات کا خیال رکھنا پڑے گا کہ وہ ایسے عالم سے فتویٰ حاصل کرے جو فتویٰ دینے کا اہل ہو جیسے وہ دنیاوی معاملات میں اپنی صحت کے لئےبہترین ڈاکٹر تلاش کرتا ہے۔ ایسے میں حدیث کے مطابق اگر عامی کا عمل غلط بھی ہو تو اس کا وبال عامی نہیں بلکہ عالم پر ہوگا۔ اب آتے ہیں اس مسئلہ کے علاج پر۔
----------------
1:عن يحيى بن سعيد، جامع بیان العلم،جلد2،ص 80، اشاعت دار الکتب علمیہ بیروت
2:عن السمتي، جامع بیان العلم،جلد2،ص 83، اشاعت دار الکتب علمیہ بیروت
3:عن الهيثم بن جميل، جامع بیان العلم ،جلد 2، ص 94، اشاعت دار الکتب علمیہ بیروت
؎ وہی دیرینہ بیماری وہی نا محکمی دل کی
علاج اسکا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی
ضرورت اس کی ہے کہ تحمل پیدا کیا جائے۔عوامی سطح پر بھی اور علماء کی سطح پر بھی۔وہ رائے جس پر ہم یا ہمارے مکتبِ فکر کے علماء اجتہاد کے ذریعے پہنچے ہوں اسے ہم یقینا صحیح سمجھ کر عمل کریں مگر دیگر مکاتبِ فکر کی آراء کا بھی احترام کریں اور ان کی مذمت کرنے سے بچیں۔
مزید یہ کہ ہمیں اپنے ذہنوں سے تعصب کو مٹانا ہوگا۔صرف اپنے آپ کو ہی صحیح سمجھنا،اور اپنی غلطیوں کو بھی نظر انداز کرنا، غلط طرزِ عمل ہے۔ممکن ہے کہ ہم اپنی وہ رائے جس پر فخر سے عمل کررہے ہوں وہ خطاء پر مبنی ہو۔ اللہ کی رحمت سے امید اور اس کے عذاب کا خوف انسان کے دل سے تعصبات کا خاتمہ کردیتا ہے۔
اس خیال کو ذہن میں پختہ سے پختہ کیا جائے کہ ایک مسلمان چاہے کتنا ہی گنہگار اور آپ کا مخالف ہی کیوں نہ ہو ایک نہ ایک دن جہنم کی سزا بھگت کر جنت میں ضرور جائے گا جبکہ ایک کافر، کتنا ہی آپکا اچھا دوست اور حسنِ اخلاق والا ہو مگر وہ کبھی جنت میں نہیں جاسکتا۔ یہی وہ نظریہ ہے جس کی وجہ سے) أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ( (سورۃ الفتح:29)ترجمہ:"کفار پر سخت اور آپس میں نرم" اور) أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ((سورۃ المائدہ:54)ترجمہ:"مومنین پر نرم ، کفار پر سخت" پر عمل ممکن ہوتا ہے۔ ہمیں بار بار اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہماری نفرت کفار اور اہلِ باطل کے مقابلے میں ان مسلمانوں سے تو نہیں جن کو ہم اپنا مخالف سمجھتے ہیں اور کیا ہم کفر، مادہ پرستی، الحاد سے اتنی نفرت کرتے ہیں جتنی اپنے مخالف گروہ سے؟ مندرجہ بالا آیات سے ایک معنٰی یہ بھی نکلتا ہے کہ جب مسلمانوں سے محبت ہوگی تو ہی کفار سے دشمنی ہوگی، اور اگر خدا نخواستہ ہم کفار کو پسند کریں تو پھر مسلمانوں سے نفرت پیدا ہوگی اور کفار ہماری اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر ہمارے اندر اور تفرقہ پیدا کریں گے۔ اس کی بہترین مثال صحابہ/ کے دور میں ملتی ہے۔ ابن کثیر لکھتے ہیں:
رومی حکومت نے جب یہ دیکھا حضرت معاویہ/، علی/ سے جنگ میں مشغول ہیں تو وہ بڑی فوج کے ساتھ قریبی علاقے میں چلا آیا اور حضرت معاویہ/ کو لالچ دیا (کہ وہ اس کے ساتھ مل جائیں)۔حضرت معاویہ نے اس کو لکھا: "واللہ! اگر تم نہ رکے اور اے لعین! اپنے ملک واپس نہ گئے تو میں اور میرا چچا زاد بھائی (علی/) آپس میں اتحاد کر لیں گے اور تمہیں تمہارے ملک سے نکال باہر کریں گے۔ روئے زمین کو تم پر تنگ کر کے رکھ دیں گے۔ اگر تم نے اپنا ارادہ پورا کرنے کی ٹھان ہی لی ہے تو میں قسم کھاتا ہوں کہ میں اپنے ساتھی (علی/) سے صلح کر لوں گا۔ پھر تمہارے خلاف ان کا جو لشکر روانہ ہو گا، اس کے ہراول دستے میں شامل ہو کر قسطنطنیہ کو جلا ہوا کوئلہ بنا دوں گا اور تمہاری حکومت کو گاجر مولی کی طرح اکھاڑ پھینکوں گا۔" یہ خط پڑھ کر قیصر روم ڈر گیا اور اس نے جنگ بندی کی اپیل کی1۔
-----------------
1:ابن کثیر،11/400۔ ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان (سنہ 60ھ)
پھر وہ دینی جماعتیں جو الگ الگ نصب العین بھی لے کر اٹھی ہوں مگر اگر واقعی دین کی خدمت کا جذبہ ہو تو سب آپس میں مل کر دین کی ایک عظیم طاقت بن سکتی ہیں۔چاہے وہ کوئی مدرسہ بناکر تعلیم و تعلم کے لئے محنت کررہے ہوں ، تبلیغی جماعت بناکر دین کی نشرو اشاعت کررہے ہوں،کوئی اصلاحی تحریک چلاکر اخلاق کی بہتری کے خواہاں ہوں یا اقامت دین کے لئے جہاد کررہے ہوں، آپس میں ایک جماعت نہ ہونے کے باوجود بھی ایک عظیم مقصد کی تکمیل کے لئے آگے بڑھ سکتے ہیں بشرط یہ کہ اپنی جماعت کے منہج و مقصد کو ہی کل دین نہ سمجھ بیٹھیں اور دوسروں کے مناہجِ خدمتِ دین پر کھلے بندوں تنقید نہ کریں۔
دوسرے یہ کہ دین کہ جامع تصورِ حیا ت کو سمجھا جائے۔ کیونکہ ایک بہت بڑی تعداد مذہب کو معاشرت، معیشت اور سیاست سے الگ کرتی ہے۔ اس طرح دین کے ایک وسیع دائرے کو چھوڑ کر ایک محدود انداز میں عمل کرنے سے تفریق پیدا ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ آج بھی اسلام کو دیگر مذاہب کی طرح تسبیح و مصلٰی تک محدود سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عبادات، رسوم اور اعتقادات کے علاوہ تجارت کے مسائل بھی بیان کئے، ریاستِ مدینہ قائم کی جس کے ذریعے سیاست کے احکام سکھائے اور معاشرتی احکام کے ذریعے ایک جدید تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی۔ اگر ہم ان تمام احکامات کے بجائے ایک گوشے میں عمل کرتے رہیں تو سورہ انفال کی آیت1 کے مطابق ہماری جمیعت کمزور ہوگی اور ہمارا رعب ختم ہوجائےگا۔
ایک اہم نکتہ یہ کہ بدعات اور غلط رسومات کے خلاف کام کریں تو قرآنی ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے۔ پہلے حکمت سے دعوت دی جائے پھر موعظت یعنی نرم و عظ سے سمجھایا جائے اور اگر علمی بحث چل نکلے تو مجادلہ بھی احسن طریقہ سے ہو۔خیال رہے کہ کوئی وعظ نبیؑ کے وعظ جتنا نرم نہیں ہوسکتا اور کوئی غلط شخص فرعون سے برا نہیں ہوسکتا۔باوجود اس کہ اللہ نے حضرت موسٰیؑ کو قول لیّن کے ذریعے فرعون کو دعوت دینے کی تلقین کی۔ ظاہر ہےہمیں بھی اس رویے کو اپنانا چاہیے۔
اہم ترین شے "حبل اللہ" یعنی قرآن ہے۔ )وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا((سورۃ آلِ عمران:103)ترجمہ:"اور تم سب آپس میں چمٹ جاوْ اللہ کی رسی سے اور تفرقے میں نہ پڑو"۔ اس قرآن پر امت جمع ہوجائے جس کی صحت پر پوری دنیا جمع ہے۔جیسے مندرجہ بالا آیت کے اگلے حصۃ میں ہے کہ اس قرآن کی وجہ سے وہ دشمن جو صدیوں سے لڑتے آئے تھے ،باہم شیروشکر ہوگئے تو ہم امتِ مسلمہ جو ماضی قریب میں بھی متحد تھی آج بھی اس قرآن کے ذریعے متحد ہوسکتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کی تعلیم کو حتٰی الامکان عام کیا جائے ، اور قرآن کے تذکیری پہلو کو عوام میں بیان کیا جائے۔ لوگوں کے تزکئے اور باطنی بیماریوں کا علاج بھی قرآن کے ذریعے کیا جائے۔ ہر شہر میں عوامی دروسِ قرآن کو پھیلایا جائے۔ جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو قرآنی علوم سے روشناس کرایا جائے تاکہ وہ قرآن کی قوتِ تسخیر کے ذریعے اپنی زندگیاں قرآن کی خدمت کے لئے وقف کریں۔ اس کے ذریعے نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوگی جو جدیدیت زدہ مغربی فکر و فلسفہ کا مقابلہ کر سکیں،
----------------------------
1: )وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ((سورۃ انفال:46)ترجمہ:"اور اطاعت کرو اللہ اور اس کے رسول کی اور تنازع نہ کرو، ورنہ کم ہمت ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی"
قرآن اور اسلام پر کئے جانے والے اعتراضات کا جواب دیں، اسلام کی تعلیمات کو عصرِ حاضر کے تقاضاوں کے مطابق پیش کرسکیں، اسلامی عملی ہدایات کو جدید دور کے طرزِ زندگی پر منطبق کر نے کی صلاحیت کے حامل ہوں ۔اور پھر یہی کوشش آئندہ چل کر امت کی ایک مرکز(یعنی خلافت) پراتحاد کا سبب بنے گی ۔ انشاء اللہ
ایک طرف تو اس خانہ جنگی کے ذریعے امت میں تباہی پھیل رہی ہے تو دوسری جانب ہر دوسری قوم ہم مسلمانوں کو اپنے اندر جذب کرکے ہمارے وجود کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ غیر اخلاقی ثقافت اور معاشرت کی ہر طرف سے یلغار ہے۔ اپنی ہی حکومتوں کی جانب سے اسلام کے نام لیوا افراد پر عرصہِ حیات تنگ کیا جارہا ہے اور ملحدانہ اقدامات کے ذریعے عقائد کو متزلزل کیا جارہا ہے۔ مغربی تعلیم و تہذیب کے ذریعے مادہ پرستی کا دور دورہ ہے۔ سالانہ عیسائی ،قادیانی، اور ہندو مشنریز کے ذریعے سینکڑوںمرتد ہورہے ہیں۔ دورِ جدید کے فتنہ پرور لبرل، لیفٹسٹ اور سیکولر ذہن کے حامل افراد، عوام میں بڑے پیمانے پر دین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ مارِ آستین گروہ جیسے منکرینِ حدیث وغیرہ، اسلام کی جڑیں کھودنے میں مصروف ہیں۔
میڈیا، این جی اوز، جدید تعلیمی نظام، بیوروکریٹس دراصل سرمایہ دارانہ اقدار و ادارتی صف بندی کے قیام و استحکام کے لئے شب و روز محنت کررہے ہیں۔ ان مصیبتوں سے بچی کچی عوام میں سے بھی ایک بڑی تعداد بے حیائی اور فحاشی کے طوفان میں بہہ جاتی ہے۔ ان دین بیزارطبقات کی کوششوں کے ذریعے ایک روائتی اسلامی معاشرے کے بجائے ایک عالمی دجالی اور سرمایہ دارانہ معاشرہ وجود میں لایا جارہا ہے۔
------------------
اسلام وہ دین ہے جو عدل و مساوات کا ایک انقلابی پیغام لے کر اٹھا۔ )خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ( (سورۃ النساء: ۱)ترجمہ:"اس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا" ،کے ذریعے اسلامی مساوات ِ باہمی کو عام کیا تو )اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَة( (سورۃ الحجرات: ۱۰)ترجمہ:"بےشک مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں"کہہ کر تمیزِ بندہ و آقا کے سارے بت توڑ دیے۔ یہاں تک کہ خطبہِ حجۃ الوداع کے موقعے پر ))لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلَّا بِالتَّقْوَى((1 ترجمہ:"کوئی فضیلت نہیں کسی عربی کے لئے کسی عجمی پر، نہ کسی عجمی کے لئے کسی عربی پر، نہ کسی گورے کو کسی کالے پر نہ ہی کالے کو گورے پر سوائے تقوٰی کے"،کے انقلابی نعرے سے ہر قسم کی عصبیتیں ختم کردیں۔ یہی وہ حقیقت تھی جسے دینِ اسلام نے پیش کیا اور اس جاہلی درجہ بندی کا دروازہ بند کیا جس میں اپنی شناخت کو کسی سعی و عمل کے ذریعے نہیں مٹایا جاسکتا یعنی کوئی کالا گورا نہیں بن سکتا، نہ ہی کوئی عجمی عربی بن سکتا ۔ یہ مساوات صرف نعروں کی حد تک ہی نہیں تھا بلکہ ایچ- جی-ویلز(H.G.Wells)2 اپنی شہرہِ آفاق کتاب (A Short History of the World) میں اعتراف کرتا ہے:
"Although the sermons of human freedom, fraternity and equality were said before also, and we find a lot of them in Jesus of Nazareth, but it must be admitted that it was Muhammad who for the first time in history established a society based on these principles."
ترجمہ:"اگرچہ انسانی اخوت ،مساوات اورحریت کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کیے گئے ہیں اور ایسے وعظ مسیحِ ناصریؑ کے ہا ں بھی ملتے ہیں ۔لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محمد (ﷺ)ہی تھے ،جنہوں نے تاریخ انسانی میں پہلی بار ان اصولوں پر ایک معاشرہ قائم فرمایا"
لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ )وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ( (الشورٰی: ۱۴)ترجمہ:"اور انہوں نے تفرقہ پیدا نہیں کیا مگراس کے بعد کہ ان کے پاس علم آگیا تھا، آپس کی ضد کی وجہ سے" کے مصداق لوگوں میں تفرقہ پیدا ہوا۔ مفسر امام ابو العالیہؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں "بغیا علیٰ الدنیا و ملکھا و زخرفھا و زینتھا و سلطانھا"۔ترجمہ: حبِ دنیا، اقتدار کی چاہ، اس کی زیب و زینت اور سلطنت کی محبت پیدا ہوئی تو تفرقہ ظاہر ہوا۔
-----------------
1 :بیہقی، شعبُ الایمان،فصل ومما یجب حفظاللسان۔۔۔، عن جابر بن عبداللہ
2: H. G. Wells (21 September 1866 – 13 August 1946) English author, historian, teacher, and journalist.
آج بھی جب کوئی تفرقہ پیدا ہوتا ہے تو دنیاوی حرص، اپنی بڑائی یا انا اور اپنی ایک الگ پہچان و شہرت کے لئے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناتا ہے۔ یعنی آج بھی اس تفرقے کی ایک بڑی وجہ یہی "بغیاً" یعنی ضد ہے ۔
تفرقے کا دوسرا سبب "غلو" یعنی حد سے آگے بڑھ جانا ہے۔ اللہ تعالٰی نے قران حکیم میں فرمایا ہے) لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ( (سورۃ النساء:177)ترجمہ:"دین میں غلو نہ کرو"۔ اصل میں موجودہ دور میں جو غلو تفرقہ بازی کا سبب ہے وہ غیر شعوری ہے اور غلو کرنے والے اسے دین کی خدمت سمجھتے ہوئے کرتے ہیں، جبکہ وہ دین کا نقصان کر رہے ہوتے ہیں۔ فروعی اور اجتہادی امور میں تعصب برتنا اور اپنی اختیار کردہ رائے کے علاوہ دوسری رائے کے حاملین کو مخطی یعنی اجتہادی غلطی کرنے والا ہی نہیں بلکہ باطل اور گنہگار قرار دینا اور ان سے ایسا رویہ رکھنا کہ جیسا اہل باطل سے رکھا جاتا ہے، آج کے دور میں غلو کی واضح مثالیں ہیں۔ بعض لوگ تو غلو میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اپنے مسلک کی دعوت اس طرح دیتے ہیں کہ جیسے کسی غیر مسلم کو اسلام کی دعوت دی جاتی ہے۔ اکثر یہ غلو علماءِ سوء میں پایا جاتا ہے جو بغیر اہلیت و تدبر کے دوسروں پر فتوٰے جڑتےہیں اور اس طرح سلفِ صالحین کےمنہج سے انحراف کرتے ہیں۔ نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے ((أَنَا زَعِیمٌ بِبَیْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَآئَ وَإِن کَانَ مُحِقًّا1)) ترجمہ: میں اس شخص کو پہلے جنت کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دے۔ کیا ہم نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان کو ان فروعی معاملات میں تفرقے سے بچنے کا ذریعہ نہیں بنا سکتے؟ یہ ایک غور طلب سوال ہے۔
تفرقے کا تیسرا اور سب سے اہم سبب قرآن سے دوری ہے۔ بقولِ اقبال:
؎ خوار از مہجورئِ قرآں شدی
شکوہ سنج ِگردشِ دوراں شدی2
قرآن وہ واحد شے ہے جس پر مسلمانوں کے علاوہ غیرمسلموں کا بھی اتفاق ہے کہ یہ وہی کتاب ہے جوحضرت محمد ﷺ نے اپنی امت کو دی۔ مسلمانوں کا ایمان ایک قدم اور آگے ہے کہ یہ وہی کتاب ہے جو اللہ نے جبرائیلؑ کے ذریعے حضرت محمد ﷺ کو عطا فرمائی۔ مگر آج مسلمانوں کا حال ہے کہ ) إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ( (سورۃ بنی اسرئیل:9)ترجمہ:"بےشک یہ قرآن ہدایت دیتا ہے اس راہ کی طرف جو بالکل سیدھی ہے" کے باوجود ہم نے اس ہدایت
----------
1:سنن ابی داود، فی حسن الاخلاق، عن ابی امامۃ
2:ترجمہ: مسلمان خوار ہے قرآن کو چھعڑنے کی وجہ سے، اور شکوہ کرتے ہیں گردشِ زمانہ کا
-----------------
کے سرچشمے کو چھوڑ رکھا ہے۔ وہ" حبل اللہ1" جسے تھام کر تفرقے سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ہم نے اسے پسِ پشت ڈالا ہوا ہے۔ وعظ ہو یا خطاب وہاں بھی قرآن کا کوئی ذکر نہیں، کوئی اصلاحی درس ہو تو وہاں بھی) فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ( (سورۃ ق:45)ترجمہ:"پس تزکیر کیجئے اس قرآن کے ذریعے"کے حکم پر عمل نہیں اور عموماً بیانات اور دروس میں قرآن کے علاوہ دیگرغیر منصوص کتب سے تذکیر کرائی جاتی ہے۔ وہ قرآن جو دلوں کو جوڑنے کے لئے نازل ہوا تھا وہ آج دوسروں کے خلاف گواہیاں دینے کے لئے کام آتا ہے۔ وہ کتاب جس پر عمل کرنے کی وجہ سے یہ قرآن بروزِ قیامت ہماری شفاعت کرتا، آج ہم )وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا( (سورۃ الفرقان:30)ترجمہ:"اور کہیں گے رسول، اے رب! میری قوم نے اس قرآن کو پسِ پشت ڈال دیا"کے مطابق اپنے آپ کو نبی ﷺ کی بددعا کامستحق بنا رہے ہیں ۔
اختلافِ رائے ایک فطری اور طبعی امر ہے جس کو نہ مٹایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو مٹانا اسلام کا منشاء ہے۔ قرآن میں بھی اللہ نے فرمایا ہے) وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ( (سورۃ ھود:118)ترجمہ:"اگر آپ کا رب چاہتا تو بنا دیتا لوگوں کو ایک ہی امت، مگر وہ اختلاف میں ہی رہیں گے"۔کا مل اتفاقِ رائے صرف دو صورتوں میں ممکن ہے، یا تو ان لوگوں میں کوئی سوجھ بوجھ والا شخص ہی نہ ہو یا پھر اس مجمعے میں تمام انسان ایسے ضمیر فروش اور خائن ہوں کہ ایک بات کو غلط جانتے ہوئے بھی غلط نہ کہیں اور) إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا( (سورۃ النساء:58)ترجمہ: بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں(مشوروں) کو لوٹادو ان کے اہل کی طرف"۔ پر بھی عمل نہ کریں۔ اسلام چونکہ فطری دین ہے اس لئے اس نے فطری جذبے کو دبایا نہیں ہے بلکہ صحیح رخ دیا ہے۔ اسلام میں شورائیت کا نظام قائم کیا گیا تاکہ مختلف آراء کی موجودگی میں بصیرت کے ساتھ فیصلہ کیا جاسکے۔
نبی اکرم ﷺ کے دورِ مبارک میں بھی انتظامی اور تجرباتی معاملات میں اختلاف کیا گیا۔ نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کے دور میں پیش آمدہ نئے دینی امور ، اجتہادی مسائل اور تعارض ِ آیات و احادیث کے فہم میں اختلاف ہوا۔ یہاں تک کہ روز مرہ کے اعمال جیسے نماز و روزہ کے فروعی و جزئی امور پر بھی اختلافات ہوئے اور ان مباحث کا ذکر بھی ملتا ہے۔پھر یہ اختلاف تابعین اور تبع تابعین میں بھی جاری رہا۔ یہاں تک کہ بعض امورمیں تو حلال حرام تک میں اختلاف ہوا۔ مگر قابلِ تقلید بات یہ ہے کہ یہ اختلاف مخالفت میں نہ بدلا۔ نہ کسی شخص یا گروہ نے مخالفین کو باطل کہا نہ سب و شتم کا نشانہ بنایا۔ بلکہ تمام ایک دوسرے کے تنوع علم سے فائدہ اٹھاتے تھے۔
-----------------
1: ) وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا((سورۃ آلِ عمران:103)ترجمہ:"اور تم سب آپس میں چمٹ جاوْ اللہ کی رسی سے اور تفرقے میں نہ پڑو"۔
حافظ ابنِ عبد البر قرطبیؒ "جامع بیان العلم" میں لکھتے ہیں:" ما برح أولو الفتوى يفتون فيحل هذا ويحرم هذا فلا يرى المحرم أن المحل هلك لتحليله ولا يرى المحل أن المحرم هلك لتحريمه 1" ترجمہ:"اہلِ افتاء فتوٰی دیتے رہے، ایک اس کو حلال قرار دیتا اور ایک حرام، مگر نہ حرام کہنے والا حلال کہنے والے کو غلط کہتا، نہ ہی حلال کہنے والا حرام کہنے والے کو غلط کہتا"۔
اسی طرح امام ابو حنیفؒہ فرماتے ہیں: " أحد القولين خطأ والمأثم فيه موضوع2"۔ترجمہ:"دو اقوال میں سے ایک خطاء پر مبنی ہے، اور اس کا گناہ کرنے والا معاف ہے"۔
اور امام مالکؒ فرماتے ہیں: "المراء و الجدال فی العلم یذھب بنور العلم من قلب العبد، و قیل لہ رجل لہ علم بالسنۃ فھو یجادل عنھا؟ قال ولٰکن لیخبر بالسنۃ فان قبل منہ والاسکت3۔"ترجمہ:"علم میں جھگڑا بندے کے دل سے علم کا نور لے جاتا ہے، پوچھا گیا کہ وہ شخص جسے سنت کا علم ہو کیا وہ اس کے حق میں نہ جھگڑے؟، کہا کہ اس کو باخبر کردے، اگر قبول کرلے تو ٹھیک ورنہ خاموش ہوجائے"۔
اسی قسم کے اقوال امام احمد بن حنبلؒ اور امام شافعیؒ سے بھی منقول ہیں۔ تو خلاصہ یہ کہ اجتہاد میں ہمیشہ ایک رائے صحیح اور غلط بھی ہوتی ہے مگر غلط رائے کے حاملین کو باطل نہیں کہا جائے گا کیونکہ وہ بھی پوری محنت کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں اور حدیث (متفق علیہ) کے مطابق دونوں کے لئے اجر ہے۔
یہاں ایک ایسے شخص کے لئے جو علومِ دینیہ، اصولِ اجتہاد اور اسبابِ اختلاف سے ناواقف ہو اس بات کو سمجھنا مشکل ہوجائے گا کہ دو متضاد باتیں بیک وقت صحیح کیسے ہوسکتی ہیں؟ مگر اصل معاملہ یہ ہے کہ وہ محکم حلال و حرام جو نصوص میں ذکر ہوئے ہیں ان میں تو کسی قسم کا اختلاف نہیں ہوا اور نہ ہی ایسا جائز ہے۔ اور نہ ہی اس معاملے میں کوئی رواداری برتی جاتی ہے کیونکہ حق واضح ہے۔رہی دوسری بات کہ وہ امور جو کہ نصوص میں وارد نہیں ہوئے تو اس بارے میں ایک عالم مجتہد آثار و تعامل پر غور و خوض کرکے ایک نتیجے پر پہنچتا ہے، جبکہ دوسرا عالم اتنی ہی محنت، اور انہی اصول کے نتیجے میں مختلف رائے تک پہنچتا ہے۔ اب چاہے یہ دونوں نتائج بظاہر متعارض ہی کیوں نہ ہوں دونوں کو اپنی رائے پر عمل کرنے کا حق ہے اور دونوں ہی ثواب کے حقدار ہونگے۔
وہ عام آدمی جو اس اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ بہرحال ان میں سے کسی ایک کی تقلید کرے گا۔ مگر اسے اس بات کا خیال رکھنا پڑے گا کہ وہ ایسے عالم سے فتویٰ حاصل کرے جو فتویٰ دینے کا اہل ہو جیسے وہ دنیاوی معاملات میں اپنی صحت کے لئےبہترین ڈاکٹر تلاش کرتا ہے۔ ایسے میں حدیث کے مطابق اگر عامی کا عمل غلط بھی ہو تو اس کا وبال عامی نہیں بلکہ عالم پر ہوگا۔ اب آتے ہیں اس مسئلہ کے علاج پر۔
----------------
1:عن يحيى بن سعيد، جامع بیان العلم،جلد2،ص 80، اشاعت دار الکتب علمیہ بیروت
2:عن السمتي، جامع بیان العلم،جلد2،ص 83، اشاعت دار الکتب علمیہ بیروت
3:عن الهيثم بن جميل، جامع بیان العلم ،جلد 2، ص 94، اشاعت دار الکتب علمیہ بیروت
؎ وہی دیرینہ بیماری وہی نا محکمی دل کی
علاج اسکا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی
ضرورت اس کی ہے کہ تحمل پیدا کیا جائے۔عوامی سطح پر بھی اور علماء کی سطح پر بھی۔وہ رائے جس پر ہم یا ہمارے مکتبِ فکر کے علماء اجتہاد کے ذریعے پہنچے ہوں اسے ہم یقینا صحیح سمجھ کر عمل کریں مگر دیگر مکاتبِ فکر کی آراء کا بھی احترام کریں اور ان کی مذمت کرنے سے بچیں۔
مزید یہ کہ ہمیں اپنے ذہنوں سے تعصب کو مٹانا ہوگا۔صرف اپنے آپ کو ہی صحیح سمجھنا،اور اپنی غلطیوں کو بھی نظر انداز کرنا، غلط طرزِ عمل ہے۔ممکن ہے کہ ہم اپنی وہ رائے جس پر فخر سے عمل کررہے ہوں وہ خطاء پر مبنی ہو۔ اللہ کی رحمت سے امید اور اس کے عذاب کا خوف انسان کے دل سے تعصبات کا خاتمہ کردیتا ہے۔
اس خیال کو ذہن میں پختہ سے پختہ کیا جائے کہ ایک مسلمان چاہے کتنا ہی گنہگار اور آپ کا مخالف ہی کیوں نہ ہو ایک نہ ایک دن جہنم کی سزا بھگت کر جنت میں ضرور جائے گا جبکہ ایک کافر، کتنا ہی آپکا اچھا دوست اور حسنِ اخلاق والا ہو مگر وہ کبھی جنت میں نہیں جاسکتا۔ یہی وہ نظریہ ہے جس کی وجہ سے) أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ( (سورۃ الفتح:29)ترجمہ:"کفار پر سخت اور آپس میں نرم" اور) أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ((سورۃ المائدہ:54)ترجمہ:"مومنین پر نرم ، کفار پر سخت" پر عمل ممکن ہوتا ہے۔ ہمیں بار بار اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہماری نفرت کفار اور اہلِ باطل کے مقابلے میں ان مسلمانوں سے تو نہیں جن کو ہم اپنا مخالف سمجھتے ہیں اور کیا ہم کفر، مادہ پرستی، الحاد سے اتنی نفرت کرتے ہیں جتنی اپنے مخالف گروہ سے؟ مندرجہ بالا آیات سے ایک معنٰی یہ بھی نکلتا ہے کہ جب مسلمانوں سے محبت ہوگی تو ہی کفار سے دشمنی ہوگی، اور اگر خدا نخواستہ ہم کفار کو پسند کریں تو پھر مسلمانوں سے نفرت پیدا ہوگی اور کفار ہماری اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر ہمارے اندر اور تفرقہ پیدا کریں گے۔ اس کی بہترین مثال صحابہ/ کے دور میں ملتی ہے۔ ابن کثیر لکھتے ہیں:
رومی حکومت نے جب یہ دیکھا حضرت معاویہ/، علی/ سے جنگ میں مشغول ہیں تو وہ بڑی فوج کے ساتھ قریبی علاقے میں چلا آیا اور حضرت معاویہ/ کو لالچ دیا (کہ وہ اس کے ساتھ مل جائیں)۔حضرت معاویہ نے اس کو لکھا: "واللہ! اگر تم نہ رکے اور اے لعین! اپنے ملک واپس نہ گئے تو میں اور میرا چچا زاد بھائی (علی/) آپس میں اتحاد کر لیں گے اور تمہیں تمہارے ملک سے نکال باہر کریں گے۔ روئے زمین کو تم پر تنگ کر کے رکھ دیں گے۔ اگر تم نے اپنا ارادہ پورا کرنے کی ٹھان ہی لی ہے تو میں قسم کھاتا ہوں کہ میں اپنے ساتھی (علی/) سے صلح کر لوں گا۔ پھر تمہارے خلاف ان کا جو لشکر روانہ ہو گا، اس کے ہراول دستے میں شامل ہو کر قسطنطنیہ کو جلا ہوا کوئلہ بنا دوں گا اور تمہاری حکومت کو گاجر مولی کی طرح اکھاڑ پھینکوں گا۔" یہ خط پڑھ کر قیصر روم ڈر گیا اور اس نے جنگ بندی کی اپیل کی1۔
-----------------
1:ابن کثیر،11/400۔ ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان (سنہ 60ھ)
پھر وہ دینی جماعتیں جو الگ الگ نصب العین بھی لے کر اٹھی ہوں مگر اگر واقعی دین کی خدمت کا جذبہ ہو تو سب آپس میں مل کر دین کی ایک عظیم طاقت بن سکتی ہیں۔چاہے وہ کوئی مدرسہ بناکر تعلیم و تعلم کے لئے محنت کررہے ہوں ، تبلیغی جماعت بناکر دین کی نشرو اشاعت کررہے ہوں،کوئی اصلاحی تحریک چلاکر اخلاق کی بہتری کے خواہاں ہوں یا اقامت دین کے لئے جہاد کررہے ہوں، آپس میں ایک جماعت نہ ہونے کے باوجود بھی ایک عظیم مقصد کی تکمیل کے لئے آگے بڑھ سکتے ہیں بشرط یہ کہ اپنی جماعت کے منہج و مقصد کو ہی کل دین نہ سمجھ بیٹھیں اور دوسروں کے مناہجِ خدمتِ دین پر کھلے بندوں تنقید نہ کریں۔
دوسرے یہ کہ دین کہ جامع تصورِ حیا ت کو سمجھا جائے۔ کیونکہ ایک بہت بڑی تعداد مذہب کو معاشرت، معیشت اور سیاست سے الگ کرتی ہے۔ اس طرح دین کے ایک وسیع دائرے کو چھوڑ کر ایک محدود انداز میں عمل کرنے سے تفریق پیدا ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ آج بھی اسلام کو دیگر مذاہب کی طرح تسبیح و مصلٰی تک محدود سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عبادات، رسوم اور اعتقادات کے علاوہ تجارت کے مسائل بھی بیان کئے، ریاستِ مدینہ قائم کی جس کے ذریعے سیاست کے احکام سکھائے اور معاشرتی احکام کے ذریعے ایک جدید تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی۔ اگر ہم ان تمام احکامات کے بجائے ایک گوشے میں عمل کرتے رہیں تو سورہ انفال کی آیت1 کے مطابق ہماری جمیعت کمزور ہوگی اور ہمارا رعب ختم ہوجائےگا۔
ایک اہم نکتہ یہ کہ بدعات اور غلط رسومات کے خلاف کام کریں تو قرآنی ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے۔ پہلے حکمت سے دعوت دی جائے پھر موعظت یعنی نرم و عظ سے سمجھایا جائے اور اگر علمی بحث چل نکلے تو مجادلہ بھی احسن طریقہ سے ہو۔خیال رہے کہ کوئی وعظ نبیؑ کے وعظ جتنا نرم نہیں ہوسکتا اور کوئی غلط شخص فرعون سے برا نہیں ہوسکتا۔باوجود اس کہ اللہ نے حضرت موسٰیؑ کو قول لیّن کے ذریعے فرعون کو دعوت دینے کی تلقین کی۔ ظاہر ہےہمیں بھی اس رویے کو اپنانا چاہیے۔
اہم ترین شے "حبل اللہ" یعنی قرآن ہے۔ )وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا((سورۃ آلِ عمران:103)ترجمہ:"اور تم سب آپس میں چمٹ جاوْ اللہ کی رسی سے اور تفرقے میں نہ پڑو"۔ اس قرآن پر امت جمع ہوجائے جس کی صحت پر پوری دنیا جمع ہے۔جیسے مندرجہ بالا آیت کے اگلے حصۃ میں ہے کہ اس قرآن کی وجہ سے وہ دشمن جو صدیوں سے لڑتے آئے تھے ،باہم شیروشکر ہوگئے تو ہم امتِ مسلمہ جو ماضی قریب میں بھی متحد تھی آج بھی اس قرآن کے ذریعے متحد ہوسکتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کی تعلیم کو حتٰی الامکان عام کیا جائے ، اور قرآن کے تذکیری پہلو کو عوام میں بیان کیا جائے۔ لوگوں کے تزکئے اور باطنی بیماریوں کا علاج بھی قرآن کے ذریعے کیا جائے۔ ہر شہر میں عوامی دروسِ قرآن کو پھیلایا جائے۔ جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو قرآنی علوم سے روشناس کرایا جائے تاکہ وہ قرآن کی قوتِ تسخیر کے ذریعے اپنی زندگیاں قرآن کی خدمت کے لئے وقف کریں۔ اس کے ذریعے نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوگی جو جدیدیت زدہ مغربی فکر و فلسفہ کا مقابلہ کر سکیں،
----------------------------
1: )وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ((سورۃ انفال:46)ترجمہ:"اور اطاعت کرو اللہ اور اس کے رسول کی اور تنازع نہ کرو، ورنہ کم ہمت ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی"
قرآن اور اسلام پر کئے جانے والے اعتراضات کا جواب دیں، اسلام کی تعلیمات کو عصرِ حاضر کے تقاضاوں کے مطابق پیش کرسکیں، اسلامی عملی ہدایات کو جدید دور کے طرزِ زندگی پر منطبق کر نے کی صلاحیت کے حامل ہوں ۔اور پھر یہی کوشش آئندہ چل کر امت کی ایک مرکز(یعنی خلافت) پراتحاد کا سبب بنے گی ۔ انشاء اللہ