• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مراحل اور حالت جو فرقہء ناجیہ کو پیش آ سکتے ہیں

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مراحل اور حالت جو فرقہء ناجیہ کو پیش آ سکتے ہیں



دین میں ’’جماعت‘‘ کا حکم اور اس سے التزام رکھنے کی بہت سی نصوص وارد ہوتی ہیں، جیسا کہ احادیث سے یہ واضح ہو تا ہے کہ:
(۱) ان میں کچھ تو ایسی نصوص ہیں جن میں ’’جماعت‘‘ کا حکم ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کے مذہب سے التزام کیا جائے، مثلاً افتراق (کی پیشن گوئی) والی احادیث اور ’’لا تزال طائفة من امتی علی الحق‘‘ والی احادیث اور اس طرح وہ حدیث جس میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی سنت اور اپنے بعد خلفاء راشدین مھدین کی سنت کی اتباع کا حکم فرمایا ہے۔
(ب) کچھ نصوص ایسی ہیں جن میں اس ’’جماعت‘‘ کی اتباع کا حکم ہے جس کا امیر ہو، انہی میں یہ حدیث شمار ہوتی ہے (من رأی من امیرہ شیئا فلیصبر فانہ من فارالجماعة شبرا، فمات الا مات میة جاھلیة) کہ جس شخص کو اپنے امیر میں کوئی ناپسندیدہ امر نظر آئے، اسے چاہیے کہ صبر کرے کیونکہ جو ’’جماعت‘‘ سے بالشت بھر بھی مفارقت کرے اور اسی حالت میں اسے موت آلے، وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔ اس طرح حدیث (من اراد بحبوحتہالجنة فلیلزم الجماعة) کہ جو جنت کا لطف و مزہ چاہتا ہے اسے چاہیے کہ جماعت کو لازم پکڑے۔ وغیرہ وغیرہ۔
(ج) اس کے علاوہ کچھ ایسی نصوص ہیں جن سے بات مزید کھلتی ہے ان میں جماعت مسلمین اور ان کے امام سے (اگر وہ ہوں تو) لزوم کا حکم دیا گیا ہے، وگرنہ تمام فرقوں سے اعتزال کا حکم ہے، اس بات پر سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ والی حدیث دلالت کرتی ہے۔ جو بہت سے طریقوں اور روایات سے وارِد ہوئی ہے۔ اب ان نصوص سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فرقہء ناجیہ (یااہل سنت) کو مختلف حالات درپیش ہو سکتے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
پہلی صورت: پہلی صورت یہ ہے کہ امام ’’شرعی‘‘ موجود ہو اور یہ امام اہلسنت کا امام ہو، انہی کے مذہب کا متبع و ملتزم بھی ہو اور داعی بھی، اس مذہب کے ہر مخالف کو ڈرا کے رکھنے والا اور اھواء و بدعات کے حاملین سے برسرپیکار رہتا ہو۔ ایسے امام کی مثال خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے دی جا سکتی ہے چنانچہ ان کے عہد میں جماعت کے مذکورہ بالا دونوں معانی یکجا و مجتمع تھے جماعت کے یہ وہ معانی ہیں جنہیں ہم نے راجح قرار دیا ہے یعنی ایک وہ جماعت جو ایک امام پر مجتمع ہوں اور دوسری وہ جماعت جو اہل سنت و الجماعت ہے۔
ظاہر ہے یہ اعلیٰ ترین صورت ہے اور اس زمانے کا ہر مسلمان اس حالت کے ظہور کی تمنا و آرزو رکھے ہوئے ہے۔ اس حالت میں ہر مسلمان پر فرض ہوتا ہے کہ وہ جماعت کی اتباع کرے، بشمول امیر اس کا التزام کرے اور اس کی دعوت سے چمٹا رہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
دوسری صورت: دوسری صورت یہ ہے کہ امام موجود تو ہو مگر یہ امام بدعتی ہو اور اہلسنت و الجماعت کے مذہب کا التزام نہ کرتا ہوبلکہ اس کے دل میں ایک گونہ اہل بدعات کا مذہب جاگزیں ہو، تاہم اُمت میں کچھ لوگ یا جماعت چاہے وہ متفرق افراد کی صورت میں ہوں یا مختلف جگہوں پر اکٹھ کی صورت میں موجود ہوں، جن کی مذہب اہل سنت کی دعوت و اظہار میں آواز سنی جاتی ہو اور وہ خود اس مذہب سے تمسک بھی رکھتے ہوں اس کی دعوت بھی دیتے ہوں اور اس راستے میں آنے والی تکلیفوں اور آزمائشوں کو برداشت بھی کرتے ہوں۔ اس کی مثال مامون کا عہد ہے جو معتزلہ کے مذہب کا قائل ہو کے مذہب کا قائل ہو کے لوگوں کو بھی اسی کا پابند کرنے لگ گیا تھا اور اس کی خاطر ان پر مصائب ڈھاتا تھا۔ چنانچہ مامون ’’مبتدع‘‘ تھا مگر اس کے زمانے میں حاملین سنت کی ایک جماعت بھی تھی جو بدعت سے انکاری تھی اور اہلسنت کے مذہب کی پابند تھی اور مذہب اعتزال کی دعوت کے سلسلے میں خلفیہ کی اطاعت نہیں کرتی تھی۔
چنانچہ ایسی صورت حال میں مسلمان پر دو امر واجب ہوتے ہیں:
1۔ یہ کہ وہ امام سے التزام بہرحال رکھے اور اس کے خلاف خروج نہ کرے اگر وہ فاسق بھی کیوں نہ ہو۔۔۔ جیسا کہ اہلسنت والجماعت کا مذہب ہے۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس کا یہ بھی فرض ہے کہ جہاںوہ اللہ کی معصیت و نافرمانی کی دعوت دے وہاں اس کی اطاعت نہ کرے، کیونکہ امیر جہاں تک معصیت کا حکم نہ دے اس کی اطاعت فرض ہوتی ہے اور جب وہ کسی معصیت کا حکم دے تو کوئی اطاعت نہیں۔
2۔ دوسرا امر یہ ہے کہ وہ اہلست والجماعت کے مذہب سے چمٹا رہے اور اس جماعت اور گروہ سے وابستہ رہے جو اس مذہب کی دعوت دے، چنانچہ اس جماعت کے ساتھ رہے، جیسے وہ بدعات کے خلاف جہاد کرتے ہوں، یہ بھی ان کے ساتھ مل کر جہاد کرے، اور جس طرح وہ حق کی دعوت دیتے ہوں، یہ بھی ان کے ساتھ یہ کام کرے، ایسی صورت میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی تلزم ’’جماعة المسلمین و امامھم‘‘ والی حدیث کا یہی مطب ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تیسری صورت: تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی شرعی امام سرے سے ہی نہ ہو، عادل نہ جائر، جیسا کہ اُمت مسلمہ کو درپیش ضیاع و کسمپرسی کے موجودہ بعض مراحل میں ہو رہا ہے، تاہم افراد کی صورت میں یا جماعتوں کی شکل میں اہل سنت والجماعت وجود رکھتی ہو۔ اس صورتِ حال میں مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس جماعت سے التزام و تعلق رکھے اس کے ساتھ مل کے اللہ کی طرف دعوت دے اور یہ سب مل کے اقامت دین اور مذہب اہلسنت کی دعوت کے فریضے کی انجام دہی کے لئے کوشش کریں۔ رسول اکرم ﷺ کے اس قول سے یہ مطلب نکلتا ہے ’’تلزم جماعة المسلمین وامامھم‘‘۔ چنانچہ جہاں صحابی دریافت کرتے ہیں ’’فان لم یکن لھم جماعة ولا امام‘‘ اگر مسلمانوں کی نہ جماعت ہو اور نہ امام۔ تو اس سے یہی مطلب نکلتا ہے کہ امام شرعی موجود نہ ہو تو پھر اس جماعت ہی کا التزام واجب ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
چوتھی صورت: چوتھی صورت یہ درپیش ہو سکتی ہے کہ مسلمانوں کا نہ تو کوئی امام ہو اور نہ ہی مذہب اہلسنت کی داعی جماعت، یہ صورتحال بڑے فتنوں کے ظہور کے دوران اور بعض مقامات پر پیش آسکتی ہے جہاں مذہب اہلسنت سے التزام رکھنے والا مسلمان غربت و اجنبیت کا شکار ہو، نہ تو اسے کوئی مددگار میسر ہو اور نہ اہل بدعات کے علاوہ کوئی جائے پناہ ملتی ہو۔ چنانچہ ایسی صورت حال میں مسلمانوں کا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی تلاش کرے جو مذہب اہلسنت کے پابند ہوں، اگر تلاش کرنے پر کوئی ایسا اکٹھ دریافت نہ ہو تو اسے حق کی دعوت دینی چاہیے اور ایسا اکٹھ پیدا کرنے کا کام کرنا چاہیے، بزرگان سلف دوردراز کے شہروں اور ملکوں میں لوگوں کو مذہب اہل سنت اور جماعت کے قیام کی دعوت دیتے تھے۔ چنانچہ ابن وضاح کئی ایک راویوں سے روایت کرتے ہیں کہ اسد بن موسیٰ جو اسد السنہ یعنی ’’شیر سنت‘‘ کے نام سے مشہور ہیں،نے اسد بن فرات کو خط لکھا تھا کہ:
’’میرے بھائی، میں آپ کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ ان سطور کے لکھنے کی وجہ آپ کے بارے میں اچھی شنید ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کولوگوں سے انصاف، مذہب سنت کے اظہار و نصرت اور اہل بدعت کی مخالفت و نقاب کشائی اور سرکوبی ایسے کاموں کی توفیق سے نواز رکھا ہے جس کے نتیجے میں اللہ کے فضل سے آپ کے ہاتھوں اہل بدعت کی گوشمالی ہوئی ہے۔ اہلسنت کو سرفرازی نصیب ہوئی ہے اور آپ کو اہل بدعات کے فساد کے مدمقابل قوت حاصل ہوئی ہے، چنانچہ اللہ نے آپ کو ان کی ذلت کا سبب بنا دیا جس کی وجہ سے اب وہ چھپتے پھرتے ہیں۔ میرے بھائی اس کوشش و کاوش پر میں آپ کو ثواب و اجر کی خوشخبری دینا ہوں، اس نیکی کو آپ نماز و روزہ اور حج و جہاد ایسی نیکیوں میں افضل ترین سمجھیے، یہ اعمال کتاب اللہ کی اقامت اور سنت رسول ﷺ کے احیا کے سامنے کیا حیثیت رکھتے ہیں (اس کے بعد دعوت اور احیاء سنت کے بارے میں احادیث بیان کرتے ہیں، آخر میں یہ الفاظ لکھے ہیں…) اس موقعہ کو غنیمت جانیے اور سنت کی دعوت کا کام جاری رکھیے تاآنکہ آپ کو الفت و مقبولیت حاصل ہو جائے، اور ایسی جماعت وجود میں آجائے، جو اگر آپ کوئی حادثہ بھی پیش آجائے تو آپ کے فرض کو وہ انجام دے سکے اور آپ کے بعد امامت کا فریضہ سرانجام دیں (امارت کا کام کر سکیں) اور آپ کو اس کا ثواب قیامت تک ملتا رہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے، اس لیے آپ بصیرت اور نیک نیتی کے ساتھ کام کرتے رہیں اور اجر کی اُمید رکھیں…‘‘
چنانچہ اگر کہیں مسلمان کو جماعت نہ ملے، اور کوئی اس کی دعوت پر بھی کان نہ دھرے تو بھی اسے کسی اہل بدعت کی طرف جھکاؤ نہیں رکھنا چاہیے، بلکہ ان سب اہل بدعت سے الگ تھلگ رہنا چاہیے تاآنکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے حالات بدل جائیں، یا پھر اسی حالت میں اسے موت آلے۔ رسول اکرم ﷺ نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: (ان تموت یاحذیفہ و انت … علی جزل خیر لک من ان تبع احدا ’’منھم‘‘۔ حذیفہ اگر تمہیں درختوں کی جڑیں چباتے موت آجائے تو بھی اس سے بہتر ہے کہ تم ان میں سے کسی کے پیچھے چل پڑؤ‘‘۔
 
Top