ابو داؤد
رکن
- شمولیت
- اپریل 27، 2020
- پیغامات
- 652
- ری ایکشن اسکور
- 197
- پوائنٹ
- 77
مراسيل كبار التابعين (کبار تابعین کی مرسلات)!
محدث العصر شیخ خالد الحایک حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
مرسلات كبار التابعين ليست كلها صحيحة، وهناك أيضاً تفاوت بين مرسلاتهم، فمرسلات سعيد بن المسيب من أصح المراسيل، ومرسلات عطاء أضعفها لأنه كان يأخذ عن كلّ أحد، ومرسلات مجاهد وطاوس متقاربة.
کبار تابعین کی تمام مرسلات صحیح نہیں ہوتیں، اور ان کے درمیان بھی فرق پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، سعید بن المسیب کی مرسلات سب سے زیادہ صحیح شمار کی جاتی ہیں، جبکہ عطاء کی مرسلات سب سے کمزور مانی جاتی ہیں، کیونکہ وہ ہر ایک سے روایت لے لیتے تھے۔ اسی طرح مجاہد اور طاوس کی مرسلات ایک دوسرے کے قریب سمجھی جاتی ہیں۔
قال علي بن المديني: قلت ليحيى: مرسلات مجاهد أحبّ إليك أو مرسلات طاوس؟ قال: "ما أقربهما" (الجرح والتعديل: 1/244).
علی بن المدینی فرماتے ہیں: میں نے یحییٰ (ابن معین) سے پوچھا: مجاہد کی مرسلات آپ کو زیادہ پسند ہیں یا طاؤس کی؟ تو انہوں نے فرمایا: "یہ دونوں کتنی قریب ہیں!" (الجرح والتعدیل: 1/244)۔
وبعض مرسلات كبار التابعين مقبولة، وللاحتجاج بمرسلاتهم شروط، منها: أن لا تخالف حديثاً صحيحاً، وأن لا يكون فيها نكارة.
بعض مرسلات کبار تابعین مقبول ہوتی ہیں، مگر ان مرسلات سے احتجاج کے لیے چند شرائط ہیں، جن میں یہ شامل ہیں کہ وہ کسی صحیح حدیث کے خلاف نہ ہوں اور ان میں نکارت نہ پائی جائے۔
والمراسيل تكون مشهورة ومعروفة، وفيها أشياء أصلها مرفوع وقد يكون في الصحيحين بعض أصولها، وغالب المراسيل فيها زيادات عن الأحاديث الصحيحة، وسبك القصص والحوارات، وكثير من هذه الزيادات لا يصح؛ لأن المراسيل مظنة الإدخال فيها ما ليس في أصل الحديث، فتؤخذ هذه الزيادة التي في المرسل فترفع وتصبح حديثاً مرفوعاً!
مرسلات عموماً مشہور اور معروف ہوتی ہیں، اور ان میں وہ چیزیں بھی شامل ہوتی ہیں جن کی اصل مرفوع حدیث میں ہوتی ہے، بلکہ بعض اوقات ان کی بعض بنیادیں صحیحین میں بھی پائی جاتی ہیں۔ تاہم، اکثر مرسلات میں صحیح احادیث پر اضافے، قصے، اور مکالمات کا بیان ہوتا ہے، اور ان میں سے بہت سی زیادات صحیح نہیں ہوتیں؛ کیونکہ مرسلات میں ایسی چیز داخل کیے جانے کا احتمال ہوتا ہے جو اصل حدیث میں نہیں۔ چنانچہ، ان مرسلات میں موجود کسی اضافے کو مرفوع قرار دے کر حدیث بنا دیا جاتا ہے!
ويجب التنبه من احتجاج شرّاح الأحاديث بهذه المراسيل، ولا سيما الحافظ ابن حجر في ((الفتح)) فإنه كثيراً ما يلجأ إلى مثل هذه المراسيل في شرحه، بل ويصحح أو يحسّن كثيراً منها!
اور حدیث کے شراح کو ان مرسلات سے احتجاج پر متنبہ رہنا واجب ہے، خصوصاً حافظ ابن حجر کے بارے میں، کیونکہ وہ اپنی کتاب "فتح الباری" میں بکثرت ایسی مرسلات کی طرف رجوع کرتے ہیں، بلکہ ان میں سے بہت سی کو صحیح یا حسن بھی قرار دیتے ہیں!
[قناة الشيخ د. خالد الحايك (دار الحديث الضيائية)]