• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مردار جانور سے فائدہ اٹھانے کی شرعی حیثیت

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
مردار جانور سے فائدہ اٹھانے کی شرعی حیثیت

تحریر: مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)

مردار جانور کے پھینکے ، دفن کرنے ، اس کے مفید اجزاء سے فائدہ اٹھانے یا بیچنے کے سلسلے میں لوگوں میں تردد و شبہات پائے جاتے ہیں ،اس مضمون میں ان نکات پہ روشنی ڈال کر لوگوں کے تردد وشبہات کا ازالہ کرنا مقصود ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہاں مردار سے صرف حلال وطیب جانورمثلا خرگوش،مرغی،بکری، گائے، بیل،بھینس، ہرن،بھیڑ، اونٹ، گھوڑا وغیرہ مراد ہیں ۔
مردار کسے کہتے ہیں ؟
اللہ کا فرمان ہے :حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ [المائدة: 3] ترجمہ: تم پر مردار(مرا ہوا جانور )حرام ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالی ہرقسم کے مردار کی حرمت کو بیان کر رہاہے کہ جو جانور مر جائے اس کا کھانا حرام ہے ۔ شیخ صالح فوزان کہتے ہیں کہ میتہ سے مراد وہ جانور ہے جو شرعی طورپر ذبح کرنے سے قبل مرگیا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مردار ہر وہ جانور ہے جو خود سے مر جائے یا اسے غیرشرعی طریقے سے ذبح کرکے یا گلا دبا کر یا چوٹ کرکے مار دیا جائے حتی کہ حلال زندہ جانور کے جسم سے کاٹا گیا گوشت کا ٹکڑا بھی مردار کے حکم میں ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
ما قُطِعَ منَ البَهيمةِ وَهيَ حيَّةٌ فما قُطِعَ منها فَهوَ مَيتةٌ(صحيح ابن ماجه:2624)
ترجمہ:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زندہ جانور سے جو حصہ کاٹ لیا جائے تو کاٹا گیا حصہ مردار کے حکم میں ہے ۔
اس طرح مردار کی کئی اقسام بنتی ہیں۔ جو ازخود مرجائے، جسے اللہ کے نام پر ذبح نہ کیا جائے، جس پر عمدا بسم اللہ نہ پڑھا جائے، جسے ذبح تو کیا جائے مگر شرعی طورپر نہیں، جسے گلا دبا کر مارا جائے، جسے چوٹ پہنچاکر مارا جائے، جوحصہ زندہ جانور کے جسم سے کاٹ لیا جائےوغیرہ۔

بندوق سے مارا گیا جانور
بندوق سے مارے گئے حلال جانور سے متعلق چند پہلو ہیں ۔
ایک پہلو تو یہ ہے کہ اگر بندوق کی گولی تیز دھار والی ہے ، اس طرح کہ شکار کو کاٹ کر اندرجسم میں داخل ہوجائے تو بسم اللہ پڑھ کر ایسے بندوق سے کئے گئے شکار کو کھایا جائے گا اگرچہ زخم لگنےسے مرجائے اور یہ زخم جسم کے کسی حصہ پر بھی لگا ہو۔ اس کی دلیل تیر سے شکار کرنے والی حدیث ہے ۔
ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر گولی تیز دھار دار نہ ہو بلکہ اس سے شکار کو قوت سے چوٹ لگے اور مر جائے تو پھر وہ شکار حلال نہیں ہے ، ہاں اگر شکار چوٹ لگنے سے نہیں مرے اور جلدی سے اسے اسلامی طریقہ سے ذبح کرلیا جائے تو پھر کھا سکتے ہیں ۔
ایک تیسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اگرتیز دھار والی کسی چیز سے شکار کرتے وقت بسم اللہ نہیں پڑھا اور شکار مرگیا تو اس کا کھانا حلال نہیں ہے کیونکہ اس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا ہے ۔

مردار مچھلی اور ٹڈی حلال ہیں۔
نبی ﷺ ہمارے لئے دو مردار حلال قرار دئے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:
أحلَّت لَكُم ميتتانِ ودَمانِ ، فأمَّا الميتَتانِ ، فالحوتُ والجرادُ ، وأمَّا الدَّمانِ ، فالكبِدُ والطِّحالُ(صحيح ابن ماجه:2695)
ترجمہ:تمہارے لئے دو مردار اور دو خون حلال قراد دئیے گئے ہیں۔ مردار سے مچھلی اور ٹڈی مراد ہیں جبکہ خون سے جگر اور تلی مراد ہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مردار میں مچھلی اور ٹڈی حلال ہے بقیہ ہرقسم کا مردار حرام ہے سوائے مضطرکے کہ وہ اپنی جان بچانے کی غرض سے مردار کھا سکتا ہے۔

کیامردار کو دفن کرنا سنت ہے؟
شریعت میں ایسا کوئی خاص نص نہیں ہے جس سے یہ کہا جائے کہ مردار کو دفن کرنا سنت ہے تاہم اس وقت آبادی کی کثرت ہے ، لوگوں کی بودوباش کے قریب اسے پھینکنا تکلیف دینے کے مترادف ہوگا ایسی صورت میں دفن کردینا انسانوں کو تکلیف سے بچانا ہوگا اور آبادی سے کہیں دور صحرا اور بیابانوں میں پھینک دیتے ہیں جہاں درندے اور جنگلی جانور اپنی خوراک بنالیں تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔
مردار جانور غیرمسلم کو دینا یا بیچنا
یہ شق کافی اہم ہے کیونکہ عموما دیکھا جاتا ہے کہ پولٹری فارم والے مسلمان مری ہوئی مرغیاں غیرمسلموں سے بیچ کر مردار جانور سےپیسہ کماتے ہیں اور جب بڑا جانور مرجائے تب بھی ہم مسلمان اسے غیرمسلم میں ایسے طبقہ کو دے دیتے ہیں جس کے یہاں کھانے کا رواج ہے ۔ شرعی طور پر ایسے عمل کی کیا حیثیت ہے مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں جاننے کی ضرورت ہے ؟ مری ہوئی مرغی بیچنا جائز نہیں ہے اسے کہیں پھنیک دیا جائے یا تعفن سے بچنے کے لئے زمین میں گاڑ دی جائے مگر کسی غیرمسلم کے ہاتھوں نہ بیچی جائے ۔
جب بکری یا بڑا جانور مر جاتا ہے تو کھانے کے لئے غیرمسلم کو دے دیا جاتا ہے یہ عمل بھی ہمارے لئے جائز نہیں ہے کیونکہ مردار کھانا اسلام میں جائز نہیں ہے وہ مردار دوسروں کو کھانے کے لئے دینا بھی جائز نہیں ہوگاالبتہ کھانے کے علاوہ اس کے دوسرے اجزاء مثلا کھال کو کام میں لاتا ہے تو اس غرض سے دینے میں حرج نہیں ہے۔

مردار سےفائدہ اٹھانے کے متعلق اسلام کاایک اہم قاعدہ
مردار سے متعلق ایک اہم بات اوپر گزرچکی کہ اس کا کھانا ہمارے لئے حرام ہے ، دوسری بات مردار جانور سے فائدہ اٹھانے کے متعلق اسلام کےایک اہم قاعدہ سے متعلق ہے،نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ اللهَ إذا حرَّمَ على قومٍ أكْلَ شيءٍ حرَّمَ عليهم ثَمَنَهُ(صحيح الجامع:5107)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی جب کسی قوم پر کوئی چیزکھانا حرام کرتا ہے تو اس کی قیمت کی اس پر حرام کردیتا ہے ۔
یہ فرمان رسول ایک قاعدہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ جو جانور ہمارے لئے حرام ہے اس کو کو ئی حصہ /جزء بیچنا جائز نہیں ہے ۔ مردار جانور سے آج کل بہت سارے کام لئے جارہے ہیں ، ان کاموں میں یہ قاعدہ پیش نظر رہے کہ کمانے کی غرض سے مردار سے کسی طرح کا فائدہ اٹھا نا حرام ہے ۔

مردار سے فائدہ اٹھانے کی شرعی حدود
ہمیں مردار سے متعلق اسلام کا ایک اہم قاعدہ معلوم ہوگیا کہ مردار کی بیع وشراء نہیں کرسکتے ہیں ، اس کی قیمت ہمارے لئے حرام ہے لیکن اسلام ہمیں مردار سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دیتا ہے ۔ اجازت کس قسم کی ہے اور مردار سے کس جہت سے فائدہ اٹھاسکتے اسے نیچے بیان کیا جاتا ہے ۔
(1)مردار کی کھال :
پہلے یہ جان لیں حرام جانور(کتا، خنزیروغیرہ) کی کھال دباغت سے پاک نہیں ہوگی ،یہی موقف زیادہ قوی ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : إذا دُبِغَ الإهابُ فقد طَهُرَ.(صحيح مسلم:366)
ترجمہ: جو کھال دباغت دیدی جائے وہ پاک ہوجاتی ہے ۔
اھاب سے مراد حلال جانور کی کھال ہے اور دباغت نمک وغیرہ لگاکر اس کی رطوبت ختم کرکے چمڑے کو پاک کرنے کا طریقہ ہے ۔ جو جانور حلال ہو اور اسے ذبح کیا جائے تو اس کا چمڑہ یونہی پاک ہے مگر وہ حلال جانور جو ذبح سے پہلے مرجائے تو اس کی کھال کو دباغت دینے سے پاک ہوجاتا ہے جیساکہ حدیث میں ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا:
أن رسولَ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- وجَدَ شاةً ميتةً ، أُعطِيَتْها مولاةٌ لميمونةَ مِن الصدقةِ . فقال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم هلَّا انتفعتم بجلدِها ؟ قالوا : إنها مَيْتَةً . فقال : إنما حُرِّمَ أكلُها.(صحيح مسلم:1492)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ رضی اللہ عنہما کی باندی کو جو بکری صدقہ میں کسی نے دی تھی وہ مری ہوئی دیکھی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ اس کے چمڑے کو کیوں نہیں کام میں لائے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو مردہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ حرام تو صرف اس کا کھانا ہے۔
ایک حدیث میں مردار کے چمڑے سے فائدہ اٹھانے سے منع کیا گیا ہے ، نبی ﷺ کا فرمان ہے :
أن لا تنتفِعوا منَ الميتةِ بإِهابٍ ولا عَصبٍ(صحيح الترمذي:1729)
ترجمہ: تم لوگ مردہ جانوروں کے چمڑے اورپٹھوں سے فائدے نہ حاصل کرو۔
بظاہردونوں احادیث میں تعارض لگ رہاہے مگر حقیقت میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دباغت سے پہلے چمڑے سے فائدہ نہ اٹھاؤ اور جب دباغت دیدی جائے تو فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔

(2)مردار جانور کی ہڈی سے فائدہ اٹھانا:
مردار کی ہڈی سے دو طرح سے آج کل فائدہ اٹھا یا جارہاہے۔ ایک قسم جیلاٹین سے متعلق ہے جس پہ آگے بحث آرہی ہے اور دوسری قسم مصنوعات سے متعلق ہے ۔ مردار کی ہڈی پاک ہے یا نجس اس سلسلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے اور صحیح قول یہ ہے کہ حلال میتہ کی ہڈی پاک ہے ۔ اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے پاک والی رائے کو درست قرار دیا اس پہ تفصیل مجموع فتاوی کی اکیسویں جلد میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اگر ہم میتہ کی ہڈی کو پاک مانتے ہیں تو ا س سے تیار شدہ مصنوعات (اشیاء غیرخوردنی)یعنی برتن وغیرہ کا استعمال جائز ہے ۔
(3)بال اور اون سے استفادہ
مردار جانور کے بال اور اور اون سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانا ممکن ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ دونوں بھی طاہر کے حکم میں ہیں ۔
(4) طبی تجربہ کے لئے چیرپھاڑ
طبی جانچ اور تجربہ کی غرض سے مردار کی چیرپھاڑ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اوپر حدیث گزری ہے کہ مردار بکری سے اس کی کھال اتارکر فائدہ اٹھاسکتے ہیں تو میڈیکل غرض سے مردارکی چیرپھاڑ میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ اس میں نہ جانور کو تکلیف ہے اور نہ ہی بے حرمتی کہلائے گی ۔ انسانی لاش کا حکم علاحدہ ہے۔
مردار سے فائدہ اٹھانے کے حرام پہلو
(1)مردارکی بیع وشراء: اوپر قاعدہ بیان کیا جاچکا ہے کہ جو جانور حرام ہے اس کی تجارت حرام ہے، اس کے کسی جزء کو بیچ کر قیمت وصول کرنا حرام ہےلہذا کسی بھی پہلو سے مردار کی تجارت جائز نہیں ہے۔
(2)
مردارکاگوشت: مردار کا گوشت کھانا جیسے مسلمان کے لئے حرام ہے اسی طرح کسی غیرمسلم کو کھانے کے لئے مردار دینا حرام کام پہ تعاون ہے اور اللہ تعالی نے حرام کاموں پہ تعاون کرنے سے منع کیا ہے ۔
(3)
مردار کی چربی : مردار کی چربی کھانا اس کے گوشت کی طرح حرام ہے لیکن کیا اس کی چربی کا استعمال صابون ، شیمپو وغیرہ میں کر سکتے کہ نہیں ؟
مردار کی چربی سے متعلق نص وارد ہے ، آپ ﷺ سے صحابہ نے پوچھا :
يا رسولَ اللهِ ، أرأَيتَ شُحومَ المَيتةِ ، فإنها يُطلى بها السفُنُ ، ويُدهَنُ بها الجُلودُ ، ويَستَصبِحُ بها الناسُ ؟ فقال :لا ، هو حرامٌ . ثم قال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم عِندَ ذلك :قاتَل اللهُ اليهودَ إنَّ اللهَ لما حرَّم شُحومَها جمَلوه ، ثم باعوه ، فأكَلوا ثمنَه.(صحيح البخاري:2236, صحيح مسلم:1581)
ترجمہ: عرض کیا گیا،اللہ کے رسول ﷺ ! مردار کی چربی کا کیا حکم ہے؟لوگ اسے کشتیوں پر ملتے ہیں، کھالوں پر لگاتے ہیں اور اپنے گھروں میں اس سے چراغ بھی جلالیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:نہیں، یہ بھی حرام ہے۔ پھراس وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ یہود کوتباہ وبرباد کرے!جب اللہ تعالیٰ نے ان پر چربی کو حرام کیا تو انھوں نے اسے پگھلا کر فروخت کیا اور قیمت کھائی۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سرے سے چربی سے فائدہ اٹھانے کو حرام کہا یا بیچ کر اس سے فائدہ اٹھانے کو حرام کہا ؟ شراح حدیث میں اس بابت اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بیچ کر فائدہ اٹھانے والی بات زیادہ قوی معلوم ہوتی ہے اس قول کو شیخ ابن عثیمین نے بھی اختیار کیا ہے۔( الشرح الممتع (8/136)
اس بنیاد پر یہ کہا جائے گا کہ ماکول اللحم مردار کی چربی سے بنی مصنوعات(اشیائے غیرخوردنی) استعمال کی جاسکتی ہیں مگر کھائی جانے والی اشیاء میں مردار کی چربی استعمال کی گئی ہو تو وہ ہمارے لئے حرام ہیں۔
(4)
مردار کی جیلاٹین کا شرعی حکم
جیلاٹن ایک پروٹین کا نام ہے جو گائے ، گدھا،گھوڑا، کتا، سانپ ،مچھلی، بکرا،بھیڑ،سور(خنزیر)اورمردار جانوروں کی کھال، ہڈی اور ریشوں سے تیار کیا جاتا ہے ۔ سبزیوں سے بھی جیلاٹین تیار کیا جاتا ہے لیکن عموماجیلاٹین میں جانور کی ہڈی کااستعمال ہوتا ہےجو ایک مخصوص مراحل طے کرکے عمل میں لایا جاتا ہے ۔
اسلامی ضابطہ کی رو سے ہمارے لئے صرف وہی جیلاٹین حلال ہے جس میں حلال جانور کی ہڈی یا کھال استعمال کی گئی ہواس شرط کے ساتھ کہ حلال جانور کو اسلامی طریقے سے ذبح بھی کیا گیا ہو۔ اگر ہمیں معلوم ہوکہ گائے ، بھیڑ، بکرا،گھوڑاحلال طریقے سے ذبح کیا گیاہو تو ان کی اشیاء سے بنی جیلاٹین کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ۔ اسی طرح مچھلی اور سبزیوں سے بنی جیلاٹین ہمارے لئے حلال ہے ۔
اس کے ماسواحرام جانور سور، کتا، گدھا، سانپ یا مردار جانور سے بنی جیلاٹین کا استعمال جائز نہیں ہے حتی کہ حلال جانور بھی اگر اسلامی طرز پر ذبح نہ کیا گیا ہوتو اس کی جیلاٹین کااستعمال بھی جائز نہیں ۔ اسی طرح جس سامان میں جیلاٹین کی ملاوٹ ہو اور جیلاٹین کا ماخذ معلوم نہ ہوتو اس سے بھی بچنا ہے کیونکہ یہ مشکوک ہوگیا ۔
(5)
مردار کی ہڈی سے بنے برتن یا اس کی کھال سے بنے پرس وجیکیٹ اور جوتے وغیرہ : یہاں ہمیں جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ اشیاء حلال جانور کی ہیں یا حرام کی؟ اگر حرام مردار کی مصنوعات ہیں تو سرے کوئی سامان استعمال کرناجائز نہیں ہے صرف ماکول اللحم مردار کی ہڈی سے بنے برتن یا اس کی کھال سے بنے پرس، جیکٹ اور جوتے وغیرہ استعمال کرسکتے ہیں ۔
(6)
مردارکے اجزاء سے علاج
نبی ﷺ نے حلال چیزوں سے علاج کرنے کا حکم دیا ہے اور مردار ہمارے لئے حرام ہے اس وجہ سے مردار کے کسی عضو سے دوا تیار کرنا جائز نہیں ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :إنَّ اللهَ تعالى خلق الدَّاءَ و الدَّواءَ ، فتداووْا ، و لا تتداووْا بحَرامٍ( صحيح الجامع:1762)
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی نے بیماری اور اس کا علاج پیدا کیا ہے، لہذا تم اپنا علاج کراؤ اور حرام چیزوں سے اپنا علاج مت کراؤ۔
اللہ تعالی ہمیں پاکیزہ زندگی عطا فرمائے، حلال وحرام میں تمیز کرنے ، حلال ذرائع استعمال کرنے اور حرام طریقوں پر چلنے سے بچائے ۔ آمین


نوٹ: یہ مضمون ہردلعزیز سلفی نوجوان عالم محترم کاشف شکیل صاحب کے حکم پر تحریر فرمایاہوں انہوں نے سوال کیا کہ ہمارے علاقہ میں جب کوئی ماکول اللحم جانور مر جاتا ہے تو بجائے تدفین کرنے کے کسی مردہ خورغیرمسلم کو کھانے کے لئے دےدیتے ہیں ، اس کا شرعی حکم کیا ہےتحریری طورپرجواب دیں اور شایدیہ بہت سارے مسلمانوں کاسوال ہو ان کو بھی جواب مل جائےگا۔
 
شمولیت
جون 07، 2015
پیغامات
207
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
86
حال ہی میں ایک پاکستانی ڈاکٹر نے ایک مریض کو سور کا دل ٹرانسپلانٹ کیا ہے ۔اس سلسلے میں شریعتِ اسلامیہ کا کیا حکم ہے ۔کیا ایسا کرنا جائز و درست ہے ؟؟؟؟
کچھ حضرات اسے اس بناء پر جائز قرار دےرہے ہیں کہ ایک انسان کی جان بچانا گویا ساری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے ،لہذا وہ اسے نیکی کا اکم باور کرا کر اس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں تاہم ابھی تک محققین حضرات کی طرف سے کوئی ایک جامع تحقیقی بیان یا تحریر شائع نہیں ہوئی جس کی وجہ سے مذہبی حلقوں میں خاصی بے چینی پائی جاتی ہے
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
360
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
.

سؤر کا دل کسی انسان کو لگانے سے متعلق مذہبی، طبی اور حقوق کی بحث - BBC News اردو

.
 
شمولیت
جون 07، 2015
پیغامات
207
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
86
.

سؤر کا دل کسی انسان کو لگانے سے متعلق مذہبی، طبی اور حقوق کی بحث - BBC News اردو

.
السلام علیکم برادرم! یہ مضمون میں نے پڑھا ہے لیکن میں کوئی ایسی تحریر چاہتا ہوں جس میں تحقیقی انداز میں مانعین اور قائلین کے دلائل اور پھر دلیل کی روشنی میں کسی ایک نقطہ نظر کے راجح ہونے کا ذکر ہو ۔ جزاک الله
 
Top