• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مردہ پیدا ہونے والے بچہ کی نماز جنازہ

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کیا مردہ پیدا ہونے والے بچہ کی نماز جنازہ پڑھنا حدیث صحیح یا عمل صحابہ سے ثابت ہے ؟
یہ سوال صرف اہل علم سے ہے ،
فقہاء کرام کی آراء پہلے ہی نظر سے گزر چکی ہیں ،اس لئے ان کے تذکرہ کی ضرورت نہیں ۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
کیا مردہ پیدا ہونے والے بچہ کی نماز جنازہ پڑھنا حدیث صحیح یا عمل صحابہ سے ثابت ہے ؟
یہ سوال صرف اہل علم سے ہے ،
فقہاء کرام کی آراء پہلے ہی نظر سے گزر چکی ہیں ،اس لئے ان کے تذکرہ کی ضرورت نہیں ۔
كيا آپ کی مراد عملی ثبوت ہے؟؟
ویسے حدیث میں ارشاد تو ہے کہ
السقط یصلی علیہ
اس سے جواز تو ثابت ہو رہا ہے؛رہا یہ کہ کوئی بچہ مردہ پیدا ہوا ہو اور اس کا جنازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے پڑھا ہو تو یہ اس وقت معلوم نہیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم :
بارك الله فيكم وجزاكم الله خيراً
میرا سوال صرف ثبوت شرعی کے حوالہ سے ہے ،حدیث شریف قولی ہو یا فعلی۔۔ مرفوع ہو یا موقوف ،لیکن مقبول ہو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے ۔۔(السقط یصلی علیہ ) ذکر فرمائی ۔
تو یہاں ہمارے دوستوں کا کہنا ہے ۔کہ اس سے مراد وہ ناتمام بچہ ہے ۔جس میں زندگی کے آثار پائے جائیں۔
کیونکہ دار الدعوہ انڈیا کی طرف سے شائع مترجم سنن ابی داود میں اس حدیث کے ذیل میں اسی طرح لکھا گیا ہے ۔

الصلاة على السقط.jpg

 
Last edited:

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
السلام علیکم :
بارك الله فيكم وجزاكم الله خيراً
میرا سوال صرف ثبوت شرعی کے حوالہ سے ہے ،حدیث شریف قولی ہو یا فعلی۔۔ مرفوع ہو یا موقوف ،لیکن مقبول ہو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے ۔۔(السقط یصلی علیہ ) ذکر فرمائی ۔
تو یہاں ہمارے دوستوں کا کہنا ہے ۔کہ اس سے مراد وہ ناتمام بچہ ہے ۔جس میں زندگی کے آثار پائے جائیں۔
کیونکہ دار الدعوہ انڈیا کی طرف سے شائع مترجم سنن ابی داود میں اس حدیث کے ذیل میں اسی طرح لکھا گیا ہے ۔

السقط کی یہ تشریح نادرست ہے کیوں کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ
السقط : الولد تضعه المرأة ميتا، أو لغير تمام
پس اس سے جواز ثابت ہو گیا،الحمدللہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
صحیح بخاری
كتاب الجنائز
کتاب جنازے کے احکام و مسائل
باب إذا أسلم الصبي فمات هل يصلى عليه وهل يعرض على الصبي الإسلام:
باب: ایک بچہ اسلام لایا پھر اس کا انتقال ہو گیا، تو کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟ اور کیا بچے کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی جا سکتی ہے؟
حدیث نمبر: 1358​
حدثنا ابو اليمان اخبرنا شعيب قال ابن شهاب:‏‏‏‏ " يصلى على كل مولود متوفى وإن كان لغية من اجل انه ولد على فطرة الإسلام يدعي ابواه الإسلام او ابوه خاصة وإن كانت امه على غير الإسلام إذا استهل صارخا صلي عليه ولا يصلى على من لا يستهل من اجل انه سقط فإن ابا هريرة رضي الله عنه كان يحدث قال النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " ما من مولود إلا يولد على الفطرة فابواه يهودانه او ينصرانه او يمجسانه كما تنتج البهيمة بهيمة جمعاء هل تحسون فيها من جدعاء " ثم يقول ابو هريرة رضي الله عنه:‏‏‏‏ فطرة الله التي فطر الناس عليها سورة الروم آية 30.

ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ انہوں نے بیان کیا کہ ابن شہاب ہر اس بچے کی جو وفات پا گیا ہو نماز جنازہ پڑھتے تھے۔ اگرچہ وہ حرام ہی کا بچہ کیوں نہ ہو کیونکہ اس کی پیدائش اسلام کی فطرت پر ہوئی۔ یعنی اس صورت میں جب کہ اس کے والدین مسلمان ہونے کے دعویدار ہوں۔ اگر صرف باپ مسلمان ہو اور ماں کا مذہب اسلام کے سوا کوئی اور ہو ۔
اگر بھی بچہ کے رونے کی پیدائش کے وقت اگر آواز سنائی دیتی تو اس پر نماز پڑھی جاتی۔ لیکن اگر پیدائش کے وقت کوئی آواز نہ آتی تو اس کی نماز نہیں پڑھی جاتی تھی۔ بلکہ ایسے بچے کو کچا حمل گر جانے کے درجہ میں سمجھا جاتا تھا۔ کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جانور صحیح سالم بچہ جنتا ہے۔ کیا تم نے کوئی کان کٹا ہوا بچہ بھی دیکھا ہے؟ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کو تلاوت کیا۔ «فطرة الله التي فطر الناس عليها‏‏‏» الآية‏ ”یہ اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں امام الزہری رحمہ اللہ نے ۔سقط ۔۔ کی جنازہ کی نفی فرمائی ہے ۔
 
Last edited:
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
277
پوائنٹ
71
یہاں مسئلہ صرف السقط کے معنی سے ہی حل ہو جائے گا کہ اس کا معنی کیا ہے جو زندہ پیدا ہو کر مرے یا پیدا ہی مردہ ہو تو لغت میں السقط کا ترجمہ یہ ہو ا ہے الجنین یسقط من بطن امہ قبل تمامہ
اپنی تخلیق کے مکمل ہونے سے پہلے جو پیدا ہو جائے
اس میں زندگی یا اس کے چیخنے چلانے کا کوئی دخل نہیں
واللہ اعلم
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
ساقط شدہ حمل كى نماز جنازہ !!!

اگر حمل ساقط ہو جائے تو كيا ہم بچہ كو غسل دينگے اور اسكى نماز جنازہ ادا كرينگے، اور كيا اس كا نام ركھينگے، يا كہ بغير نام ہى رہنے ديں ؟

برائے مہربانى معلومات فراہم كركے مشكور ہوں.

الحمد للہ:

جب بچہ زندہ پيدا ہو اور چيخ و پكار كرے اور پھر مر جائے تو بغير كسى اختلاف كے اسےغسل بھى ديا جائيگا اور اس كا نماز جنازہ بھى ادا كيا جائيگا.

المغنى ميں درج ہے:

" اہل علم اس پر متفق ہيں كہ جب بچہ كى زندگى معلوم ہو اور وہ چيخ و پكار كرے تو اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى.

ليكن اگر وہ چيخ و پكار نہ كرے تو امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اگر وہ چار ماہ كا حمل ہو تو اسے غسل بھى ديا جائيگا اور اس كى نماز جنازہ بھى ادا كى جائيگى، سعيد بن مسيب اور ابن سيرين اور اسحاق رحمہ اللہ كا قول بھى يہى ہے، اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے اپنى فوت شدہ پيدا ہوئى بچى كى نماز جنازہ ادا كى تھى "

ديكھيں: المغنى ابن قدامۃ ( 2 / 328 ).

اور كتاب " مسائل الامام احمد " جسے ان كے بيٹے عبد اللہ نے روايت كيا ہے ميں درج ہے:

عبد اللہ كہتے ہيں كہ ميرے والد سے مولود كے متعلق دريافت كيا گيا كہ اس كى نماز جنازہ كب ادا كى جائيگى ؟

تو ان كا جواب تھا:

" اگر چار ماہ كا حمل ساقط ہو جائے تو اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى "

كہا گيا: اگر وہ چيخ و پكار نہ بھى كرے تو پھر بھى اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى ؟

انہوں نے جواب ديا: جى ہاں "

ديكھيں: مسائل امام احمد التى رواھا ابنھا عبد اللہ ( 2 / 482 ) مسئلہ نمبر ( 673 ).

اس كى زندگى ميں شك كے باوجود اس كى نماز جنازہ ادا كرنے ميں صاحب مغنى نے علت بيان كرتے ہوئے كہا ہے:

" اس كى نماز جنازہ ادا كرنا اس كے ليے اور اس كے والدين كے ليے خير و فلاح كى دعا كرنا ہے، اس ليے زندگى كے وجود ميں احتياط اور يقين كى ضرورت نہيں، بخلاف ميراث و وراثت كے مسئلہ ميں "

ديكھيں: المغنى ( 2 / 328 ).

بلا شك يہ بہت ہى باريك اور دقيق فقہ اور سمجھ ہے كيونكہ وراثت ميں دوسروں كے حقوق بھى ہوتے ہيں، ليكن نماز جنازہ تو بندے اور اس كے رب سے متعلق ہے كسى اور سے نہيں.

ليكن جو حمل چارہ ماہ كا نہ ہو: اسے نہ تو غسل ديا جائيگا اور نہ ہى اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، بلكہ اسے ايك كپڑے ميں لپيٹ كر دفن كر ديا جائيگا، كيونكہ بچہ ميں روح تو چار ماہ كے بعد پھونكى جاتى ہے، اس سے قبل تو وہ جان نہيں چنانچہ اس كى نماز جنازہ ادا نہيں كى جائيگى جس طرح جمادات اور خون ہوتا ہے.

انہوں نے درج ذيل فرمان نبوى سے استدلال كيا ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ساقط شدہ كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، اور اس كے والدين كے ليے مغفرت و رحمت كى دعا كى جائيگى "

اسے ابو داود نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2535 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.


سقط يعنى ساقط شدہ بچہ اسے كہا جاتا ہے جس كے متعلق يہ واضح نہ ہو كہ آيا وہ مؤنث ہے يا مذكر، وہ اسطرح كہ اس كا جو نام بھى ركھا جائے اس كے ليے صحيح ہو مثلا سلمۃ، قتادۃ، سعادۃ ھند، عتبۃ، ھبۃ اللہ. يعنى لڑكيوں والا نام ہو يا لڑكوں والا.

ماخوذ از: كتاب احكام الجنين فى الفقہ الاسلامى تاليف عمر بن محمد بن ابراہيم غانم.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/13198
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
سنن الترمذی و ابن ماجہ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث بھی بے جان پیدا ہونے والے بچے کی نمازجنازہ نہ پڑھنے پر دلیل بناتے ہیں۔​
حدیث نمبر: 1508
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ بَدْرٍ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ "إِذَا اسْتَهَلَّ الصَّبِيُّ، ‏‏‏‏‏‏صُلِّيَ عَلَيْهِ وَوُرِثَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بچہ (پیدائش کے وقت) زندگی کے آثار پائے جائیں ،تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور وہ وارث بھی ہو گا“۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف : ۲۷۰۸)، و قد أخرجہ : سنن الترمذی/الجنائز ۴۳ (۱۰۳۲)، سنن الدارمی/الفرائض ۴۷ (۳۱۶۸) (صحیح) (تراجع الألبانی : رقم : ۲۳۶)
قال الشيخ الألباني: صحيح
اور ترمذی میں الفاظ ہیں :جب بچہ (پیدائش کے وقت) زندگی کے آثار نہ پائے جائیں ،تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔
الصلاة على السقط 33.jpg
 
Last edited:

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
یہاں امام الزہری رحمہ اللہ نے ۔سقط ۔۔ کی جنازہ کی نفی فرمائی ہے ۔
یہ قول حدیث کے خلاف ہے؛دوسرے اس سے یہ بھی ثابت نہیں ہوا کہ سقط میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں بل کہ الٹ ہی ثابت ہو رہا ہے۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
احادیث میں بہ ظاہر تعارض ہے:
ایک میں ہے کہ السقط یصلیٰ علیہ اس سے مردہ پیدا ہونے والے کی نماز جنازہ کا جواز ثابت ہوتا ہے
دوسری روایت میں ہے کہ جب تک چیخے نہیں اس پر نماز نہیں پڑھی جائے گی،اس سے عدم جواز نکلتا ہے
میرے خیال میں جمع یہ ہے کہ اس کا جنازہ تاکیدی نہیں بل کہ درجۂ استحباب میں ہے اور دوسری روایت میں وجوب کی نفی ہے؛ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب
 
Top