گھر کے آس پاس ساری مساجد بریلوی مسلک اور نقشبندی مسلک اور شعیہ مسلک کی ہیں۔ اور ایک دیوبندی مسلک کی مسجد بھی ہے۔ اس صورت میں مرد فرض نماز گھر پڑھ سکتا ہے۔ بریلوی، شعیہ اور دیو بند عقیدہ سمجھنے کے بعد میرا ایمان ہے کہ پڑھی نہ پڑھی برابر ہے۔ یا آپ سمجھتے ہیں نماز پڑھی جائے؟
اپنی نماز مسنون وقت پر دیوبندی ، بریلوی مسجد میں تنہا پڑھ لے ، صرف مغرب کی نماز ایسی ہے جو سب ایک ہی وقت میں پڑھتے ہیں
باقی نمازیں تو مقلدین کافی تاخیر سے پڑھتے ہیں ، اس لئے اہل حدیث سنت کے مطابق اپنے وقت پر مسجد میں پڑھنی چاہیئے ؛
یہ حدیث شریف ملاحظہ فرمائیں :
( عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا أَبَا ذَرٍّ، كَيْفَ أَنْتَ إِذَا كَانَتْ عَلَيْكَ أُمَرَاءُ يُمِيتُونَ الصَّلَاةَ؟ أَوْ قَالَ: يُؤَخِّرُونَ الصَّلَاةَ. قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا تَأْمُرُنِي؟ قَالَ: صَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، فَإِنْ أَدْرَكْتَهَا مَعَهُمْ فَصَلِّهَا، فَإِنَّهَا لَكَ نَافِلَةٌ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”ابوذر! تم اس وقت کیا کرو گے جب تمہارے اوپر ایسے حاکم و سردار ہوں گے جو نماز کو مار ڈالیں گے؟“ یا فرمایا: ”نماز کو تاخیر سے پڑھیں گے“، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس سلسلے میں آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نماز وقت پر پڑھ لو، پھر اگر تم ان کے ساتھ یہی نماز پاؤ تو (دوبارہ) پڑھ لیا کرو ، یہ تمہارے لیے نفل ہو گی“۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۴۱ (۶۴۸)، سنن الترمذی/الصلاة ۱۵ (۱۷۶)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۱۵۰ (۱۲۵۶)، (تحفة الأشراف: ۱۱۹۵۰)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الإمامة ۲ (۷۸۰)، ۵۵ (۸۶۰)، مسند احمد (۵/۱۶۸، ۱۶۹)، سنن الدارمی/الصلاة ۲۵ (۱۲۶۴)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان لوگوں کی خبر دی ہے جو نماز کو تاخیرسے پڑھیں ،
اور باقی عقائد و اعمال میں بدعتی ، مشرک ، رافضی نہیں ہونگے ، اور اب تو اکثر مساجد قبر پرستوں ، اہل بدعت ، حدیث نبوی کا مذاق اڑانے والوں
یتیم ، بیوہ کا مال اڑانے والوں ، کی ہیں ،
اسلئے ان کے پیچھے کسی صورت نماز ادا کرنا ممکن ہی نہیں ،