بعض الناس کی طرف سے شیّد نزیر حسین دہلوی رحمہ اللہ پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ مرزا قادیانی کا دوسرا نکاح آپ نے پڑھایا تھا۔ اس کے لیئے مرزا بشیر احمد ایم اے کی کتاب سیرت المہدی کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اس کی کیا حقیقت ہے؟ کیا شیخ الکل کی سوانح میں اس کا کوئی ذکر ملتا ہے؟
برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
مرزا کا نکاح ثانی اور مخالفین اہل حدیث کا پروپیگنڈہ
مخالفین اہل حدیث مرزا احمد اور قادیانیت کے حوالے سے اہل حدیثوں پر طعن و تشنیع کے لیے جن پروپیگنڈوں کاسہارا لیتے ہیں اور اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے ہیں :
ان میں ایک یہ بھی ہے کہ مرزا کا نکاحِ ثانی اہل حدیث عالم دین شیخ الکل میاں سید نذیر حسین دہلویؒ نے پڑھایا تھا، مرزا کے نکاح ثانی کو بنیاد پر اہل حدیثوں کے خلاف مخالفین کا یہ پروپیگنڈہ دراصل ان کے خبث باطنی کی واضح دلیل اور دیدہ ودانستہ جھوٹ بولنے اور افتراء پردازی کرنے کا کھلا ثبوت ہے۔
اس افتراء پردازی کی حقیقت یہ ہے کہ مرزا کا یہ نکاح ثانی ۱۸۸۴ء میں ہوا تھا جیسا کہ سید ابوالحسن علی ندویؒ نے بھی اپنی کتاب
’’قادیانیت تحلیل و تجزیہ ص ۲۴، ۲۵۔ ‘‘میں سیرۃ المہدی حصہ دوم ص ۱۵۱ کے حوالہ سے لکھا ہے، جو لوگ مرزا کی حالات زندگی سے معمولی واقفیت بھی رکھتے ہیں وہ بخوبی جان سکتے ہیں کہ اس وقت تک مرزا کے خیالات میں کسی قسم کا کوئی اعتقادی انحراف ظاہر نہیں ہوا تھا، ۱۸۸۶ء میں مرزا کا ایک آریائی سے مناظرہ ہوا تھا جسے ’’سرمۂ چشم آریہ ‘‘ کے نام سے مرزا نے شائع کیا، اس کتاب سے متعلق مولوی علی میاں ندوی حنفی تقلیدی تحریر فرماتے ہیں :
’’مرزا صاحب نے اپنی اس کتاب میں نہ صرف اس معجزہ(معجزۂ شق القمر) بلکہ معجزات انبیاء کی پر زور و مدلل وکالت کی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واقعہ یہ ہے کہ بعد میں انہوں نے رفع و نزول مسیح کے بارے میں اور حضرت عیسی علیہ السلام کے صدیوں تک آسمان میں رہنے پر جو عقلی اشکال پیش کئے ہیں اور بعد میں ان کے اندر جو عقلیت کا رجحان پایا جاتا ہے اس کی تردید میں اس کتاب سے زیادہ اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی، اس کتاب میں مصنف کی جو شخصیت نظر آتی ہے، وہ بعد کی کتابوں کی شخصیت سے بہت مختلف ہے ‘‘(قادیانیت تحلیل و تجزیہ ص۵۴)
اس کتاب کا ذکر کرنے کے بعد مرزا کے عقائد کے سلسلے میں پیر مہر علی شاہ کے سوانح نگار مولوی فیض احمد فیض حنفی تقلیدی نے لکھا ہے :
’’اس وقت تک مرزا صاحب کے عقائد وہی تھے جو ایک صحیح العقیدہ سنی مسلمان کے ہونے چاہئیں، وہ آنحضرتﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے بھی اسی قدر قائل تھے جیسے دیگر مسلمان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (آگے مزید لکھا ہے )
۔ ۔
ان ایام میں مرزا صاحب حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع آسمانی اور نزول کے عقیدہ پر بھی ایمان رکھتے تھے۔ ۔ ۔ ‘‘(مہر منیر ص۱۶۶)
مرزا کے خیالات میں کھلا انحراف اور اس کا دعوئے مسیحیت کب سامنے آیا؟ مولوی سید ابوالحسن علی ندویؒ تقلیدی لکھتے ہیں :
’’مرزا غلام احمد صاحب نے جب ۱۸۹۱ ء میں مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا، پھر ۱۹۔ ۱ ء میں نبوت کا دعوی کیا تو علماء اسلام نے ان کی تردید و مخالفت شروع کی ‘‘ (قادیانیت تحلیل و تجزیہ ص۲۵)
اس تفصیل سے ہر شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ ۱۸۸۴ ء میں اگر میاں سید نذیر حسین دہلویؒ نے مرزا کا نکاح پڑھایا تھا تو یہ اس مرزا کا نکاح نہیں تھا جو مدعی مسیحیت اور مدعی نبوت تھا بلکہ اس مرزا کا تھا جو ’’صحیح العقیدہ سنی مسلمان ‘‘تھا،
اب غور کیا جا سکتا ہے کہ مخالفین اس سلسلے میں کیسی دیدہ دلیری اور بے شرمی سے کام لے رہے ہیں ؟ اور اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں کہ اہل حدیثوں کے تعلق ان کے مخالفین کا یہ عام رویہ اور ہمیشہ کا شیوہ رہا ہے۔ واللہ المستعان۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔