آزاد
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 363
- ری ایکشن اسکور
- 920
- پوائنٹ
- 125
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
ثُمَّ أَنتُمْ هَـؤُلاء تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقاً مِّنكُم مِّن دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِم بِالإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن يَأتُوكُمْ أُسَارَى تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاء مَن يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنكُمْ إِلاَّ خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (85)
ثُمَّ أَنتُمْ هَـؤُلاء تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقاً مِّنكُم مِّن دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِم بِالإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن يَأتُوكُمْ أُسَارَى تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاء مَن يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنكُمْ إِلاَّ خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (85)
مگر آج تم وہی ہو کہ اپنےبھائی بندوں کو قتل کرتے ہو۔ اپنی برادری کے کچھ لوگوں کو بے خانماں کردیتے ہو ، بے گھر کردیتے ہو۔ ظلم و زیادتی کے ساتھ ان کے ساتھ جتھے بندیاں کرتے ہو۔ اور جب وہ لڑائی میں جکڑے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں تو تم ان کی رہائی کےلیے فدیہ کا لین دین کرتے ہو حالانکہ انہیں ان کے گھروں سے نکالنا ہی سرے سے تم پر حرام تھا۔تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کا انکار کرتے ہو۔ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا میں ذلیل و خوار کرکے رکھ دیئے جائیں اور آخر ت میں سخت ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں۔اللہ ان حرکات سے بےخبر نہیں جو تم کررہے ہو۔
یہودیوں کی حالت:
اللہ تعالیٰ نے یہود سے چار عہد لیے تھے۔ایک دوسرے کا قتل نہیں کریں گے، ایک دوسرے کا خون نہیں کریں گے، ایک دوسرے کو جلا وطن نہیں کریں گے، ظلم و زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہیں کریں گےاورفدیہ دے کر قیدیوں کو چھڑوایا کریں گے۔ لیکن ان لوگوں نے جن قبائل سے کچھ سیاسی مفاہمتیں کررکھی تھیں، ان کے پیش نظر ، ان کے تحت یہ پہلے تین کاموں کی تو کچھ پروا نہیں کرتے تھے۔ ایک دوسرے کو مار بھی ڈالتے، ایک دوسرے پر ظلم وزیادتی بھی کرتے۔ لیکن جب ان کے اپنے ہم مذہب لوگ دشمن کے ہاتھوں پکڑے جاتے تو پھر چندہ جمع کرکے ان کو چھڑا بھی لاتے۔اور اس طرح کہتے کہ ہم اپنے دین پر عمل کررہے ہیں۔ تو اس پر فرمایا کہ دین پر عمل صرف یہ تو نہیں کہ جو بات تمہارے مفادات کے مطابق ہو، تمہیں سوٹ کرتی ہو، وہ تم کر لو اور باقی تم چھوڑ دو۔ایسا کرنے والے تو دنیا اور آخرت میں ذلیل ہوا کرتے ہیں [أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ]کیا تم صرف کتاب کے بعض حصے کو مانتے ہو؟[/COLOR]ہمارا طرز عمل:
آج اس کے مطابق ہم اپنا طرز عمل دیکھیں۔ ہمارا بھی تو یہی حال ہے۔ قرآن کی ان آیتوں کو تو ہم لے لیتے ہیں، جن پر عمل کرکے ہماری دنیا کا کوئی نقصان نہیں ہوتا، جن پر عمل کرنے میں ہمیں کچھ آسانی ہوتی ہے۔لیکن جو بات ہماری مرضی کے خلاف جاتی ہے ، جس پر عمل کرنے سے ہمارے مفادات پر کچھ زد پڑتی ہے، اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں۔ تو جب کسی قوم کا یہ حال ہوجائے۔ جو اللہ کی کتاب میں پک اینڈ چوز کرنے لگے، کچھ کو لے اور کچھ کو چھوڑ دے۔ان کےلیے اللہ نے یہ وعید سنائی کہ ایسے لوگوں کےلیے دنیا میں رسوائی ہے۔ ہماری رسوائی کا اصل سبب:
آج ہم سب اس بات پر پریشان ہوتے ہیں کہ امت مسلمہ دنیا میں کیوں رسوا ہورہی ہے۔ آج ہمارا یہ حال کیوں ہے؟لیکن ہم اصل مرض کی طرف توجہ نہیں دیتے۔اللہ تعالیٰ نے تو فرمایاتھا: [وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (آل عمران : 139)]تم ہی بلند رہو گے ، اگر تم ایمان لانے والے ہوئے۔اگر تم سچے ہوئے۔ لیکن ہم نے کیا سچائی دکھائی، ہم نے کیا ایمان دکھایا؟ [أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ]بعض کتاب کو تو لے لیا، اپنی ذاتی زندگی میں تو کچھ ورچوز کو اپنا لیا۔ لیکن جب معاملہ دوسروں سے کیاتو اس وقت ہم بھول گئے۔مرضی کا دین:
آج کل آپ دیکھیں کہ ہماری ذاتی اور اجتماعی زندگیوں میں یہ چیز بہت زیادہ نظر آتی ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنی مرضی اور اپنے انٹرسٹ کا دین بنائے ہوئے ہے۔ جو چیزیں اسے سوٹ کرتی ہیں، اسے تو لے لیتا ہے اور جو باقی ہیں انہیں دین کا حصہ ہی نہیں سمجھتا۔اس پر اعتراضات کرکے، تاویلیں کرکے، کوئی دلیلیں دے کر خود کو مطمئن کرلیتا ہے۔ لیکن یاد رکھیے کہ ہمارا ایسا رویہ اللہ تعالیٰ کو راضی نہ کرے گا۔ وہ کسی سے دھوکا نہیں کھاتا۔وہ سب جانتا ہے جو ہمارے دلوں میں ہے۔ جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں، وہ سب اس کی نظر میں ہے۔اس لیے ہم میں سے ہر ایک کو لوگوں کے سامنے نہیں، اللہ کے سامنے سچا ہونے کی ضرورت ہے۔لوگوں سے نہیں ، اللہ سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔اور اسی چیز کا نام تقویٰ ہے۔اور یہی چیز پھر انسان کو سیدھے رستے پر لے جاتی ہے۔فرمایا: جو قوم ایسا کرے کہ بعض چیزوں کو مانے اور بعض کو نہ مانے، ان کےلیے دنیا میں رسوائی ہے اور قیامت کے دن شدید ترین عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے۔دنیا کا وقت تو گزر جائے گا۔ لیکن آخرت میں کیا ہوگا؟اگر ہم اپنی اس روش سے باز نہ آئے اور اللہ غافل نہیں ان کاموں سے جو تم عمل کررہے ہو۔ [أُولَـئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالآَخِرَةِ فَلاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ (86)]یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا کی زندگی خرید لی۔ لہٰذا ان کی سز ا میں کوئی تخفیف نہ ہوگی۔اور نہ کوئی ان کی مدد کو پہنچ سکے گا۔
آڈیو لنک