وَعَنْ اَبِیْ هرَيرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ اِلَّا مِنْ ثَلاَثَۃً اِلاَّمِنْ صَدَقَۃٍ جَارِےَۃٍ اَوْ عِلْمٍ ےُنْتَفَعُ بِہٖ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ ےَّدْعُوْ لَہُ ۔ (صحیح مسلم)
" اور حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کے ثواب کا سلسلہ اس سے منقطع ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کے ثواب کا سلسلہ باقی رہتا ہے۔ (١) صدقہ جاریہ (٢) علم جس سے نفع حاصل کیا جائے (٣) صالح اولاد جو مرنے کے بعد اس کے لئے دعا کرے۔" (صحیح مسلم)
تشریح :
ایسے اعمال جن کا تعلق دنیاوی زندگی سے ہوتا ہے ان کے اثرات مرنے کے بعد دنیا ہی میں ختم ہو جاتے ہیں مثلاً نماز، روزہ وغیرہ ایسے اعمال ہیں جو انسان کی زندگی میں ادا ہوتے تھے گو کہ ان کا ثواب بأیں طور باقی رہتا ہے کہ وہ ذخیرہ آخرت ہو جاتے ہیں اور مرنے کے بعد اس پر جزاء ملتی ہے مگر ان کا سلسلہ مرنے کے بعد آئندہ جاری نہیں رہتا۔ کیونکہ زندگی میں جب تک یہ اعمال ہوتے تھے اس کا ثواب ملتا رہتا تھا جب زندگی ختم ہوگئی تو یہ اعمال بھی ختم ہوگئے اور جب یہ اعمال ختم ہوگئے تو اس پر جزاء سزا کا ترتب بھی ختم ہو گیا۔
لیکن کچھ اعمال ایسے بھی ہیں جن کے ثواب کا سلسلہ نہ صرف یہ کہ زندگی میں ملتا ہے بلکہ مرنے کے بعد باقی و جاری رہتا ہے۔ ایسے ہی اعمال کے بارے میں اس حدیث میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ تین اعمال ایسے ہیں کہ زندگی ختم ہو جانے کے بعد بھی ان کے ثواب کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے اور مرنے والا برابر اس سے منتفع ہوتا رہتا ہے۔
پہلی چیز صدقہ جاریہ ہے، یعنی اگر کوئی آدمی اللہ کی راہ میں زمین وقف کر گیا ہے یا کنواں و تالاب بنوا گیا ہے یا ایسے ہی اللہ کی مخلوق کے فائدہ کی خاطر کوئی دوسری چیز اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے تو جب تک یہ چیزیں قائم رہیں گی اور لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے اس کو برابر ثواب ملتا رہے گا۔
دوسری چیز علم نافع ہے یعنی کسی ایسے عالم نے وفات پائی جو اپنی زندگی میں لوگوں کو اپنے علم سے فائدہ پہنچاتا رہا اور پھر اپنے علوم و معارف کو کسی کتاب کے ذریعہ محفوظ کر گیا جو ہمیشہ لوگوں کے لئے فائدہ مند اور رشد و ہدایت کا سبب بنی ہے یا کسی ایسے آدمی کو اپنا شاگرد بنا گیا جو اس کے علم کا صحیح وارث ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو زندگی ختم ہونے کے بعد اس کے لئے سرمایہ و سعادت ثابت ہوں گی اور جن کا ثواب اسے وہاں برابر ملتا رہے گا۔
تیسری چیز اولاد صالح ہے ظاہر ہے کہ کسی انسان کے لئے سب سے بڑی سعادت اور وجہ افتخار اس کی اولاد صالح ہی ہوتی ہے اس لئے کہ صالح اولاد نہ صرف یہ کہ ماں باپ کے لئے دنیا میں سکون و راحت کا باعث بنتی ہے بلکہ ان کے مرنے کے بعد ان کے لئے وسیلہ نجات اور ذریعہ فلاح بھی بنتی ہے اور اس طرح سے کہ لائق و نیک لڑکا اپنے والدین کی قبروں پر جاتا ہے وہاں فاتحہ پڑھتا ہے دعائے مغفرت کرتا ہے، قرآن پڑھ کر ان کو بخشتا ہے اور ان کی طرف سے خیرات و صدقات کرتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سب چیزیں مردہ کے لئے ثواب کا باعث ہیں جن سے وہ اخروی زندگی میں کامیاب ہوتا ہے۔
عامر صاحب نے جو سات والی حدیثِ ذکر کی ہے وہ ساتوں ان تین میں شامل ہے۔لہٰذا اس چیز کا خیال رکھا جائے مذکورہ حدیثوں کے بیچ میں کوئی تکرار نہیں ہے۔
والله اعلم
اشتیاق احمد بٹ السلفی