مروان بن حکم رحمہ اللہ
ان کے بارے میں یہ اختلاف ہے کہ یہ صحابی ہیں یا تابعی۔ ان کے والد حکم بن ابی العاص کو ان کی اسلام دشمنی کے سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف میں جلا وطن کر دیا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو نہایت نرمی کے ساتھ اپنے قبیلے اور خاندان کے لوگوں کو اسلام میں لانے کا شوق تھا، اس وجہ سے انہوں نے ان کی سفارش کی اور یہ اسلام قبول کر کے مکہ واپس آ گئے۔ مروان ایک بڑے عالم اور عبادت گزار آدمی تھے اور ان کی تربیت براہ راست اکابر صحابہ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔
امام مالک رحمہ الله نے موطاء میں مروان کے متعدد عدالتی فیصلوں کو بطور "سنت ثابتہ" درج کیا ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مروان کو کوئی سرکاری عہدہ نہیں دیا البتہ ان سے کتابت کی خدمات لیتے رہے۔ سرکاری خطوط اور فرامین وغیرہ ان سے لکھواتے ۔ ظاہرہے کہ یہ کوئی ایسا عہدہ نہیں ہے جس پر اعتراض ہو سکے۔ بعض حضرات نے انہیں حضرت عثمان کا سیکرٹری کہا ہے اور ان پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ حقیقت یہ ہے کہ مروان کو زیادہ سے زیادہ حضرت عثمان کا "پرسنل سیکرٹری" کہا جا سکتا ہے نہ کہ "سیکرٹری آف دی اسٹیٹ۔" ان کی ملازمت کی نوعیت کلیریکل نوعیت کی تھی کہ حضرت عثمان جو فیصلہ لکھوانا چاہیں، ان سے لکھوا لیں۔ انہیں کوئی انتظامی اختیارات حاصل نہ تھے، جس سے وہ فائدے اٹھا سکتے۔
جب باغیوں نے مدینہ کا محاصرہ کیا تو مروان ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پرجوش حامی بن کر ابھرے۔ یہ ان لوگوں میں سے تھے جو تلوار کے ذریعے باغیوں کا فیصلہ کرنا چاہتے تھے۔ باغیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں یہ شدید زخمی بھی ہوئےجو کہ ان کے خلوص کا ثبوت ہے۔ طبری کی روایات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ان پر تنقید موجود ہے۔ یہ تنقید بھی ان کے حد سے بڑھے جوش سے متعلق ہے ورنہ بعد میں خود حضرت علی کی دو بیٹیوں کی شادیاں مروان کے دو بیٹوں سے ہوئیں۔ اس کی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے۔ چونکہ بعد میں مروان خود ایک سال کے لیے خلیفہ بنے اور ان کے بعد ان کے بیٹوں اور پوتوں میں خلافت منتقل ہوئی جن کے خلاف باغی مسلسل تحریک چلاتے رہے، اس وجہ سے ان کے خلاف روایتیں وضع کر کے ان کی کردار کشی کی گئی
http://www.mubashirnazir.org/ER/0025-History/L0025-04-06-Uthman.htm