محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
مروجہ اسلامی بینکوں کے ذرائع تمویل(مروجہ مرابحہ ، اجارہ اور مشارکہ متناقصہ) کی شرعی حیثیت
یہ مضمون اور اس سے متعلقہ بینکاری، تجارت سے متعلق اہم مضامین ادارے کی جانب سے شائع شدہ مجلہ’’ سہ ماہی البیان مروجہ اسلامی بینکاری و جدید معیشت نمبر ‘‘میں ملاحظہ فرمائیں
عثمان صفدر [1]
اسلامی بینکوں میں کیا جانے والا مرابحہ ، اجارہ اور مشارکہ متناقصہ وہ معاملات ہیں جو ان بینکوں کے دیگر معاملات پر حاوی ہیں ۔سب سے زیادہ معاہدے اور ٹرانزیکشن انہی معاملات کے تحت ہوتی ہیں۔بلکہ اگر یوں بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ جس طرح سودی بینکوں کا اصل کاروبار سود پر قرض دینا ہے ، اسی طرح اسلامی بینکوں کا اصل کاروبار’’مرابحہ ، اجارہ اور مشارکہ متناقصہ‘‘ ہیں۔مروجہ ذرائع تمویل (Financing) کی شرعی حیثیت کے تعین کے لئے اس کاشرعی مرابحہ ، اجارہ اور مشارکہ متناقصہ کی شرائط و ضوابط سے تقابل ضروری ہے۔
’’مرابحہ‘‘: مرابحہ کا اصل ماخذ ’’ربح‘‘ یعنی منافع ہے۔مرابحہ کا لغوی طور پر مطلب یہ ہوگا کہ ایسا معاملہ کرنا جس میں ربح یعنی منافع طے ہو۔
فقہاء کے نزدیک مرابحہ کی اصطلاحی تعریف:
’’کسی چیز کی خرید وفروخت اس کی اصل قیمت اور معلوم منافع کے ساتھ‘‘۔
یعنی ایک شخص کسی چیز کی فروخت کرتے وقت خریدنے والے کو چیز کی اصل قیمت اور اپنا منافع بیان کر کے فروخت کرے ۔
یہی وہ تعریف ہے جو فقہاء اسلام نے کتب فقہ مثلاً ہدایہ[2]بدائع الصنائع[3] ، المغنی[4] روضۃ الطالبین4میں بیان کی ہےاگرچہ ان کی عبارات میں کچھ فرق ہے۔
بیع مرابحہ کے جواز کی دلیل:
(1) اللہ تعالی کا فرمان ہے: {وَاَحَلَّ اللهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا}(البقرة: 275)’’اللہ تعالی نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے‘‘۔
لہٰذا ہر وہ معاملہ جو بیع کے زمرے میں آتاہے وہ حلال ہے، اور مرابحہ بھی بیع کی ایک قسم ہے۔
(2) علماء نے یہ قاعدہ ذکر کیا ہے کہ :’’الأصل فی المعاملات الحل‘‘ کہ تجارتی و عوضی معاملات میں اصل یہ ہے کہ وہ حلال ہیں سوائے ان معاملات کے جنہیں شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔اور چونکہ بیع مرابحہ بھی معاملات سے متعلق ہے اور قرآن و حدیث میں کوئی ایسی نص نہیں ملتی جس میں اس کی حرمت کا تذکرہ ہو لہٰذا یہ بیع حلال ہے۔
بیع مرابحہ اور عام بیع میں فرق اور مرابحہ کی ضرورت
عام بیع (خرید وفروخت کا معاملہ) میں بھی اگرچہ بیچنے والا اپنا منافع رکھ کر بیچتا ہے لیکن اس میں اور بیع مرابحہ میں فرق اس منافع کو بیان کرنے کا ہے۔بیع مرابحہ میں دوکاندار چیز کی اصل قیمت اور اپنا منافع دونوں بیان کرتا ہے۔بیع مرابحہ کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ خریدار کو ہمیشہ یہ خدشہ رہا ہے کہ بیچنے والاجائز منافع سے زیادہ وصول نہ کرلے، اسی لئے جب بیچنے والاچیز کی صحیح قیمت اور اپنا منافع بیان کردیتا ہے تو خریدار مطمئن ہوجاتا ہے ۔اسی لئے ’’بیع مرابحہ ‘‘ کو علماء نے بیوع الامانہ کی ایک قسم قرار دیا ہے کہ یہ عام بیع کی نسبت زیادہ امانتداری کی متقاضی ہے۔
اسلامی بینکوں میں رائج مرابحہ
مروجہ مرابحہ ، شرعی مرابحہ سے کافی مختلف ہے۔ مروجہ مرابحہ دراصلمرابحة للآمر بالشراء کہلاتا ہے۔اس کی بنیادی صورت یوں ہوتی ہے کہ صارف بینک سے مخصوص چیز خریدنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے جسے وہ خود خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ بینک مطلوبہ سامان صارف کے کہنے پر خرید کر مرابحہ کی صورت میں اسے فروخت کردیتا ہے، اور صارف اس کی قیمت اقساط میں ادا کرتا ہے۔
مروجہ مرابحہ اور شرعی مرابحہ میں فرق :
مروجہ مرابحہ اور شرعی مرابحہ میں کافی حوالوں سے فرق پایا جاتا ہے جس میں سے تین بنیادی فرق یہ ہیں:
(1) شرعی مرابحہ میں بیچنے والے کے پاس سامان پہلے سے موجود ہوتا ہے جسے وہ معلوم منافع پر فروخت کرتا ہے۔ مروجہ مرابحہ میں بینک کے پاس سامان موجود نہیں ہوتا بلکہ وہ صارف کے کہنے پر مطلوبہ سامان خرید کر اسے فروخت کرتا ہے۔
(2) شرعی مرابحہ میں ادائیگی عموماً نقد ہوتی ہے ، جبکہ مروجہ مرابحہ میں نقد ادائیگی کا کوئی تصور نہیں۔
(3) شرعی مرابحہ دراصل ایک بیع یعنی خرید وفروخت کا معاملہ ہے، جبکہ مروجہ مرابحہ اسلامی بینکوں میں طریقہ ہائے تمویل (mode of financing) کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔اسلامی بینکوں کے حامی مفتی تقی عثمانی صاحب خود یہ اقرار کرتےہیں کہ :’’ بنیادی طور پر مرابحہ طریقہ تمویل نہیں بلکہ بیع کی ایک خاص قسم ہے‘‘۔ [5]
Last edited: