• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مروجہ ماتم حسین کی شرعی حیثیت از مولانا صدیق فیصل آبادی رحمہ اللہ

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
920
پوائنٹ
125
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سن ہجری کی ابتدا ہوتی ہے۔ اسلامی کیلنڈر کے پہلے بابرکت مہینے کا آغاز ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی کئی دوستوں کی چارپائیاں الٹ جاتی ہیں۔ غم و اندوہ کی کیفیت ان پر طاری ہوجاتی ہے۔ گریہ وماتم سے جیب و دامن تاتار کرلیے جاتے ہیں۔ پوچھنے پر بتایا جاتا ہے کہ ہم شیعان علی ہیں اور ان کے صاحبزادے جناب حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی مظلومانہ شہادت کا سوگ منا رہے ہیں۔ اپنے اس مختصر سے کتابچے میں ہم اسی بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ اس آہ و بکا اورماتم عزاداری کی اسلام میں کیا حیثیت ہے اور خود شیعہ اکابر اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
واقعہ کربلا:
یہ سب کچھ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے سوگ کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اس لیے پہلے مختصراً واقعہ شہادت کے بارے میں چند گزارشات ضروری ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا اور جب ان سے مدینہ میں بیعت ِ یزید کا مطالبہ کیا گیا تو آپ مدینہ سے نکل کر مکہ تشریف لے آئے۔ کوفہ میں شیعان علی کو یہ بات معلوم ہوئی تو ”[font="al_mushaf"]فاجتمعت الشیعۃ فی منزل سلیمان بن صرد الخزاعی
“[اعلام الوریٰ باعلام الہدیٰ، ج:۱، ص: ۳۵۴ بحوالہ شاملۃ الروافض] اور مشورہ کیا کہ ہم شیعان علی ہیں۔ ہمیں حصول خلافت کےلیے جناب حسین رضی اللہ عنہ کی مدد کرنا چاہیے۔ اس لیے انہوں نے جناب حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت مسلم بن عقیل کو تحقیق احوال کےلیے روانہ فرمایا۔ تمام شیعوں نے ان سے بیعت کی۔ انہی کے بھروسے پر جناب امام کوفہ روانہ ہوگئے لیکن یزید کی سختی کے باعث تمام بیعت کنندگان جناب مسلم سے غداری کرگئے اور انہیں بیدردانہ شہید کردیا گیا۔ دوران ِ سفر جناب حسین رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے کوفہ جانے کا ارادہ ختم کردینا چاہا لیکن حضرت مسلم بن عقیل کے وارث آڑے آئے۔ وہ بدلہ لیے بغیر جانے کو تیار نہ تھے۔ مجبوراً سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو اپنا سفر جاری رکھنا پڑا۔
یہی شیعہ جو بیعت سے منحرف ہوچکے تھے، اب لشکر ِ یزید میں شامل ہوکر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی مدد کی بجائے ان سے جنگ کرنے کےلیے میدان کربلا میں آگئے۔ جناب امام رضی اللہ عنہ نے ان شیعوں کو نام لے لے کر خطاب کیا اور کہا کہ تمہی لوگوں نے مجھے خطوط اور عریضے لکھ کر مکہ سے بلوایا ہے۔ اب کیوں میرے قتل کے درپے ہوگئے ہو؟ لیکن ” [FONT="Al_Mushaf"]تسعة أعشار الدين في التقية [/FONT]“[اصول کافی مترجم، کتاب الایمان والکفر، باب التقیۃ، ج: ۴، ص: ۱۴۰](حوالہ نمبر: 1) (تقیہ کل دین کا ۶/۱۰ حصہ ہے) پر عمل پیرا ہوتے ہوئے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں ڈٹے رہے تاآنکہ ۶۱ھ کے محرم کی دس تاریخ کو اہل تشیع اپنے امام معصوم کی جان لینے میں کامیاب ہوگئے۔

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ:
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت بہت ہی افسوس ناک واقعہ ہے اور خصوصاً اس لحاظ سے کہ ان کے قاتل وہی لوگ ہیں جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ناکامی کے ذمہ دار ہیں اور جن کی بدعہدیوں سے تنگ آکر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی تھی اورجن کے بارے میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: ”بخدا سوگند اس جماعت سے میرے لیے معاویہ بہتر ہے۔ یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم شیعہ ہیں اور میرا ارادۂ قتل کیا ، میرا مال لوٹ لیا۔۔۔۔ بخدا اگر میں معاویہ سے جنگ کروں تو یہی لوگ مجھے اپنے ہاتھ سے پکڑ کر معاویہ کو دے دیں۔“ (اردو ترجمہ جلاء العیون، ج: ۱، ص: ۳۷۹، از ملا باقر مجلسی) (حوالہ نمبر: 2)
یہ تو ہے ان لوگوں کا حقیقی کردار، لیکن جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے اور خاندان ِ اہل بیت نے ان کی مسلسل غداریوں کے باعث ان پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا تو یہ لوگ کف ِ افسوس ملنے لگے اور آج تک افسوس اور غم و اندوہ کی کیفیت ان پر طاری ہے۔ ہر سال محرم کے مہینے میں اس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ مجالس ِ ماتم منعقد ہوتی ہیں۔ ائمہ کے مناقب اور صحابہ پر سبّ و شتم ہوتا ہے۔ ماتمی جلوس نکلتے ہیں۔ نوحہ و زاری اور بےصبری کا مظاہرہ ہوتا ہے، حالانکہ خود ان کی اپنی کتب اس طرز عمل کی شدت سے نفی کرتی ہیں۔ آئیے اس کا مختصر سا جائزہ لیں:
مرتبہ ٔ شہادت قرآن کی رو سے:
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ نزول قرآن کے بعد رونما ہوا ہے، اس لیے ہم سابقہ شہداء کے متعلق دیکھیں گے کہ قرآن کریم نے ان پر ماتم کو فرض، واجب یا مباح قرار دیا ہے یا اسے ممنوع ، مقبوح یا مکروہ سمجھا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (153) وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ (154) وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ (156) أُولَـئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (157)﴾ [سورۃ البقرۃ: 157-153]

ان آیات کا ترجمہ ممتاز شیعہ عالم مولانا سید فرمان علی اس طرح کرتےہیں:
اے ایمان دارو! مصیبت کے وقت صبر اور نماز کے ذریعے خدا کی مدد مانگو، بےشک خدا صبر کرنے والوں ہی کا ساتھی ہے۔ اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے، انہیں کبھی مردہ نہ کہنا، بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں، مگر تم (ان کی زندگی کی حقیقت کا) کچھ بھی شعور نہیں رکھتے۔ اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک سے، اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے ضرور آزمائیں گے۔ اور اے رسول! ایسے صبر کرنے والوں کو کہہ دیجئے جب ان پر کوئی مصیبت آ پڑی، تو وہ بے ساختہ پکار اُٹھے: ہم تو خدا ہی کے ہیں اور ہم اس کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ خوشخبری دے دو کہ انہیں لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے عنایتیں اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
ان آیات پر مولانا سید فرمان علی نے ہی یہ حاشیہ لکھا ہے:
”عجیب نہیں کہ ان آیتوں سے امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ ہو، کیونکہ جو باتیں ان میں مندرج ہیں، ان کا سچا مصداق امام حسین رضی اللہ عنہ کے سوا اور کوئی نظر نہیں آتا۔“
ان آیات کے شان نزول کے متعلق مولانا فرمان علی لکھتے ہیں کہ جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا: ﴿إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ﴾ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور یہ کلمہ سب سے پہلے اسلام میں حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کی زبان سے نکلا او رپھر صلاۃ بھیجی اور شاید اسی سے نماز میں بھی ان پر صلاۃ بھیجنا واجب کردیا۔

ان آیات کا ترجمہ و شان نزول بزبان کاشانی شیعی بھی سنیے: (تفسیر خلاصۃ المنہج ، جزو اول، پارہ دوم، مطبوعہ ایران، ص : ۸۹ کی فارسی عبارت کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ فارسی عبارت بخوف طوالت چھوڑ رہا ہوں اور یہ ترجمہ بمطابق ِ اصل ہے)
ترجمہ: اے ایمان والو! حقوق کو ٹھیک رکھنے کےلیے صبر و استقلال سے مدد چاہو جو کہ درجات کی کنجی ہے اور نماز سے مدد حاصل کرو جو کہ عبادتوں کی اصل معراج مؤمنین اور مناجات رب العالمین ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ حفاظت، مدد، تمام حالات میں رعایت کرنے ، دعاؤں کے قبول کرنے اور اطاعت کی توفیق بخشنے کے اعتبار سے صابروں کے ساتھ ہے۔ اور بعض لوگوں کے نزدیک صبر سے مراد روزہ ہے کیونکہ اس میں بھی بھوک اور پیاس پر صبر ہوتا ہے۔ایک دوسری جماعت کے نزدیک اس سے مراد کفار سے جہاد ہے، کیونکہ جہاد میں بھی مصائب وتکالیف لازمی ہوتی ہیں اور جب اللہ تعالیٰ نے صبر و صلاۃ سے استعانت کا حکم دیا ہے جو عبادات ہیں، تو عبادتوں میں جہاد بہت افضل عبادت ہے۔ اس لیے صبر سے مراد جہاد ہے۔ اسی لیے تو اس کے بعد فرمایا کہ اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو مردہ نہ کہو۔ مروی ہے کہ غزوہ بدر کے بعد صحابہ نے شہیدوں کا ذکر کیا جو چھ مہاجرین اور آٹھ انصاری تھے اور بعض نے برسبیلِ حسرت یہ کہا کہ فلاں بیچارے نے تو بدر میں اپنی جان ِعزیز بھی دے دی اور دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے محروم ہوگیا، تو حق تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کو مردہ مت کہو، بلکہ وہ ہمارے حضور زندہ ہیں، لیکن تم ان کی حیات کی کیفیت نہیں جانتے، کیونکہ عقل سے اس کی کیفیت کا معلوم کرنا ممکن نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شہید اپنے ارواح و اجسام کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور میں زندہ ہیں، اور انہیں صبح و شام روزی پہنچتی ہے اور وہ اس چیز سے خوش و خرم ہیں جو اللہ انہیں دیتا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شہید کو بزرگی کی چھ خصلتیں عطا فرماتا ہے: اول: یہ کہ شہید کے بدن سے جب خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے تو رب العزت اس کے تمام گناہ معاف فرمادیتا ہے۔ دوسرے :یہ کہ اس کےلیے بہشت میں ایک عالی منزل نامزد کرتا ہے۔ تیسرے: یہ کہ اس کی خدمت کےلیے ستر حوریں متعین کرتا ہے۔ چوتھی: یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے عذاب قبر اور قیامت کی گھبراہٹ سے بےخوف کردیتا ہے۔ پانچویں: یہ کہ سرخ یاقوت سے بنا ہوا شرف و بزرگی کا تاج اس کے سر پر رکھتا ہے۔ چھٹی: یہ کہ اس کی سفارش اس کے قبیلہ کے ستر افراد کے حق میں دعا قبول فرماتا ہے۔“
بندوں کو عبادات ِ شاقہ پر صبر کی تلقین کرنے کے بعد ان امور کا تذکرہ فرماتے ہیں کہ اس قسم کی مصیبتوں سے ان کی آزمائش کی جائے گی۔ ﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ﴾ فرماتےہیں کہ بہرحال ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے یعنی تمہارے ساتھ آزمانے والوں کا سا معاملہ کریں گے۔ اگرچہ ہم پر تمہاری کوئی حرکت پوشیدہ نہیں ہے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہر آدمی کا معاملہ امتحان کی کسوٹی پر پرکھا جائے تاکہ جہان کو معلوم ہوجائے کہ تم میں سے کون ہے جس نے مصائب پر صبر کیا اور ان پر سر تسلیم خم کیا ہے اور کون اشخاص ہیں جنہوں نے بےصبری کی ہے اور قضاء وقدرت پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے تاکہ ان دونوں کے درمیان امتیاز ہوجائے اور یہ آزمائش چند قسم کی ہیں: ایک تو جہاد میں خدا تعالیٰ دشمن کا تھوڑا سا خوف دے کر آزمائیں گے۔ رب العزت اس مقام پر تقلیل کا ذکر اس لیے فرماتے ہیں کہ جہاد میں اللہ تعالیٰ ان پر نگاہ ِ رحمت ڈالتا ہے تاکہ ان کو لڑائی کی مصیبتوں میں خاص تخفیف محسوس ہو اور فرمایا: تمہیں تھوڑی سی بھوک دے کر آزمائیں گے۔ بھوک سے مراد یا تو قحط ہے یا روزہ۔ اور بعض احوال سے نقصان پہنچا کر آزمائش کریں گے، یعنی مال کو حوادثات کی لوٹ کھسوٹ اور زمانہ کی آفات سے نقصان کریں گے اور تمہاری جانوں کو جنگوں ، بیماری اور ضعف ِ پیری سے نقصان پہنچائیں گے یا اس سے مراد اولاد کا مرنا ہے کیونکہ اولاد بھی انسان کے دل کا پھل ہے۔ مروی ہے کہ جب بندہ ٔ مؤمن کا فرزند مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ جب تم نے میرے بندے کے بیٹے کا روح قبض کیا تو اس وقت میرے بندے نے کیا کہا؟ وہ کہتےہیں کہ اس نے تیری حمد کی۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اشارہ ہوتا ہے کہ تم اس کا گھر بہشت میں بناؤ اور اس کا نام ”بیت الحمد“ رکھو۔ ” وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ“ اے محمدﷺ! ان مصائب و آلام پر صبر کرنے والوں کو بےشمار ثواب کی خوش خبری دے۔ حقیقتاً یہی لوگ بشارت کے مستحق ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ جب کبھی انہیں کوئی مصیبت یا تکلیف یا مکروہ چیز پہنچتی ہے، تو وہ اللہ کے فیصلے کو مانتے ہوئے اس کی رضا پر سر ِ تسلیم خم کردیتے ہیں ”إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ“ یعنی ہم یقیناً اللہ کی رسی سے بندھے ہوئے ہیں، جو کچھ بھی بندہ کو مولیٰ کی جانب سے پہنچتا ہے ، سوائے تسلیم ورضا کے کوئی چارہ نہیں ہے، بےشک ہم بدلہ و جزا کےلیے اس کی طرف پھرنے والے ہیں۔ حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ اپنے آباء واجداد سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ”جو شخص بھی چار چیزوں پر عمل کرے گا، وہ اہل بہشت میں سے ہوگا۔ اول: جو شخص لا الٰہ الا اللہ کہے۔ دوم: جب بھی اسے کوئی نعمت اللہ تعالیٰ کی جانب سے پہنچے تو الحمد للہ کہے۔ سوم: جب کوئی گناہ کرے تو استغفر اللہ کہے۔ چہارم: جب بھی اسے کوئی تکلیف پہنچے تو انا للہ وانا الیہ راجعون کہے۔ “ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ کے صحابی کا ایک لڑکا فوت ہوگیا۔ تو وہ بہت رویا۔ آپﷺ نے فرمایا: اسے میرے پاس لاؤ۔ وہ حاضر ہوا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے مرد ِ خدا! بہشت کے آٹھ دروازے ہیں اور دوزخ کے سات۔ کیا تو اس بات سے خوش نہیں ہے کہ جنت کے جس دروازے سے چاہے، داخل ہووے۔ تو اس شخص نے کہا: اے پدر ِ من! میں تو آپ کے بغیر بہشت میں نہیں جاؤں گا۔ تو وہ آدمی خوش ہوگیا اور اس کا غم جاتا رہا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا یہ بزرگی خاص اسی کےلیے ہے یا ہر اس شخص کےلیے جو اللہ تعالیٰ کی قضا کے ساتھ رضامندی کا اظہار کرے؟ مصیبتوں پر صبر کرنے والے اس گروہ پر اللہ کی رحمتیں جن سے مراد بہشت ہے، نازل ہوتی ہیں اور یہی گروہ ہدایت یافتہ ہے۔ حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ”[FONT="Al_Mushaf"]بشر الصابرین[/FONT]“ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں ہے کہ آپ کو اپنے بھائی حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ کی زبان ِ مبارک سے یہ کلمہ ”[FONT="Al_Mushaf"]انا للہ وانا الیہ راجعون[/FONT]“ جاری ہوا۔ اس سے قبل کسی نے یہ کلمہ نہیں کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اس کلمہ کو سنت قرار دے دیا ہے۔ اس کے بعد ہر مصیبت زدہ جو اس سنت پر عمل کرے گا، میں اس کو غیر متناہی صلواتوں اور رحمتوں سے نوازوں گا۔

ماتم حرام ہے:
ناظرین کرام! ان آیات ِ کریمہ کے ترجمہ و تفسیر کے بعد جو معتبر شیعی کتب سے نقل کی گئی ہیں، معاملہ بالکل صاف نظر آتا ہے کہ موجود ماتم نہ صرف ممنوع ہے بلکہ حرام ہے کیونکہ ان آیات کی ابتدا صیغہ امر ”[FONT="Al_Mushaf"]استعینوا[/FONT]“ سے ہوتی ہے جس سے واضح ہے کہ استعانت بالصبر واجب ہے کیونکہ اصطلاح ِ شرعی میں امر وجوب کےلیے ہوتا ہے اور ساتھ ہی وجوب کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے: ”[FONT="Al_Mushaf"]طلب الفعل مع المنع عن النقیض[/FONT]“ تو جس طرح استعانت بالصبر مطلوب ہے، ویسے ہی بےصبری ممنوع ہے، تو ممنوع فعل کا کرنا حرام ہے۔ ایسے ہی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ پر ماتم اور جزع فزع کرنا حرام ٹھہرا۔ بقول مولانا فرمان علی تو آیات کا صحیح مصداق ہی حضرت حسین رضی اللہ عنہ ہیں۔ ایک عجیب بات ملاحظہ کیجئے کہ شیعوں کے ایک گروہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید نہیں ہوئے، بلکہ عیسیٰ علیہ السلام کی طرح صرف بظاہر قتل کیے گئے تھے ، جیسا کہ ملا باقر مجلسی اپنی کتاب جلاء العینین میں لکھتے ہیں: ”ابن بابویہ نے بسند ِ معتبر روایت کی ہے کہ ابوالصلت ہروی نے امام رضا کی خدمت میں عرض کیا کہ ایک جماعت کوفہ میں ہے جو دعویٰ کرتی ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ شہید نہیں ہوئے اور خدا نے حنظلہ بن اسعد شامی کو ان کی مشابہ بنادیا اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو آسمان پر اٹھا لیا اور وہ اس آیت کو حجت پیش کرتے ہیں: ” وَلَن يَجْعَلَ اللّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلاً [النساء : 141] “ یعنی خدا نے کافروں کو مؤمنوں پر دسترس نہیں دی ہے۔ حضرت نے فرمایا: جھوٹ کہتے ہیں، ان پر خدا کی لعنت اور غضب ہو۔ وہ لوگ پیغمبر ِ خدا کی تکذیب کرنے سے کافر ہوگئے کیونکہ رسول خدا ﷺ نے خبر دی ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوں گے۔ پس بخدا امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہیں اور وہ شہید ہیں جو ان سے بہتر تھے، یعنی جناب امیر اور امام حسن رضی اللہ عنہما۔“ (ترجمہ اردو جلاء العیون،ج: 2، ص: 161) (حوالہ نمبر : 3)
اسی صفحہ پر مذکور ہے ، راوی نے کہا: یا ابن رسول اللہ! آپ شیعوں کی ایک جماعت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جن کو یہ اعتقاد ہے؟ فرمایا: وہ ہمارے شیعہ نہیں ہیں اور میں ان سے بیزار ہوں۔ پس حضرت نے فرمایا: خدا ان غالیوں پر لعنت کرے جو کہ ہم اہل بیت کے حق میں غلو کرتے ہیں اور حد سے گزر جاتے ہیں۔“
اگر آپ کا بھی یہی عقیدہ ہو تو بصد خوشی جو چاہیں، سو کریں۔ لیکن اگر آپ حضرت امام رضی اللہ عنہ کو شہید مانتے ہیں جیسا کہ ان کے آباء و اجداد کو، تو جب آپ ان پر کسی قسم کا ماتم حرام سمجھتے ہیں تو آپ کو یقیناً حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر بھی ایسا ہی سمجھنا چاہیے ، بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رسول ِ خدا ﷺ کی وفات پر یہ فرمان پڑھیں: ”[FONT="Al_Mushaf"]ولولا انک امرت بالصبر ونہیت عن الجزع لانفدنا علیک ماء الشؤون[/FONT]“ اے رسول! اگر آپ نے ہمیں صبر کرنے کا حکم نہ دیا ہوتا اور جزع فزع سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آنکھوں کا پانی رو رو کر ختم کردیتے۔ (نہج البلاغۃ، جلد سوم مصری، ص: ۲۵۶)(حوالہ نمبر ۴)

صبر جزو ایمان ہے:
آپ رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے ظاہر ہے کہ آپ نے استعانت بالصبر کو واجب اور جزع فزع کو ممنوع قرار دیا ہے، بلکہ آپ نے تو ایک فرمان کے مطابق صبر کو جزو ایمان کا مرتبہ بخشا ہے:
وقال(عليه السلام): أُوصِيكُمْ بِخَمْس.....وَبِالصَّبْرِ، فَإِنَّ الصَّبْرَ مِنَ الاِْيمَانِ كَالرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ، وَلاَ خَيْرَ فِي جَسَد لاَ رأْسَ مَعَهُ، وَلاَ في إِيمَان لاَ صَبْرَ مَعَهُ

میں تمہیں صبر کو لازم پکڑنے کی وصیت کرتا ہوں۔صبر ایمان کا اسی طرح حصہ ہے جس طرح سر باقی جسم سے متعلق ہے، جو حالت بغیر سر کے جسم کی ہوتی ہے، وہی حالت بغیر صبر کے ایمان کی رہ جاتی ہے۔ (نہج البلاغۃ، جلد سوم، ص: ۱۶۸، نمبر ۷۷) (حوالہ نمبر ۵)
اس سے بھی آگے ہم دیکھتے ہیں کہ اصول کافی کے ص: ۴۱۰ پر یہ عبارت موجود ہے: ” [FONT="Al_Mushaf"]لا إيمان لمن لا صبر له.[/FONT]“ جس کا صبر نہیں، اس کا ایمان نہیں۔ (حوالہ نمبر۶)
ان ارشادات کی روشنی میں آپ خود اندازہ لگا لیجئے کہ ماتم اور گریہ زاری کرنے والوں اور صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے والوں کا ایمان کہاں رہ جاتا ہے؟ اب حیرت اس بات پر ہے کہ جس واقعہ پر ائمہ نے صبر کیا، نہ جلوس نکالے، نہ دلدل، نہ مہندی، نہ ماتم کیا، نہ واویلا کیا، اس کے برعکس یار لوگوں نے ان تمام اشیاء کو فرض ِ عین اور مذہبی شعار کا درجہ دے دیا ہے اور بالکل مدعی سست اور گواہ چست کا مصداق بن گئے ہیں، حالانکہ ائمہ نے ان کو حرام قطعی اور ممنوع قرار دیا ہے۔
[FONT="Al_Mushaf"] عن أبي عبدالله (ع) في قول الله عزوجل: " ولا يعصينك في معروف" قال: المعروف أن لايشققن جيبا ولا يلطمن خداولايدعون ويلا ولا يتخلفن عند قبر ولا يسودن ثوبا ولاينشرن شعرا.[/FONT]“ (فروع کافی،كتاب المعيشة .. باب دخول الصوفية على أبي عبدالله عليه السلام واحتجاجهم عليه فيما ينهون الناس عنه من طلب الرزق، باب صفة مبايعة النبي صلى الله عليه وآله النساء، جلد:5، ص: 761 بحوالہ شاملۃ الروافض)

یعنی امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے ” [FONT="Al_Mushaf"]ولا يعصينك في معروف[/FONT] (القرآن )“ کی تفسیر میں فرمایا کہ معروف یہ ہے کہ وہ عورتیں اپنے کپڑوں کو میت پر نہ پھاڑیں، نہ اپنے چہرے کو پیٹیں، نہ واویلا کریں، نہ میت کے پیچھے قبر تک آئیں، نہ کپڑے کالے کریں اور نہ اپنے بالوں کو بکھیریں۔
اور نہج البلاغۃ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ” وقال(عليه السلام): يَنْزِلُ الصَّبْرُ عَلَى قَدْرِ الْمُصِيبَةِ، وَمَنْ ضَرَبَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ عِنْدَ مُصِيبَتِهِ حَبِطَ عملُهُ “ یعنی صبر بأندازہ مصیبت نازل ہوتا ہے اور جو شخص مصیبت کے وقت اپنے رانوں پر ہاتھ مارے، یعنی پیٹے تو اس کے نیک اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔(حوالہ نمبر ۷)
اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن زینب کو وصیت کی: ” [FONT="Al_Mushaf"]يا اُختاه ، إني أقسمت عليك فأبرّي قسمي ، لاتشقّي عليّ جيباً، ولا تخمشي عليّ وجهاً، ولاتدعي عليّ بالويل والثبور إذا أنا هلكت[/FONT]“ (اعلام الوریٰ باعلام الہدی لطبرسی، ج: 1، ص: 375، بحوالہ شاملۃ الروافض)
اور من لا یحضرہ الفقیہ مطبوعہ طہران کے ص: ۳۶ پر یہ روایت موجود ہے: ” [FONT="Al_Mushaf"]وقال صلى الله عليه وآله لفاطمة عليها السلام حين قتل جعفر بن أبي طالب: لا تدعي بذل(بويل) ولا ثكل ولا حرب (ضرب) ، وما قلت فيه فقد صدقت [/FONT](حوالہ نمبر ۸)
اور اسی کتاب کے ص: ۴۶ پر یہ عبارت موجود ہے:
[FONT="Al_Mushaf"]وقال عليه السلام: ملعون ملعون من وضع رداءه في مصيبة غيره[/FONT]

وہ شخص ملعون ہے جس نے کسی دوسرے کی مصیبت میں اپنی چادر اتار پھینکی ۔ (حوالہ نمبر ۹)
اور مجمع البیان (طبرسی) ج:9، ص: 413 پر پڑھیے:
[FONT="Al_Mushaf"]و قيل عنى بالمعروف النهي عن النوح و تمزيق الثياب و جز الشعر و شق الجيب و خمش الوجه و الدعاء بالويل عن المقاتلين [/FONT]“ معروف کا مطلب یہ ہے کہ رویا پیٹا نہ جائے، کپڑے نہ پھاڑے جائیں، بال نہ بکھیرے جائیں، چہرہ نہ پیٹا جائے۔

ائمہ نے ماتم نہیں کیا:
ان معتبر عبارات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ائمہ اطہار اور شیعہ اکابر نے غم و آلام پر صبر کی تلقین فرمائی، نوحہ و زاری، گریہ و ماتم اور بےصبری کے مظاہروں کو حرام سمجھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کا ماتم نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیا اور نہ دیگر ائمہ نے اس کی تحریک کی۔ سید الشہداء جناب حمزہ رضی اللہ عنہ کا ماتم آنحضرتﷺ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ودیگر اہل بیت اور مسلمانوں نے قطعاً نہیں کیا۔ خود آنحضرتﷺ کی وفات امت پر کتنا بڑا سانحہ ہے، لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس پر صبر و ضبط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، نہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ماتم کو روا رکھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما دونوں نے کوئی تعزیے کا جلوس نہ نکالا۔ امام حسن رضی اللہ عنہ اپنے شیعوں کے ہاتھوں جام ِ شہادت نوش کرگئے تو بھی امام حسین رضی اللہ عنہ نے کوئی ماتمی جلوس نہ نکالا۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کربلا میں شہید کردیے گئے لیکن بقیہ خاندان اہل بیت نے کسی بےصبری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ماتم اور تعزیے کی جو شکل آج ہم دیکھتے ہیں، ائمہ اطہار کے دور میں یہ کہیں نظر نہیں آتی۔
جلوس ِ تعزیہ کی ابتداء:
تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جلوس ِ تعزیہ کا آغاز 400ھ کے لگ بھگ بنی بویہ کے دور میں ہوا اور یہ کام مخالفت بنی امیہ کے سبب سے شروع کیا گیا۔ عاشورہ کے روز بغداد میں غم و الم کی کیفیت طاری ہوجاتی۔ ڈھول کے ساتھ ماتمی جلوس نکلتا، بازاروں میں توڑی اور راکھ بکھیر دی جاتی۔ دکانوں پر پردے لٹکا دیے جاتے۔ لوگ روتے، عورتیں ننگے سر، ننگے پاؤں بازاروں میں نکلتیں، نوحہ کرتیں، چہرہ اور سینہ کوبی کرتیں۔ لوگ اس روز رات تک پانی نہ پیتے، کیونکہ حسین رضی اللہ عنہ پیاسے شہید ہوئے تھے۔ (البدایۃ والنہایۃ مترجم، ج: 11، ص: 425) (حوالہ نمبر ۱۰)
سب سے پہلا ماتم:
یہ تو ہے رسم ِ تعزیہ کا باقاعدہ آغاز۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے پہلے ماتم کس نے کیا ہے؟ اس رسم کے بانی کون لوگ ہیں؟ جلاء العیون اردو ترجمہ بنام دمع التہون، ج: ۲، ص: ۵۲۶، مطبوعہ لکھنؤ از ملا باقر مجلسی سے یہ عبارت پڑھیے: ابو محنف وغیرہ نے روایت کی ہے کہ حکم ِ یزید ملعون سے سر مبارک سید الشہداء اس کے دروازۂ قصر پر آویزاں کیا گیا اور جب مخدرات اہل بیت اس ملعون کے گھر داخل ہوئے تو آل سفیان نے اپنے زیور اتار ڈالےا ور لباس ِ ماتم پہن کر آواز بنوحہ و گریہ بلند کی اور تین روز ماتم رہا۔(حوالہ نمبر ۱۱)
شبیہ مزار:
جلوس ِ تعزیہ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مزار کی شبیہ بنا کر بازاروں میں پھراتے ہیں اور اسے بڑا مقدس سمجھتے ہیں، اس کی کیا حیثیت ہے؟ شیخ صدوق کی تالیف ”من لا یحضرہ الفقیہ“ کے ص: ۴۹ پر یہ روایت درج ہے: ” [FONT="Al_Mushaf"]وقال الصادق عليه السلام: " كلما جعل على القبر من غير تراب القبر فهو ثقل على الميت[/FONT]“ قبر پر قبر کی اصل مٹی کے علاوہ بنائی گئی ہر چیز صاحب ِ قبر پر بوجھ ہوتی ہے۔ (حوالہ نمبر ۱۲)
یعنی قبروں پر اتنے بڑے بڑے مزار، قبے اور عمارات کا بنانا صاحب ِ قبر سے کوئی ہمدردی نہیں ہے، بلکہ اسے ناقابل برداشت بوجھ کے نیچے دبانا ہے۔
اور پھر اسی مزار کی شبیہ کے متعلق اسی کتاب کے ص: ۵۰ پر یہ روایت پڑھ لیجئے: ”[FONT="Al_Mushaf"]من جدد قبرا أو مثل مثالا فقد خرج من الاسلام[/FONT]“ جس نے قبر کو نیا بنایا یا اس کا نمونہ بنایا ، وہ اسلام سے خارج ہوگیا۔ (حوالہ نمبر ۱۳)

اب آپ دیکھ لیجئے کہ شبیہ مزار امام حسین رضی اللہ عنہ مذہبی طور پر کیا حیثیت رکھتی ہے اور اس کے بنانے والے کس زمرہ میں آتے ہیں۔ یہ فتویٰ کسی سنّی کا نہیں ہے، شیعہ کے شیخ صدوق کی کتاب کی عبارت ہے۔
مجالس:
محرم کے ایام میں ہمارے شیعہ دوست بالالتزام ماتمی مجالس کا انعقاد کرتے ہیں، جن میں مصائب ِ اہل بیت کا ذکر کرکے غم و آلام کا اظہار کرتے ہیں۔ ان مجالس کے بارے میں شیعہ صحاح اربعہ کی ایک کتاب ”من لا یحضرہ الفقیہ“ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان کافی ہے: ” [FONT="Al_Mushaf"]عن اميرالمؤمنين على بن ابى طالب عليه السلام قال: (نهى رسول الله صلى الله عليه وآله عن النياحة والاستماع اليها[/FONT]“ آنحضرت ﷺ نے نوحہ کرنے اور نوحہ سننے سے منع فرمایا ہے۔ (حوالہ نمبر ۱۴)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کی موجودگی میں شیعان علی کا ان مجالس کو منعقد کرنا اور ان میں شرکت کرنا چہ معنیٰ دارد؟
سیاہ لباس:
امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے سیاہ لباس، جسے ہمارے شیعہ دوست ماتمی لباس سمجھ کر پہنتے ہیں، پہننے سے منع فرمایا ہے: ”[FONT="Al_Mushaf"]سئل الصادق عليه السلام " عن الصلاة في القلنسوة السوداء؟ فقال: لا تصل فيها فإنها لباس أهل النار. وقال أمير المؤمنين عليه السلام فيما علم أصحابه: " لا تلبسوا السواد فإنه لباس فرعون [/FONT]
ترجمہ: امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کالی ٹوپی پہن کر نماز جائز ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ کالی ٹوپی پہن کر نماز مت پڑھو کیونکہ یہ دوزخیوں کا لباس ہے۔ مزید فرمایا کہ امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو تعلیم دی ہے کہ سیاہ لباس نہ پہنو ، یہ فرعون کا لباس ہے۔(حوالہ نمبر ۱۵)
غم حسین ِ میں سیاہ لباس پہننے والے احباب اس حدیث کی روشنی میں اپنا مقام بخوبی متعین کرسکتے ہیں:
؂

آپ ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
خاتمۃ الکلام:
اتنی تنبیہات اور مناہی کے باوجود اہل تشیع نے موجودہ ماتم اور عزاداری کو جو شعار دین بنا رکھا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ مجھے تو صرف ایک ہی وجہ نظر آتی ہے جو اصول کافی (جسے امام غائب کے بقول ”الکافی کافٍ لشیعتنا“ کہا گیا ہے) کے ص: ۱۵۹ پر درج ہے: ” [FONT="Al_Mushaf"]عن أبي الحسن موسى عليه السلام قال: إن الله عزوجل غضب على الشيعة[/FONT]“ راہ ِ راست سے بھٹک کر اتنی دور چلے جانا خدا کا غضب نہیں تو اور کیا ہے؟ (حوالہ نمبر ۱۶)
اللہ تعالیٰ امت مسلمہ پر رحم فرمائے، اسے راہ راست پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس میں حقائق تسلیم کرنے کی جرأت پیدا کرے۔ نیز یہ کتاب اللہ اور سنت ِ رسول کو بنیاد بنا کر امت کو متحد ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ [FONT="Al_Mushaf"]وبیدہ التوفیق[/FONT]

کتاب: مقالات صدیقی، ایک علمی و تحقیقی مطالعہ
مصنف: مناظر اسلام مولانا محمد صدیق فیصل آبادی رحمہ اللہ
ناشر: طارق اکیڈمی، فیصل آباد
ص: 62 تا 74
کمپوزنگ اور سکین حوالہ جات: آزاد
 

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
920
پوائنٹ
125
۔
حوالہ نمبر: 1



حوالہ نمبر: 2



حوالہ نمبر: 3



حوالہ نمبر: 4



 

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
920
پوائنٹ
125
حوالہ نمبر: 5




دوسرا نسخہ:



۔
حوالہ نمبر: 6


۔
 

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
920
پوائنٹ
125
حوالہ نمبر: 7





دوسرا نسخہ:



حوالہ نمبر: 8


 

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
920
پوائنٹ
125
حوالہ نمبر: 9



حوالہ نمبر: 10


۔
حوالہ نمبر: 11




حوالہ نمبر: 12


۔
 

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
920
پوائنٹ
125
حوالہ نمبر: 13




حوالہ نمبر: 14




حوالہ نمبر: 15



حوالہ نمبر: 16

[/QUOTE]
 
Top