• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مرکزی جمعیت اہل حدیث کی سیاسی پالیسی

شمولیت
دسمبر 09، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
37
مرکزی جمعیت اہل حدیث کی سیاسی پالیسی


جناب مولانا محمد ابرار ظہیر

اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ’’آپ ہمیں ہمیشہ جماعت کی پالیسی کے حوالے سے کچھ بریف کرتے رہتے ہیں، مگر میرا سوال یہ ہے کہ ہم مسلم لیگ ن کے حلیف بھی ہیں مگر ہمارے مسائل حل ہوتے نظر نہیں آتے،ہمارے علماء کی گرفتاریوں کی ایک سیریز ہے جو جاری ہے، مقدمات قائم ہیں، حکومتی اداروں تک ہماری رسائی نہیں ہوتی اوریہ سوال عموماََ کارکنان کی طرف سے بھی اٹھایا جاتا ہے، خصوصاََ گذشتہ دنوں جب مولانا محمد یوسف پسروری ، حافظ عبدالجبار اور شاکر مولانا حافظ عبد الرؤف یزدانی سمیت بعض دیگر علماء کی گرفتاریاں عمل میں آئیں تو اس وقت اس سوال کی شدت اور رد عمل انتہائی زیادہ تھا۔

قارئین کرام!سب سے پہلی بات تو ہمیں یہ سوچنی چاہئے کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ ہمارے اتحاد کی بنیاد کیا ہے، مرکزی مجلس شوریٰ نے لاہور کے اجلاس میں اور اس سے پہلے ڈیرہ غازی خان میں منعقد ہ اجلاس شوریٰ میں کن شرائط کے ساتھ مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اتفاق سے ہمیں دونوں اجلاسوں میں شرکت کی سعادت حاصل ہے۔جید علمائے کرام، شیوخ الحدیث اور اکابرین جمعیت نے انتہائی غور وخوض کے بعد دو شرائط پر مسلم لیگ ن سے اتحاد کی بات کی تھی۔ اور وہ تھیں ’’اسلام اور پاکستان‘‘۔امیر محترم نے اس کے بعد اپنی اکثر تقاریر میں، ٹی وی انٹرویوز میں اور اخبارات کو دئیے گئے بیانات میں اس کی وضاحت فرمائی کہ ہم’’اقتدار‘‘کی نہیں’’اقدار‘‘کی سیاست کرتے ہیں۔ہم اس ملک کو اسلام کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور اسلام ہی اس کے استحکام اور بقاء کا سبب ہو سکتا ہے۔ نہ امیر محترم و ناظم اعلیٰ نے اور نہ ہی کسی اور راہنما نے کبھی بھی اپنے مطالبات کا ذکر کیا اور نہ ہی اپنے ساتھ ہونے والی بعض’’نا انصافیوں‘‘ کا ۔ جب قائدین نے کبھی اتحاد کی شرط ہی اپنے مسائل کو نہیں بنایا تو پھر مطالبہ کیسا؟

قارئین محترم!جماعت کے ترجمان ’’ہفت روزہ اہلحدیث‘‘کے صفحات بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ اور مقامی جماعتوں کے ذمہ داران بھی لا علم نہیں کہ مرکزی جمعیت اہلحدیث کی قیادت نے اللہ کے فضل ورحمت سے اپنے کردار کی قوت سے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں سے اپنی لیاقت و قابلیت کا لوہا منوایا ہے، چڑھتے سورج کی پوجا نہیں کی، جماعت کی شوریٰ کی طے کردہ پالیسیوں کے مطابق جماعت کے کاز کو آگے بڑھایا، میاں نواز شریف کے پہلے دور حکو مت میں نفاذ شریعت کے حوالے سے جتنا کام ہوا تھا اس میں80فیصد سے زیادہ کردار امیر محترم کا تھا، جنہوں نے روڈ میپ بنا کر دیا اور اس پر کام ہو رہا تھا مگر حکومت ختم کر دی گئی۔صوبہ خیبر پی کے میں امیر صوبہ مولانافضل الرحمان مدنی کو جب ایم ایم اے کی حکومت میں مشیر وزیر اعلیٰ بنوایا گیا تو اس صوبہ میں شریعت کے لئے مولانا فضل الرحمان مدنی نے جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے حسبہ بل جو اس وقت خیبر پی کے میں عدلیہ کا حصہ بن چکا ہے اور عدالتی حکم کے منتظر حسبہ بل کی تیاری میں بھی مولانا فضل الرحمان مدنی نے اہم کردار ادا کیا۔KPKمیں نافذ شریعت بل میں تمام جماعتوں اور افسران نے متفقہ طور پر یہ منظور کیا تھا کہ’’اسلام کی تعریف سے مراد قرآن و سنت اور ان سے اخذ کردہ مسائل ہیں‘‘ان الفاظ کا منظور ہوجانا جماعت کی بڑی کامیابی ہے۔

ادھر قومی اسمبلی میں ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کو جیسے ہی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کی چئیر مین شپ کیلئے منتخب کیا گیا تو انہوں نے حج کے معاملے میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں ایک’’ مولوی صاحب‘‘ہی کے پھیلائے ہوئے گند کو صاف کرنے کی ٹھانی اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حاجیوں کو ایسا ریلیف ملا کہ لوگ اب تک حیران ہو رہے ہیں۔ ایک بابا جی جو حج کی خواہش رکھتے ہیں میں نے ان کو بتایا کہ اب آپ کو کم ازکم30ہزار روپے کا فائدہ ہو رہا ہے تو وہ حیران ہوئے اور جب میں نے انہیں بتایا کہ یہ ہماری جماعت کے ناظم اعلیٰ کی وجہ سے ہوا ہے تو اطمینان و سکون کا ایک لمبا سانس ان کے سینے سے نکلا اور کہنے لگے اللہ کا شکر ہے کہ وہابی بد نام نہیں ہوئے‘‘ان کا یہ بے ساختہ جملہ ہمارے لئے تسکین قلب کا باعث بن گیا۔

حالیہ اجلاس شوریٰ میں بھی امیر محترم نے پالیسی سٹیٹمنٹ دیتے ہوئے واضح کر دیا تھا کہ ہم ن لیگ کے اتحادی ضرور ہیں مگر حکومت کی معاشی پالیسیوں میں سودی سکیموں کی ہم کسی بھی اسٹیج پر یا کسی بھی انداز میں حمائت نہیں کر سکتے اور نہ ہی ہم کشمیر کی قیمت پر بھارت نواز پالیسیوں کے حامی ہیں۔ ہم پاکستان کی سلامتی، خود مختاری اور خود داری کے لئے بھی کسی بھی غلامانہ روش کی ہر ممکن مخالفت بھی کریں گے اور ہر اسٹیج پر اس کا واشگاف الفاظ میں اظہار بھی کریں گے۔

اس مختصر سی گفتگو سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہے مرکزی جمعیت اہلحدیث کے اکابرین نے ن لیگ سے اتحاد کی جو پالیسی اپنائی تھی اس میںمفادات یا اقتدارکی سیاست کا کوئی تڑکہ نہیں ۔یہ بڑے مقاصد کے لئے پاکستان کے تحفظ اور اسلام کے نفاذ کے لئے ایک جد و جہدکا راستہ ہے، جو 550سے زائد اراکین مجلس شوریٰ(جن میں سے غالب اکثریت شیوخ الحدیث، جید علماء اور اپنے اپنے شعبہ میں ایک بہترین ماہر کی حیثیت سے مانے جانے والے اکابرین کی ہے) نے اختیار کیا ہے، اب اس پر اعتراض کرنے والوں کو عقل کے ناخن لینے چاہئیں۔

قارئین کرام!اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے بعض جماعتی دوستوں کے مسائل ہیں، ذاتی بھی ہو سکتے ہیں، اجتماعی بھی اور تعمیر مساجد کے حوالے سے بھی ۔ مگر ان مسائل کو حل کرنے کیلئے سب سے بڑی ضرورت تو ہماری مقامی جماعتوں کی قوت ہے، ہم مقامی سطح پر تو کچھ کرتے نہیں اور ایک معمولی پرچہ درج کروانا ہو تو ہماری خواہش ہوتی ہے کہ امیر یا ناظم اعلیٰ پاکستان بنفس نفیس چل کر تشریف لائیں اور ایس ایچ او کو ملیں اور پرچہ درج کروائیں۔ پھر ہم کہیں گے کہ ہاں بھئی جماعت تو بہت کچھ کر رہی ہے۔مقامی طور پر ہم خود مضبوط کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ حکومت کے کارندے ہماری بات کو وزن نہ دیں ۔ہمیں گراس روٹ لیول پر خود کو مضبوط کرنا ہوگا،مقامی سطح پر مضبوط نیٹ ورک رکھنے والی جماعتیں ہی ملکی لیول پر کردار ادا کرسکتی ہیں، اورقومی سطح پر بھی انہیں جماعتوں کی سنی جاتی ہے جو مقامی سطح پر مضبوط ہوں ۔ آئیے ہم اپنے مسائل خود حل کرنے کی خو ڈالیں، ہر کام قائدین پر ڈالنے کی روش چھوڑدیں۔

مضمون لنک
 
Top