ہم مرجئہ کے چوزوں سے کہتے ہیں کہ تمہارے شہروں میں جو لات اور منات کے بت جنہیں تم مزارات کہتے ہو جیسے لاہور میں علی ہجویری کی قبر جس پر مشرکین کا طواف کرنا اور اس قبر کی عبادت کرنا مشہور ومعروف ہے۔جس کے بارے میں مزید کسی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔بلکہ اہل لاہور علی ہجویری کی قبر کو داتا کا دربار یا داتا دربار کہتے ہیں۔خود مرجئہ کے چوزے بھی علی ہجویری کی قبر کو داتا دربار کے الفاظوں سے یاد کرتے ہیں۔اسی طرح پاکستان کے ہر شہر میں ان پوجے جانے والے مزارات کے بت موجود ہیں کوئی بت ان میں بڑا ہے تو کوئی چھوٹے درجے کا بت ہے ۔ ان بتوں کے درجوں کی تقسیم بعینہ مشرکین مکہ کی تقسیم کی طرح ہے جس طرح لات اور مناف بڑے بت تھے اسی طرح لاہور میں علی ہجویری کا مزارہے جسے اہل لاہور داتا صاحب ، داتا دربار ،داتا کا دربار کے نام سے پکارتے ہیں اس بت پر مشرکین جاکر منتیں مانگتے ہیں چڑھاوے چڑھاتے ہیں ۔اس بت پر مشرکین عبادت تک بجالاتے ہیں۔ مشرکین علی ہجویری کی قبر پر سجدے رکوع اور طواف تک کرتے ہیں۔اور یہ سب کچھ اہل علم ، علماء کی موجودگی میں ہورہا ہے۔علماء نے سوائے فتاویٰ لکھنے کے آج تک کسی پاکستان میں پائے جانے والے ان مزار نما بتوں کو گرانے کا عملی فریضہ سرانجام نہیں دیا۔چنانچہ یہی وجہ ہے بلاکھٹکے ان مزارات پر مشرکین باقاعدگی سے سالانہ عرس بھی مناتے ہیں۔طواف بھی کرتے ہیں ،اور ان مزارنمابتوں پرمشرکین کا رکوع اور سجود کرنا تو روز مرہ کا معمول ہے۔اورمشرکین کے اس کام میں سب سے بڑے معاون اس ملک کے مرتد حکمران اور ان کے لشکر ہیں جوان مشرکین کی ان مزارنمابتوں پر عبادت کے دوران ان کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔آج تک کسی بھی عالم نے ان مزارات کو جن کی مشرکین عبادت کرتے ہیں ان کو منہدم کرنے یا گرانے یا مسمار کرنے کی کوشش تک نہیں کی ہے۔جب کہ ان فتاویٰ میں اس عمل کی طرف تحریض دلائی گئی ہے۔اب جب مجاہدین نے غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان شرک کے اڈوں اور بتوں کو دھماکوں سے اڑانا شروع کیا تو تومرجئہ کے چوزوں نے مجاہدین کو متہم کرنا شروع کردیا۔ان علماء کو تو یہ چاہیے تھا امت اسلام کے ان ابطال کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں مجاہدین کی صف اول میں شامل ہونا چاہیے تھا۔اور سب سے پہلے خود آگے بڑھ کر ان مزار نما بتوں کو گرانے کا فریضہ سر انجام دینا چاہیے تھا۔ لیکن افسوس ایک لمبا عرصہ گزرگیا اور یہ مشرکین ان مزارات پر آج تک اسی طرح بلا کھٹکے اپنی عبادت کو سرانجام دے رہے ہیں۔ہم مرجئہ کے ان چوزوں کو کہتے ہیں کہ جس مجاہد نے علی ہجویری کے بت کو دھماکے سے اڑانے کی کوشش کی اس کو آپ اس مجاہد کی غلطی گردانتے ہو۔لیکن آج تک آپ نے کیا کیا؟؟ کیا آپ نے ان بتوں پر ہونے والی عبادت کو اپنے ہاتھ سے روکنے کی کبھی کوشش کی یا صرف ڈرائنگ روم اور ائیرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر صرف دورہ احادیث ہی کرتے رہے۔ان مزارات کو کون گرائے گا ؟ اور کیسے گرائے گا؟ ان مزارات کو گرانے کے بارے میں ان مرجئہ کے چوزوں کے پاس یا ان کے بڑے مرجئہ سرداروں کے پاس کیا لائحہ عمل ہے ۔ان مرجئوں کے بڑے بڑے لاؤ لشکر کس کے لئےہیں؟ان لاؤ لشکروں کا کیا مقصد ہے ؟ کیا ان لاؤ لشکروں میں توحید کی غیرت بالکل نہیں ہے؟اگر ان مرجئہ کے چوزوں کے پاس غیرتِ توحید ہے تو ان کو چاہیے کہ وہ ان بت نمامزارات کو منہدم کرنے کی کوشش ضرور کریں ۔اور اگر ان میں غیرتِ توحید نہیں ہے۔تو پھر وہ ان پاک طینت موحدین کوان بت نمامزارات کو گرانے کے سلسلے میں متہم نہ کریں۔عصر حاضر میں جب طواغیت اور مرتد حکمران ان مزارات کے متولی ہوں ان چادریں چڑھانے والے ہوں ان مزارات پر جاکر منتیں مانگنے والے ہوں اور انہوں نے اپنے لاؤ لشکروں کو ان مزارات کی حفاظت پر مامور کررکھا ہو تو ہم مرجئہ کے ان چوزوں سے یہ سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ جہاد کے علاوہ وہ کون سا طریقہ ہے ان مزارات کو مسمار کرنے کا جب کہ ان مزارات پر آنے والے ، ان مزارات پر عبادت کرنے والے ، مزارات کا طواف کرنے مشرکین بھی مسلح ہوں اور ان مزارات کی حفاظت پر کمربستہ ہوں تو وہ کون سا طریقہ ہے کہ ان مزارات کو منہدم کیا جاسکے ۔ جب صورتحال یہ ہو تو کیا جہاد کے بغیر ان مزارات کو منہدم کیا جاسکتا ہے؟؟؟۔ہم مرجئہ کے ان چوزوں کو علماء اسلام کے فتاویٰ کی ایک جھلک دکھلاتے ہیں کہ شاید ان میں توحید کی غیرت موجزن ہوجائے :
قبروں پر عمارت بنانا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 02 June 2012 02:44 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قبروں پر عمارت بنانے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قبروں پر عمارت بنانا حرام ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور منع اس لیے فرمایا ہے کہ اس میں اہل قبور کی تعظیم ہے جو قبروں کی پوجا کا وسیلہ اور ذریعہ بنتی ہے پھرہوتے ہواتے اللہ تعالیٰ کے ساتھ انہیں بھی معبود تسلیم کیا جانے لگتا ہے جیسا کہ ان بہت سے مزاروں پر ہو رہا ہے جنہیں قبروں پر تعمیر کیا گیا ہے۔ لوگ اصحاب قبور کو اللہ تعالیٰ کا شریک سمجھنے لگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ انہیں بھی پکارنے اور دہائی دینے لگتے ہیں، جب کہ اصحاب قبور کو پکارنا اور تکلیفوں اور مصیبتوں کے دور کرنے کے لیے ان سے مدد مانگنا شرک اکبر ہے اور اسلام سے مرتد ہونا ہے۔
غور سے پڑھو اس فتویٰ کو اے مرجئہ کے چوزوں دیکھو علماء کرام کیا فرمارہے ہیں ان قبروں پر جاکر پکارنا اور تکالیف اور مصائب کے وقت ان سے مدد مانگنا شرک اکبر ہے اور اسلام سے مرتد ہونا ہے۔ہم مرجئہ کے چوزوں سے سوال کرتے ہیں کہ اسلام میں ارتداد کے کیا احکام ہیں ۔ اور ایسے لوگوں کے بارے میں جوقبرپرستی کی وجہ سے شرک اکبر میں مبتلا ہوچکے ہوں ان کے متعلق شریعت کیا احکامات صادر کرتی ہے؟؟
ہم مرجئہ کے چوزوں کو شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب اور ان رفقاء رحمہم اللہ کی سیرت کا ایک پہلو عبرت حاصل کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں :
شیخ موصوف بارہویں صدی ہجری میں منظر عام پر آئے۔ اس وقت اُمتِ مسلمہ کے فکر وعمل کا کیاحال تھا؟ یہ ایک دل دوز داستان ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت نے رب العزت کی بندگی فراموش کردی تھی۔ عقلوں پر نیند طاری تھی، ظنون و اوہام کی پیروی کی جارہی تھی، ذلّت و مسکنت چھائی ہوئی تھی۔ہندوستان کے بے شمار مسلمانوں کی پیشانیاں قبروں اور آستانوں پر جھکی ہوئی تھیں۔ مصر میں بدوی و رفاعی، عراق میں سیدنا علی المرتضیٰ ، حضرت حسین ،امام ابوحنیفہ اور شیخ عبدالقادر جیلانی، یمن میں ابن علون، مکہ مکرمہ اورطائف میں ابن عباس سے مرادیں مانگی جاتی تھیں۔ خاص طور پر اہل نجد اخلاقی انحطاط کا شکار تھے۔ لوگوں کا بہت بڑا طبقہ صدیوں سے مشرکانہ عقیدوں کی زندگی بسر کرتا چلا آرہا تھا۔ جبیلہ میں حضرت زید بن خطاب کی قبر اور وادئ غِیرہ میں حضرت ضرار بن ازور کا قُبہ شرک و بدعت کے اعمال کا گڑھ بن گیاتھا۔ علاقہ بلیدۃ الفداء میں ایک پرانا درخت تھا، اس کے بارے میں یہ عقیدہ عام تھا کہ یہ لوگوں کو اولاد عطا کرتا ہے۔ اس فاسد عقیدے کی وجہ سے بے شمار عورتیں آتی تھیں اور اس درخت سے چمٹی رہتی تھیں۔ درعیہ میں بعض صحابہ کرام سے منسوب قبروں پر جاہلانہ عقیدت کے مظاہر عام تھے۔ اسی علاقے کے قریب ایک غار تھا، یہاں لوگ شرمناک افعال انجام دیتے تھے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے مقدس شہر بھی شرک و بدعت کے افعال سے محفوظ نہیں تھے۔ مسجد نبویؐ میں عین رسول اللہ ﷺ کے مرقد کے قریب مشرکانہ صدائیں بلند کی جاتی تھیں اور غیر اللہ کے وسیلوں سے مرادیں مانگی جاتی تھیں۔ایک موقع پر شیخ محمد مسجد نبوی میں موجود تھے۔لوگ استغاثہ و استعانت کی صداؤں میں گم تھے اورعجیب و غریب حرکتیں کررہے تھے۔ اسی لمحے تدریس حدیث کے جلیل القدر معلم محمد حیات سندی جو شیخ محمد کے اتالیق بھی تھے، وہاں آگئے۔ شیخ نے جاہلانہ حرکتیں کرنے والوں کی طرف اُنگشت نمائی کی اور پوچھا: ان لوگوں کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے؟ موصوف نے معاً سورہ اعراف کی یہ آیت پڑھی:
﴿ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِيْهِ وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾الاعراف139''یہ لوگ جس کام میں لگے ہوئے ہیں، وہ باطل ہے اور نیست و نابود ہوکر رہے گا۔''
مذہبی حالت کے علاوہ عرب کی سیاسی اور سماجی حالت بھی خراب تھی۔ عثمانی ترکوں کی حکمرانی کا سکہ چل رہا تھا، نجد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ خانہ جنگی عام تھی۔ فقر وفاقہ مسلط تھا۔ ترکوں کے زیر اہتمام مصر سے رقوم آتی تھیں اورمزاروں کے مجاوروں اورمتولّیوں میں بانٹی جاتی تھیں۔ لوگوں کی گزر بسر مزاروں ، قبروں اور آستانوں کی مجاوری ، گداگری اور لوٹ کھسوٹ پر موقوف تھی۔ یہ حالات دیکھا کر شیخ کا حساس دل تڑپ اٹھا اور وہ لا إله إلا الله محمد رسول الله کی دعوت کا پرچم لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کی دعوت کا خلاصہ یہ ہے :
1۔ عقیدہ و عمل کی بنیاد صرف قرآن وسنت کی تعلیمات پر رکھی جائے۔
2۔ نماز، روزہ، حج اور اداے زکوٰۃ کا التزام کیا جائے۔
3۔ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات صرف اسی کی ذاتِ عالی سے وابستہ ہیں، ان میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔
4۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہے، پس اللہ کے سوا کسی سے کچھ نہ مانگا جائے۔
5۔ پختہ قبریں اور مقبرے نہ بنائے جائیں۔
6۔ شراب، تمباکو، جوا، جادو، ریشم اور سونا نہایت سختی سے ممنوع ہے۔
شیخ کا جذبہ حق پرستی بڑا پُرجوش تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی دعوت ہر مسلمان کے رگ و ریشے میں نفوذ کرجائے اور برگ و بار لائے۔ اُنہوں نے دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ ان کے والد جناب عبدالوہاب اپنے نورِنظر کی حق پرستی اور علمی وجاہتوں سے اتنے خوش ہوئے کہ اُنہوں نے خود نماز پڑھانی موقوف کردی اوراپنے داعی الیٰ اللہ بیٹے کو آگے بڑھاکر اِمامت کے مُصلے پر کھڑا کردیا۔ شیخ نے اپنے اہل خانہ، عزیز و اقارب اور عیینہ کے رہنے والوں کے علاوہ دور و نزدیک کے تمام اکابر و اصاغر کو اصل دین کی طرف رجوع کی دعوت دی۔ موصوف کا خیال تھا کہ بااثر حکام کی مدد حاصل کیے بغیر دعوت کا کام آگے نہیں بڑھے گا، چنانچہ اُنہوں نے امیر عیینہ عثمان بن معمر کو قبولِ حق کی دعوت دی تو اُس نے خوش سے قبول کرلی لیکن ملال کی بات یہ ہے کہ وہ اس عظیم دعوت پر استقامت نہ دکھا سکا۔ شیخ نے عثمان بن معمر کو اپنی رفاقت میں رکھ کر نماز باجماعت کا اہتمام کیا جو پہلے اس علاقے میں مفقود تھا۔ نماز نہ پڑھنے والوں اورجماعت کا التزام نہ کرنے والوں کے لیے سزائیں تجویز کیں۔ شرک و بدعت کے اڈّوں کا صفایا کردیا۔جن درختوں کی پوجا کی جاتی تھی وہ کٹوا دیئے اورجن قبروں اور قبوں کو ملجا و ماویٰ سمجھا جاتاتھا، اُنہیں ڈھا دیا۔ یہ کوئی انوکھا اقدام نہیں تھا۔ حضرت عمر نے بھی بہت سے دینی مصالح کی بنا پر وہ درخت کٹوا دیا تھا جس کی چھاؤں میں جناب رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر بیعتِ رضوان ہوئی تھی۔ پکّی قبروں اور قبوں کو مسمار کرنے کے بارے میں علامہ ابن حجر ہیثمی اپنی کتاب الزواجر عن اقتراف الکبائر میں فرماتے ہیں:
وتجب المبادرة لهدمها وهدم القباب التي علىٰ القبور إذ هي أضر من مسجد الضرار (الزواجر عن اقتراف الکبائر، ج١ص ١٤٩، کبیرہ گناہ نمبر ٩٣تا ٩٨)یعنی ''قبروں اور ان پر بنے ہوئے قبوں کو فوراً مسمار کردینا چاہیے، اس لیے کہ یہ'مسجد ضرار' سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔''
واضح رہے کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب زیارتِ قبور کے خلاف نہیں تھے۔ وہ ان مشرکانہ رسوم اورخرافات کے خلاف تھے جو قبروں اور آستانوں پر روا رکھی جاتی تھیں۔ اسی موقع پر آپ نے تبلیغی رسالے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو مرتے دم تک جاری رہا۔عیینہ میں اصلاح عقیدہ و عمل کا کام آہستہ آہستہ پھیلتا جارہا تھا کہ ایک دن ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ایک لڑکی کسی کمزور لمحے میں جوانی کی بھول کا شکار ہوگئی۔ یہ لڑکی شادی شدہ تھی۔ اپنے گناہ پر بہت نادم ہوئی۔ شیخ کی خدمت میں پہنچی۔ سارا ماجرا سنایا اور سبیل نجات کی خواہش ظاہر کی۔ شیخ اس لڑکی کی روداد سن کر سنّاٹے میں آگئے۔ اُنہوں نے اس المیے کے تمام پہلوؤں کی چھان پھٹک کی اوراس بدقسمت لڑکی پر بار بار جرح کرتے رہے۔ وہ ہٹ کی پکّی تھی، ٹلی نہیں۔ رہ رہ کر اقرارِ گناہ کرتی رہی،چنانچہ شیخ نے سنگساری کا فیصلہ سنا دیا اور علاقے کے مسلم حاکم عثمان بن معمر نے مسلمانوں کی ایک جماعت کےساتھ اس لڑکی کو سنگسار کردیا۔لڑکی کے سنگسار ہوجانے کی خبر سارے نجد میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔اس زمانے میں یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا، جس نے سنا دم بخود رہ گیا۔ خاص طورپر وہ مالدار لوگ بہت گھبرائے جو زر خرید عیاشیوں سے رت جگے کرتے تھے۔ اللہ اللہ! ربّ العزت کےاحکام کی تعمیل میں کس قدر برکتیں اور خیر کثیر چھپی ہوئی ہے، جب تک اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل نہیں کیا جاتا، اس وقت تک ان حکموں میں چھپی ہوئی زبردست حکمتیں اور فیوض و برکات بھی عیاں نہیں ہوتے۔ اس کااندازہ اسی سنگساری کے واقعے سے لگائیے کہ جونہی یہ واقعہ رونما ہوا، سابقہ حالت یکسر بدل گئی اور شیخ محمد بن عبدالوہاب کی دعوت گھر گھر پھیل گئی ۔ پہلے کوئی شیخ کی بات پر توجہ نہیں دیتاتھا، اب سبھی شیخ کی طرف متوجہ ہوگئے اور ہر جگہ انہی کی تحریک کاچرچا ہونے لگا۔ہوتے ہوتے یہ خبر حکامِ بالا کو پہنچی۔احساء و قطیف کا حاکم اعلیٰ سلیمان بن محمد عزیز حمیدی بدمعاش اور عیاش آدمی تھا۔ اِسے یہ خبر سن کر بڑاغصہ آیا۔ اس نے امیر عیینہ عثمان بن معمر کو فوراً لکھا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے ہاں ایک مولوی شرعی فیصلے لاگو کررہا ہے ۔ اسے فوراً قتل کردو، ورنہ ہم تمہیں جو سالانہ بارہ سو دینار اور دیگر امداد بھیجتے ہیں، وہ بند کردی جائے گی۔ عثمان بن معمر یہ حکم نامہ پاکر سراسیمہ ہوگیا۔ اسے اپنے منصب اوردرہم و دینار چھن جانے کا خطرہ لاحق ہوا تو اس نے شیخ محمد کو عیینہ سے باہر نکل جانے کا حکم دے دیا۔
اس تمام عبارت کو پڑھنے کے بعد محدث فورم پر ایک موحد نے اسی ضمن یہ سوال کیا کہ :
کلمہ گو سے جہاد کا یہ ثبوت نہیں ہے ؟زرداری اور بے نظیر کا اجمیر اور سیہون کے "مندروں" کے لیے نذرانہ یہی کام نہیں ؟
نواز شریف اور شہباز شریف کا داتا کے "مندر" اور پاکپتن کے مندروں کی تعمیر اور نذرانہ یہیں کام نہیں ؟
اس وقت محکمہ اوقاف کے زیر اہتمام پچاس ہزار "مندر" چل رہے ہیں
اگر ان وجہوں سے ترکوں یعنی حکومت عثمانیہ سے جہاد ہو سکتا ہے تو آج کے حکمرانوں سے کیوں نہیں ؟
مرجئہ کے چوزوں کو ہم ایک اور تحریر سے نصیحت کرتے ہیں کہ وہ علمائے حدیث کا احترام کرنا سیکھیں اور ان کی بات کو غور سے سنیں اور سمجھیں اور پھر اس پر عمل کریں ۔ مجاہدین اسلام نے ان علماء حدیث کے فتاویٰ کو پڑھا ان پر غوروفکر کیا پھر اپنی ایمانی غیرت کے مطابق ان فتاویٰ پر عمل کرنے کی کوشش اپنی استطاعت کے مطابق کی ۔جبکہ مرجئہ کے چوزے مجاہدین کے اس فعل پر ان کو متہم کرتے رہے:
آج ہم مرجئہ کے چوزوں سے پوچھتے ہیں کہ اس دور میں ایک مومن کس طرح مندرجہ بالا حدیث پر عمل کرے جب علی ہجویری کے مزار کو ڈھانے کے لئے آلات لے کر جائے گاتو اس موحد کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔اور وہ کیسے ان شرک کے اڈوں کو منہدم کرسکے گا۔اس حدیث پر کیسے عمل ہوگا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو منکر کو مٹانے کے لئے ہاتھ کی قوت کو استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔جو کہ مجاہدین کے پاس ہے ۔ الحمد للہ ۔اے مرجئہ کے چوزے جب مجاہدین اس مزار کو اللہ کی دی ہوئی مدد اور قوت کے ساتھ تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو تم ان پر اپنے ارجائی فتاویٰ کی بارش کردیتے ہو ۔ان کو اسلام سے خارج کرنا شروع کردیتے ہو۔ اب تم ہی بتاؤ کہ یہ شرک کے اڈے کس طرح ختم ہوں گے ۔ ایمان پر ڈاکہ ڈالنے والے لٹیرے جو ان شرک کے اڈوں میں موجود ہیں وہ کس طرح ختم ہوں گے ۔ عورتوں کی عصمتوں کو لوٹنے والے لٹیرے جو کہ ان شرک کے اڈوں میں بنائے گئے تہہ خانوں اور خفیہ کمروں میں موجود ہیں کس طرح ختم کیے جائیں گے ؟ ان مزارات پر عورتوں کی لٹتی عوئی عصمتوں کو کس طرح بچایا جاسکتا ہے؟